جو کربل سے طیبہ کو جائیگی زینب
تو صغری کو کیا منھ دکھا ئیگی زینب
کہا شہ نے اس کا ذرا دھیان رکھنا
سکینہ کو اپنا ہی مہمان رکھنا
مرا غم یہ کیسے اٹھائی گی زینب
دکھائیگی شرم و حیا کے وہ جوہر
جب اہل ستم سر سے چھینیں گے چادر
تو بالوں سے چہرا چھپا ئیگی زینب
زمیں آسماں دونوں روئینگے ملکر
پگھل جائینگے اس کو پتھر بھی سن کر
جو روداد اپنی سنائیگی زینب
جدا ہو رہی تم سے بنت علی ہے
شہیدو! یہ دیدار بس آخری ہے
یہاں لوٹ کر پھر نہ آئیگی زینب
اے عون و محمد اے قاسم اے اصغر
ہو تم اس کی گودی کے پالے اے اکبر
تمہیں کس طرح بھول پائیگی زینب
زمانے میں اک انقلاب آئیگا پھر
یزیدی ستم کا جواب آیا آئیگا پھر
خطابت کے جوہر دکھا ئیگی زینب
جہاں اس کی ممتا کا پامال ہو گا
ذرا سو چئے اس کا کیا حال ہو گا
جو بچوں کو گھر میں نہ پائیگی زینب
سکینہ نے ننھی سی جاں اپنی کھوئی
جو زنداں میں وہ موت کی نیند سوئی
تو پھر اس کو کیسے جگائیگی زینب
اے مصباح ” بے چین ہوں گے پیمبر
بقیع مبارک میں زہرا کو جا کر
سب اپنا یہ دکھڑا سنائیگی زینب