حاجت آه نیم شب اور نہ شرط اہلیت
چاہے جسے نواز دے تیرا غفور مرحمت
عین کرم تر استم تیرے جمال کی قسم
وجه سرور زندگی تیرا غم مفارقت
میں کہ فقط نیازمند تو کہ ہے ایک بے نیاز
جھک کر تجھے لبھائے کیا میرا سر عبودیت
آیا جو لب پہ تیرا نام تار سے جھن جھنا گئے
تجھ سے رباب قلب کو کوئی تو ہے مناسبت
عقل و شعور سب ہوئے راہ کے پیچ وخم میں گم
آگئی کیا قریب تر منزل درک و معرفت
کاش گداز قلب سے مانگ سکوں میں وہ دعا
جس کے لئے ہے منتظر تیرا در قبولیت
اس کے کرم سے جو ملا منزل عشق میں ادیب”
شرح و بیان میں نہیں آتا وہ کیف کیفیت