شبیر نے با چشم نم جس دم پڑھا صغری کا خط
کرب و بلا میں کر گیا محشر بپا صغریٰ کا خط
وہ غم سے بیخود ہو گیا جس نے سنا صغری کا خط
لگتا کتاب درد ہے یہ غمزده صغری کا خط
آہیں کراہیں اور غم تھی اسمیں روداد الم
زخمی دلوں کو اور بھی تڑپا گیا صغریٰ کا خط
ٹوٹے ہیں دل آنکھیں ہیں نم ہیں دم بخود اہلِ حرم
اللہ جانے کہہ گیا کیا ماجرا صغری کا خط
آتی ہے ہر ہر لفظ سے وعدہ نبھانے کی صدا
دیتا رہے گا حشر تک درس وفا صغری کا خط
سو کر اٹھے جب اصغر بے شیر دے دینا اسے
رکھنا حفاظت سے ذرا اے کر بلا صغری کا خط
اللہ پہونچائے اسے فردوس میں محشر کے دن
جو کر بلا والوں تلک پہونچا گیا صغری کا خط
پھر اسطرح بچھڑے کوئی بیٹی نہ اپنے باپ سے
آخر میں شاید کر رہا ہے یہ دعا صغری کا خط
تھامے ہوئے دل غمزدہ تکتے رہے اس کو شہا
قاصد جو طیبہ کی کی طرف دیگر چلا صغری کا خط
ڈھونڈھونگا میں آفاق میں رکھ لوں گا دل کے طاق میں
“مصباح” قسمت سے مجھے جو مل گیا صغری کا خط