کشتی دین حق کے نگہبان کو سلام
اے دشت کر بلا ترے مہمان کو سلام
عظمت تری سمجھ لیں تو اے شاہ کربلا
مسند نشیں کریں ترے دربان کو سلام
اللہ رے حسین کے قدموں کی برکتیں
کرتی ہے خلد ایک بیابان کو سلام
بھائی کو اپنے پیار سے آقا کہا سدا
عباس کے سلیقۂ عرفان کو سلام
سر دیکے جس نے دین کی عصمت بچائی ہے
کرتی فرشتگی ہے اس انسان کو سلام
اے حرتری نظر میں تھا ایما حسین کا
مومن کریں نہ کیوں ترے ایمان کو سلام
جو صاحب خرد ہیں کرینگے وہ حشر تک
چھ ماہ کے اس اصغر نادان کو سلام
نیزے پہ آج محو تلاوت ہے کس کا سر
قرآں ہے کرتا قارئِ قرآن کو سلام
تو چاہتا اگر ہے سعادت کی سلطنت
“مصباح ” کر شہیدوں کے سلطان کو سلام