حاجی حافظ سید وارث علی شاہ
صاحب قبلہ رضی اللہ عنہ
آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں آپکی ولایت اِس درجہ مسلم ہیکہ بلا تفریق مذہب و ملت آپکی عظمت و سطوت کا سکہ ہر ایک کے دل پہ رائج ہے۔ اولیاء میں آپ وہ عظیم شخصیت ہے جسکے معتقد دیوانے مستانے آپکی غلامی کا لبادہ زیب تن کیئے ملک کے کونے کونے میں "یا وارث حق وارث یا وارث حق وارث" کی صداؤں سے مخالفینِ ولایت کے دل دہلا رہے ہیں۔
آپ مصدرِ سلسلئہ وارثیہ ہیں۔
آپکے مریدین وارثی کہلاتے ہیں جو آپکی نسبت کا پیلا احرام باندھ کر پیرپرست ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
آپکے والدِ ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت صوفی سید قربان علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپ نیشاپور کے رہنے والے تھے وہاں سے سکونت ترک کرکے ہندوستان آئے ۔
سرکار عالمپناہ حاجی حافظ سید وارث علی شاہ صاحب قبلہ کی ولادت 1232ہجری دیوا شریف میں ہوئ۔ آپکی ولادت پہ آپکے اہل خانہ کی خوشیو کا ٹھکانہ نہ تھا۔ بچپن ہی میں والدِ ماجد کا انتقال ہوگیا۔ پانچ برس کی عمر سے پڑھنا شروع کیا اور سات برس کی عمر میں حفظ مکمل کرلیا۔ عشق و محبت کے جذبات بچپن سے ہی جنگلوں اور ویرانوں میں لیئے پھرتے تھے اور معرفتِ خداوندی کے پراسرار جام پینے کی جستجو میں پیر کی تلاش ہوئ بالآخر عشق کی معراج ہوئ۔ آپ اپنے بہنوئ حضرت سید خادم علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ ہوئے۔
سرکار عالم پناہ وارث پاک کو ایک مرتبہ خواب میں مرشد نے بشارت دی اور فرمایا سفر کرو۔ پیر و مرشد کا حکم پاکر وطن عزیز کو خیرآباد کہا دیوا سے اجمیر شریف بارگاہِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رضی المولی عنہ میں حاضری کیلیئے پہنچے۔ وہاں باادب حاضری دیکر مکنپور شریف کی جانب روانہ ہوئے۔ اجمیر شریف سے گاؤ گاؤ شہر شہر خلقتِ خاوندی کو مستفیض فرماتے ہوئے عالمپناہ مکنپور شریف پہنچے۔
سرکار عالمپناہ وارث الاولیاء حاجی وارث علی شاہ صاحب قبلہ نہایت ہی عقیدت و محبت کیساتھ بارگاہِ مدارالعالمین رضی اللہ تعالی عنہ میں حاضری دیا کرتے تھے ابتدائے سلوک کے بارہ سال آپ نے مکنپور شریف ہی میں گزارے۔ معتبر مشائخ ادام اللہ فیوضھم نے بیان فرمایا کہ عالمپناہ حاجی سید وارث علی شاہ صاحب بارگاہِ قطب المدار میں نیازمندانہ حاضری دیا کرتے تھے۔ بارگاہِ مدارالعالمین کے حرم شریف میں جاروب کشی کیاکرتے تھے۔ درگاہ شریف میں واقع جامع مسجد عالمگیری میں نمازیوں کیلیئے کنویں سے پانی بھرا کرتے تھے۔ مکنپور شریف کی گلیوں میں دیوانہ وار ننگے پاؤ برہنہ سر چکر لگایا کرتے تھے۔ اس والہانہ عقیدت پہ جب قطب المدار کی نگاہِ فیض اٹھی تو عالمپناہ وارث پاک کو اللہ رب العزت نے ایسا باکمال کیا کہ حضور وارث پاک کسی زائر کے سر پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تو اس زائر کو مدارالعالمین کی زیارت کا شرف حاصل ہوجاتا۔
اسی سرزمین مکنپور شریف میں وارث پاک کی ملاقات عمدۃ التارکین زبدۃ الاصفیاء حضرت داتا یتیم علی شاہ ملنگ سے ہوئ . ان سے حضور عالم پناہ حاجی سید وارث علی شاہ نے سلسلئہ عاشقان مداریہ میں طالب ہوکر اجازت و خلافت حاصل کی . حضور وارث علی شاہ صاحب کا شجرہ مداریہ اسطرح ہے
الحاج حافظ سید وارث علی شاہ
حضرت یتیم علی شاہ ملنگ عاشقان نوروز حیدرآباد
حضرت شاہ طالب علی شاہ
حضرت بخشش علی شاہ
حضرت مسکین علی شاہ
حضرت شاہ نور علی شاہ
حضرت قائم علی شاہ
حضرت حیدر علی شاہ
حضرت کرم علی شاہ
حضرت دربار علی شاہ
حضرت بندہ علی شاہ
حضرت عبدالواحد شاہ
حضرت شاہ کمال شاہ
حضرت شاہ جمال شاہ
حضرت طبقات علی شاہ
حضرت عبد الغفور شاہ
حضرت شاہ راجے شاہ
حضرت عبدالحمید شاہ
حضرت قاضی مطھر علی شاہ قلہ شیرماور النھری
حضرت سید بدیع الدین قطب المدار (مدارالعالمین) رضی اللہ عنہ
سرکار عالمپناہ حاجی حافظ سید وارث علی شاہ صاحب قبلہ خانقاہِ مدارالعالمین میں واقع ارغونی مسجد کے ہجرے میں چلہ کرتے تھے۔ آج بھی یہ چلہ وارثی دالان کے نام سے مشہور ہے۔ کہتے ہیکہ خانقاہ شریف کے متصل سادات کے ایک مکان سے ایک ضعیفہ خاتون کی آواز آرہی تھی جو سید زادی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں "ہے کوئ جو مجھے وضو کیلیئے پانی لادے" یہ صدائیں سن کر حاجی صاحب نے پانی لاکر دیا تو شہزادئِ قطب المدار نے دعاؤ سے نوازا۔ اس دعا کےطفیل اللہ نے انکی پیشانی پر حج کی سعادت لکھ دی۔ تو یہی سے شہزادہِ قطب المدار حضرت سید علی سرور جعفری مداری صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود انہیں اپنے ساتھ حج کرنے لے گئے۔ سرکار مدارالعالمین کے روضئہ مقدس کے سنہرے کلس کی مناسبت سے پیلا رنگ پسند فرمایا اور اسی رنگ کا احرام زیب تن فرمایا اسکے بعد تا عمر کبھی آپ نے احرام نہیں اتارا۔
حضور وارث پاک نے بارگاہِ مسعودیہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ اور سلسلئہ مسعودیہ سے بھی اجازت و خلافت حاصل کی اس نسبت سے بھی آپ کو سلسلئہ مداریہ حاصل ہے۔
ہجری1323 / 30 محرم الحرام کو آپ نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپکا مزار مقدس سرزمین دیوا شریف میں مرجع خلائق ہے۔ آپکے آستانے کی رعنائیوں پر حسن و جمالِ جہاں آرا قربان ہوتے ہیں۔ یو سمجھئے کہ آپکا آستانہ زمیں پہ جنت نشاں
ہے۔