آزادئ وطن میں وابستگان سلسلہ مداریہ کا کردار و عمل





اکہتر 71 واں جشن یوم آزادی کے موقعہ پر 


2017, اگست 18



آزادئ وطن میں

وابستگان سلسلہ مداریہ کا کردار و عمل



اٹھے جو ہاته کوئ عصمت وطن کی طرف

وہ ہاتھ کاٹ دو کچھ بھی نہ تم ملال کرو

نہ چھونے پائے وہ ہندوستان کا دامن

وطن پرستی میں دشمن کا ایسا حال کرو



آج ہمارے ملک میں 71 واں جشن یوم آزادی منایا جارہا ہے


آزادی کا لفظ پردہء ذہن پر آتا ہے تو دارالنور مکن پور شریف کے ان مظلوم سید زادوں کے ظلم کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اجسام تڑپتے بلکتے چہرے جلتے گھر راکھ کے ڈهیر میں تبدیل ہوئے چھپر روتے سسکتے یتیم شہزادوں کے گالوں پر طمانچوں کے نشان نرم نازک جسم پر تازیانوں سے کھنچی کھال پر خون آلود برتوں کا تصور حاشیۂ خیال میں جنم لینے لگتا ہے


 مظلوم کربلا کے وہ مظلوم بچے جنہیں پانی کے ایک ایک قطرے سے ترسایا گیا

کسی کا صلیب و دار پر استقبال کیا گیا تو کوئ گولیوں سے چھلنی کردیا گیا کسی کو کالے پانی کی سزا سنائ گئی تو کوئ نذر آتش کیا گیا

کونسا وہ ظلم تھا جو قطب المدار کے شہزادوں پر نہیں ڈهایا گیا


مکن پور شریف میں ایک شور ماتم بپا تھا

جب انسانی خون سے انکی پیاس نہ بجھی جب گھر جلانے بستی ویران کرنے سے ان کے ناپاک جذبہء دل کو تسکین نہ ملی و اب وہ  درندہ صفت لوگ خانقاہ قطب المدار کی جانب بڑھے خانقاہی لائبریری کو نذر آتش کر دیا


 مقدس مقامات کی بے حرمتی کی حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغوں جانشین اول قدس سرہ کا قائم کردہ مدرسہ مدارالعلوم کھنڈرات میں تبدیل کردیا بادشاہ ابراہیم شرقی جونپوری کا نذرکردہ کوہ نور ہیرا روضۂ مقدسہ سے اتارلے گئے اور بهی نادر اور قیمتی اشیاء لوٹ لیں


یہ نفرت و تعصب اور فسادات کی آگ صرف مکن پور شریف میں خانقاہ قطب المدار اور شہزادگان مدار ہی تک محدود نہ تھی اور نہ یہیں ٹھنڈی  ہوگئی


بلکہ اس نفرت کی آگ نے پھیلتے پھیلتے پورے ملک میں جہاں جہاں مداری خانقاہیں ملیں، مداری چلے ملے مداری تکیے ملے مداری گدیاں ملیں مداری نشانات ملے مداری مشائخ مداری علماء و سادات مکن پور ملے ملنگ و فقیر ملے سب کو جلاکر خاکستر کردیا عوام سے مداریوں کو ڈھونڈه ڈھونڈھ کر قتل کردیا


اگر آپ پوچھیں کہ سلاسل اور بھی تھے خانقاہیں اور بھی تھیں مدارس و مکاتب اور بھی تھے علماء و مشائخ اور بھی تھے


مگر سلسلہ مداریہ ہی کو نشانہ بناکر صفحہ ہستی سے اس کا وجود کیوں مٹایا جا رہا تها اور انگریز سلسلہ مداریہ کا نام و نشان ختم کیوں کرناچاہ رہے تھے


تو اس سوال پر میں اتنا کہوں گا کہ




میرے عزیز !!!!



جب اس ملک پر ظالم قابض ہوئے تو اپنے مشق ستم کا نشانہ بنانے کیلئے بلا تفریق مذہب و ملت ،،انسان،، چنے "ہندوستانی انسان"


اور جب انسانیت  درندگی کے نو کیلے دانتوں سے پھاڑی اورنوچی جانے لگی ، جبرا کسانوں اور دستکاروں کی اشیاء اپنی مقرر کردہ قیمتوں میں خریدی جانے لگی اور کسانوں اور دستکاروں کو کسی دوسرے کے ہاته اچهی قیمت پر فروخت کرنے پر کوڑے مارے جانے لگے ذلتیں دی جانے لگیں


 تو توپوں کے دھانوں سے گولیوں کے نشانوں سے

 موت کے ٹھکانوں سے ملک کے باشندگان کو بچانے اور راحت دلانے کے لئے ہتهیلی پر جان لے کر اور کفن بر دوش ہوکر جو مردان مجاہدین آگے بڑهے تهے وہ سلسلہء مداریہ کے وابستگان تهے


تحریک آزادی کی بنیاد سب سے پہلے اگر کسی نے رکھی تھی


 تو وہ آزادی کے مجاہد اول


حضرت بابا مجنوں شاہ مداری ملنگ تھے  جو انگریزوں سے جنگ کے اول ہیرو تھے



ء1786 میں زخموں سے چور ہوکر مکن پور شریف آئے تو


 یہاں تین انگریز بھائیوں کی نیل کی کوٹهی تهی   آپ کو اس سرزمین پر ان کا وجود ٹھنڈی آنکھوں نہ بھایا


 چونکہ سادات مکن پور شریف کی سرپرستی حاصل تھی اس لئے آپ نے حضرت سید روح الاعظم میاں جعفری مداری علیہ الرحمہ والرضوان کو ساتھ لیکر ان تینوں انگریز بھائیوں میں سے ایک "پیٹر میکس ویل" کو قتل کردیا جب یہ خبر انگریزی حکومت تک پہونچی تو اس نے مکن پور شریف پر چڑھائ کردی اور اس بستی کو برباد کردیا


 جسکی تفصیل ان شاء اللہ آگے پڑھینگے


 

مجاہد اول حضرت بابا مجنوں شاہ  ملنگ مداری ء1733 عیسوی میں اس خاکدان گیتی پر رونق افروز ہوئے عہد شباب میں منصب خلافت سے سرفراز ہوکر سلسلہء دیوانگان سلطانی کی قیادت سنبهالی آپ کے ( رشدی) مورث اعلیٰ "حضرت سلطان حسن دیوان مداری" کو ان کے عہد میں" شاہ شجاع " نے تبلیغی و اشاعتی اسفار کے لئے  کچه مراعات دی تهیں


اس زمانہ کی ایک سند محررہ 1659 عیسوی  راج شاہی کے دفتر میں موجود ہے   جس میں شاہ شجاع نے حضرت سلطان حسن دیوان مداری کو اختیار دیا تها


  دفعہ اول : -   تم جب کبهی لوگوں کی ہدایت یا سیر و سیاحت کے لئے شہروں دیہات اضلاع اور جہاں کہیں اپنی خوشی کے مطابق جانا چاہو تمہیں اختیار ہے کہ جلوس کا سارا ساز و سامان مثلاً علم ،جهنڈے پهریرے بانس، عصا ڈنکا ماہی مراتب اپنے ساتھ لے جاؤ


دفعہ چهارم : -  جب تم ملک کے کسی حصہ میں جاو تو مالکان دیہہ اور کاشتکار تمہیں اشیائے خوردنی مہیا کرنے کا بند و بست کریں گے



حضرت بابا مجنوں شاہ ملنگ مداری اپنے مورث اعلیٰ حضرت شاہ سلطان حسن دیوان مداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ماہی مراتب ڈنکا اور نشان (علم) کے ساتھ شاہانہ کرو فر سے تبلیغ و رشد و ہدایت کے لئے اڑیسہ بہار اور بنگال کے علاقوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور عوام ہندو مسلمان سب بلا تفریق مذہب و ملت ان سے عقیدت رکهتے تهے اور ان کا احترام کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے جبرو استبداد کے خلاف بلا کسی خوف و دہشت کے انہوں نے


        سترہ سو تریسٹھ (1763) میں سب سے پہلے آزادی کی تحریک کی بنیاد رکھی اور رفتہ رفتہ اس تحریک میں ترقی ہوئ تو  1766 میں میکنیزی کو فیصلہ کن شکست دی 


ء1769میں کمانڈر کیتھ کی فوج کو زبردست شکست دیکر اس کا بھی سرقلم کیا


     اور 1770 میں باقاعدہ ملنگوں اور مداری فقیروں کے علاوہ دیگر برادران وطن  کی ایک  جماعت لے کر بنگال سے بہار میں داخل ہوئے کئی مہینوں تک وہ شمالی بنگال کے مختلف اضلاع اور ضلع ڈھاکہ میں  پرچم جہاد بلند کرتے رہے

   ء1771 میں لیفٹنٹ ٹیلر کی فوج بھی شکست کھاکر بھاگی


 ء1772 میں حضرت بابا مجنوں شاہ مداری ملنگ نے ناٹو ر کی رانی بھوانی کو ایک خط سونپا جس میں ملک کی فلاح و بہبود کی ترجمانی کی حلفیہ بات لکھی تھی اور اس مقصد عظیم کیلئے ہر ظلم گوارہ ، ہے کا مفہوم پیش کر کے ان سے مدد مانگی تھی

کئی انگریز کمپینوں نے کئی چھاونیاں ان مسلح فقیروں اور سنیاسیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کیں  لیکن بابا ان کے لئے چهلاوہ بنے ہوئے تھے  انگریز اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پار ہے تهے  اور بابا مجنوں شاہ بهی اپنی اس تحریک سے پیچھے باز نہ آتے تھے  اپنے مریدین و خلفاء کی ایک جماعت جیسے


کرم علی شاہ مداری-

مومن علی شاہ مداری

چراغ علی شاہ مداری

ظہوری شاہ مداری

مطیع اللہ شاہ مداری

فرخند شاہ مداری

عیسی شاہ مداری

موسی شاہ مداری

بدھوشاہ مداری

پیر گل شاہ مداری

نکو شاہ مداری

عمومی شاہ

 نورالحمد شاہ مداری - وغیرھم کو لے کر سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا اور ملک کے مختلف حصوں اڑیسہ ,نگال, بہار, آسام, اودھ, کرناٹک, آندھرا,

 اور پورے ملک سے غلامی کی زنجیریں کاٹنے کیلئے

 شہر شہر گاوں گاوں میں آزادی کا پرچم لہرایا


     ء1776 میں فرنگیوں کو ایک اور شکست دی جس میں لیفٹنٹ رابرٹسن بھی شدید طور پر مجروح ہوا تاریخ 29 دسمبر 1786میں لیفٹننٹ برمن کی فوج پر حملہ کیا - بالآخر اس مرد مجاہد وطن کو 1787میں  گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور مدار کا یہ شیر زخمی ہوگیا  تو اسے وصل حقیقی کا احساس و عرفان ہوا ،   اس نے مریدین و متعلقین کو وصیت کی ،  فرمایا کہ مجھے مکن پور شریف لے چلو اور میری تدفین وہیں عمل میں لانا


تین شبانہ روز کے بعد جب آپ مکن پور شریف آستانئہ قطب المدار پر حاضر ہوئے تو زخمی حالت میں بھی حضرت سید روح الاعظم میاں کو ساته لیکر ایک انگریز کو واصل جہنم کر دیا اس کے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئ اور آپ واصل بحق ہوگئے آپ کا آستانہء عالیہ مکن پور شریف میں مرجع خلائق ہے

جو مجنوں شاہ کی گڑهی کے نام سے مشہور ہے



مجنوں شاہ نے شجاعت دکھائ

اپنی ہستی وطن پہ لٹائ

یاد میں انکی محفل سجائیں

جشن آزادی ہم سب منائیں


حوالہ رود کوثر ، ہسٹری آف دا فریڈم ، مومنٹ آف انڈیا






حضرت احمد اللہ شاہ مداری مدراسی



ء1857 کا پہلا مجاہد آزادی اگر حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی  کو کہا جائے تو سو فیصد درست ہوگا


آپ 1203 ہجری میں اس دنیا میں تشریف لائے


والد محترم محمد علی شاہ نے خاندانی رسم و رواج کے مطابق پرورش فرمائ

چونکہ آپ خاندانی امیرورئیس تھے آپ کے دادا محترم سید جلال الدین عادل فرماں روائے گولکنڈہ سید قطب علی شاہ کی یادگار تھے

تعلیم و تربیت کے بعد تصوف کی طرف طبیعت مائل ہوئ اور دادا محترم سید جلال الدین عادل سے ٹیپو سلطان کا تخت و تاج لٹنے کا واقعہ سنا تو طبیعت بالکل مضمحل ہوگئی اور سب کچھ چھوڑ کر سیاحت اختیار کرلی

ٹونک (راجستھان ) پہونچے ٹونک سے آپ  جئے پور گئے حضرت سیدنا محراب علی شاہ قلندر مداری کا چرچہ سنا تو اکتساب فیض کیلئے آپ گوالیار پہونچے

پیرومرشد سید محراب علی شاہ قلندر مداری  کی خدمت میں پہونچے


اور بیعت کیلئے عرض کیا

پیرومرشد قدس سرہ نے فرمایا

احمد اللہ شاہ اس شرط پر مرید کرونگا 

کہ تم ملک کو انگریزوں سےآزاد کرانے کا وعدہ کرو تو بیعت کرونگا

اللہ اکبر یہ ہے سلسلہ مداریہ کی قربانیاں



مرید اپنے عہد میں سچا پکا صادق تھا

فورا شرط منظور کرلی

اور بیعت ہونے کے بعد آزادی کا بگل بجادیا

اور 1857 کی جنگ کا آغاز کردیا



پورے ملک میں آزادی کی تحریک چلا کر آپ جب بند یل کھنڈ میں راجہ پوائیں سے تعاون لینے کیلئے بندیل کھنڈ آئے  راجہ پوائیں اگر تعاون کیلئے تیار ہوجاتا تو شاہ مداری صاحب کو سانس لینے کا موقعہ ملتا مگر اس نے غداری کی اول تو بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا اور جب ہوا بھی تو اندر سے حویلی کا دروازہ بند کراکے


اتنی گولیاں چلوائیں کہ آپ کا جسم چھلنی ہوگیا

راجہ بلوان سنگھ نے آپ کا سر اتارلیا جو صاحب کلکٹر شاہ جہاں کے سپرد کردیا

جسم اقدس کو آگ میں پھینک دیا گیا جس کے بالعوض برطاینہ سرکار نے 50000 نقد روپیہ اور خلعت فاخرہ راجہ پوائیں کو بھیجی

تاریخ 5 جون 1858  عیسوی 13 ذی قعدہ 1385 ہجری کو یہ سانحہء عظیم پیش آیا -   انا للہ واناالیہ راجعون


آپ کے سر مبارک کو دریا پار محلہ جہان آباد مسجد متصل احمد پور کے پہلو میں دفن کردیاگیا آپ کے مریدین  و خلفاء کی کثیر تعداد نے اس تحریک کو جاری رکھا

شمالی ہند کی مرکزی سرزمین مکن پور شریف کے سپوتوں نے اس تحریک  آزادی کا خوش دلی  کے ساتھ خیر مقدم کیا

مثلا حضرت سیدنا روح الاعظم مداری 

 حضرت سیدنا خان عالم مداری

   حضرت سیدنا روح الاکبر مداری


حضرت سیدروح الاعظم مداری جو بڑی جائیداد کے مالک تھے انکی جائیداد پر قبضہ کرکے نیلام کردیا اورانکے عزیز دوست بانگی میاں کو عمر قید کی سزا سنا کر جزیرہء انڈمان ( کالا پانی) میں قید کرادیا وہیں ان کا انتقال ہوگیا





تحریک آزادی کا ایک اور مجاہد خان عالم میاں جعفری


آپ چھتیس مواضعات کے مالک تھے انکی کئی حویلیاں تھیں ایک بڑی حویلی جس میں اجلاس ہوا کرتا تھا اسی میں املی کا ایک درخت تها جس میں انکے ہاتھی بندھا کرتے تھے اسے ہتھنی املی کہاجاتاتھا انگریزی فوج نے حویلی کا محاصرہ کرکے اس املی کے درخت میں سید خان عالم میاں کے گھر کے 26 افراد کو باری باری پھانسی پر لٹکادیا

انگریزوں نے زبردست حملہ کیا تو خان عالم میاں زخموں سے چور راتوں و رات میوات چلےگئے گڑ گاوں علاقئہ الور میں قیام فرمایا اور یہیں آپ کا انتقال ہوگیا





حضرت سید روح الاعظم میاں


آپ صاحب کرامت بزرگ تھے

جامع مسجد عالمگیری میں مراقبہ کررہے تھے انگریزوں نے آپ پر زبردست گولیاں چلائیں لیکن آپ پر ایک گولی کا بھی اثر نہ ہوا تب آپ کے بڑے بھائ حضرت خواجہ سید روح الامین نے فرمایا کیا آپ کو شہادت پسند نہیں؟   تب آپ نے ہاتھ سے تسبیح چھوڑدی اور شہید ہوگئے آپ کے علاوہ سادات مکن پور شریف اور پورے سلسلہ مداریہ نے اس ملک کو آزاد کرانے میں جو مشقتیں اٹھائیں نہ کسی کو یاد نہ کوئ کہنے والا


نہ ہماری قربانیاں کسی کو یاد نہ ہمارے سلگتے گھروں کی تصویریں سلامت 

 نہ نوجوانوں کی پیٹھ کی برتیں باقی 

 نہ بچوں کی  چور چور ہڈیوں کا سرمہ موجود ، نہ بیواوں کے ماتم سے انسانیت کے ایوانوں  میں کہرام 

نہ تاریخ کے اوراق پر آنسوؤں کی داستان الم 

آج ہم بے آبرو ہیں تو وطن کی خاطر

جبکہ استقامت کا یہ حال تھا کہ کالے پانی کی سزائیں پھانسی کے تختے گولیوں کے نشانے ، توپوں کے دہانے 

انکی ہمتوں کو  پست نہ کرسکے ہمت و حوصلہ اتنا کہ طوفان سے ٹکراکر اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کیا نہ کوئ دولت سے خرید سکا نہ لالچ سے  حد تو یہ تھی کہ ان آشفتہ نصیبوں پر ترس تک کھانے والا کوئ نہ تھا


پھر بھی یہی پیغام دیا کہ


اٹھے جو ہاته کوئ  عصمت وطن کی طرف

وہ ہاتھ کاٹ دو کچھ بھی نہ تم ملال کرو

نہ چھونے پائے وہ ہندوستان کا دامن

وطن پرستی میں دشمن کا ایسا حال کرو


اس ملک کی غیرت نے جب جب مداریوں کو آواز دی

مداریوں نے یہ نہ سوچا کہ کہاں پکارا جارہا ہے


بلکہ


صلیب و دار سہی دشت و کہسار سہی

جہاں بھی تم نے پکارا ہے جانثار چلے

سنی جو بانگ جرس تو بقتل گاہ جفا

کفن بدوش اسیران زلف یار چلے



اللہ پاک ہمارے ملک کو ترقیاں برکتیں عطا فرما

دہشت گردوں کی سازشوں کو ناکام فرما کر ہمارے وطن عزیز کی تقدیر میں امن و چین و سکون لکھ دے

آمین


ہندوستان زندہ آباد جشن یوم آزادی پائندہ باد



از قلم 

 ضلع کان پور یو پی انڈیا سید ازبر علی جعفری المداری


خادم  آستانئہ قطب المدار دارالنور مکن پور شریف ضلع کانپور یوپی




https://madaarimedia.blogspot.com/2022/01/azbaralijaafari.html