تو جہاں کا قطب مدار ہے - سید ازبر علی

MADAARIYA LIBRARY


عرس سیریز 

604

واں عرس مدارالعالمین رضی اللہ عنہ  کے موقع پر 


قسط اول 

تو جہاں کا قطب مدار ہے

 

تاجدار ولایت ، حامل مقام صمدیت ، واصل مقام محبوبیت ، قطب وحدت   محسن ہندستان 

مبلغ اول حضرت سرکارسرکاراں سیدنا 

سید بدیع الدین الشیخ احمد قطب المدار مدارالعالمین رضی اللہ عنہ 

کی ذات پاک پر خامہ فرسائ کرن


 ذرہ کے لب پہ مہر

 منور کی بات ہے کے مترادف ہے

 پھر بھی لکھنے والوں نے خوب لکھا اور لکھتے ہی رہینگے 

لیکن یہ لکھنا سرکار کی حیثیت و انفرادیت پر حرف آخر نہیں ہے اور نہ سیرت قطب المدار کی کل کائنات ہہے یہ لکھنے والوں کے شعوراور ان کے علم کے مطابق ہوگا نہ کہ قلعئہ سیرت سرکار کی بلندیوں پرپہونچ جانا کہاجائیگ کیونکہ اس پاک نفس کے عرفان کو رب ذوالجلال نے پردئہ غیب میں مستور کرکے فرمایا کہ

 اولیائ تحت قبائ لایرفھم الاغیری 

 انکے عرفان سے ممکنات کی چادر  ہٹاکر غیرممکن کی مہر لگادی

 

جب ایک قطب کا مقام یہ ہے 

کہ حضرت شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں کہ ایک قطب کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس حجاب میں جو اس کے اور اللہ کے درمیان  ہوتا ہے اور مرتے دم تک یہ حجاب رہتا ہے اور جب قطب کا انتقال ہوتا ہے تو اپنے اللہ سے جاملتا ہے


تو جو قطب المدار ہو اس کی شان کیا ہوگی 



حضرت امام یافعی علیہ الرحمہ الحاوی میں 

علامہ ابن ہجر ہیتمی فتاوی حدیثیہ میں لکھتے ہیں 

کہ القطب الغوث الفرد الجامع 

جعلہ اللہ دائرافی الآفاق الاربعہ فی افق السماء قد سترہ اللہ احوالہ عن الخاصتہ والعامتہ 

غیرہۃ من الحق غیر انہ یری عالما کجاعل ابلہ کفطن تارکا  اخذ قربا بعیدا سھلا عسراآمنا حذرا ومکانتہ منالاولیاء کالنقطہ من الدائرۃ اللتی ھی مرکز ھابہ یقع صلاح العالم

الفتاوی حدیثیہ


وہ قطب مدار جو غوث و فرد کے مقام ومراتب کا جامع ومتحمل  ہوتا ہے اس کو اللہ تعالی دنیا کے چاروں گوشوں میں گشت کراتا ہے جیسے آسمان کے چاروں طرف ستارے چکرلگاتے ہیں

 

اور اللہ تعالی اسکی غیرت داری میں اسکے احوال کو خاص وعام سے پوشیدہ رکھتا ہے وہ عالم ہونے کے بعد ناخواندہ لگتا ہے وہ ذہین ہوتے ہوئے بھی کم فہم معلوم ہوتا ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر بھی دنیا کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے خدا سے قریب تر ہوتے ہوئے بھی کچھ دورسا لگتا ہے درد مند ہوتے ہوئے بھی تنگدل جان پڑتا ہے


 بے خوف ہونے کے باوجود سہماسہما محسوس ہوتا ہے اولیاء اللہ میں اسکا مقام ایسا ہے جیسے کے دائرہ کے مرکز نقطے کا اسی پر عام کی درستگی کا دارومدار ہوتا ہے

 

مندرجہ بالا تحریر میں سرکار ولایت حضرت سیدنا ید بدیع الدین احمد رضی اللہ عنہ کے واقعات زندگی کے اجمالی صفات ذکر کئے گئے ہیں 

اس پر بے دریغ کہہ سکتا ہوں کہ

 

ہوتے ہیں عارفان حقیقت کے ہوش گم 

سمجھے گا کون دہر میں عظمت مدار کی


ایک ایسی ہستی جسکی مماثلت  تصوف وطریقت کی دنیا میں محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے

 

محلوں میں رہتا نہیں تھا مخمل ودیبا اس کا بچھونا نہیں تھا نرم وگداز قالین اس کے فرش کی زینت نہیں تھی عیش وعشرت میں زندگی گزارتا تھا نہ کسی ملک واقلیم کا شہزادہ تھا سیاسی تھا نہ سماجی تھا نہ کلبوں کی محفلوں کی زینت تھا

 شہسوار تھا نہ سپہ سالار تھا بھائ بند تھے نہ فرزند ارجمند نہ مکان ہے نہ دوکان نہ خاندان

حد تو یہ ہے کہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے نہ

 تبدیلئ لباس کی حاجت  تو پھر وہ ذات پہچانی کیسے جاتی ظاہر ہے کہ اختلاف تو ہوگاہے

 

یہ تو دنیا سے تعلق رکھتی ہیں سلوک ومعرفت میں 

ولادت سے وفات تک مناصب سلوک ، مدارج  ولایت طئے کرتے رہے حتی کہ ولایت کے اس مقام پر پہونچ گئے جہاں بڑے بڑے عار فین کے سروں سے ٹوپیاں گرپڑتی ہیں اور  ولایت کے اس کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر نظر بھی نہیں پڑتی


 

٢٣ سال ١0 دن تک مقام محبوبیت پر پہونچ گئے یہی وہ مقام ولایت جس کو سمجھنے کیلئے بڑے بڑے عارفان ححق دم خود ہوجاتے ہیں 

اسلام حقیقی کی تعلیم سے مرصع اس ذات اقدس کے بعض امور کو بعض لوگوں نے خلاف شریعت سمجھا

 

ایک بات عرض کرتا چلوں

ایک ہے صورت ہے ایک حقیقت ہے جس کی تصریح 

حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اپنے مکتوبات میں فرمائ ہے

 

فرماتے ہیں کہ 

 صورت کے علمائے ظاہر کفیل وضامن ہوتے ہیں 

 حقیقت وہ ہے جس کے بیان کے ساتھ بلند گروہ صوفیا ممتاز ہے

 

اس مقام میں عارف اپنے آپ کو دائرے شریعت سے باہر پاتا ہے وہ محفوظ ہوتا ہے اس لئے دقائق شریعت سے ایک دقیقہ  بھی نہیں چھوڑتا ہے وہ جماعت جو اس دولت عظمی سے مشرف ہوتی ہے اس کی تعداد بہت ہی کم ہے  صوفیا کی ایک کثیر تعدا د اس مقام عالی کے سائے ہی تک پہونچی ہے 

مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ سوم مکتوب٧٣  


یہ آپ کی بے مثال زندگی اور انفرادیت ہے جس کی مثال نہیں ملتی 

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آپ نے پوی دنیا کی سیاحت فرمائ اور آفاق عالم میں آپ کی عالم گیر تبلیغ کے چرچے ہیں آپ کے خلفائے کرام کے آستانے اور انکی بارگاہیں آپ کے نام سے منسوب بیشمار مقامات

 آپ کی عظمتوں کے قصیدے پڑھ رہے ہیں 

میرے سرکار اس صفحئہ ہستی پرکارولایت کے امین ورازداں بنکر آئے اور  اپنی مقصد زندگی کا زندہ ثبوت بھی چھوڑ گئے جو اقوام عالم ہی نہیں بلکہ موجودات عالم کی پیشانیوں پر کہکشاں بنکر چمک رہی ہے اور اس دین کے  مسیحا کی  مقصد زندگی کے قصیدے بھی پڑھ رہی ہے اس عظیم المرتبت عدیم المثال نادرالوجودہستی کی بے کراں سیرت کے پہلوؤں کو حق تعالی نے اپنی غیرت کی قبا میں آپ کے احوال کو اتنے جتن کے ساتھ مستورفرمادیا کہ ہزارہاہزار کوششوں اور دفاتر سوانح عمری پڑھنے پرکھنے اور بحر علم میں غوطہ کھانے کے بعد بڑے بڑے محققین کو 596سالہ زندگی سے ایک حصے کے بھی مکمل حالات نہ مل سکے بالآخر انہیں لکھنا ہی پڑا کہ

 

کوئ سمجھ نہ پایا کیا ہے مقام تیرا


 چنداں روشنی ڈالنے والی بہت سی شخصیات آج بھی اس بارگاہ عالی میں خراج عقیدت کیلئے صف در صف کھڑی ہیں اور ان مداحوں میں رنگ ونسل قوم وسماج اور مذہب و ملت کا کوئ فرق نہیں ہے 

ہر سماج، ہر مذہب ،ہرقوم، ہر مکتبئہ فکر، کے لوگوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق اس ذات کو خراج پیش کر رہے ہیں مگر کماحقہ انکا حق ثناگری نہیں پیش کیا جاسکتا

 

کیونکہ

 

تمہاری مدحت لکھنے کیلئے قطب المدار

کاوش اہل قلم کو اک زمانہ چاہئے

 

  عزیزم سید عظمت علی افسری مداری کے اعلان کے مطابق - اپنے محسن اورکرم فرما شہنشاہ اقلیم ولایت قاسم نعمات عرفان علی حضرت سرکار سیدنا زندہ ولی کی بارگاہ بیکس پناہ میں دنیاوآخرت کی سرخروئ اور روز محشر کی دائمی آسائش کیلئے سلسلہ وار کچھ عرض کرنے 

کی کوشش کرونگا

 

گر قبول افتد زہے عزو شرف باشد

سرکار کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ

 

میرے جیسوں کو عطاکرکےغلامی کا شرف

 مقتدر جو ہے بنایا تو بنائے رکھئے



دوسری قسط


تو جہاں کا قطب مدار ہے


مدار کا چاند


شہنشاہ اولیاء کبار فردالافراد سرکارسرکاراں حضرت سیدنا سید بدیع الدین الشیخ احمد زندہ شاہ مدار مدارالعالمین رضی اللہ عنہ کے۶۰۴ وا ں عرس پاک  

کا آغاز بشکل


 مدار کا چاند

سے نہ کہ صرف مطلع آسمان پر ہوا بلکہ

 تو جہاں کا قطب مدار ہے


کے مصداق مدار کے چاند نے اپنے نوری چہرہ کی کرن کوگردش لیل ونہارکی اوٹ سے زیب آسمان ہی نہیں زیب کائنات کردیا ہے

 

تو زمانہ وارفتگئ عشق و مستی میں پکار اٹھا 

طلوع ہوگیا ہر دل میں ہے قرار کاچاند

فلک پہ جب سے دکھائ دیا مدار کاچاند


یہی نہیں بلکہ 

زمیں کے سارے اندھیروں نے خود کشی کرلی 

جو آسماں پہ چمکنے لگا مدار کا چاند


30ربیع الثانی کو  مطلع افلاک پر جو چاند نمودار ہوا اس چاند کا اتنا تعارف کافی ہے کہ یہ چاند 

مدار کا چاند 

کہلاتا ہے

 

بلاتفریق مذہب و ملت اس چاند کی عظمتیں قلوب انسانی پر ثبت ہیں 

 ملک و بیرون ملک میں مدار کا چاند شہرت کا حامل ہے

 

ہمارے وطن ہندوستان کے چہاراطراف میں اس چاند کی دھوم مچی رہتی ہے

 

ماضی بعید میں مدار کا چاند اس ملک میں خاص  تیوہار کی حیثیت رکھتا تھا مدار کا چاند گویاعید کا چاند ہو ہر طرف اس چاند کی چاندنی بکھر جاتی تھی مدار کے چاند کی تیاریاں اور اس کو بحسن خوبی منانا ہندوستان  میں مدارکاچاند سماجی ملی اور مذہبی تقریب کی اہمیت کا حامل تھا 

آگرہ، میرٹھ ،بریلی ، شاہجہاں پور، بدایوں ،

۔بھرت پور، میوات ،میں اسے مدار کی چھڑیوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہیں سے یہ میلا ہوتا ہوا 

مکن پور آتا ہے

 

اس مدار کے میلے میں لوگ منت کی بدھی پہنتے ہیں

منت پوری ہونے کے بعد بدھی کھولتے ہیں اور نذرونیاز کرتے ہیں 

 مدار کی چھڑیوں کے میلے کا ذکر 

جناب میر حسن صاحب نے اپنی مثنوی 

سحرالبیان میں کیا ہے

  

جن علاقوں میں یہ میلے رات کو ہوتے ہیں انہیں مدار کا چراغ یا چراغاں کہلاتے ہیں

 

غرض پورے جوش وخروش سے اس چاند کا خیر مقدم کیا جاتا تھا 

اس دور میں جب کہ کوئ ذرائع ابلاغ نہیں تھے تب کے عرس مدار کا

 


 شہزادئہ داراشکوہ نے

 سفینتہ الاولیاء 


میں چھ سات لاکھ کا مجمع لکھا ہے 

تعصب سے دور اقوام مسلم کے یہاں آج بھی جس عقیدت کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے یہ اہل عقیدت پر عیاں ہے


جس کی چند مثالیں پیش کرتاہوں  

شہر ناگپور میں سرکار قطب المدار کے چار چلے شریف تھے تین چلے اب بھی موجود ہیں

  

فقیر مداری زیارت سے مشرف ہے مومن پورہ ناگپور میں مدار جھنڈاچلے شریف پر سترہ جمادی المدار کو ہر سال عرس ہوتا ہے 

جناب دیوان عبد الکریم صاحب و 

غازی ملت حضرت علامہ الحاج سید محمد ہاشمی میاں صاحب اشرفی الجیلانی کے ایک مرید سراج الدین اشرفی صاحب نے بتایا کہ چلے شریف پر سترہ جمادی الاول کو عرس پاک منعقد ہوتا ہے


پہلے زمانے میں عرس کا اہتمام پورے شہر میں ہوتا تھا اور مدار کا چاند دیکھ کر بچوں کو نئے کپڑے پہنائے جاتے تھے کہتے ہیں کہ خود میری دادی اپنے ہاتھ سے نئے کپڑے سل کر پہناتی تھیں اور سترہ تاریخ کو سارا شہر نئے کپڑے اور پکوان لے کر حاضر چلہ ہوتا تھا خوب میلے لگتے ہیں بڑا اہتمام کیاجاتاہے

  

میوات 

کے لوگ مدار کا چاند دیکھ کر مکن پورشریف کی طرف سفر شروع کردیتے تھے اور بعض بعض مکن پور میں ہی اس چاند کو دیکھتے تھے 

مدار کی چاند طلوع ہوتے ہی عرس کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں کہیں چھڑیاں کہیں چادر کہیں غلاف کہیں لنگر وغیرہ کے اہتمام شروع ہوجاتا ہے 

چاند رات کی صبح سے ہی کھیر مالیدہ کے پکوان تیارہوئے ہونگے 

جو اس ملک کی قدیمی پرم پرا ہے 

  بلاتفریق مذہب و ملت اس چاند کااحترام بڑے ذوق وشوق سے کیا جاتا ہے

  

کیا ہندو کیا مسلم کیا سکھ کیا عیسائ 

سب محسن ہندوستان کے چاند پر والہانہ عشق و محبت میں نذریں پیش کرتے ہیں

 

جس کی دو تین مثالیں اور

قبلہ وکعبہ والد گرامئ وقار ماہر علم الانساب صوفئ باصفا تاج الاصفیاء حضرت علامہ صوفی 

 الشاہ سید افسر علی صاحب قبلہ جعفری المداری 

رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ آگرہ شہر کے محلہ اندرا کالونی شاہ گنج  میں انصار احمد مداری جو پیشہ سے وکیل ہیں 

کے گھر پہ قیام تھا 

انکے مکان کے آمنے سامنے آگے وپیچھے گردواطراف میں سندھیوں کے مکان ہیں جب مدار کا چاند مطلع افلاک پر طلوع ہوا تو ایک سندھی  حاضر خدمت ہوکر والد محترم سے عرض کرنے لگا بابا ہمارے گھر چل کر فاتحہ پڑھ دیں 

بابا محترم متعجب ہوئے کہ سندھی کے مکان پراور فاتحہ 

آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ فاتحہ پڑھنے چلاگیا تو دیکھا کہ ایک چوکی پر نئے کونڈے میں کھیر رکھی تھی اور ایک کونڈے میں مالیدہ ایک جگ میں دودھ کا شربت تھا لوبان جل رہاتھا 

اس سندھی نے کہا کہ بابا آج مدار کا چاند نکلا ہے زندہ شاہ مدار کا فاتحہ کرنا 

والد محترم نے فرمایا بعد فاتحہ اس نے مدار کے چاند کے تعلق سے بتایا کہ ہمارے پوروج مسلمانوں کے اس تیوہار کو بڑی عقیدت سے نہ کہ مناتے آئے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو اس عمل خیر پر گامزن رہنے کی تلقین بھی کرتے آئے ہیں 

یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری قوم اس چاند کا اہتمام کرتی ہے اور زندہ شاہ مدار کو بہت مانتی ہے 

شیخ طریقت حضرت علامہ ومولانا الحاج سید فیروز اختر صاحب قبلہ جعفری مداری

 مدظلہ العالی نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ کوہ آبو جانا ہوا جن لوگوں نے بلایا تھا ان دیوان  میں بلوچستانی پٹھان بھی تھے میں نے دیکھا کہ بوڑھے بچے جوان سب کے سب گنجے تھے

اور جو ملنے آرہاتھا وہ بھی گنجا جیسے پورا شہر گنجا ہو  معمہ سمجھ نہ پایا جب کھانے کیلئے دسترخوان بچھا تو ادھر صف میں سب گنجے ادھر صف میں سب گنجے کھانے سے پہلے میں نے پوچھا ایک بات بتاؤ آپ سب ایک ساتھ گنجے کیوں ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ حضور آپ کو نہیں معلوم مدار کا چاند نکل آیا ہے

 

جب مدار کا چاند نکلتا ہے تو ہم   سب لوگ گنجے ہوکر ایک ساتھ شہر میں گھومتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ زندہ مدار کا عرس آگیا ہے 

اسی طرح سے عزت مآب شیخ طریقت حضرت صوفی سید انور علی صاحب قبلہ جعفری مداری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ مجلسی گفتگو میں فرمایا کہ ایک مرتبہ اپنے حلقئہ ارادت سیتاپور اطراف سے واپس آرہا تھا کوئ سواری نہیں تھی کافی انتظار کرنے کے بعد بانگر مئو سے ایک ٹرک ملا ٹرک کا ڈرائور سردار قوم کا تھا اس وقت  نانامئو کا پل ٹوٹا تھا جب پل سے ٹرک گزرا تو اس سردار نے دم مدار بیڑاپار کا نعرہ لگایا

 

فرماتے ہیں کہ میں نے دم مدار کے نعرہ کے تعلق سے پوچھا تو اس سردار ڈرائیور نے کہا کہ ہمارے یہاں زندہ شاہ مدار کی مان مریادہ اتنی ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں جس دن مدار کا چاند نکلتا ہے تو اس دن غریبوں کو کھیر اور مالیدہ تقسیم کیا جاتا ہے جو بزرگوں سے چلا آرہا ہے

 

ماضی قریب میں  پنجاب کے ایک سردار مکن پور شریف میں تقریباً بارہ سال تک رہے اور مکن پور شریف میں ہی دوسال قبل ختم بھی ہوگئے  

وہ کہتے تھے کہ ہم بائیس ممالک میں گھومے ہر ملک میں زندہ مدار کی نشانی پائ اور ہمارے یہاں بلکہ ہماری پوری قوم میں مدارپاک کی توقیر کی مثال آپ ہے ہمارے دادا کے پاس ایک سو ایک گائیں تھیں جس دن مدار کا چاند نکلتا تھا اس دن کا دودھ بیچنے کے بجائے ساری گائیوں کا دودھ دوھواکر کھیر اور مالیدہ پکواتے اور چاند نکلتے ہی تقسیم کرتے تھے اس دن کا بڑا ہی اہتمام کرتے تھے اور آج بھی ہمارے یہاں اسی حیثیت سے اس چاند کا اہتمام ہوتا ہے

 

رہبر شریعت پیر طریقت حضرت علامہ الحاج سیداختیاراحمد صاحب قبلہ جعفری مداری نے بیان فرمایا کہ بریلی علاقہ میں مدار کا چاند طلوع ہوتے ہی لوگ اپنے بچونکے مدار کی بدھیاں باندھ دیتے ہیں اور بے اولاد اولاد کی منتیں مانگتے ہیں 

یہ حقائق  بطور مثال پیش کردئیے یوں تو پورا بھارت قطب المدار کا مرہون منت ہے

 

چودہ سوبیالیس چلوں پر کبھی ایک ہی تاریخ میں عرس ہواکرتے تھے اور پورا بھارت دم مدار کی صداؤں سے گونجتاتھا

آج بھی اس ذات سعید کی عظمتوں کے خطبے پڑھے جارہے ہیں کیونکہ 

یہ ہراک دل کی پکار ہے

تو جہاں کا قطب مدار



تیسری قسط

 

تو جہاں کا قطب مدار ہے


کشور ولایت کے تاجدار، گلشن ولایت کی فصل بہار، کائنات کا جن پہ مدار،

نور عین حیدر کرار،

شہنشاہ ولایت ، حامل مقام صمدیت واصل مقام محبوبیت،

 قطب وحدت  ،قطب الاقطاب، فردالافراد شمس الافلاک ،قطب عالم،  ،قطب العارفین، سراج السالکین، سید الواصلین سلطان السلاطین حضرت سیدنا سید بدیع الحق والدین مدارالعالمین رضی اللہ عنہ

 

ولایت کے اس مقام ومنصب پر فائز ہیں جس کا شہرئہ   آفاق آسمان ولایت پر خورشید عالمتاب کی درخشانی سے کم نہیں ہے

 

چھوٹے بڑے تمام پیران کامل واکمل انکی دردہلیز پر خراج عقیدت کی  نذ ریں اس عقیدت ومحبت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ سرکا ر مدار پاک مردہ روحوں کیلئے  مسیحائے زماں ہیں 

 اور گرتوں کیلئے تسکین جاں ہیں

کتنے بنجر قلوب پر عقاید حقہ کی آبیاری کرکے گلزار دین محمدی کیلئے باغ وبہار  کردیا اور اس مسیحائے زمانہ  سیدالاقطاب کو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ نے اپنے  نوری صحن میں مولائے کائنات علی المرتضی علیہ السلام کے سپرد فرماکر فرمایا کہ اے علی یہ تمہارا فرزند ارجمند ہے اسے علم اسرار الٰہی میں  کامل واکمل کردو

 

چونکہ علوم اسرار الٰہی کا عالم ہونا تو قطب کیلئے ضروری ہوتا ہی ہے جیساکہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ کوئ قطب درجئہ قطبیت پر قائم نہیں رہ سکتا ہے یہاں تک حروف مقطعات کا علم نہ آجائے مگر یہاں اس سے بھی زیادہ ضروری تھا کہ مولا علی المرتضٰی خود مرتب فرمائیں 

تعلیم وتربیت کیلئے مسند  مولا علی تربیت کیلئے آغوش سید زہرا کا خصوصی انتظام فرمایا پھر روح مہدئ معود نے تربیت فرمائ 

پھر اتنے پر ہی اکتفا نہیں اور نہ اتنا بس ہوا 

بلکہ فیضان رحمت مآب کے سحاب برسے تو ارض کھمبات پرنوری محل میں بہشتی تخت پر خود سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مقدس سے نو لقمے طعام ملکوتی کے کھلائے ایک پیالہ شربت پلایا اور حلئہ بہشتی پہناکر چہرہ مقدسہ پر دست نبوت پھیرا جس کا یہ اعجاز ہوا کہ حضور مدارالعالمین کا چہرہ مقدسہ سورج سے زیادہ روشن ہوگیا


 شیخ محقق علی الاطلاق فرماتے ہیں 

 

اکثراحوال برقعہ بروئے کشیدہ بودے ہرکہ برجمال او نظر افتادے بے اختیار سجود کردے


اخبار الاخیار 

کوئ سورج سے ملا ہی نہیں سکتا آنکھیں 

تاب کس کو ہے جو دیکھے کوئ چہرہ تیرا


حضرت مولانا شاہ غلام علی نقشبندی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں

 -

حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدس سرہ قطب مدار بودند و شان عظیم دارند ایشاں دعائے کردہ بودند کہ الہی مرا گرسنگی نشود و لباسے من کہنہ نگردد ہمچناں شد کہ بعد ازیں دعا بقیہ در تمام عمر طعامے نخورد و لباس ایشاں کہنہ نگشت ہموں یک لباس تا بممات کفایت کرد

در المعارف ص 148 - 147


یعنی حضرت بدیع الدین شیخ مدار قدس سرہ قطب مدار تهے اور شان عظیم رکهتے تهے -  انہوں نے دعا کی تهی کہ الہی مجهے بهوک نہ ہو اور میرا لباس پرانا نہ ہو - ایسا ہی ہوا کہ اس دعا کے بعد بقیہ تمام عمر کهانا نہیں کهایا اور آپ کا لباس پرانا نہیں ہوا وہی ایک لباس ممات تک کافی رہا

 

یہ واقعہ 282 هجری ساحل مالا بار گجرات کا ہے -l اس دعا کے بعد 838 ہجری تک یعنی 556 سال تک حضور مدارالعالمین کهانے سے، پینے سے،  تبدیلئ لباس اور سونے وغیرہ حوائج بشریہ سے بے نیاز رہے

یونہی نہیں حضرت مولانا شاہ غلام علی نقشبدی نے آپ کو قطب المدار لکھا ہے بلکہ قطب المدار جب بولا جاتا ہے تو ذہن حضور مدارلعالمین کی طرف پہونچ جاتا ہے 

حضرت سرکار سیدنا زندہ شاہ مدارقدس سرہ

قطب مدار

قطب اقطاب 

''قطب''کی لفظی تحقیق  لغت عرب میں قطب چکی کے کیل کو کہتے ہیں جس پر چکی گھومتی ہے۔

مدار


کامعنی 'سردارقوم، زمین کی محور کا کنارہ ،ایک ستارہ کا نام بھی ہے جس سے قبلہ کا تعین کرتے ہیں۔

قطب کا اصطلاحی معنی ۔

قطب اسکو کہتے ہیں جوعالم میں منظور نظرحق تعالی ہو ہر زمانہ میں اور وہ بر قلب اسرافیل علیہ السلام ہوتا ہے ۔(الدرالمنظم 50، لطائف اشرفی

اقطاب کی برکت سے عالم محفوظ ہوتا ہے۔


حضرت شیخ اکبر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فتوحات مکیہ کے باب تین سو تراسی میں لکھتے ہیں


 کہ قطب کے سبب سے اللہ تعالی محفوظ رکھتا ہے کل دائرہ وجودکو عالم کون وفساد سے اور امامین کی وجہ سے عالم غیب وشہادۃ کو اور اوتاد کی وجہ سے جنوب وشمال کو اور مشرق ومغرب کواور ابدال کی وجہ سے اور ولایتوں کو محفوظ رکھتا ہے اور قطب الاقطاب سے ان سب کوکیونکہ وہ تو وہ شخص ہے جس پر سارے عالم کا امر دائر ہے۔


ایک قطب کے تصرف کی حد کیا ہے۔


سیدالاولیاء شہنشاہِ بغدادحضورسر کار غوث پاک عبدالقادر جیلانی قطب ربانی شیخ صمدانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اقطاب کے لیے سولہ عالم ہیں اور ہر عالم ان میں سے اتنا بڑا ہے جو اس عالم کے دنیا و آخرت دونوں کو محیط ہے مگر اس امر کو سوائے قطب کے کوئی نہیں جانتا ۔ الدرالمنظم فی مناقب غوث اعظم صفحہ 58

قطب المدار کی حاکمیت


فقیر نے حضرت خواجہ غلام فریدکوریجہ (کوٹ مٹھن شریف ) کے ارشادات فریدی (قلمی )کے مطالعہ کے دوران قطب المدارکے متعلق دیکھا کہ

اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب قطب المدار کے محکوم وماتحت ہوتے ہیں اور یہ بارہ اقطاب جن کا ماسبق میں ذکر ہوا وہ قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں اور اب بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں انکو قطب ولایت کہتے ہیں قطب عالم یعنی قطب مدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض تمام اولیاء پرجاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہیگا ۔ (مرۃ الاسرار اردو صفحہ 

938)

قطب علوم اسرار کا عالم ہوتا ہے۔

شیخ عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر کے پینتالیسویں باب میں لکھتے ہیں کہ شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو پچپن میں لکھتے ہیں کہ قطب اپنی قطبیت میں قائم نہیں رہ سکتا تاوقتیکہ اسکو ان حروف مقطعات کے معانی معلوم نہ ہوں جو اوائل سور قرآنی میں ہوتے ہیں




 بحوالہ الدرالمنظم


شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو سترہ میں لکھتے ہیں کے قطب کا نام ہر زمانہ میں عبداللہ اور عبدالجامع ہے اور اسکی تعریف یہ ہے کہ وہ موصوف باوصاف الٰہی ہوتا ہے  یعنی بمصداق واتصفوا بصفات اللہ وتخلقواباخلاق اللہ

 قطب صفات الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے اور اخلاق سرمدیہ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے

 اس طور پر کے اس میں تمام معانی اسمائے الہیہ پائے جاتے ہیں 

لطائف اشرفی

 (مؤلف حضور نظام یمنی رضی اللہ عنہ) 

میں ہےکہ قطب کہتے ہیں چند ذاتوں کو جو متفرق آبادیوں میں رہتے ہیں کیونکہ ہر ولایت میں اگر قطب نہ ہو تو آثار برکات اور ظہور حسنات اور قیام دنیاوی ممکن نہ ہو۔

قطب کی وراثت

شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ قطب وہ مرد کامل ہے جس نے وہ چار دینار حاصل کیے ہوں جس کا ہر دینار پچیس قیراط کا ہو اور ان سے مردان خدا کی کیفیت معلوم کی جاتی ہوں اور چار دینار سے مراد رسول انبیاء اولیاء اور مومنین ہیں اور ان سب کا وارث قطب ہوتا ہے ۔


قطب کی شان


شیخ اکبر فتوحات مکیہ کہ باب تین سو اکاون میں رقم طراز ہیں کہ قطب کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس حجاب میں رہتا ہے جو اسکے اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتا ہے اور حجاب مرتے دم تک نہیں اٹھتا اور جب قطب انتقال کرتا ہے تو اللہ تعالی سے جاملتا ہے


ہر زمانہ اور ہر ولایت کے لیے ایک قطب ہوتا ہے۔

الدرالمنظم میں ہے کہ ہرہر مقام کی حفاظت کے لئیے وہ گاؤں ہو قصبہ ایک ولی اللہ ہوتا ہے جو اس گاؤں کا قطب کہا جاتا ہے خواہ اس گاؤں میں مسلمان رہتے ہو یاکافر اگر مسلمان موجود ہیں توان کی پرورش زیر تجلی اسم ہادی ہوگی اور اگر کافر ہیں توانکی پرورش زیر تجلی اسم مضّل ہوگی اور یہ دونوں صفتیں ایک ہی ذات کی ہیں الدرالمنظم ص64) 

اور فصل الخطاب میں ہے کہ بقول صاحب فتوحات مکیہ ا قطاب کی کوئی انتہا نہیں ہرہرسمت میں ایک قطب ہوتا ہے جیسے قطب عبّاد ، قطب زھّاد،قطب عرفاء ، قطب متوکلان وغیرہ۔

اقطاب امم سابقہ


یادرکھیں کہ اقطاب سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہتا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہردور میں قطب زماں کا ورود وظہور ہوا ہے ۔شیخ اکبر فتوحات مکیہ کے چودھویں باب میں فرماتے ہیں "امم سابقہ کے تمام اقطاب کاملین حضرت آدم علیہ السلام سے عہد مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک کل پچیس ہوئے ہیں اللہ تعالی نے مشہد قدس میں کہ جو مشاہدہ برزخیہ ہے ان سے میری ملاقات کرائی اس وقت میں شہر قرطبہ میں تھا اور وہ پچیس یہ ہیں

 

(1)فرق( (2مداویالکلوم( 3)بکاء (4)مرتفع (5)شفاء الماضی (6)ماحق (7)عاقب (8)منجور (9)سجرالماء (10)عنصرالحیات (11)شرید (12)صائغ (13(راجع (14)طیارہ (15)سالم (16)خلیفہ (17)مقسوم (18)حی (19)راقی (20)واسع (21)بحر (22)مضف (23)ہادی (24)اصلح (25)باقی۔


وہ اقطاب جو انبیاء علیھم السلام کے قلب پر ہیں۔

شیخ عبدالرحمن چشتی بحوالہ فتوحات مکیہ نقل فرماتے ہیں بارہ اقطاب ایسے ہیں جو بعض انبیا ء علیھم السلام کے قلب پر ہیں جس میں پہلا قطب حضرت نوح علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ یاسین شریف ہے دوسرا قطب حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نصر اذاجاء نصراللّہ ہے چوتھا قطب حضرت عیسی علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ فتح ہے۔پانچواں قطب حضرت داؤد علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ الزلزال ہے ۔چھٹا قطب حضرت سلیمان علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ واقعہ ہے ساتواں قطب حضرت ایوب علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ بقر ہے۔آٹھواں قطب حضرت الیاس علیہ السلام کے کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ کہف نواں قطب حضرت لوط علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نمل ہے دسواں قطب حضرت ہود علیہ السلام کے قلب پرہے اسکا ورد سورہ انعام ہے گیارواں قطب حضرت صالح علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ طٰہ ہے بارہواں قطب حضرت شیث علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ ملک ہے اور قطب المدارقلب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوتا ہے اور بڑے شہر میں ہوتا ہے اسکا فیض عالم سفلی وعلوی پر برابر ہوتا ہے۔اردو مرآۃ الاسرار ص93شیخ عبدالرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام نوردہلی


تمام اقطاب قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں۔

اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب کے سب قطب مدار کے محکوم وماتحت ہوتے ہیں اور یہ بارہ اقطاب بھی اور جنکا ماسبق میں ذکر ہوا قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں اور ان بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں۔ انکو قطب ولایت کہتے ہیں ۔قطب عالم یعنی قطب مدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض اقطاب ولایت پر آتاہے اور اقطاب ولایت کا فیض تمام اولیاء پر جاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہے گا ۔(مرآۃ الاسرار اردو ص938شیخ عبد الرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام نور دہلی)

مراتب اقطاب


گزشتہ اوراق میں بیان ہوچکا ہے کہ ولایت کے چار مرتبے ہیں (1)صغری (2)وسطی (3)کبری (4)عظمی اور ان چاروں کے ہر مرتبے میں تین تین مقام ہیں (1)بدایت (2)وسط (3)نہایت اسی طرح اقطاب کے بھی مختلف مقامات ومراتب ہیں چناچہ سیدنا سید نصیر الدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ اپنی تصنیف ''بحرالمعانی'' میں تحریر فرماتے

 ہیں کہ جب ولی یعنی قطب ترقی کرتا ہے تو قطب ولایت ہوجاتا ہے اور قطب ولایت ترقی کرکے قطب اقلیم اور قطب اقلیم ترقی کرکے قطب عالم ہوجاتا ہے اور قطب عالم ترقی کرکے عبدالرب کے مرتبے پر جو وزیر چپ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور قطب اقلیم ہی کو قطب ابدال بھی کہتے ہیں پھر تیسری مرتبہ یہ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور قطب الارشاد ترقی کرکے مقام فردانیت میں پہنچ جاتا ہے الغرض قطب عالم کو اختیار ہے اگر چاہے تو اقطاب کو قطبیت سے معزول کردے۔


اس عبارت سے اقطاب کے مراتب ودرجات میں ترقی صاف ظاہر ہے مزید برآں قطب زہاد 'قطب عباد'قطب عرفا'قطب متوکلاں وغیرہ بھی اقطاب کے درجات ہیں جیسا کہ فصل الخطاب میں ہے اور حضرت مولانا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ والرضوان نفحات الانس میں حضرت احمد جام کے احوال میں لکھتے ہیں

 کہ وہ قطب اولیاء تھے اور قطب اولیاء تمام ربع مسکوںپوری زمین میں ایک ہوتا ہے جسکو قطب ولایت کہتے ہیں 

اور اس کو قطب جہاں اور جہاں گیر عالم بھی کہتے ہیں

 کیونکہ اسکے ماتحت کے کل اقسام ولایت کا قیام اسی کے وجہ سے ہوتا ہے۔(نفحات الانس علامہ جامی)

اس عبارت سے ظاہر ہوا کہ قطب ولایت کو قطب اولیاء قطب جہاں اور جہاں گیر عالم کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔


کیا قطب عالم صاحب زماں قطب الاقطاب اور قطب المدار ایک ہی شخص کے نام ہیں


اسی طرح قطب عالم صاحب الزماں قطب الاقطاب قطب اکبر قطب الارشاد اور قطب المدار کے بارے میں کیا جاتا ہے کی یہ سب ایک ہی شخص کے نام والقاب ہیں چناچہ سید السادات سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں کہ قطب الارشاد قطب الاقطاب اور قطب العالم اور صاحب زماں اور قطب المدار ایک شخص کے نام ہیں

  

جو بالاصالت عرفان کی کنجی ہے اور اقطاب کے در اصل موصل الی اللہ ہیں وہ نیابت میں قطب الاقطاب کے رہتے ہیں اور اس کو اختیار ہوتا ہے کے وہ چاہے انکو اپنی نیابت میں رکھے یا نہ رکھے۔ (مطالب رشیدی ص267الدرالنظم فی مناقب غوث اعظم


بحرالمعانی میں ہے قطب عالم ہر زمانہ میں ایک ہوتا ہے اور موجودات علوی وسفلی کا وجود اسکے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے اور بوجہ اس کے قطب عالم ہونے کے سبب چیزیں قائم ہوتی ہیں اور بارہ اقطاب اسکے سوا ہوتے ہیں اور قطب عالم کو حق تعالی سے بے واسطہ فیض پہنچتا ہے اور اسی کو قطب اکبر قطب الارشاد اور قطب الاقطاب اور قطب المدار بھی کہتے ہیں۔(کذالک فی مرآۃ الاسرار ص91)

بحرالمعانی میں مزید یہ بھی تحریر ہے کہ علامت قطب الارشاد (قطب المدار)یہ ہیں کہ اسمیں نور تمکین نظر آئے جو سبز رنگ کا ہوتا ہے اور کبھی کبھی سرخ رنگ کا اور

وہ بے جہت تمام اطراف کو آنکھ کھولے خواہ بند کیئے ہویکساں دیکھتا ہے ۔اس نور کی حقیقت جاننا خاصہ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ہے کیونکہ آپ ہی پر اسکا پرتو پڑا ہے (انتہی کلامہ)۔

اسی طرح تذکرۃ العابدین میں ہے اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان تمام گروہوں میں کیا کیا مرتبہ اولیاء اللہ کا ہوتا ہے ۔دنیا کا کل کارخانہ اللہ جل وشانہ نے اولیاء کرام کی ذات سے وابستہ کیا ہے اور اس گروہ کہ بارہ اقسام ہیں۔اول ان میں قطب الاقطاب ہے جسکو قطب العالم بھی کہتے ہیں وہ ایک ہی ہوتا ہے خواہ قطب الارشاد ہو یا قطب المدار اسکے بارہ نائب یایوں کہیے کہ مدارالمہام ہوتے ہیں دوسرا غوث ہے مرتبہ اسکا قطب سے کم ہوتا ہے الخ۔ان عبارتوں سے خوب خوب معلوم ہوا کہ اقطاب کے مختلف درجات ومقامات ہیں نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ قطب اکبر قطب عالم قطب الاقطاب اور قطب الارشاد وقطب المدار ایک ہی شخص کہ نام ہیں 

ان ناموں میں سے کسی نام سے انکے اوصاف مراتب اور مقامات ومناقب بیان ہوں وہ سب قطب المدار کے اوصاف ومراتب اور مقامات ومناقب ہوں گے


سب سے بڑا قطب 

قطب المدار ہوتا ہے


فقیرنے تفسیر روح البیان کا اردو ترجمہ فیوض الرحمن زیر ایۃ والجبال اوتادا

 

(پ ٣٠) میں حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق لکھی ہے


ملاحظہ ہو 


کہ ہر زمانے میں ایک قطب ہوتا ہے یہ سب سے بڑاہوتا ہے اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔قطب عالم قطب اکبر قطب الارشاد قطب مدار قطب جہاں اور جہانگیر عالم عالم علوی اورعالم سفلی میں اسی کا تصرف ہوتا ہے اور ساراعالم اسی کے فیض وبرکت سے قائم ہوتا ہے اگر قطب عالم کا وجود درمیان سے ہٹادیا جائے تو سارا عالم درہم برہم ہوکر رہے جائے قطب عالم براہِ راست اللہ تعالی سے احکام وفیض حاصل کرتا ہے اور فیوض کو اپنے ماتحت اقطاب میں تقسیم کرتا ہے وہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں سکونت رکھتا ہے بڑی عمر پاتا ہے نورخام مصطفوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہرسمت سے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ماتحت اقطاب کے تقرر تنزل اور ترقی کے اختیار کا مالک ہوتا ہے

 

ولی کو معزول کرنا 'ولایت کو صلب کرنا'ولی کو مقرر کرنا'اسکے درجات میں ترقی دینا اسی کے فرائض میں ہے۔وہ ولایت شمس پر فائزہوتا ہے لیکن اسکے ماتحت اقطاب کو ولایت قمری میں جگہ ملتی ہے قطب عالم اللہ تعالی کے اسم رحمن کی تجلی کا مظہر ہوتا ہے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مظہر خاص تجلی الولایت ہیں قطب عالم سالک بھی ہوتا ہے اور اسکا مقام ترقی پزیر ہوتا ہے حتی کے وہ مقام فردانیت تک پہنچ جاتا ہے یہ مقام محبوبیت ہے رجال اللہ میں اس قطب عالم کانام عبداللہ بھی ہے ۔تفسیرفیوض الرحمن اردوروح البیان اردو ص 12 زیرآیت والجبال اوتادا..پ ٣٠ 

قطب المدارپر مخلوق کے احوال روشن رہتے ہیں۔

چونکہ قطب المدار پر خلق کے احوال گردش کرتے رہتے ہیں اس لیے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے اور اس پر خلق کی حالت آشکار ہوتی ہے۔

شیخ عبدالرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ القطب فی اصطلاح القوم اکمل الانسان متمکن فی مقام الفردیۃ تدور علیہ احوال الخلق

 (رسالہ ابن عابدین الشامی ص256)

قطب المدار ولایت کے تمام مقامات واحوال کا جامع ہوتا ہے


صاحب فتاوی شامی علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ الخلیفۃ الباطن وھوسید اھل زمنہ سمی قطب ا لجمع جمیع المقامات والاحوال ودورانھاعلیہ


 رسالہ ابن عابدین شامی


خلیفہ باطن جواپنے زمانے والوں کا سردار ہوتا ہے اسی کو قطب المدار کہتے ہیں کیونکہ تمام مقامات واحوال کا وہ جامع ہوتا ہے اور تمام مقامات و مراتب اسی کے گرد گھومتے ہیں۔


مرتبہ قطب المدار۔


شیخ اکبر ابن عربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قطبیت کبری قطب الاقطاب کا مرتبہ ہے کہ جو باطن نبوت آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ مرتبہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کیلئے مخصوص ہے اس لیے کہ آپ صاحب نبوت عامہ ورسالت شاملہ میں سارے عالم کیلئے اور اکملیت کے ساتھ مخصوص ہیں توخاتمالولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا باطن خاتم النبوت پر ہوں۔(فتوحات مکیہ فصل 31باب 198بحوالہ الدرالمنظم ص 150)

مرتبہ قطب المدار منتہائے درجہ ولایت ہے

صاحب الدرالمنظم فرماتے ہیں قطب الاقطاب وہ ہے جس کے مرتبہ سے اعلی سوائے نبوت عامہ کے اور کوئی مرتبہ نہ ہو اسی وجہ سے قطب الاقطاب صدیقوں کا سردار ہوتا ہے

 ( الدرالمنظم ص 50)

حضرت سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں مقام قطب الارشاد بہت رفیع المنزلت ہے جس آگے اولیاء کا مقام نہیں (الدرالمنظم

60


لطائف اشرفی میں

 شیخ اکبر رحمہ اللہ تعالی کے فرمان کو اس طرح نقل کیا ہے


اما القطب وھو الواحد الذی موضع نظر اللہ تعالی من العالم فی کل زمان وجمیع اوان وھو علی قلب اسرافیل علیہ السلام والقطب الاقطاب باطن نبوتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلا یکون الالوارثتہ لا خنصاصہ علیہ السلام مالا کملیت فلا یکون خاتم.الولایۃ وقطب الاقطاب الا علی باطن خاتم النبوۃلطائف اشرفی نقل ازفتوحات مکیہ فصل 31/باب198


یعنی قطب.وہ ہے جو عالم میں منظور نظر الہی ہو تا ہے اور وہ ہر زمانے میں ہوتا ہے اور وہ اسرافیل علیہ السلام کے مشرب پر ہوتا ہے اور قطبیت کبری جو قطب الاقطاب (قطب المدار)کا مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ باطن نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ مرتبہ کمال صرف وارثان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ.وآلہٖ وسلم کا ہے اس لیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم النبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہو


مقام مدایت

 از 

مفتی

ابوالحمد محمد اسرافیل صاحب مداری 

مندرجہ بالا ثبوت و دلائل سے سرکار قطب المدار کا قطب المدار ہونا ثابت ہوچکا ہے اب بلا مبالغہ کہہ رہاہوں 


ہوتے ہیں عارفان حقیقیت کے ہوش گم 

سمجھے گا کون دہر میں عظمت مدار کی



چوتھی قسط


تو جہاں کا قطب مدار ہے


سیرت وسوانح


سنسان ہے دیار نبی وقت فجر سے

صبح کی پہلی کرن کے ساتھ خاندان اہلبیت کے چند افراد اپنا اثاثہ، سازوسامان پیک کررہے تھے

 زاد سفرتیار تھا

 کچھ اونٹوں پر  باندھا جاچکا تھا کچھ باقی تھا 

تبھی اشراف مدینہ میں محبین و مخلصین کی ایک جماعت نے انہیں گھیر لیا 

حضور ہم کو تنھا چھوڑ کر نہ جائیں 

آپ وجہ قرار ہیں ، آپ جان بہار ہیں ، بے چین دلوں کے قرار یم سحری تھم گئ ہو

دیوانے عرض کرتے ہیں اگر آپ چلے گئے تو ہم بے سہارا ہوجائینگے 

 ہم تڑپتے تھے آپ تسکین دیتے تھے ہم روتے تھے آپ آنسو پونچھ دیا کرتے تھے   

ہم گرتے تھے آپ اٹھالیتے تھے اب آپ کے بعد ہم کیا کریں

کوئ ہمارا محسن و کرم فرما نہیں ہے 

تاریخ اپنی تاریخ دہرارہی تھی 

لوگوں کو سن 60 ہجری یاد آگئ جب امام حسین عالیمقام علیہ السلام مدینہ منورہ سے کوفہ کو کوچ فرمارہے تھے تو اہلیان مدینہ نے کہاتھا کہ ساقئ کوثر کے شہزادے ہمیں تشنہ لب چھوڑ کر آپ جارہے ہیں ہمیں دیدار کے جام کی لذتیں کون عطاکرے گا ؟ 

کیا آپ بتائینگے بعد آپ کے ہم مصیبت کے ماروں کا کیا حال ہوگ

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کو دیکھ کر دل مضطرب اور قلب پریشاں اطمینان و سکون کی بساط فرحت پر دھڑکتا ہے

 

شیر خدا کے بعد آپ کے بازؤں پر ناز ہے 

سیدہ فاطمہ ہیں نہیں   ہم نازش حوا و مریم سیدہ زینب کو دیکھ لیتے ہیں  لھذا اے سردار آپ ہم غمزدوں کو تنھا چھوڑ کر نہ جائیں

 

اس وقت امام پاک نے فرمایاتھا میرے عزیزو !  اسلام کی طرف بڑھتی ہوئ نوک سناں مجھے آواز دیتی ہے 

اگر ہم نے پیٹھ دکھادی تو اسلام کی گردن کٹ جائیگی 

قربانی ہمارے کنبہ کو آواز دیتی ہے 

اب اسمٰعیل کی جگہ دنبہ نہیں آئیگا 

میرے سواکوئ کنبہ نہیں آئیگا 

لوگ روتے پیٹتے رہے اور امیرکاروان اسلام گھوڑے کو ایڑ لگادیتے ہیں


 پھر

ع ..اہل مدینہ چھوٹ رہے ہیں حسین سے 

ڈیڑھ سو سال بعد پھر مدینہ میں کہرام مچا 

خاندان نبوت کی بہاریں مشام مدینہ چھوڑ رہی ہیں 

اہل طلب پیر پکڑے ہوئے تھے

 اشک تھے جو تھمتے نہیں تھے

 آہیں تھیں جو رکتی نہیں تھیں سسکیاں چیخیں بنکر پھوٹ پڑیں

فراق یار کا آتش فشاں پھوٹ پڑا اور تمام دیرینہ خواہشات و تمنائیں خاکستر ہوگئیں 

حضرت قاضی سید قدوتہ الدین علی الحلبی شہنشاہ ولایت قطب الاقطاب حضرت سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی خوارج کے ظلم و استبداد کا زبر دست نشانہ تھے اس لئے اس مقدس شہر کو چھوڑ رہے تھے جس شہر میں نبی تشریف لائے تھے 

آپ نے اہل مدینہ کو تڑپتا ہوا دیکھا تو فرمایا تم تو اللہ کے نبی کے مبارک شہر میں ہو 

افسوس جس شہر میں ہو ہجرت کرکے ہمارے نانا آئے تھے آج اسی شہر مقدسہ سے انکی آنکھوں کے نور دل کا چین جارہا یے 

سو چو 

آپ مدینہ کے سائباں میں ہونگے 

نہ جانے ہم کس بیاباں میں ہونگے

تم سب پر عیاں ہے کہ ہمارے دادا مولائے کائنات علی المرتضیٰ پر کوئ ستم باقی نہیں رکھا گیا تھا شہزادگان  گلگون قبا حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ حضرت سیدنا امام حسین علیھما السلام اور آپ کے کنبہ حتیٰ کہ عفت مآب خواتین حرم پر جس ظلم اور سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا ہے تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہیگی

 

کیا ہمیشہ ہی سادات کے گلاب جیسے رخسار طمانچہ ہی کھاتے رہینگے  کیا اب بھی ننھے حلقوم پر چھریاں پھیری جائینگی 

کیا اسپہائے دشمنان اب بھی ہماری ہڈیوں کو پامال کرینگے


کیا گوسفندان یزیدی اب بھی چیڑ پھاڑ کرتے رہینگے

 کیا دشت و بیابان میں صحراء و بلدان میں اب بھی عفت مآب بیٹیاں بے پردہ گھومینگی ؟

کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہمارے دروازے توڑ کر چھتوں سے کود کر دیواروں میں عقب لگاکر شب خون مارا جارہا ہے 

میں چاہتا ہوں کہ اہلبیت کے چند افراد بچے ہیں اگر انہیں بھی خوارج قتل کردینگے تو یزید کا منشاء پورا ہوجائیگا 

پس میں اہلبیت کی حفاظت کی خاطر ہجرت کررہاہوں 

ہاں تم سب 

غمزدوں کے ذرا غمخوار رہنا

کریں ناز تو ناز بردار رہنا

اتنا فرماکر حضور سیدنا قاضی قدوتہ الدین علی الحلبی گھوڑے کو ایڑ لگاکر سمت شام امیر کارواں بن کر چل دئیے 

 

ایمان و دیں کے مرکز جاذب کا کوچ ہے 

کاواکئ جہاں کے محاسب کا کوچ ہے 

جان بہار گلشن یثرب کا کوچ ہے 

دانائے  رمز وقت مناسب کا کوچ ہے

 

ملخصا


بحوالہ مدارالمہام 

جدید مداراعظم  



پانچویں قسط


جہاں کا قطب مدار ہے 

سیرت وسوانح 


گھوڑے دوڑ پڑے تھوڑی دیر میں غبار نظر آنے لگا جب تک غبار اڑتا رہا تب تک باشندگان مدینہ دست بستہ کھڑے رہے پھر غبار کے ذرات دھیرے دھیرے بیٹھنے لگے


حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے قدموں سے مشرف پہاڑوں کے دامن میں آباد ایک خوبصورت شہر 


 حلب 

 رونق و رعنائ میں ایسا ڈوباتھا کہ اس کے دلکش مناظر پر حسین اور پر کیف بہاروں کے ڈیرےتھے، 

اتنی چہل پہل جیسے 

گھر گھر میں شادی رچی تھی

شادیانے بجائے جارہے تھے خوشیوں میں مست و بیخود لوگ جھوم رہے تھے تاریخ اپنی تاریخ دہرارہی تھی

 

ایک وہ زمانہ تھا کہ جب رحمت ہردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمارہے تھے توباشندگان مدینہ صف در صف شادیانے بجارہے تھے

جیسے کسی نے انکے کانوں میں یہ ملکوتی نغمہ گھول دیا ہو کہ طلسم ظلمات میں جکڑے انسانوں کا نجات دہندہ آرہا ہے

 

بس ابھی سے دلوں کا عالم زیرو زبر ہونے لگا افراد کی جماعت اشتیاق اور جذبئہ شوق کی گھماگھمی میں آبادی کو چھوڑ کر باہر آجاتی ہے اور اس رحمت و نور کے پیکرمصدر رعنائ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہہ دل سے استقبال کرتے ہیں

پورا شہر مدینہ خوشی سے جھوم اٹھا 

 حتیٰ کہ ننھی ننھی بچیوں نے بھولی بھالی لے میں اپنی اپنی دفوں پر خوشیوں کا ساز چھیڑ دیا

 

طلع البدر علینا 

من ثنیات الوداع 


وجبت شکر علینا 

ما د عاللہ دعاع 


ایھاالمبعوث فینا

جئت بالمرالمطاع


تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی قصبہ جنار حلب میں پر کیف بہاروں کا ورود ہوا

رحمتوں کا سویرا ہوا ،گل قدس کی خوشبو اڑی ،روح کی بہاروں کی رت بدلی، خوش بختیوں کا اجالا ہوا، 

حلب کے راستہ پر کچھ لوگ استقبالیہ میں کھڑے تھے کہ معاً

ایک ریت کا بگولہ سا سامنے سے اٹھا پھر دیکھتے دیکھتے 

بگولے کے اندر کچھ سوار نظر آئے 

جیسے جیسے قافلہ سامنے آیا دل بیتاب کی دھڑکنوں میں اضافہ ہو نے لگا 

پھر وہ ساعت قریب ہوگئ جب بہار گلشن دیار حضرت سیدنا قاضی سید علی حلبی رضی اللہ عنہ کا خیر مقدم باشندگان حلب کرنے لگے 

 تمنائیں اور آرزوئیں حسرت سے رخ روشن کو تک رہی تھیں کہ  حضور والاجاہ اپنے قدوم نازنین سے میرے غریب خانہ کو رشک جناں کردیں 

حضور آپ کی ٹھوکریں میری تقدیر کا فیصلہ کردیں 

کاش آپ کی نگہ التفات اٹھے نصیبوں کا سویراہوجائے 

منت سماجت میں خدام و عشاق دست بستہ کھڑے تھے 

سرکار نہیں چاہتے تھے کہ غم سے کسی کا دل دوپارہ ہو 

حضور والاجاہ کو ایک مکان بطور تحفہ نذر کیا گیا اب آپ وہیں استقامت پذیر ہوگئے 

رفتہ رفتہ آپکے فضل و کمال کا شہرہ ہونے لگا چہار اطراف سے لوگ اکتساب فیض کرنے آنے لگے 

انہیں ایام  میں عباسی خلیفہ جعفر متوکل علی اللہ  جب آپ کے فضل و کمال سے واقف ہوا تو 

جعفرمتوکل علی اللہ نے بآداب حاضر ہوکر عرض کیا حضور

میں چاہتاہوں شہر حلب کے قاضی القضاۃ

 (چیف جسٹس)

کے عہدےکو قبول فرمالیں 

سید علی حلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا 

میں مسند امارت و خلافت پر فائز  ہونہیں سکتا 

مجھے اس سے دور ہی رہنے دیں 

تمام دیانت دار، سچےفیصل ، منصف مزاج ،مذہب دوست ، اشخاص موجود ہیں آپ ان میں سے کسی کا انتخاب فرمالیں 

خلیفہ جعفرمتوکل علی اللہ

حضور آخر ایسا کیوں ؟ 

قاضی سید علی حلبی رضی اللہ عنہ نے

کیا آپ نہیں جانتے ہیں؟ 

 یا زمانہ نہیں جانتا؟ 

خاندان رسالت  کا بچہ بچہ ہر دور ہر زمانے میں جبرو استبداد کا نشانہ بنایا گیا 

کبھی بر سر منبر گالیاں سنائی گئیں کبھی عین نماز میں قاتلانہ حملہ کیا گیا کبھی زہر ہلاہل پلایاگیا کبھی سنسان اور بے آب و گیاہ زمین کی دہکتی چھاتی پر بھوکے پیاسے شہزادوں کی لاشوں کے انبار لگائے گئے کبھی خیمے جلائے گئے، کبھی طمانچے مارے گئے کبھی در چھینے گئے کبھی رسیوں میں باندھ کر گھسیٹے گئے کبھی زنجیروں میں جکڑ کر شہر شہر گھمائے گئے ، کبھی نوک سناں کبھی 

دارو صلیب پر ، چڑھائے گئے


 الغرض ہر دور ہر زمانے میں اہلبیت مصطفیٰ کو مصائب و آلام کی کڑی دھوپ جھلساتی رہی 

یہاں بھی میں اپنی خوشی سے نہیں آیا بلکہ مظالم کی انتہا نے نانا کا دیار تنگ کردیا تب ہم چار بھائیوں کو اہل جنار کی محبتیں یہاں لے آٰئیں 

ظالم خوف زدہ ہیں کہ کہیں آل رسول اپنے منصب پر فائز ہوگئے تو ہم.کیا کرینگے

 

حرص حکومت نے طمع سلطنت نے حسد امارت نے بنو ہاشم کی عظمتوں پر شب خون مارا اب حلب کو کربلا نہ بنایا جائے

 

جعفر متوکل علی اللہ


العیاذباللہ

 شہزادئہ رسول میں نے اپنی پوری زندگی تحفظ ناموس رسالت اور بقائے عظمت اہلبیت میں گزاردی 

میں دشمنان اہلبیت پر برق بنکر گرتا ہوں ابر قہر بنکر برستا ہوں


حضور شہزادئہ رسول آپ یقین رکھیں جو زبان کھلے گی وہ کھینچ کر کھونٹی پر لٹکادی جائیگی 

جو ہاتھ اٹھے گا کاٹا جائیگا جوآنکھ اٹھے گی پھوڑی جائیگی

 

باصرار تمام قدوۃ الکاملین ، سیدالکاملین ، حضور سیدنا قاضی سید قدوۃ الدین علی حلبی 238 ہجری میں  متمکن کرسئ قضاۃ اور رونق مسند قاضی القضاۃ ہوگئے

جاری 


ملخصاً بحوالہ 

جدید مداراعظم 

غیر منقوط مدارالمھام 

سیر المدار 

ماہنامہ دم مدار (وغیرهم)



چٹھی قسط


تو جہاں کا قطب مدار ہے

خادم آستانئہ قطب المدار رضی اللہ عنہ

گھنے اور بلند قامت درختوں کے سائے میں آباد

جنت نشاں ایک چھوٹا سا قصبہ


چنار

بڑا دلکش ، حسین وخوبصورت جیسے صناع عالم نے تمام تر رعنائیاں اسی کے مقدر میں ثبت فرمادی ہوں جنار کے دامن میں تاروں کی بارات

مانگ میں کہکشاں کا سندور گھنیرے درختوں کے سائے زلف واللیل کا صدقہ

.پھولوں کی شباہت ورنگت

اللہ اللہ


باغ مدینہ کی بھینی بھینی مہک نے خاروں پر عطر بیزی کا کام کیا

مظہر ارض طیبہ پر ہر طرف رونق و خوبصورتی ہے

ویسے بھی صبح عید کی آمد آمد کا ڈنکا اہل ایمان کی بستیوں میں بج رھا تھا جس کی دھمک سے کفر والحاد کے بلند و بالا قلعوں کی فصیلیں درے کھا گئیں


عکس مدینہ سے تابندہ، منور درخشاں ، قصبہ جنار میں آج اتنی رونق تھی کہ مظہر شب ولادت مصطفیٰ بنا ہوا تھا

ماہ رمضان المبارک کی الوداع الوداع تھی مطلع افلاک وانوار پر عید سعید کے چاند کی نمود نے اھل ایمان کو اپنی زیارت کراکے چہر وں پر آثارتازگی آنکھوں کو نور دلوں کو سرور بخشا خاصان خدا کی جماعتوں میں اتنا طرب اتنی شادمانی

اتنی مسرتیں تھیں جس سے بزم ولایت میں نیرنگیاں جھلک رہی تھیں

حسب معمول امام الاصفیا خاصہ کبریا سید الطائفہ اہل تقا طرئہ تاج صالحیں قطب الاقطاب حضرت سید علی حلبی دلبند زھرا نے نماز عشا ادا فرمائ اور مصلے پر معمولات میں مشغول ہوگئے

مراقبہ کرتے کرتے آنکھ لگ جاتی ہے آنکھوں کے نصیبے پر کونین تصدق ہونے لگتے ہیں

سید عالم وعالمیاں نازش مرسلاں فخرابراہیم وآدم صلی اللہ علیہ وسلم

مع اصحاب راشدہ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے علی اپنی قسمت پر ناز کر آج میں تمہیں ایک سعید بیٹے کی بشارت سناتا ہوں جو ازلی ولی ہوگا اور میرا معنوی فرزند ہوگا اس کا نام میرے نام پر احمد رکھنا


سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم تو بشارت عظمی ٰ اور مژدہ جانفزاسناکر تشریف لے گئے ادھر حضرت قاضی قدوۃ الدین علی الحلبی بیدار ہوجاتے ہیں

ولادت باسعادت


سرکار قاضی سید قدوۃ الدین علی الحلبی دیکھتے کیا ہیں جیسے ستارے انجمن در انجمن اتر کر کاشانہ علی پر بوسے لے رہے ہوں اور کچھ واپس ہورہے ہوں پوری رات یہ سلسلہ جاری رہا نماز تہجد ادا فرمائ

ندائے غیبی آئ

اے علی حلبی اپنے نصیبے کی ارجمندی پر ناز کر

تین بار یہ آواز آئ پھر موذن نےاللہ اکبر کی صداؤں سے فجار کی دیوارں پر شگاف ڈالدئے

ادھر موذن نے تکبیر کے کلمات ادا کئے

ادھر ایک ایسی ذات آئ

جس نے قلوب کی کرسیوں پر قبضہ کیا ایسی ذات آئ جو رونق بزم جہاں بنی ایسی ذات آئ جو رونق بزم اہل وفا بنی ایسا عجیب الاحوال آیا کہ دور سے دیکھنے والے کیا قریب سے دیکھنے والے انگشت بدنداں رہتے کہ یہ ہے کون جسے عارفین حق بھی نہ سمجھ پائے

یعنی مقتدائے اولیاء خاصہ کبریاء پیشوائے اصفیا شاہ باز آسمان ولایت و کرامات شہسوار میدان سخاوت وقناعت ہادی شریعت ساقی جام طریقت معلم رازحقیقت واقف اسرار حقیقت غواص بحر معرفت مورد فیوض الٰہی پیکر اخلاق مصطفیٰ وارث اوصاف مرتضیٰ قدوۃالکاملین عمدۃالعارفین رہبر دین قبلہ اہل یقین سلطان العارفین سیدالسالکین امام الاولیاء شہنشاہ ولایت ، قطب وحدت، حامل مقام صمدیت، واصل مقام محبوبیت، شمس الافلاک

قطب الاقطاب ، قطب الارشاد، مرجع الاوتاد قطب المدار زندان الصوف ، زندہ شاہ مدار ، زندہ مدار ، شاہ والا ، شاہ کونین ، حضرت سید بدیع الدین شیخ احمد مدارالعالمین رضی اللہ عنہ

نے قدم ناز جب آغوش مادر میں پسارے تو دنیا کے تمام عیش وطرب انکے در پر کھڑے خیرات مانگنے لگے


یکم شوال المکرم بروز جمعہ بوقت صبح صادق ہجری 242میں خاندان فاطمی میں سیدنا مولاعلی کی نسل میں ایک پھول کھلا جس کی خوشبو سے مشام کائنات معطر ہوگیا والد گرامئ مرتبت نے سخاوت کے دہانے کھول دئیے سات دن تک خوشیوں کی ہماہمی رہی سارا عالم تصوف وجد کناں ہوگیا

آپ کی ولادت سے پہلے اور بعد میں ایسے ایسے خوارق وعادات وعجائبات کا ظہور ہونے لگا جس سے عقل انسانی کاادراک ماوری ہے

اہل سیر وسوانح لکھتے ہیں کہ آپ کی ولادت مقدسہ سے پہلے آسمان پر ایک سبز پرندہ نمودار ہوا جو


یاایھاالذین آمنواتقوااللہ

اللہ اللہ

صدائیں بلند کرتاہوا اڑرہاتھا

جب آپ پیداہوئے تو آپ کاسر سجدہ میں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا

بوڑھی بکری نے دودھ دینا شروع کیا

اہل سیر نے لکھا کہ آپ کے گھر میں ایک بوڑھی بکری تھی جس نے عرصئہ دراز سے دودھ دینا بند کردیا تھا جب آپ اس کائنات میں رونق افزا بنے تو اس لاغر ونحیف وضعیف بکری نے اتنا دودھ دینا شروع کردیا کہ پوراگھر بلکہ اہل حاجت تک سیراب ہونے لگے


سیدالا تقیاء


آپ کی والدہ محترمہ سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمہ ثانیہ بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے بدیع الدین کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے دودھ نوش نہیں کیا والد محترم قاضی القضاۃ قطب کامل سید علی حلبی رضی اللہ عنہ نے ایک دایہ کا انتظام فرمایا آپ نے دایہ کا بھی دودھ نوش نہیں فرمایا

تب آپ کے والد بزرگوار سمجھ گئے اور نقل مکانی کیا تب آپ نے دودھ پیا کیونکہ آپ کے مکان پر ایک سود خور کے مکان کاسایہ پڑتا تھا تو کیسے یہ سیدالاتقیاء دودھ پیتا

عجیب تقوی


آپ کی والدہ محترمہ جب بغیر وضو آپ کو دودھ پلانا چاہتی تھیں تو آپ نہ پیتے حتی کہ آپ کی والدہ مکرمہ وضو کرلیتیں

ایساروزہ دار کہاں


رمضان شریف میں آپ رضی اللہ عنہ کبھی دن میں دودھ نہ پیتے تھے افطار کے وقت آپ کی والدہ دودھ پلاتیں آپ نوش فرماتے

مدار کا نہ جوانی مدارکی

عام بچوں کی طرح بھوک سے بے چین نہ ہوتے تھے جب آپ کی والدہ نوش کرادیتی تھیں آپ نوش کر لیتے ورنہ قناعت پذیر رہتے

عام بچوں کی طرح کھیل کود سے بہت دور رہتے ہروقت تجسس حق میں رہتے اور تلاش معرفت الٰہی میں محو رہتے

سیدنا خضر پیغمبر سے ملاقات

ایک مرتبہ حضور قطب المدار محلے کے بچوں کے ساتھ جنگل کی طرف کہیں جارہے تھے

ندائے غیبی آئ اے بدیع الدین کیا تم اسی لئے پیدا کئے گئے ہو

آپ روتے ہوئے واپس ہوئے اور ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے خشیت الٰہی سے آنکھوں میں سیلاب دل پرسوز روح غمزدہ لئے بیٹھ گئے کافی دیر تک روتے رہے اچانک ایک باہوش سفید پوش بزرگ نمودار ہوئے اور پوچھا

تمہارا نام کیا ہے آپ نے فرمایا بدیع الدین

پوچھا تمہاری اصل کیا ہے ٹیلے سے ایک مٹھی مٹی لیکر فرمایا یہ مٹی

تب سیدنا خضر علیہ السلام نے اپناتعارف کراکے آپ کو سینے سے لگایا اور عرفان وآگہی کے دریچے کھولے


ساتویں قسط

 

توجہاں کا قطب مدار ہے

خادم آستانئہ عالیہ مداریہ مکن پور شریف

قطب وحدت حضرت سرکار سیدنا سید بدیع الدین الشیخ احمد

 المقلب بہ قطب المدار ، زندہ شاہ مدار 

اسم گرامی احمد 

 القاب

 بدیع الدین 

کنیت 

ابوتراب

 

بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں,اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکو عبداللہ قطب المدارفردالافرادکہتے ہیں مدارعالم,مداردوجہاں مدارالعالمین'شمس الافلاک  القابات ہیں غیر منقسم  ہندوستان میں زندہ شاہ مدار ، زندہ مدار ، مدار  صاحب  زندہ ولی مدار العالمین  شاہ والا القاب  سے زیادہ مشہور ہیں 

ولادت باسعادت

آپکی ولادت باسعادت یکم شوال المکرم  (عیدالفطر) کی  صبح صادق بروز  پیر سنہ دوسوبیالس ہجری(242 مطابق856)عیسوی میں عباسیہ دور حکومت میں ملک شام کے شہرحلب میں قصبہ  جنار"میں ہوئی'' صاحب عالم''

۲۴۲

 سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے

 والدماجد کا نام نامی اسم گرامی 

 قاضی سید قدوۃ الدین علی الحلبی رضی اللہ عنہ  ہے والدہ ماجدہ

سیدہ  فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ ہے 


آپ نجیب الطرفین سیدالسادات حسنی حسینی سید ہیں۔

حضرت سید بدیع الدین قطب المداررضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں

اناحلبی بدیع الدین اسمی۔بامی وامی حسنی حسینی

جدی مصطفے سلطان دارین۔محمداحمدومحمودکونین

(الکواب الدراریہ)

میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہے,ماں کیطرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوں,میرے نانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔

اسی طرح سے حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں بھی آپکا شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہے کہ 

آں (زندہ شاہ مدار) اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدرآں عالی قدرسیدعلی حلبی ابن سیدبہا ء الدین ابن سید ظہیر الدین ابن سیداحمد ابن سیدمحمد ابن سید اسماعیل ابن سید امام الائمہ جعفرصادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارین زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء ۔

یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں آپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاء الدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن.سیدامام الائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین


مادری نسب نامہ


سیدہ  فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابومحمدابن سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت سید حسن مسثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین


پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور


آپ جب شکم مادر سے اس جہاں میں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا 

حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت قطب  مداررضی اللہ عنہ، جب اس عالم گیتی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطہار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئے اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی اورہاتف غیب سے ندا ہوئی ھذا ولی اللّہ ھذا ولی اللّہ

 کا مژدہ سنایاشاھدان بارگاہ لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے



تعلیم وتربیت


 جب سرکار مدار رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئ تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق والد گرامی نے آپکو بسم اللہ خوانی کے لئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی متوفی ..276.ھ کی خدمت میں پیش کیا۔استاذ محترم نے 

فرمایا پڑھو الف مگر سرکار مدار نے الف پڑھنے کے بجائے الف کی تشریح بیان کرنا شروع کردی اور متواتر ایک ہفتہ تک الف کی تشریح فرماتے رہے تو آپ کے استاد محترم بے اختیار پکار اٹھے ھذاولی اللہ ھذاولی اللہ ھذاولی اللہ جب آپکی عمر شریف  14,سال کی ہوئی

 تو ابتدائ تعلیم سے لیکر جملہ علوم دینیہ علوم عقلیہ ونقلیہ حاصل کرلئے 

حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت زبور انجیل,کے بھی حافظ وعالم تھے-(تذکرۃالکرام تاریخ خلفائے عرب واسلام


حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا,سیمیاکیمیااور ریمیامیں کامل دسترس رکھتے تھے-

(لطائف اشرفی فارسی..ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی


بیعت وخلافت


ظاہری علوم سے فراغت کے بعد سعادت ازلیہ نے جذب دروں کو علم باطن کے حصول کہ لیے پابہ اشتیاق کردیا-جذبہ شوق نے زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہوگے-جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ اولیاء حضرت بایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں

آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا


پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئ نہیں دکھا

 چلتے چلتے ٹھہر گئے آواز برابر اًرہی تھی پہلے بیت المدس جاو بایزید بسطامی تمہارا انتظار کر رھے ہیں  

سمت مکہ سے سمت بیت المقدس رخ

موڑ لیاقلب کی عجیب کیفیت تھی پہلے سے زیادہ اب نازک تر تھا ًًاب  نازکی انکے دل کی نہ پوچھے

ً ایک تلاطم خیز طوفان  تھاجو  تھم نے کا نام نہیں لیتا ایک کاروان شوق ہے  جو پڑاو نہیں چاہتا  ایک انتظار تھا جواور بڑھ گیا 

لیکن شیریں اور باوقار پررعب آواز نے ناچار کردیا اب بجائے مکہ کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا ہی پڑا 

جیسے تیسے راستہ طے کیا اور یہ راہئ طیبہ مسجد اقصی کے صحن میں پہونچا 

 آواز آئ آو میرے لاڈلے 

میں کب سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں آنے والے کے قدم کیا پڑے اسکی آمد کا منتظر مسندانتظار کے نشین کی  حیرت واستعجاب کے سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں


ایک نظر آنے والے کو دیکھتا ہے دوسری نظر صحن بیت المقدس پر ڈالتا پہر فرمان جاری کرنے میں دیر نہیں لگائ کہ اے بدیع الدین تمھارے آنے سے پہلے میں یہاں نور کا ایک ستون دیکھا کرتا آج تمہیں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ نور کا ستون تمہیں ہو آو تم میری مراد ہو قطب المدار آگے بڑھے بایزید پاک بسطامی نے آگے بڑھ کر سینے سے لگالیا اور عرفان الٰہی کے سارے حجابات منکشف ہوتے چلے گے


اس 

 نور کی وضاحت احادیث نبویہ میں موجود ہے 

-حضرت سلطان العارفین نے صحن بیت المقدس میں دس شوال المکرم 259 ھجری میں حضرت قطب وحدت سیدنا سید بدیع الدین شیخ احمد مدارالعالمین کو سلسلہ طیفوریہ میں بیعت فرماکر تاج خلافت سے مزین فرمایا

 

  نسبت,صدیقیہ,طیفوریہ,وبصریہ,طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت وخلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا-تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی معیت میں رہکر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے-ذکرواشغال اورادو وظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی تعلیم فرمائی۔



حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری


مرشد سے جدائی کے بعد حضرت سرکار سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپ نے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائی کہ دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپکا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور دنیا و آخرت سے مجرد ہوگے تجلیات ربانیہ کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنواء میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھو ں کے دریچے بند ہوئے تھے کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ. وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئی اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کہ 

''بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت قریب آگیا ہے'' گنبد خضری کے مکین رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انتظارفرمارہے ہیں 

جاری