حضرت پیر حنیف شاہ بخاری مداری

 قارئین یہ مداری میڈیا کے یوٹوب چینل پر نشر ہوئیں دو ویڈیوس کا مضمون ہے آپ ان ویڈیوس کو دیکھ بھی سکتے ہیں 
لنک یہ ہیں » https://youtu.be/d3EB1WE7rnM
لنک یہ ہیں » https://youtu.be/RZcEzNXR-0s

خلیفہ قطب المدار رضی اللہ عنہ 
حضرت سرکار پیر سید محمد حنیف شاہ بخاری مداری
رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

قارئین! حضرت سید محمد حنیف شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ ۱ ذوالقعدہ بروز جمعہ 725 ہجری کو شہر بخارا میں پیدا ہوئے (قارئین! جس شہر بخارا میں سیدمحمدحنیف بخاری پیدا ہوئے وہ ازبکستان کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے اور یہ ترکمانستان کی سرحد سے تقریبا 75 کلومیٹر شمال مشرق میں یعنی اتر اور پورب میں دریائے گرفشاں کے کنارے ایک نخلستان میں واقع ہے)
آپ کا شمار سادات بخارا میں ہوتا ہے آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید محمد عبدالحق اور والدہ ماجدہ کا نام سوا جہا ہے اور آپ کا شجرہ نسب پانچویں پشت میں حضرت سید بہاؤالدین نقشبندی بخاری سے ملتا ہے جب آپ کی عمر پاک سات سال کی ہوگئی تو آپ کے والد ماجد نے آپ کو شمس العلماء علامہ حافظ الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حصول تعلیم کے لئے حاضر کیا اور آپ 25 سال کی عمر میں تمام علوم دینیہ سے فارغ ہوگئے حصول تعلیم کے دوران ہی آپ کے والد گرامی کا انتقال ہو گیا تھا اور ساری ذمہ داریاں آپ کے اوپر آ گئیں تھیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کا زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا تھا
ابتدائی دور میں آپ اکثر شہر بخارا سے چھ میل کی دوری پر ریوگڑھ میں حضرت خواجہ محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضری دیتے تھے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہفتہ بھر مزار شریف پر ہی مراقبہ کرتے رہتے تھے ایک رات آپ مراقبے میں تھے کہ آپ کو خواجہ محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت نصیب ہوئی خواجہ محمد عارف رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ پریشان مت ہو بھروسہ رکھو کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک بزرگ شہر بخارا میں تشریف لائیں گے جو اللہ کی طرف سے مرتبۂ صمدیت اور مداریت نعت پر فائز ہوں گے ان سے کوئی ایسی کرامت ظاہر ہوگی جو عام انسانوں کو حیرت میں ڈال دے گی تو جب تمہیں پتہ چلے تو تم ان کی خدمت میں حاضر ہونا جو حصہ خدا نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے وہ تمہیں مل جائے گا
جب پیر سید محمد حنیف نے ایک ولی کی زبان سے یہ کلماتِ مبارکہ سنے تو آپ کے دل کو بہت اطمینان حاصل ہوا آخرکار دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا اور ایک دن وہ مبارک گھڑیاں آہی گئیں جس کا آپ کو بڑی بے صبری سے انتظار تھا کہ سرکار مدار العالمین حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی عنہ شہر بخارا میں تشریف لائے اور جب نماز کا وقت ہوا مدار پاک نے خلفائے باوقار کو ایک کنؤے پر وضو کے لئے پانی لانے کا حکم دیا جب وہ کنؤے پر پہنچے تو دیکھا کہ کنؤے پر ڈول رسی کچھ بھی نہیں ہے حضرت سید جمال الدین جان من جنتی نے یہ ساری حقیقت حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار سے بیان کی سرکار مدار پاک نے نے اپنا عصا دے کر حکم دیا کہ اسے کنؤے کے اوپر لے جا کر رکھ دو جیسے ہی مدار پاک کے عصا کو کنؤے پر رکھا گیا تو پانی جوش مار کر اوپر آ گیا جس سے آپ اور آپ کے حضرات خلفاء نے وضو کیا
مدار پاک سے اس کرامت کے ظاہر ہوتے ہی مخلوق خدا آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہونے لگی ایک دن ایک شخص اپنی پیدائشی نابینا لڑکی کو مدار پاک کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوا تو مدار پاک نے اس نابینا لڑکی یعنی اس اندھی لڑکی کو آنکھیں عطا کر دیں حضرت پیر محمد حنیف شاہ بخاری نے جب ان کرامات کا شہرہ سنا تو مدار پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جب آپنے مدار پاک کو دیکھا تو مدار پاک کو حضرت خواجہ محمد عارف کی بشارت کے مطابق جب پایا یعنی سرکار مدار پاک اور ان کے تمام خلفاء کے اخلاق حمیدہ وعادات کریمہ اور عبادت و ریاضت کو دیکھا تو آپ اب وہی قیام کرنے لگے اور ہمیشہ شاہ مدار کی خدمت میں رہکر حلقہ مریدین میں شامل ہوئے اور پھرآپ اس وقت سے لیکر حضرت زندہ شاہ مدار کی وفات تک ہمیشہ خدمتِ مدار میں ہی رہے جب 838 ہجری میں سرکار مدار پاک کا وصال ہوا تو آپنے مدار پاک کے حکم کے مطابق ضلع گونڈا پہنچ کر بلرامپور کے اترو پچن را بتی کو پار کر جنگل میں قیام فرمایا جہاں پر دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں تھا آپ کے اس جگہ پر جلوہ گر ہونے کے بعد مخلوق خدا آپ کی طرف کھنچنے لگی اور دھیرے دھیرے یہ غیرآباد جنگل متھرا , و بھلا نگر گاؤں کے نام سے آباد ہوگیا
پیر محمد حنیف بخاری نے یہاں سے گورکھپور نیپال شمالی بنگال بہار اڑیسہ کے قصبات اور دیہات کا بھی سفر کیا اور بہت سے بزرگان دین کو آپ سے سلسلہ مداریہ کا فیضان حاصل ہوا جسے دین و مذہب نے خوب فروغ پایا آپ کی ہدایات سے لاکھوں مخلوق خدا ایمان و اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے اور پھر آٹھ سو پچاس (850) ہجری میں حضرت پیرسید محمد حنیف بخاری رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور آپ کے مزار پاک کو بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا اسکا واقعہ کچھ اس طرح ہے
کہ جب مہاوت خان شاہ جہاں کو قید کرنے کے لئے اس کا پیچھا کر رہا تھا تو بادشاہ شاہجہاں شاہانِ بنگال سے مدد لینے کے لیے جنگلی راستوں سے ہو کر گزر رہا تھا شاہجہاں نے انہی جنگلوں میں ایک جگہ پر چند فقیروں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا تم لوگ یہاں کس مقصد سے بیٹھے ہو ان فقیروں نے بتایا کہ یہاں حضرت سید پیر محمد حنیف رحمۃ اللہ علیہ کا مزار اقدس ہے ہم لوگ انہی کی خدمت میں حاضر ہیں یہ سن کر بادشاہ شاہ جہاں نے وہیں پر قیام کیا اور مزار شریف پر حاضر ہوا اور اپنی کامیابی و کامرانی کے لیے دعا مانگی اللہ تبارک و تعالی نے پیر سید محمد حنیف بخاری مداری رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کے طفیل بادشاہ شاہجہاں کو ہندوستان کا تخت و تاج عطا فرمایا اور جب شاہجہاں بادشاہ بن گیا تو دوبارہ پھر پیر سید محمد حنیف بخاری مداری کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور مزار شریف پر عالیشان عمارت تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا جس میں پانچ گنبد کا عالی شان مزار شریف , عالیشان روضہ , اور روضے کے چاروں طرف زائیرین کے ٹھہرنے کے لئے عمارتیں اسکے عالاوہ شاہجہاں نے مزارا شریف کے چاروں طرف علی شان فاٹک کو تعمیر کرایا اور مزار کے پچھم کی طرف مسجد اور دومنزلہ نقارخانہ بھی تعمیر کروایا اور اس کے بعد مزار اقدس کے خرچ چراغ بتی کے لئے کئی علاقوں سے سوئے کی وصولی اور لاوارث جائیداد اسی خانقاہ میں وقف ہو جائے گا ایسا شاہجہاں نے حکم جاری کیا تھا
قارئین! بادشاہ شاہ جہاں کے علاوہ راجہ منگا بھی اس خانقاہ سے متاثر ہوکر عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے تھے اور راجہ بھنگا صاحب جب جب مزار شریف پر آتے تو کئی دن تک یہیں قیام کرتے تھے انہوں نے بھی یہاں کے اخراجات کے لیے گاؤں لوہری , گاؤں لوھنیّا , اور گاؤں بنکہی , کو سرکار سید محمد حنیف بخاری مداری رضی اللہ عنہ کی در گاہ شریف کے لیے وقف کیا تھا
 قارئین! بادشاہ شاہجہاں اور راجہ بھنگا کے علاوہ بلرامپور کے راجا بھی جب شکار کے لیے جاتے تو اسی دوران کئی دنوں تک پیر سید محمد حنیف بخاری کی درگاہ شعیف پر قیام کرتے تھے اور سواری کو مزار شریف سے دور روک کر کر پیدل درگاہ شریف تک آتے تھے اور مہاراجہ بلرامپور نے بھی اور راجاؤں کی طرح خود بھی اپنا خراج عقیدت کچھ اس طرح پیش کیا کہ خانقاھ کے بھنڈارے اور دیگر اخراجات کے لیے گاؤں ککر بھکوا تہہدل سنگھ پروا , کنجییاریا پوراسائرد , شوانگر , چوسار , اور گاؤں مدارگڑھ کو درگاہ کے لیے وقف کیا تھا اور مہاراجہ بلرام پور خاص طور سے دشہرے کے موقع پر یہاں کے سجادہ نشین کو اپنے یہاں بہت ہی ادب اور احترام کے ساتھ بلاتے تھے اور اعزاز و تکریم کے ساتھ نظر پیش کرکے دعاؤں کے متمنی ہوتے تھے
قارئین! ان واقعات و روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عام عوام کو حضرت پیر سید محمد حنیف مداری بخاری رضی اللہ تعالی عنہ سے عقیدت تھی اسی طرح وقت کے بادشاہ راجہ مہاراجاؤں کو بھی ان سے خاص نسبت تھی اور آج بھی اس خانقاہ شریف میں موجود آٹھ کن کا کنواں, بابا مسافر علی شاہ کی دھونی , اور ایک آب شفاء نامی کنواں جنسے ہر مرض میں شفاء میسر ہوجاتی ہے علاوہ اسکے بادشاہ شاہجہاں کی دو تلواریں بھی اس خانقاہ میں موجود ہیں جو شاہ جہاں نے حضرت بابا شیخ علی شاہ مداری رحمتہ اللہ علیہ کو اپنی نشانی کے طور پر نظر کی تھیں
حضرت پیر محمد حنیف بخاری رضی اللہ عنہ کا یہ آستانہ آج بھی لاکھوں دردمندوں و عقیدت مندوں کے لیے مرکز شفا بنا ہوا ہے جہاں سے لوگ دامن بھر بھر کر فیضان مدارالعالمین رضی اللہ عنہ حاصل کر رہے ہیں سرکار پیر سید محمد حنیف شاہ بخاری مداری رضی اللہ عنہ کا عرس مبارک عید الاضحیٰ کے موقع پر جسے عرف عام میں بڑی عید کہتے ہیں ۱۰ ۱۱ ۱۲ تاریخ کو منایا جاتا ہے اور آپکا مزار مبارک متھرا سے دوکلو میٹر کی دوری پر واقع ہے