تعزیہ شریف
شریعت کی روشنی میں
تعزیہ شریف روضئہ امام عالی مقام علیہ السلام کا تصوراتی نقشہ ہے اسے بنانا ، چومنا اور تعظیم کرنا جائز ہے جیسے دوسرے آثار و تبرکات کے نقشوں کو چومنا اور ان کی تعظیم کرنا صحیح و درست ہے - اور نقشہ بنانا اس کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا حدیث رسول ﷺ نیز بزرگان دین کے آثار سے ثابت ہے اس سلسلہ میں یہاں سب سے پہلے ہم ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس سے اس امر پر خاص روشنی پڑےگی کہ شریعت مطہرہ میں تصور، نقشہ اور نسبت کی کیا حیثیت ہے ؟
چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے
ان رجلا جآء الی النبی ﷺ قال یا رسول اللہ ! انی حلفت ان اقبل عتبتہ باب الجنتہ فامر النبی ﷺ ان یقبل رجل الام وجبهۃ الاب ویری' انه قال یا رسول اللہ ! ان لم یکن لی ابوان ؟ فقال قبل قبرهما قال فان لم اعرف قبرهما قال خط خطین و انوبان احدهما قبر الام والآخر قبر الاب فقبلهما فلا تحنث فی یمینک
( رواہ فی کفایت الشعبی ومغفره الغفور )
ترجمہ
بیشک ایک شخص حاضر ہوئے پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں - تو عرض کیا انہوں نے یا رسول اللہ بیشک میں نے قسم کھائی ہے کہ میں بوسہ دوں گا جنت کی چوکھٹ کو - تو حکم فرمایا پیارے نبی اکرمﷺ نے یہ کہ چومو پاؤں ماں کے اور پیشانی باپ کی - اور روایت کیا جاتاہے کہ بیشک انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر نہ ہوں میرے والدین ؟
تو فرمایا پیارے نبی نے کہ چوم لو والدین کی قبروں کو - انہوں نے عرض کیا نہیں پہچانتا میں والدین کی قبروں کو - فرمایا پیارے نبی نے کہ
کهینچ لو دو لکیریں اور نیت کر لو کہ ایک ان دونوں میں کی ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی قبرپهر چوم لو دونوں لکیروں کوتو حانث نہیں ہوگا اپنی قسم کے بارے میں یعنی قسم پوری ہوجائیگی
( جامع مداری شریف جلد اول صفحہ 1096 )
مسلمانوں
کتنا صاف ارشادنبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے
کہ دو لکیریں کهینچ لو اور نیت ( تصور) کر لو کہ ان میں سے ایک باپ کی قبر ہے اور دوسری ماں کی اور دونوں کو چوم لو
کیا اس حدیث سے ہم کو یہ سبق نہیں ملتا کہ بزرگوں کے مزارات وغیرہ کے نقشے بنانا اور قبر وغیرہ کا تصور کرنا اور اس کو اسی تصور اور نسبت کی بنیاد پر چومنا اور اس کی تعظیم کرنا درست ہے ؟ اور نہ صرف درست بالکہ عین منشاءنبوت کےمطابق ہیے؟
انصاف کے ساتھ بتائیں
کہ کهینچے ہوئے خط (لکیریں ) کیا ہو بہو
قبروں کے نقشے ہیں ؟
اگر نہیں ہیں ؟
اور بیشک نہیں ہیں
تو پهر مان لینا چاہئے کہ تعزیہ شریف بهی اگر چہ روضئہ امام پاک کا ہو بہو نقشہ نہ ہو مگر اپنے تصور و خیال کے اعتبار سے وہ روضئہ امام عالی مقام کا نقشہ ضرورہے اور اس کی نسبت چونکہ روضئہ امام سے کی گئی ہے لهذا نسبت کی بنیاد پر اس کو چوما بهی جائیگا اور اس کی تعظیم بهی کی جائےگی اور یہی عقیدت و ادب کا تقاضہ بھی ہے
اس لئے کہ جو چیز اللہ والوں سے منسوب ہوجاتی ہے
وہ "شعآئراللہ"قرار پاتی ہے جیسا کہ
"ان الصفا والمروۃ من شعآئراللہ "
کی بلیغ تفسیر سے ثابت ہے
اور اس کی تعظیم کا درس ہم کو قرآن کریم دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا
" ومن یعظم شعآئراللہ فانھا من تقوی القلوب "
جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی پس بیشک وہ دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے
سر دست ایک عاشق رسول کا ایمان افروز واقعہ بهی ملاحظہ فرمالیں اور غور کریں کہ اہل عشق و اہل عقیدت و محبت کی کیا شان ہوتی ہے
امام عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری شافعی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں
کسی عاشق رسول اکرمﷺ کا بیان ہے کہ وہ ظالم بادشاہ کے خوف سے جنگل میں چلا گیا وہاں جاکر اس نے ایک خط کهینچا ( لکیر کهینچی ) اور اسے نبئ کریم ﷺ کا مزار تصور کرکے ایک ہزار بار آپ کی خدمت میں صلوٰۃو سلام پیش کیا پهر یوں دعا مانگی الہی صاحب مزار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناکر عرض کرتا ہوں مجهے اس ظالم بادشاہ سے نجات عطا فرما! ہاتف غیبی نےپکارا، محمد رسول اللہﷺ کتنے اچهے شفاعت فرمانے والے ہیں اگر چہ مسافت بہت ہے لیکن وہ اپنی شان و عظمت، کرامت و منزلت کے باعث بہت قریب ہیں - جاؤ تمہارے دشمن کو ہم نے ٹهکانے لگا دیا - جب وہ واپس پلٹا تو پتہ چلا بادشاہ مر چکا ہے "
( زینتہ المحافل ترجمہ نزهتہ المجالس ج 2 ص 398)
اہل انصاف غور فرمائیں
ایک عاشق رسول نے کس طرح لکیر " بناکر اس کو قبر رسول تصور کرکے اس پر درود خوانی کی اور صاحب قبر کے وسیلہ سے دعا مانگی اور اس کی دعا قبول بهی ہوئی
جب عجلت میں بنائی ہوئی ایک لکیر کا یہ حال ہے کہ اسے قبر رسول تصور کرنے کی وجہ سے وہاں اس کی دعا قبول ہوگئ تو روضئہ امام پاک کے تصوراتی نقشہ تعزیہ شریف جو کہ انتہائی اہتمام ، محنت ، شوق اور حسن عقیدت سے بنایا گیا ہے اس کے پاس فاتحہ خوانی کرنے یا صاحب تعزیہ حضور امام عالی مقام سے مدد مانگنے یا تعزیہ شریف کے پاس ان کے وسیلہ سے مدد مانگنے میں شرعاً کون سی قباحت ہوگی ؟
اچهی طرح یاد رکهیں نہ تو شرعاً کوئی قباحت ہے
اور نہ ہی کوئی اس پر دلیل شرعی پیش کر پائیگا
مسائل شرعیہ کسی مولوی مفتی کی محض فکر سے حل نہیں ہوتے
شریعت میں تصوراتی نقشہ کی ایک اور مثال بهی ملاحظہ فرما لیں
مکہ مکرمہ " منی' " میں تین پتهر کهڑے ہوئے ہیں جو نہ تو خود شیطان ہیں اور نہ ہی شیطان کا جسمانی نقشہ ہیں - مگر انہیں شیطان کہا جاتا ہے اور ان پر رمئ جمار کیا جاتا ہے ( کنکریاں ماری جاتی ہیں ) اور شیطان کو کنکریاں مارنا کہا جاتا ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنهما فرماتے ہیں
تم شیطان کو رجم کرتے اور ملت ابراہیم کی اتباع کرتے ہو
اگر خدائے پاک نے نظر انصاف عطا فرمائی ہو تو
سمجهنے کی کوشش کریں ابراہیم علیہ السلام نے تو شیطان کو کنکریاں ماری تهیں اور ہم شیطان کا تصور کر کے پتهروں کو کنکریاں مارتے ہیں اسے حدیث میں شیطان کو رجم کرنا بتایا گیا ہے
روضئہ امام پاک سے مشابہت نہ رکهنے والے تعزیوں پر انگریزوں کے دور سے جو اعتراض کئے جانے لگے ہیں
کہ طرح طرح کی تراشیں نکال لیں جو روضئہ امام پاک کا نقشہ نہیں ہیں
کیا یہی اعتراض اوپرمذکور حدیث اور واقعہ پر نہیں ہوتا ہے کہ کہاں تو شبیہ قبر اور کہاں یہ لکیر اس لکیر کو قبر کے نقشہ سے کیا مناسبت ؟
اور کیا یہی اعتراض رمئ جمار پر نہیں ہوتا ہے کہ کہاں تو شیطان کو کنکریاں مارنا اور کہاں ان پتهروں کو کنکریاں مارنا جو شیطان کے جسمانی نقشہ سے بهی
مشابہ نہیں ہیں
دیکها آپ نے شریعت میں تصوراتی نقشہ کو کتنی اہمیت حاصل ہے ؟
اچهی شئ اور بری شئ دونوں طرح کے تصوراتی نقشوں کی مثال موجود ہے اور جس کی نسبت جیسی ہے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کا درس بهی ہے
لهذا تعزیہ شریف بنانا شرع شریف کی روشنی میں جائز بلکہ مستحسن ہے پهر خواہ وہ روضئہ امام پاک کا نقشہ ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں نسبت حسینی کی وجہ سے اس کی تعظیم کی جائیگی
اس کی زیارت کرنا بزرگان دین کی سنت ہے اس کے قریب فاتحہ خوانی کرنا بهی جائز ہے اور دعائیں مانگنا منتیں مانگنا بهی جائز - اور ناجائز و حرام کہنا بلا دلیل ہے شریعت میں جس کی کوئی حیثیت نہیں - بلکہ ناجائز و حرام کہنا ہی ناجائز و حرام ہے - کہ یہ شریعت مطہرہ پر افتراء ہے
اللہ رب العزت سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین !
کتبہ
فقیر مداری سید منورعلی حسینی جعفری
خادم درگاہ معلیٰ حضورسیدنا مدارالعالمین رضی اللہ تعالی عنہ
دارالنور مکن پور شریف
ضلع کان پور یو پی انڈیا
+91 7068357068