کونڈوں کے تعلق سے ایک اہم نظریاتی خاکہ
ازقلم
سیدازبر علی مداری
آج ملت اسلامیہ میں نئے نئے اختلافی مسائل پیدا کرکے کاروباری علماء نے اہلسنت کو سیدھے راستے سے ہٹاکر اپنے مسلک ومشرب طرق و اطوار کا سلاسل کا پابند کرنے کیلئے نئ نئ تاویلوں کے خرمن تعمیر کرلئے ہیں
بالخصوص حضرات اہلبیت علیھم السلام سے منسوب ومربوط القاب وتقاریب کا گلا گھوٹنے کیلئے خون آشام خنجر آستینوں میں چھپے ہیں اور جب جہاں موقعہ لگا ایک ایک حسین گلے پر فتوے کا خنجر پیوست کردیا
مثال کے طور پر حضرات ائمئہ اہلبیت کیلئے علیھم السلام کا استعمال حرام ہے
تعزیہ داری حرام ہے
علم مہندی جلوس حسینی حرام
نعرئہ حیدری لگانا شیعت
مولی علی سے محبت کرنا رفض
جشن عید میلادالنبی ﷺ میں ذکر شہادت حسین کرنا ناجائز مولی علی کرم اللہ وجہ الکریم ُُ سید نہیں
اسی طرح سے ٢٢رجب کو نذرو نیاز امام جعفر صادق پر بھی فتوی
کہ یہ اہل تشیع کا شعا ر ہے
لہذا سنی مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ شیعوں نے حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر بطور تبراو مسرت رائج کیا ہے
جبکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت ١٥ رجب ہے
تو ٢٢ کو کونڈے کیسے
بعض کا کہنا ہے کہ یہ ١٥٠ سال پرانی ایجاد ہے
اس سلسلے میں سب سے پہلے تاریخی حقائق وشواہد کی روشنی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اختلافی نظریات قارئین کی پیش خدمت ہیں
تاکہ پہلی غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وصال ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے
چنانچہ
حضرت علامہ سعد بن ابراہیم کے نزدیک تاریخ وصال یکم رجب المرجب ہے
علامہ ابن اسحاق نے لکہا ہے کہ ۸ رجب تاریخ وفات ہے بحوالہ البدایہ و النھایہ علامہ ابن کثیر
۱۵ رجب المرجب تاریخ وصال ہے علامہ ابن جوزی
تلقیح فحول اھل الاثر
علامہ ابن حجر و ابن عبد البر نے فرمایا کہ جب آپکی وفات ھوئی تو رجب کی چار راتیں باقی تھیں تھیں یعنی ۲۵/۲۶ رجب کو وفات ہوئی بحوالہ الاستیعاب فی معرفة الاصحاب و تھذیب التھذیب
علامہ طبری نے تین اقوال نقل کیئے ہیں ۱. یکم رجب
۲. ۱۵ رجب
۳.وفات کے وقت رجب کی آٹھ راتیں باقی تھیں بحوالہ تاریخ الامم و الملوک جریر طبری
اس حوالہ میں اگر مہینہ انتیس کا تھا تو ۲۱ رجب وفات کی تاریخ ہوئی اور اگر ۳۰ کا مہینہ تھا تو ۲۲ رجب وفات کی تاریخ ھوئ
اب جبکہ معتبر ائمہ تواریخ و سیر کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ وفات ۲۲ رجب علمائے اھلسنت کے نزدیک متیقن نہیں ھے
نہ جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات سن 60 سے لیکر سن 1440ہجری تک یعنی تقریبا 1380 سال تک کہیں اس 22رجب کو عرس نذرونیاز یا انکی وفات کا دھوم دھڑاکہ اہلسنت کے یہاں بالخصوص نہیں ملا
پھر ٢٢رجب کو انکی وفات کی خوشی منانے کاالزام ہمارے سر کیوں ؟
ہاں اگرشیعوں میں یہی وجہ ہو تو ہم سے شیعوں سے کیا مطلب کہ ہم نے تو
ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ سنا ھے
کہ اس ۲۲ رجب کی تاریخ میں حضور امام جعفررضی اللہ عنہ کو امامت کبریٰ و قطبیت عظميٰ کے منصب پر فائز کیا گیا
اس عظیم نعمت کے حصول کی خوشی میں امام پاک شیرینی تقسیم فرمایا کرتے تھے
بعد کے زمانے میں وہ کونڈوں کی نیاز کی شکل میں تبدیل ہوگیا طریقہ اھل سنت کے مطابق اس نیاز میں کوئی شرعی قباحت نھیں ہے
سنی مسلمان بائیس رجب المرجب کو طریقہ شرعیہ کے مطابق نذرو نیاز کا اہتمام کریں
رہا یہ کہنا کہ ١٥٠ سال پرانی ایجاد ہے تو میں گوش گزار کئے دیتا ہوں کہ
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہــلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اہلبیت سے وابسطہ تقاریب وایام جیسے ۲۲ رجب کے کونڈوں کی فاتحہ قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے، جو ہندوستان کی ایجادیں نہیں ہیں ـ
(تحفۂ اثنا عشریہ)
مفتئ اعظم پاکسـتان علامہ و مولانا مفتی محـمـدخلیل خان قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ بانی و شیخ الحدیث احسان البرکات حیدرآباد
فرماتے ہیں
ماشاءاللہ
اس ماہ رجب میں حضرت جلال بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور بعض جگہ حضـرت سیـدنا امام جعفر صــادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصال ثواب کے لئے کھیر پوری پکا کر کونڈے بھرے جاتے ہیں اور فاتحہ ( نذر نیاز) دلاکر لوگوں کو کھلاتے ہیں یہ بھی جائز ہے ـ
( سنی بہشتی زیور ـ کامل / ۳۱۸)
اب ان دلائل کی روشنی میں بات اظہر من الشمس ہوگئ کہ ٢٢ رجب کو اہلسنت کے معمولات میں نذر نیاز کونڈے شریف شامل ہیں لہذااس تقریب کونڈے کو شرعی طریقہ پر منانا جائز ہے
واللہ اعلم بالصواب
سیدازبر علی مداری مکن پور شریف