بابا فرید پر فیضان مداریت

 بابا فرید الدین مسعود گنج شکرکے فیضان مدارالعالمین رضی اللہ عنہ کے حصول

 اور دربار اقدس میں مدار پاک سے عقیدت کا مختصر سا تذکرہ 

قارئین یہ مداری میڈیا کے یوٹوب چینل پر نشر ہوئی ویڈیو کا مضمون ہے آپ ان ویڈیوس کو دیکھ بھی سکتے ہیں 

لنک یہ ہیں » https://youtu.be/PQ1guSoOKOE


برِّصغیر پاک و ہند میں جن مُبارَک ہستیوں نے نیکی کی دعوت کو عام کیا

ان میں سے ایک آسمانِ ولایت کے درخشندہ ستارہ

سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المرتبت بزرگ شخصیت 

حضرت بابا فریدُ الدّین مسعود گنج شکر فاروقی حنفی چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذاتِ گرامی بھی ہے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت باسعادت 569ھ یا 571ھ 

مطابق 1175ء میں مدینۃُالاولیا ملتان کے قصبہ”کَھتوال" میں ہوئی۔

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والدِ ماجد حضرت شیخ جمالُ الدّین سلیمان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ زبردست عالمِ دین تھے

اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی قُرسم خاتون رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا نیک پرہیزگار خاتون تھیں

والدِ گرامی کے وصال کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تربیت آپکی والدہ ماجدہ نے فرمائی 

(سیرالاولیاء مترجم،ص159)

(انوارالفرید،ص42،48)

(حیاتِ گنج شکر،ص253،258 ماخوذاً)


ناظرین ذی وقار!

 سرکار بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ حفظِ قراٰن اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدینۃُ الاولیا ملتان تشریف لے گئے 

 اور قراٰن و حدیث، فقہ و کلام اور دیگر علومِ مُرَوَّجہ پر عبور حاصل کیا۔

 (خزینۃ الاولیاء،ج 2،ص110)

 (چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر،ص50)

 (محبوب الٰہی، ص53)

بچپن سے ہی آپ  پابند نماز  ذکر اذکار  عبادت و ریاضت کرنے والے اولو العزم ولی اللہ تھے تقوی وپرہیزگاری کی آبیاری کی تمام حکمتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھے 


 ناظرین

 یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سرکار بابا فرید کو حضرت قُطبُ الدّین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی

 لیکن سرکار بابا فرید کو اس نسبت کے ساتھ ساتھ نسبت مدار العالمین کی مناسبت سے فیضان مدارالعالمین رضی اللہ عنہ بھی حاصل تھا جو کہ سرکار مدار پاک کے خلیفہ سرکار سید محمد جمال الدین سے ہوتا ہوا سرکار سید تاج برہنہ ادموری رحمتہ اللہ علیہ سے آپکو حاصل ہوا جو کہ کچھ اس طرح ہے

   کہ آپ یعنی حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ

   آپکے پیر و مرشد حضرت سید تاج برہنہ ادموری رحمتہ اللہ علیہ

   اور آپکے پیر و مرشدحضرت سید بندگی صادق رحمتہ اللہ علیہ

   اور آپکے پیر و مرشد ہیں حضرت سید شاہ سدھن سرمست رحمۃ اللہ علیہ

   اور آپکے پیر و مرشد ہیں حضور سیدنا محمد جمال الدین جانمن جنتی بغدادی

   اور آپکے پیر و مرشد قبلہ و کعبہ حضور سیدنا بدیع الدین احمد زندہ شاہ قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ ہیں

ناظرین

 یہ نسبت مداریہ ایک دوسرے طریقے سے بھی آپکو حاصل ہے

 جسکے متعلق مفسراعظم پاکستان مفتی محمدفیض احمد اویسی رضوی محدث

  بہاولپورنوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں

کہ سلاسل روحانیہ میں سے ایک سلسلہ سلسلۂ اویسیہ کوبھی یہ شرف حاصل ہے کہ چندواسطوں سے یہ سلسلہ سرکارکریم رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچتا ہے اور اس نسبت سے حضور شیخ الاسلام سیدنا خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ،(پاک پتن شریف) کو بھی سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی۔

(ملک العارفین صفحہ نمبر 125)

اب سامعین یہاں پر ایک اور نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں جیسا کہ ابھی ہم نے آپکو بتایا کہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کو سرکار مدار کا فیضان آپکے خلیفہ سرکار جمال الدین جانمن جنتی سے ہوتا ہوا پہنچتا ہے

اور سرکار جمال الدین جانمن جنتی کا سلسلہ دیوان کہلاتا ہے

جو حضور سیدنا سید جمال الدین جانمن جنتی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی شروع ہوا ہے اور یہ گروہ حضور سرکار سرکاراں سیدنا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ کے چار مشہور گروہوں میں سے ایک گروہ ہے اور جو اس گروہ سے ہوتے ہیں وہ خود کو دیوان کے نام سے موسوم کرتے ہیں

 بس اسی طرح سرکار بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ کے سجادگان آج تک خود کو دیوان کے نام سے موسوم کرتے  آ رہے ہیں اور اسے پتہ یہ چلتاہے کہ یہ مقدس شخصیات سرکار جمال الدین جانمن جنتی کے سلسلہ سے وابستہ ہیں 

 اور وہ اپنے نام سے پہلے دیوان لگا کر اپنی اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے

 اور ان شخصیات کے نام آپ اپنی اسکرین پر بھی دیکھ سکتے ہیں

مثلاً

دیوان خواجہ بدرالدین سلیمان رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ علاؤ الدین موج دریا رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ معز الدین رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ محمد فضیل رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ منور شاہ رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ نور الدین رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ بہاؤالدین بارون رحمتہ اللہ علیہ

دیوان شیخ یونس رحمۃ اللہ علیہ

دیوان پیر احمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ

دیوان خواجہ پیر عطا رحمتہ اللہ علیہ 

دیوان خواجہ شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ

دیوان شیخ ابراھیم فرید ثانی رحمتہ اللہ علیہ

(رسومات فریدی صفحہ 29م


قارئین!

ان پاکباز اولیآء کرام کا خود کو دیوان لکھنا اپنے آپ میں ایک  بڑی دلیل ہے

 کہ یہ بزرگ ہستیاں سلسلہء عالیہ مداریہ کی نسبتوں کو کس قدر فخر کے ساتھ اپنے سر اور ماتھے سے لگائے ہوئے تھے اور سامعین آپ ان کی عقیدت کا اندازہ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں جسکےبارے میں جناب محمد بشیر احمد چشتی لکھتے ہیں کہ سرکار بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا عرس 25 ذوالحجہ سے شروع ہوتا ہے جبکہ عرس کی خاص تاریخ پانچ اور چھ محرم  ہیں

  

عرس کی تمام رسومات کو چار(4) حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

جس کی پہلی(1) رسم ختم شریف  دوسری(2) رسم سماع

 تیسری(3) رسم بہشتی دروازہ کا کھلنا اور چوتھی(4) رسم غسل

  سامعین ان تمام رسموں میں تیسری رسم یعنی بہشتی دروازے کا کھلنا یہ رسم بہت خاص ہے جسکے متعلق محمد بشیر احمد چشتی لکھتے ہیں کہ 5 محرم کو عرس کی بہار پورے جوبن پر ہوتی ہے اور لاکھ سوا لاکھ کے قریب مخلوق خدا کی تعداد لاکھ سوا لاکھ کے قریب پاکپتن شریف میں درگاہ بابا فرید پر جمع ہو جاتی ہے اور اس بڑی تعداد میں صرف عام عوام نہیں بلکہ درگاہ نظامیہ صابریہ کے بڑے بڑے سجادہ نشین اور درگاہ خواجہ غریب نواز کے خادمان بھی اس میں جمع ہوتے ہیں اور تب تک نہیں جاتے جب تک بہشتی دروازے سے گزر نہیں جاتے 

   (رسومات عرس فریدی صفحہ 41)


لیکن سامعین میں جو نکتہ آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے

کہ مغرب سے ذرا پہلے دیوان صاحب  یعنی سجادہ نشین خود اپنے ہاتھ سے بہشتی دروازہ کھولتے ہیں اور پہلے دیوان صاحب اور ان کے متعلقین پیران عظام اور انکے متوسلین گزرتے ہیں اس کے بعد عام لوگوں کو اجازت ہوتی ہے دروازہ کھلنے کے بعد بعد پہلے دیوان صاحب خود روضہ مبارک میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کے خواہش اقارب اور اکابرین و اولاد فریدیہ داخل ہوتے ہیں

 پھر صابریہ نظامیہ سلسلوں کے بزرگ اور سجادہ نشین اپنے اپنے گروہ کے ساتھ ساتھ داخل ہوتے ہیں دیوان صاحب اندر داخل ہوتے ہیں تو ہر دو مزارات پر مٹی کے پیالے میں شربت بھرا ہوا ہوتا ہے اور اس شربت پر حضرت سرکار سیدنا بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار العالمین رضی اللہ عنہ کا ختم شریف پڑھا جاتا ہے

 سامعین مدار پاک کے ختم شریف کے پڑھے ہوئے شربت کو دیوان صاحب اور آپ کے ساتھی پیتے ہوئے نوری دروازہ سے روضہ کے باہر آتے ہیں

                    (رسومات عرس فریدی صفحہ 46)

 اور سامعین اس رسم کی ادائیگی کی وجہ کے متعلق محمد بشیر احمد چشتی لکھتے ہیں

   کہ ایک مرتبہ جب خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری کی موجودگی میں

      حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے بابا فرید الدین کو دستار بندھائی تو اس محفل میں حضور سرکار سیدنا بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار بھی موجود تھے جب دستاربندی چکی تو حضرت شاہ مدار نے فرمایا فرید فرد بابا ہمیں بھی یاد رکھنا چنانچہ اسی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے بہشتی دروازہ کی ابتداء کے وقت مٹی کی چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں شربت کے پیالے بھر کےحضرت شاہ مدار کے نام کا فاتحہ دلایا جاتا ہے (رسومات عرس فریدی صفحہ 52) سامعین ان تمام باتوں سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کی سرکار بابا فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ کو بھی فیضان مداری حاصل ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ کے عرس مبارک کی رسومات بھی بھی بغیر ذکر مدار العالمین کے مکمل نہیں ہوتی


 آپ رضی اللہ عنہ کی نیکی کی دعوت سے ہزاروں غیر مسلموں کو دولتِ اسلام نصیب ہوئی، گمراہ راہِ راست پر آئے اور سینکڑوں نے ولایت کے درجے طے کئے۔  آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال، 5محرمُ الحرام 664ھ بمطابق 17 اکتوبر 1265ء کو ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزارِ پُراَنوار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاکپتن شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے

تحریر کردہ : مداری میڈیا (سوشل میڈیا پلیٹ فارم)