کون کہتا ہے کہ کردار بہت کام آیا



کون کہتا ہے کہ کردار بہت کام آیا 

حشر میں دامن سرکار بہت کام آیا


راستہ ملتانہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو

عصبہ احمد مختار بہت کام آیا


ڈھونڈتی پھرتی ہیں دنیاکی مسرّت مجھ کو

آپ کا غم میرے سرکار بہت کام آیا


مل گئی آبلہ پائی کو ہماری معراج

وادئ بطحہ کا ہر خوار بہت کام آیا


وہ ہیں صدیق و عمر اور ہیں عثمان و علی

جن کا ہر جذبہ ایثار بہت کام آیا


مل گئی دین کے گلشن کو حیات ابدی

خون سبت شہ ابرار بہت کام آیا


خوف تھا غم تھا اندھیرا تھا مگر اے آقا

قبر میں آپکا دیدار بہت کام آیا


تونے محضر کو ہے پہنچادیا آقا کے قریب

تو میرے اے دل بیمار بہت کام آیا