ایمان ‏ابو ‏طالب - ‏قیصر ‏رضا ‏مداری

MADAARIYA LIBRARY

ایمان ‏ابو ‏طالب

 ‏بعنوان ‏مقدمہ ‏کتاب ‏خواجہ ‏بطحا ‏مولانا ‏شیدا ‏کمالی ‏..مقدمہ ‏مفتی ‏قیصر ‏رضا ‏مداری

مقدمتہ الکتاب


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

نحمدہ ونصلی ونسلم علی حبیبہ الکریم امابع 

اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

مااٰتکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا

یعنی رسول پاک جودیں اسےلےلواورجس بات سےمنع کردیں اس سےرک جاؤ 

بعدخطبۂ مبارکہ مقدمتہ الکتاب کاآغازکرتاہوں حضرت پیرنصیرگولڑوی کےان اشعارسے 


میں کہونگا کہ ہےمحروم بڑی نعمت سے 

جوکوئی دست کشِ خوانِ ابوطالب ھے 


الفت پنجتن پاک نےبخشا یہ شرف 

آج کل دل مِرامہمان ابوطالب ھے

 

بعدتحقیق احادیث وروایات نصیر

میرادل قائل ایمان ابوطالب ھے


ناظرین محترم


جس طرح فخرملت پاسبان اہلسنت مقبول بارگاہ پاک عترت حضرت علامہ ومولانا صوفی پیر فخرعالم شیداکمالی صاحب قبلہ کی نامی گرامی بھاری بھرکم شخصیت ہرطبقےمیں کافی مشہورومقبول ھے  اسی طرح انکی تصانیف بھی ہرطبقےکیلئےکسی عظیم سوغات سےکم نہیں ہوتی ہیں 

میں ذاتی طورپرجناب مولف کتاب ھذاکوبہت قریب سےجانتاہوں اوراسکی روشنی میں لکھ رہاہوں کہ انھیں جیسی علمی ومذھبی شخصیات  علمائےحق کی انجمن میں مسند عزت وعظمت کی زینت بنتےہیں    انھیں کےمثل حق شعارعلمائےدین اس زمین کی زینت اورملت کاوقاروسرمایہ ہوتےہیں حضرت بابرکت علامہ پیرصوفی فخرعالم شیداکمالی کی یہ تصنیف لطیف المسمیٰ بہ خواجۂ بطحاءحضرت ابوطالب کودیکھکر دل کوبڑی راحت میسرہوئی  ویسےتو علامہ کمالی کی اکثرتصنیفات اہلبیت پاک کےہی پاک تذکروں پرمشتمل ہیں 

اورسب کی سب عوام وخواص کےدرمیان کافی مقبول ہیں 

لیکن حضرت علامہ کی یہ تصنیف بہت ہی اہم اورخاص الخاص ھے کیونکہ یہ ایک ایسےموضوع پرلکھی گئی ھے جس پرخامہ فرسائی ہرکس وناکس کےبس کی بات نہیں ھے اس مسئلےکواعتدال ووسطیت کیساتھ نبھانےکیلئے بہت گہرےمطالعہ کیساتھ ساتھ کامل طورپرمومنانہ  فہم وفراست درکارھے 

میں نےحضرت علامہ کی اس کتاب کو بہت دلچسپی کیساتھ ملاحظہ کیاھے اسلئےمکمل یقین واعتمادکیساتھ لکھ رہاہوں کہ یہ مایہ ناز تصنیف بیشمار اہل علم کےافکارونظریات کاقبلہ تبدیل کردیگی  کیونکہ حضرت مصنف نےاپنےموقف کودلائل قاہرہ وبراہین ساطعہ سےمرصع کرنےکےساتھ ساتھ  بڑےسلیقہ وشعورکیساتھ اپنی بات کو پیش فرمائی ھے اوربڑے مزےکی بات یہ بھی ہےکہ یہ کتاب جس طرح حضرت ابوطالب کےایمان واسلام پر دلائل قاہرہ کا مجموعہ ھےاسی طرح اس بزرگوارکی سیرت وسوانح کابھی بیش بہاحصہ اس کتاب میں شامل ہوگیاھے 

حضرت موصوف کااس زمانےمیں اس موضوع پرقلم اٹھانابہت ضروری تھا 

کیونکہ اس مسئلےکےبابت اس دورمیں جوجاہلانہ اورمتعصبانہ رویہ اختیارکیاگیاھے وہ اس بات کامتقاضی تھاکہ اس عنوان پرپوری علمی دیانت داری کیساتھ کام کیاجائے ناظرین کتاب کےاندر بچشم خودملاحظہ کرینگے کہ مصنف موصوف نے اپنےموضوع کوبہت ہی خوبصورتی اوردیانتداری کیساتھ نبھایاھے 


ناظرین گرامی قدر ! آپ مکمل وثوق کیساتھ جان لیں کہ 

قرآنی آیات کےمفاہیم و احادیث کریمہ اوراقوال اکابرسےسرکاربطحاءسیدناحضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامومن کامل  ہوناروزروشن کی مانندعیاں ھے

قرآن عظیم کی کسی صریح آیت سےانکاعدم ایمان ثابت نہیں ہوتا نیزاگربنظرغائردیکھاجائےتوانکےعدم ایمان کی اکثرروایات قرآن عظیم سےمتعارض ومتصادم نظرآتی ہیں لھذایسی صورت میں ہروہ روایت غیردرست وناقابل قبول ہوگی جوکتاب اللہ سےمتعارض ومتصادم ہو 

  


قرآن پاک سے 

حضرت ابوطالب کےمومن ہونےکی دلیل


قال اللہ عزوجل ماکنت تدری ماالکتاب والایمان یعنی" نہ توآپ کتاب کوجانتےہیں اورنہ ہی آپکوایمان کاپتہ تھا "

 (شوریٰ آیت نمبر۵۲ ) 


حضرت امام قسطلانی اس آیت کریمہ کےتحت  فرماتےہیں کہ امام مادردی امام واحدی اورامام قشیری رحمتہ اللہ علیہم نے اس آیت کےضمن میں روایت بیان کی ھےکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ ارشاد کہ آپکواس سےپہلےکتاب اورایمان کی کچھ خبرنہ تھی حذف مضاف کےباب سےہے 

یعنی ایمان کاپتہ نہیں تھا تویہ بات حضرت ابوطالب اورحضرت عباس اوردوسرےصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کےمتعلق ہےکہ محبوب ! آپ کےبتانےسےپہلےیہ نہ توکتاب کوجانتےتھےاورنہ ہی ایمان کی کچھ خبرتھی متن ملاحظہ ہو


 *واماقولہ تعالیٰ "ماکنت تدری ماالکتاب والایمان*

 *حکاہ المادردی والواحدی والقشیری وقیل انہ من باب حذف المضاف ای ماکنت تدری اہل الایمان ای من الذی یومن ابوطالب اوالعباس اوغیرھما*


(مواہب الدنیہ للامام احمدبن محمدبن ابی بکرالخطیب قسطلانی جلددوم ص۸۹ مطبوعہ بیروت )


امام زرقانی علیہ الرحمہ مذکورہ بالاعبارت کی تشریح فرماتےہوئےلکھتےہیں کہ

 

*انہ من باب حذف المضاف أی  ماکنت تدری اھل الایمان من الذی یومن ابوطالب (عبدمناف) اوالعباس اوغیرھمافلماینافی انہ مومن باللہ وصفاتہ وقدیدل لہ بقیتہ آیتہ ولٰکن جعلناہ نورًانہدی بہ من نشآءمن عبادنا*


یعنی یہ آیت حذف مضاف کےباب میں سےہے اوروہ اہل ایمان لوگ جوپہلےایمان کونہ جانتےتھے اورایمان لائےوہ ابوطالب (عبدمناف‌‍‍

یاعباس اوردوسرےلوگ ہیں اوران لوگوں کااللہ عزوجل کی ذات وصفات پر ایمان لاناآیت مذکورہ کےمنافی نہیں بلکہ یہ توآیت کریمہ کےآئندہ آنےوالےبقیہ اس حصہ پردلالت کرتی ہےکہ "لیکن ہم نےاس قرآن کونوربنایا جس کےذریعہ سے ہم اپنےبندوں میں سےجس کوچاہیں ھدایت کرتےہیں "


ناظرین پرواضح ہوناچاہئےکہ مذکورہ دلیل ثبوت ایمان حضرت ابوطالب کےباب میں اس درجہ ٹھوس اورمضبوط ہےکہ جسےہزاروں تاویلوں کےباوجود نہ توالجھایاجاسکتاھے اورنہ ہی مستردکیاجاسکتاھے ـ ـ ـ



 

لھذا اب ہم ذیل میں اولاً انکےمومن ہونےکی کچھ روایات نقل کررہےہیں تاکہ انکی روشنی میں لوگوں کو اس عالی قدرکامقام ومرتبہ اورعلوِشان کاعلم ہوسکے 


روایات ملاحظہ ہوں 


روایت نمبر۱


قَالَ العباس واللہ لقد قالَ اخی الکلمتہ اللتی امرتہ بھا

یعنی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے رسول سے کہا خداکی قسم میرے  بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیا ھے آپ انھیں جس کلمہ کے پڑھنے کا حکم دے رہیے تھے


(روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج ۱ صفحہ ۲۸۵)


اسی روایت کوامام عبدالوھاب شعرانی نےاسطرح سےنقل کیاھے


 قال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمامات ابوطالب سنتہ عشرمن النبوةوکان قدبلغ عمرہ بضعاوثمانین سنۃودخَل علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مرض موتہ وقال لہ یاعم قلہا یعنی کلمۃ الشھادة استحل لک بہاالشفاعتہ فلماتقارب منہ الموت جعل یحرک شفتیہ فأصغی الیہ العباس باُذنہ وقال واللہ یاابن اخی لقدقال کلمۃ التی امرتہ بہافقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحمدللہ الذی ھداک یاعم


یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھماسےروایت ھےکہ حضرت ابوطالب نےنبوت کےدسویں سال انتقال فرمایا اوراسوقت انکی عمرشریف ۸۵سال سےاوپرتھی اورانکےمرض الموت میں رسول پاک علیہ السلام انکےپاس تشریف لےگئےاورفرمایاچچاجان !  کہدیجئےیعنی کلمئہ شھادت پڑھئے تاکہ آپکی شفاعت کرناھمارےلئےجائزہوجائے پس جب آپکی وفات کاوقت قریب آیاتوآپکےہونٹ ہل رہےتھے توحضرت عباس نےآپکےہونٹوں پرکان لگادئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکہاکہ اےابن اخی خداکی قسم ابوطالب نےوہ کلمہ کہہ دیاھے جسکاآپ نےانھیں حکم دیاتھا یہ سن کرحضورانورعلیہ السلام نےفرمایاالحمدللہ الذی ھداک یاعم یعنی اےچچا شکرھےاس معبودبرحق کا جس نےآپ کوھدایت بخشا


(کشف الغمہ للامام عبدالوھاب شعرانی ص ۱۲۰ مطبوعہ مصر)  


حضرات! سیدناسرکار ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلمہ پڑھ لینے کی یہ وہ شھادت ھے جو اسی وقت دےدی گئی تھی جس موقع پر آپ سے تلقینِ کلمہ کا معاملہ درپیش تھا

اس روایت کے ہوتے ھوئے وہ روایتں  کیونکر دلیلِ کفر بنائی جاتی ھیں جنکے راویان نہ تو اس مجلس میں موجود تھے اور نہ ھی حضرت عباس سے زیادہ ثقہ وقوی ھیں


روایت نمبر۲


*اِنَّ اللہ تعالیٰ احیاللنبئِ صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمَّہ اباطالب وامن بہ*


یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کیلئے ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ بزرگوار ان پر ایمان لے آئے


(مختصر تذکرۂ قرطبی ج۱ صفحہ ۶)


حضرات!


محبینِ ایمان واسلام کیلئے یہ روایت بھی کچھ کم نھیں ھے ھاں منکرین کیلئے ایک دفتر بھی ناکافی ھے

اس روایت کو قدرے کمی بیشی کےساتھ صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی نے بھی بیان کیا ھے بلفظہ ملاحظہ فرمائیے


روایت نمبر۳


وقد جاءفی بعض الروایات ان النبئ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما عادَ مِن حجتہ الوداع احیئَ اللہ لہ ابویہ وعمہ فآمنوا بہ


یعنی اور بیشک بعض روایات میں آیاھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے  تشریف لائے تواللہ تعالیٰ نے آپکے لئے آپکے والدین اور چچا ابوطالب  کو  زندہ فرمایا اور وہ سب آپ پر ایمان لائے

(روح البیان  ج۳صفحہ ۴۱۶)


علاوہ ازیں امام ابنِ حجر مکی قدس سرہ نے بھی آپکے ایمان کی یہ روایت نقل فرمائی ھے ملاحظہ کیجئے


روایت نمبر ۴


ومن معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم احیاءالموتیٰ وکلامھم وفی الخبر ان اللہ تعالیٰ أحییٰ لہ ابویہ وعمہ اباطالب فآمنوابہ


یعنی اللہ کے رسول علیہ السلام کے معجزات میں سے مردوں کو زندہ فرمانا اور انکے ساتھ گفتگو فرمانا ھے روایت میں آیاھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکے والدین کریمین اور عمِ محترم حضرت ابوطالب کو زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لائے


(النعمتہ الکبریٰ صفحہ ۹۱)


حضرات! اسکے علاوہ امام عبدالوھاب شعرانی نے بھی آپکے ایمان کی روایت اس انداز میں بیان کی ھے ملاحظہ ھو


روایت نمبر۵


ذکرَسلمہ بن سعید الجعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انَّ اللہ تعالیٰ احییٰ للنبئِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمَّہ اباطالب وآمنَ بہ


یعنی روایت کیا حضرت سعید بن جعفی نے کہ بیشک زندہ کیا اللہ تعالیٰ نے حضورِ پاک علیہ السلام کے لئے انکے عمِ محترم حضرت ابوطالب کو اور وہ ان پر ایمان لائے 


روایت نمبر۶

روئَ عن اسحاق بن عبداللہ بن حارث قال قال العباس لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اترجولابی طالب ؟ قال کل الخیرارجومن ربی

یعنی اسحاق بن عبداللہ بن حرث سےروایت ہےکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کیاآپ ابوطالب کیلئےپُرامیدہیں رسول پاک علیہ السلام نےارشادفرمایاکہ ہم اپنےپروردگارسےانکےلئےہرخیر اوربھلائی کیلئےامیدوارہیں


( طبقات ابن سعدجلداول ص ۱۲۱  

خصائص کبریٰ جلداول ص ۲۱۵ مطبوعہ مدینہ منورہ 

تفسیرمراح لبیدجلددوم ص ۱۴۷ 


صاحب تفسیرمراح لبید امام محمدنوی الجاوی مذکورہ حدیث پاک کی تشریح کرتےہوئےرقمطرازہیں کہ


 ممایدل علیٰ ان اباطالب مومن "ارجومن ربی "ورجاوہ محقق ولایرجو کل الخیرالامومنل

 یعنی رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم کا یہ فرمان کہ میں اپنےپروردگارسے انکے (حضرت ابوطالب)  کیلئےہربھلائی کی امیدکرتاہوں اس امرکی دلیل ھےکہ حضرت ابوطالب مومن ہیں اورحضور ختمی مرتبت علیہ السلام کاانکےلئےپُرامیدہونامحقق ہےجبکہ ہرخیراوربھلائی کی امید سوائےمومن کےنہیں کی جاسکتی


(تفسیرمراح لبیدجلددوم ص ۱۴۷ مطبوعہ مصر



روایت نمبر۷


عن ابن عمرقال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ

 وسلم اذاکان یوم القیامۃشفعتُ لابی وعمییعنی حضرت عبداللہ بن عمرسےروایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایا کہ جب قیامت قائم ہوگی تومیں اپنےوالدین اورچچاجان کی شفاعت کروں گا


(خصائص کبریٰ ص ۲۱۶ 

مسالک الحنفاءص ۳۱ 

الدرج المنیفہ ص ۷

 الحاوی للفتاویٰ ص ۲۱۰ )


ناظرین روایت مذکورہ بھی حضرت ابوطالب کےمومن ہونےکی قوی دلیل ہےکیونکہ آقاعلیہ السلام کسی کافریامشرک کی شفاعت نہیں فرمائینگے چنانچہ مذکورہ بالاجملہ روایات سےیہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت سیدناابوطالب  مومن کامل ہیں اورآپکےایمان لانےمیں کوئی شک وشبہ نہیں ھے  راقم السطور گدائےکوئےسرکارابوطالب فقیر محمدقیصررضا شاہ علوی حنفی مداری  عرض کرتا ھے کہ 

کفر ابو طالب پر جتنی ساری روایتیں ھیں وہ سب درایۃً مشکوک اور مضطرب ہیں 

ہماری مذکورہ تحریر  پر احباب اھلسنت میں سے کچھ حضرات اختلاف ظاھر فرماسکتے  ھیں 

لھذا میں ان تمام حضرات سے عرض گزار ھوں کہ آپ تمامی صاحبانِ علم وتحقیق کو اختلاف کا بھر پور حق   حاصل ھے لیکن 

 واضح ہونا چاہئے کہ نام جنکا عمران اور کنیت ابو طالب ھے

 جو دادا ھیں حضرت امام عالی مقام سیدنا آقا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے

 اور والد گرامی ھیں مولیٰ المسلمین سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے

اور 

 ھمدرد

وغمگسار

ووفا شعار

 وجانثار

و عاشق زار 

عمِّ باوقار 

ہیں سید الانبیاء خاتم رسولاں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 

 ان برزگوار کے ایمان واسلام کا مسئلہ کچھ اسطرح سے اختلاف کا شکار ھے

 کہ فرقہُ ضالہ حشویہ کلّی طور پر انھیں کافر قرار دیتا ھے

 جبکہ دوسراگمراہ فرقہ رافضیہ کلّی طور پر انھیں مسلمان وصاحبِ ایمان کہتاھے

 لیکن اکابرین اھلسنت میں کچھ حضرات انکے عدم ایمان کا قول کرتے ھیں

اور کچھ حضرات انکے  ایمان وعدم ایمان  کے بارے میں سکوت کے قائل ھیں

 لیکن  اکثر اکابرین انکے ایمان واسلام کے قصیدہ خواں ھیں

 خاص طور سے بزرگان دین اولیاء کاملین ایمان ابوطالب کا ہی دم بھرتے ھیں 

 اب جبکہ صورت حال کچھ اس طرح کی ھے تو کچھ لوگ سنی العقیدہ ہونےکےباوجود انکے مسلمان اور صاحب ایمان ہونے کے قول کو پڑھکر 

سنکر 

 یا  انکے نام کے ساتھ "حضرت " یا " حضور" یا "رضی اللہ تعالیٰ عنہ" دیکھ کر وحشی نیل گاؤکی طرح کیونکر  بدک جاتے ھیں؟

 

چلئے یہ بات اپنی جگہ مسلم کہ بخاری ومسلم وترمذی اور دوسری کتب احادیث کے اندر انکے خاتمہ بالکفر کی وہی چارپانچ روایتیں گھوم گھوم کر لکھی گئی ہیں 

مگر  انھیں کی طرح والدین رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی تو خاتمہ بالکفر کی روایت انھیں محدثین نے اپنی انھیں صحاح جوامع اور سنن میں تحریر کی ھیں 

 پھر کیا بات ھے کہ ایک روایت تسلیم ھے اور ایک سے انکار ھے؟؟


 حضرت ابو طالب کا کفر ثابت کرنے کے لئے بخاری ومسلم کو سرپر لیکر گھومنے والے کیا اب والدین پاک مصطفیٰ علیھم السلام  کو بھی کافر ومشرک تسلیم کرینگے؟؟

اس مقام پر حضور اعلیٰ حضرت کی یہ تحریر کافی مفید ھے 

جوانہوں نےبخاری مسلم اورکچھ دیگرکتب حدیث کےتعلق سےالفضل الموہبی میں  زیب قرطاس کی ہیں

نمونہ کےطورپرالفضل الموہبی ایک تحریرپیش کرتاہوں چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ 

کس آیت یاحدیث میں ارشادہواھےکہ بخاری یاترمذی بلکہ امام احمدابن المدائنی جس حدیث کی تصحیح یاتخریج کردیں وہ واقع میں بھی ویسی ہی ھے کونسانص آیاھےکہ نقدرجال میں ذہبی وعسقلانی بلکہ نسائی وابن عدی ودارقطنی بلکہ یحی بن قطعان ویحی بن معین وشعبہ وابن مہدی جوکچھ کہہ دیں وہی حق جلی ھے جب خوداحکام الھیہ کےپہچاننےمیں ان اکابرکی تقلیدنہ ٹھہری جوان سےبدرجہاارفع واعلیٰ اعلم واعظم تھے جنکےیہ حضرات اورانکےامثال مقلدومتبع ہوئے جنکےدرجات رفیعئہ امامت انھیں مسلم تھے


(الفضل الموہبی فی معنیٰ اذاصح الحدیث فھومذھبی منزل سوم ص ۱۲ )


تمام اھلسنت سے مخاطب ہوں کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو عقلِ سلیم بخشی ھےاور علم دین کے نور سے پرنور کیا ھے تو آپ اسکا بھی کھبی کبھی استعمال فرمایاکریں اور ھرکسی روایت کو درایتہً بھی پرکھنے کی کو شش فرمائیں 

دلائل کی کمزوری ومضبوطی پر بھی نظر رہنی چاہئے 

حضرات!!

بخاری کی روایت ھے کہ جب حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا تو حضرت مولیٰ علی بارگاہِ نبوت میں تشریف لاےُ اور پیارے آقا علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوےُ فرمایا کہ

یارسول اللہ آپکا گمراہ چچا مرگیا

اھل ایمان وانصاف بتائیں کہ جو لب ولہجہ ایک محسن اسلام اور حضور پاک کے محبوب چچا کے لئے خود انکے دلبند حضرت علی کی جانب منسوب کیا گیا ھے کیا ان سے یہ ممکن ھے؟؟

کیا  رسول عربی کی پرورش وتر بیت نے حضرت علی پر اتنا بھی اثر نہیں کیا تھا کہ جس باپ کا جسدِ خاکی ابھی سپرد خاک بھی نہیں ہواھے اس باپ کے موت کی خبر اس درجہ غیر مھذب انداز میں دیں؟؟


کیا مذکورہ بالا لب ولھجہ باب علم نبی کا ہوسکتاھے؟؟

ھرگز نہیں 

حضرت ابوطالب کےعدم ایمان سےمتعلق مسلم اور بخاری کی ان روایات کی حقیقت اور قرار واقعی معلوم کرنےکےلیئے فقط اس قدر جان لینا کافی  ھے کہ ان روایتوں  میں جس  آیت کو کفر حضرت ابو طالب سلام اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل کے طور پر ان کےحق میں نازل ہونا لکھا ہے وہ  آیت مکہ میں نازل ہی نہیں ہوئی بلکہ دس بارہ برس کے بعد اسکا نزول مدینہُ طیبہ میں ہوا اور یہ متحقق ہےکہ وصال حضرت ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھجرت سے تین سال قبل مکہ معظمہ میں ہوا ھے خود بخاری کے اندر بھی اسکا ثبوت موجود ھے 

اسی طرح اس عنوان کی  ایک روایت حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے منسوب کرکے بیان کی گئی ھے جبکہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح خیبر کے بعد سات ھجری میں مسلمان ہوےُ یعنی سرکار ابو طالب کے  وصال پرملال کے دس سال بعد چنانچہ یہ بزرگوار اسوقت نہ تو مسلمان ہوےُ تھے اور نہ مکہ میں موجود تھے اور نہ تو روایت میں ایسا کوئی جملہ  ہیےکہ مجھ سے یہ بات فلاں نے بیان کی 


اور پھر اثبات کفر ابوطالب کا جنون جنکے آنکھوں کی نیندیں اڑا چکا ھے انھیں کیا تفاسیر میں یہ باتیں نہیں ملیں کہ آیات مبارکہ

 انَّکَ لا تَھدی من اَ حببت

اور ما کان للنبیُ…..الخ 'حضرت ابو طالب کے حق میں نہیں ھیں؟؟


اگر  نہیں ملیں تو  مطالعے کو اور وسعت دیں اور اگر ملیں ھیں تو کیا سبب ھے کہ کفری روا یتوں پر ھی جان قربان کی جارہی ھے ؟؟؟


آیت کریمہ

اِنَّکَ لاَتَھدِی مَن اَحبَبتَ حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئی

چنانچہ پوری آیت میں ظاہرطورپر ایک بھی ایسالفظ نہیں ھےجس سےیہ ثابت کیاجاسکےکہ فی الواقع یہ آیت حضرت ابوطالب کےحق میں نازل ہوئی جیساکہ مفسرین کرام نےبھی لکھاہیکہ اس آیت میں کفرابی طالب پر کوئی دلیل ظاہرنہیں ھے چنانچہ رئیس المفسرین امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیرکرتےہوئے سب سےپہلےیہی خیال ظاہرفرماتےہیں ملاحظہ ہو 

اعلم اِنَّ فی قولہ تعالیٰ انک لاتھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشاءُ ــ مسائل المسئلۃالاولیٰ ھذہ الآیۃ لادلالتہ فی ظاھرھا علی کفرابی طالب

یعنی جان لیجئےکہ بیشک انک لاتھدی الی آخرالآیہ میں کئی مسئلےہیں پہلامسئلہ نہیں دلالت کرتی یہ آیت اپنےظاہرمیں کفرابی طالب پر


(تفسیرکبیرجلدششم ص۴۴۹ )


علاوہ ازیں امام محمدبن عمرنوی جاوی اپنی مشھورانام تفسیر 

*مراح لبید*میں *انک لاتھدی من احببت* کےتحت فرماتےہیں کہ 

*انک لاتھدی*ـ *وھذہ الآیہ لادلالۃ فی ظاھرھاعلی کفرابی طالب لان اللہ ھوالذی ھداہ بعدان ائیس منه النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اماالحدیث الدلالۃ علی عذابہ ودخولہ فھوالترک النطق بالشھادةوان اِعتَدَّبہ فالعذاب یکون فی مقابلۃ ترک فرض آخروممایدل علی انہ آمن برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ قدوصی عندموتہ باتباع رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم*

مراح لبید جلددوم صفحہ نمبـ ۱۴۶ ــر مطبوعہ مصر


یعنی یہ آیت ظاہری طورپر حضرت ابوطالب کےکفرپردلالت نہیں کرتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوطالب کوہدایت دےدی تھی جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے مایوس ہوگئےتھے اوروہ حدیث جوآپکےعذاب اورجہنم میں داخل ہونےپردلالت کرتی ھے وہ اسلئےبھی ہوسکتی ھے کہ انھوں نےشھادت کوبیان نہ کیا اگراسکوشمارکربھی لیاجائےتویہ عذاب دوسرےفرض کےترک کرنےپر ہوگا اورآپکے ایمان لانےپردوسری اہم ترین دلیل یہ ہیےکہ آپ نےاپنی وفات کےوقت حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلم پرایمان لانےکی وصیت کی تھی

اسکےعلاوہ تفسیرابن کثیر اوردرمنثورمیں نقل ہیےکہ 


*عن سعیدبن ابی راشدقال کان رسول قیصرجاءالی کتب معنی قیصرالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتاباً فاتیتہ فدفعت الکتاب فوضعہ فی حجرہ ثم قال عن الرجل قلت من تنوخ قال ھل لک فی دین ابیک ابراہیم الحنیفۃ قلت انی رسول قوم وعلی دینھم حتی ارجع الیھم فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونظرالی صحابہ وقال انک لاتھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشاء*

تفسیرابن کثیرصفحہ ۲۸۲

تفسیردرمنثور صفحہ ۳۴۵


حضرت سعید بن ابی راشد سےروایت ہیکہ حضور علیہ  السلام کی خدمت اقدس میں  

قیصرروم کاقاصدخط لیکرحاضرہوا 

توآپ نےوہ خط اس سےلیکر پتھروں کےدرمیان رکھدیا اورسوال کیاکہ یہ شخص کس قوم سےتعلق رکھتاھے کہاگیاکہ قبیلہ بنی تنوخ سے توآپ نےاس شخص سےفرمایا کہ کیاتوچاہتاہےکہ تجھےتیرےباپ ابراہیم کادین حنیف نہ پیش کیاجائے تواس نےکہاکہ میں اپنی قوم کا قاصدہوں جب تک واپس نہ جاؤں دین کو تبدیل نہیں کرسکتا توآپ نےتبسم فرماتےہوئے صحابئہ کرام کی طرف دیکھا اورارشادفرمایا  

انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء


مذکورہ تفسیرخود صاحب قرآن نےفرمائی ھے جبکہ اسکےبرخلاف پورےذخیرۂ احادیث میں خود حضور ختمی مرتبت علیہ السلام کاکہیں کوئی ایسال قول مندرج نہیں ہےکہ جس میں اس آیت کو آنحضرت علیہ السلام نےبزبان خود سرکارابوطالب کےحق میں بتایاہو

بھائیو!!

کیا صاحب قرآن کی اس تفسیر سے بہتر کسی کی تفسیر ھوسکتی ھے؟؟؟ 


مزیدبرآں امام شیخ احمدصاوی مالکی رحمتہ اللہ علیہ زیرآیت

*انک لاتھدی*

فرماتےہیں کہ *وقیل انہ اُحیٰ واسلم ثم مات ونقل ھذالقول بعض الصوفیۃ*

تفسیرصاوی صفحہ ۱۸۳

مطبوعہ مصر

یعنی اورکہاکہ انھیں زندہ کیا اوروہ اسلام لائے اورپھرانتقال فرمایا اوریہ قول بعض صوفیائےاہل صفانےنقل فرمایاھے


منکرین ایمان سیدناابوطالب رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سےانکےعدم ایمان پرپیش کی جانےوالی آیت کریمہ

*"وَھُم یَنھَونَ عَنہُ وَیَنئَونَ عَنہُ"بھی حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئی*

 

پوری آیت کریمہ اس طرح سےہے 


حتیٰ اِذَاجَاءُوکَ یُجاَدِلُونَکَ یَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوآاِن ھَذآاِلاَّاَسَاطِیرُالاَوَّلِین وَھُم یَنھَونَ عَنہُ وَیَنئَونَ عَنہُ وَاَن یَھلِکُونَ اِلاَّاَنفُسُھُم وَماَیَشعُرُونَ


(سورہ انعام آیت نمبر ۲۵/۲۶ )


یعنی یہاں تک کہ جب تمہارےحضور تم سےلڑتےجھگڑتےحاضرہوں توکافرکہیں کہ یہ توپہلوں کی داستانیں ہیں اوروہ اس سےروکتے اوراس سےدوربھاگتےہیں اورہلاک کرتےہیں اپنی جانیں اورانھیں شعورنہیں


زیرنظرآیت کاجوٹکڑاحضرت ابوطالب کیلئےپیش کیاجاتاھے اسکاحضرت ابوطالب سےدورکابھی کوئی رابطہ اورتعلق نہیں

دراصل یہ آیت عام کفارکیلئےہےجیساکہ آیت کاسیاق وسباق اس پرمشیرھے  

چونکہ مضمون بھت زیادہ طوالت کامتحمل نہیں ھےاسلئے اختصارکےساتھ کام لیتےہوئے زیرنظرآیت کےتعلق سےچند مفسرین 

کی کتب سےحوالہ جات پیش کئےجارہےہیں 

تفسیرابن عباس میں ھے وھم ینھون عنہ وینئون عنہ وھوابوجھل واصحابہ وینھون عن محمدوالقرآن)

 ()یمنعون عنہ ویتباعدون

یعنی  وھم ینھون عنہُ اوروہ ابوجہل اوراسکےساتھی ہیں جونہیں مانتےتھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورقرآن کو اور

وینئون عنہ دوسروں کومنع کرتےتھے (آپ سےاورقرآن سے)


(تفسیرابن عباس صـ ۹۲)

 

تفسیرخازن


(وھم ینھون عنہ)


یعنی ینھون الناس عن اتباع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وینئون عنہ)یعنی یتباعدون عنہ بانفسھم نزلت فی کفارمکۃ کانوایمنعون الناس عن الایمان بمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعن الاجتماع بہ وینھونھم عن استماع القرآن

تفسیرخازن صفحہ ۱۰


(وھم ینھون عنہ )یعنی لوگوں کا انکاراتباع محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 

وینئون عنہ یعنی دوررکھتےتھے ان سےاپنی جانوں کو نازل ہوئی یہ آیت کفارمکہ کےحق میں

منع کرتےتھےلوگوں کو محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےساتھ ایمان لانےسے اورآپکےپاس جمع ہونےسے اورمنع کرتےتھے قرآن سننے سے


*تفسیرنسفی مدارک*


*(وینھون عنہ)*


ینھون الناس عن القرآن اوعن الرسول واتباعہ والایمان بہ

*(وینئون عنہ)*

*ویبعدون عنہ بانفسھم*

تفسیرنسفی صفحہ ۸ مطبوعہ بیروت


یعنی وینھون عنہ انکارکرتےتھے لوگ قرآن سےیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےاورانکی اتباع سے اورایمان سے

(وینئون عنہ)

اوردوررکھتےتھےاپنی جانوں کو ان سے

 

ناظرین پرواضح ہوناچاہئےکہ متذکرہ آیت کریمہ کااطلاق حضرت ابوطالب پرہوہی نہیں سکتا کیونکہ اھل تواریخ کااس بات پراجماع ھےکہ حضرت ابوطالب حضورپاک علیہ کی باتیں سنکرکبھی ان سےدورنہ بھاگے بلکہ تاحیات سایہ کی طرح آپکےساتھ رہے یہاں تک کہ تین سال کی پرمشقت زندگی شعب ابی طالب میں گزاری لیکن آپ سےدورنہ بھاگے نیز ہمیشہ آپکی باتوں کی تعریف وتوصیف اورانکےفوائدوفضائل بیان کرتےتھے اورلوگوں کوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پرعمل کرنےکامشورہ دیتےتھے یہاں تک کہ اپنی آخری وصیت میں بوقت نزع اھل قریش بالخصوص بنی ہاشم کو آپکےنقش قدم پرچلنےکی باضابطہ وصیت فرمائی اوریہی آپکی آخری وصیت ھے اوراسی کو بصیرت کےساتھ دیکھیں تو اقرارباللسان بھی ھے لھذا

*وینھون عنہ وینئون عنہ

کوجن لوگوں نےآپکےلئےسمجھاھے ان سےضرورچوک ہوئی ہیے


آیت کریمہ ماکان للنبی والذین آمنواان یستغفرواللمشرکین ــ حضرت ابوطالب کےحق میں نہیں نازل ہوئ جیساکہ سنن ترمذی میں روایت ہےکہ ایک شخص اپنے مشرک والدین کے لئے دعاء مغفرت کررہا تھا جب یہ بات حضور پاک علیہ السلام کے پاس پہونچی تو آیتِ مبارکہماکان للنبیُ الخ نازل ہوئی پوری حدیث بلفظہ ملاحظہ کریں

عن علی قالَ سمعت رجلا یستغفر لاَبویہ وھما مشرکان فقلت لہ اتستغفر لابویکَ وھما مشرکان فقال اولیسَ استغفر ابراھیم لابیہ وھو مشرک فذکرت ذٰلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فنزلت ماکان للنبی والذین اٰمنواان یستغفرواللمشرکین

(ترمذی جلد دوم صـ۱۴۱)


دوستو! بتاؤ اس آیتِ مبارکہ کی جو تفسیر بابِ علمِ نبی حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیان فرمائی اور صاف صاف بتادیا کہ اس آیت کا نزول ایک شخص کی دعاء مغفرت جو اسکے مشرک والدین کیلئے ھورہی تھی اس کے تحت ھوا 

اب بتائیے کہ حضرت مولیٰ علی سے بڑا مفسرِ قرآن کون ھے جسکی روایت اس روایت پر ترجیح پاسکے ؟؟


علاوہ ازیں اسی ایتِ کریمہ کے تحت صاحبِ تفسیرِ مراحِ لبید فرماتے ھیں کہ 

فظھرہ بھذالاخبار انَّ الآیۃ نزلت فی استغفارالمسلمین لاقاربھم المشرکین الانزلت فی حقِّ ابی طالب لانَّ ھٰذہ السُّورة کُلھا مدنیۃ نَزلت بعدتبوک اوبینھا وبین موت ابی طالب تکون اثنیٰ عشرسنۃ

تفسیرمراح لبید

جلداول صفحہ 

۳۵۷



یعنی پس یہ ظاھر خبریں ھیں اس آیت کے متعلق کہ اسکا

 نزول ان مسلمانوں کے حق میں ھے جنکے قریبی مشرک تھے اور نہیں نازل ھوئی یہ آیت حضرت ابوطالب کے حق میں تحقیق کہ یہ پوری سورة مدنی ھے اوراسکےنزول اور حضرت ابوطالب کی موت کے درمیان بارہ سال کاوقفہ ھے 


نیزعلامہ ابن جوزی فرماتےہیں کہ

*لمامات ابوطالب جعل النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یستغفرلہ فقال المسلمون مایمنعنا ان نستغفرلآبآئناولذوی قرابتنا وقداستغفرابراہیم لابیہ وھذَامحمدیستغفرُلعمہ فستغفرواللمشرکین فنزلت ھذہ الایۃ قال ابوالحسین بن منادیٰ ھذالایصح انماقال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لعمہ لاستغفرَنَّ لک مالم اُنہ عنک*

زادالمیسر

جلدسوم صفحہ ۵۰۸

مطبوعہ مصر


یعنی جب حضرت ابوطالب کاانتقال ہواتوحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانکےلئےاستغفارکرنامقررفرمایا تومسلمانوں نےکہاکہ ھمارےآباءواجدادکیلئےاستغفارکرنا منع نہیں ہے اوربیشک استغفارکیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنےچچاکیلئے اورمحمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچاکیلئےاستغفارکرتےہیں پس مشرکین کےاستغفارسےمنع کرنےکیلئے یہ آیت نازل ہوئی ابوالحسین بن منادیٰ کہتےہیں کہ یہ صحیح نہیں ھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنےچچاکوکہاتھا کہ میں آپکےلئےاستغفارکرونگا جب تک مجھےروکانہ جائے 


اسکےعلاوہ امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ علیہ نےبھی آیت کریمہ *ماکان للنبی* الخ کےنزول کوحضرت ابوطالب کیلئےنہیں بتایاھے بلکہ آپ فرماتےہیں کہ یہ آیت ان مسلمانوں کےحق میں نازل ہوئی جواپنےمشرک والدین کےاستغفارکوجائزسمجھتےتھے چنانچہ آپ لکھتےہیں کہ


اِنَّماَظَھَرَفِی ھٰذِہِ السُّورةِ فلعل المومنین کان یجوزُلھم اَن یستغفروالابویھم من الکافرین


(تفسیرکبیرجز۱۶ص۲۰۸)


نیزاسی کتاب مستطاب میں آپ نےامام واحدی کےحوالےسےحضرت حسین بن فضل کایہ قول بھی نقل فرمایاھے


*قال الواحدی قداستبعدَالحسین ابن فضل لان ھذہ السورة من آخرالقرآن نزولاً ووفاةابی طالبٍ کانت بمکۃ*

تفسیرکبیر جزء ۱۶

صفحہ ۲۰۸


یعنی واحدی کہتےہیں کہ حضرت حسین بن فضل نےاسکوبعیدجاناھے اس لئےکہ یہ سورة کریمہ نزول کےلحاظ سے قرآن کی آخری سورة ہے اوروفات حضرت  ابی طالب مکہ میں ہوچکی تھی


نیزصاحب تفسیرروح المعانی نےبھی مذکورہ آیت کریمہ کودرحق حضرت ابوطالب ماننےسےانکارکیاھے جیساکہ روح المعانی میں نقل ہے


*لِاَنَّ ھذہ السورة من آخرقرآنٍ نزولاً ووفاةابی طالب کانت بمکۃ فی اول الاسلام*

تفسیرروح المعانی

جزء ۱۰

صفحہ ۹۲


یعنی تحقیق یہ آیت مبارکہ قرآن کےآخرپرنازل ہوئی اوروفات حضرت ابی طالب شروع اسلام کےوقت مکہ معظمہ میں ہوئی ھے


ان سب کےعلاوہ حضورسیدناامام سُھیلی رحمۃ اللہ علیہ نے متذکرہ آیت کریمہ یعنی *ماکان للنبی* الخ کےنزول کےتعلق سےبھت عمدہ وضاحت پیش کی ھے راقم الحروف افادۂ عام کی نیت سےاسےبھی نقل کرتاھےچنانچہ آپ لکھتےہیں کہ


*وذکرقول اللہ تعالیٰ ماکان للنبی والذین آمنوااَن یستغفرواللمشرکین ،وقداستغفرعلیہ السلام یوم اُحدفقال اللھم اغفرلقومی فانھم لایعلمون وذالک حین جرح المشرکون وجھہ وقتلواعمہ وکثیرامن اصحابہ ولایُصحُ اَنَّ تکون الآیۃ نزلت فی عمہ ناسخۃالاستغفار یوم احدلِاَنَّ وفاةعمہ کانت قبل ذالک بمکۃ ولاینسخ المتقدم المتاخر وقداجیب عن ھذہ السوال باجوبتہ قیل استغفارلقومہ مشروط بتوبتھم من الشرک کانہ ارادالدعاء لھم بالتوبۃحتیٰ یغفرلھم ویقوی ھذالقول وذکرھاابن اسحٰق وھوان تکون الآیۃ تَاَخَّرَنُزولُھافنزلت بالمدینۃِ*

الروض الانف

صفحہ ۲۵۸

مطبوعہ مصر


یعنی اورذکراللہ عزوجل کےاس فرمان کا *مَاکَانَ لِلنَّبِی*الخ 

بیشک احدکےدن نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےدعاءاستغفارفرمائی کہ یااللہ میری قوم کومعاف فرمادے کہ یہ نہیں جانتے اوریہ اسوقت فرمایا جبکہ مشرکین نےآپکےچہرۂ انورکوزخمی کیا اورآپکےچچا (حضرت امیرحمزہ) اورکثیرصحابئہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کوشھیدکیا ـــ اوریہ صحیح نہیں کہ آپکےچچا (حضرت ابوطالب) کےحق میں نازل ہوئی ھے جواحدکےدن کےاستغفارکی ناسخ ہے کیونکہ آپکےچچا (حضرت ابوطالب) کی وفات اس سےقبل مکہ میں ہوچکی تھی اورمقدم موخرکاناسخ نہیں ہوتا اس سوال کےکئی جواب ہیں بعض نےکہاکہ آپکی قوم کیلئے دعائےاستغفارانکی شرک سےتوبہ کےساتھ مشروط ھے گویاکہ انکی توبہ کیلئےدعاءکاارادہ کیا تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں بخش دے اسکویہ قول قوی کرتاھے کہ حضرت ابن اسحاق نےفرمایا کہ اس آیت کریمہ کانزول متاخرہے اوریہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ھے 


مزیدبرآں ماکان للنبی…. الخ. 

 کےتحت  ارشادالساری شرح بخاری میں امام قسطلانی فرماتےہیں کہ 

*واستشکلَ ھذابان وفاةابی طالب وقعت قبل الھجرةبمکۃبغیرخلاف*


یعنی اوریہ مشکل ہےکیونکہ حضرت ابوطالب کی وفات ہجرت سےقبل مکہ معظمہ میں  ہوچکی ھے اوراس معاملےمیں کوئی اختلاف نہیں ہے مزیدلکھتےہیں کہ


*وفی ذالک دلالت علی تاخرنزول اَلآیۃ عن وفاة ابی طالب والاصل عدم تکرارالنزول*


یعنی اس میں وفات ابی طالب آیت کےنزول کےتاخرپر دلالت کرتی ھے اوراصل یہ ہیےکہ عدم تکرار نزول ھے یعنی دوبارنازل نہیں ہوئی

 

(ارشادالساری جلدہفتم ص۲۲۶ 


نیزحضرت فاضل بریلوی اورانکےوالدگرامی کواجازت سندحدیث دینےوالے حضرت قاضی احمدزینی دحلان مکی رحمۃاللہ علیہ زیرآیت 

*ماکان للنبی* الخ رقم طرازہیں کہ 

*انھانُزلت فی استغفارٍ اُناسٍ لِآبائھم المشرکین لافی ابی طالب*


اسنی المطالب فی نجاۃابی طالب

صفحہ ۱۷

مطبوعہ مصر


یعنی بیشک یہ آیت مبارکہ ان لوگوں کیلئےنازل ہوئی ھے جواپنےمشرکین آباءکیلئےاستغفارکرتےتھے اوریہ ابوطالب کےحق میں نہیں ھے 


راقم السطوراس بابت ابھی اوربہت سارے مفسرین ومحدثین وعلماءربانیین کےاقوال نقل کرسکتاھے لیکن انھیں چندپراکتفاءکرتاھے اھل محبت و انصاف کیلئے یہی بھت کچھ ھے اورضدی قسم کےلوگوں کیلئے پورادفتربھی ناکافی ھے 


مجھےسخت تعجب ہیکہ جو یہ کہتے ہوےُ نہیں تھکتے کہ ایمان کا اگر احتمال واحد بھی پایا گیا تو منع تکفیر کے لئے کا فی ھے وہی حضرات اتنی صراحتوں  کےباوجودبھی کفرہی کفرکارَٹّا ماررہےہیں 

 یاللعجب  

اورانکےنزدیک ایمان ابوطالب سلام اللہ علیہ پر حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی یہ قسمیہ روایت بھی ناقابل التفات ھے

قَالَ العباس واللہ لقدقال اخی الکلمۃ اللتی امرتہ بھا


یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسولِ پاک علیہ السلام سے بقسم بیان فرمایا کہ میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ لیاجسکا حکم آپ نے انھیں دیاتھا 

روض الانف مع سیرت ابن ھشام ج۱  صفحہ ۲۸۵


اللہ اکبر کبیرا


ھائےرے ستمگرانِ ابوطالب تمہیں انکے برادرِ گرامی کی قسم پر بھی اعتبارنہیں آتا؟


کیا احتمالِ واحد والا قانون صرف مخصوص ومحدود لوگوں کےلیئےہیے یا یہ ضابطہ عام ہیے؟

اگرعام ہیےتوکیااس قدر تصریحات و روایات کےبعدبھی ایمان سیدناابوطالب سلام اللہ علیہ کاواحداور ادنی احتمال بھی نہیں ملا؟


علاوہ ازیں اور دوسرے درجنوں اکابرکے اقوال کیوں کر بھول جاتے ہیں جو اس بزرگوار کے ایمان واسلام پر بین ثبوت ھیں 

مثلاً

امام قرطبی نےبھی اثبات ایمان کی روایت پیش کی 

امام سھیلی نےبھی پیش کی 

امام شعرانی نےبھی پیش کی 

امام قسطلانی نےبھی پیش کی 

امام عینی نےبھی پیش کی 

امام صاوی نےبھی پیش کی 

امام سیوطی نےبھی پیش کی 

امام ابن حجر نےبھی پیش کی

امام ابونعیم نےبھی پیش کی 

امام نوی نےبھی پیش کی 

امام رازی نےبھی پیش کی 

امام نبھانی نےبھی پیش کی 

امام اسماعیل حقی نےبھی پیش کی 

علامہ نوربخش توکلی نےبھی پیش کی 

علامہ معین واعظ کاشفی نےبھی پیش کی 

علامہ شبلنجی نےبھی پیش کی 


 خدا جانے کس کی رعایت مد نظر ہے کہ اس مسئلہ  پر  بعض علماء اھلسنت خود اپنے ہی اصول سے مسلسل صرفِ نظر فرما رھے ھیں

اوراحتمال واحدوالےاصول سےقصداً منحرف ہیں

 

دوستو!! 

واضح کرتا چلوں کہ ایمان ابو طالب کا مسئلہ یا اھلبیت پاک کے کچھ اور معاملات کو قصداً عمداً ارادة ً اختلافی بنایا گیا ھے

 چنانچہ اس امت میں خیر القرون سے لیکر آج تک اھلبیت کے ساتھ بَلا کی دشمنی رکھنے والے  موجود پاےُ گئے ہیں

یہ وہی لوگ ہیں کہ جنکے بیچ خاندانِ علی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے شش ماھے سے  لیکر بزرگوں تک کو بے دردی کےساتھ ذبح کیا گیا 

پردیس  میں نبی زادوں کا خیمہ لوٹا اور پھر جلایا گیا 

 بےقصور  سکینہ  کے رخساروں پر طمانچے مارے گئے 

خواتین اھلبیت کے سروں کی چادریں چھینی گئیں 

بے خطا  عابد لا غرو  بیمار کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیا ں ڈالکر بے جرم وخطا  قیدی بنا یا گیا 

ذلیل کرنے کی غرض سے اسی امت کے لوگوں نے  انہیں شہر شہر گھمایا اولاد رسول کے کٹے ھوےُ سروں کی نمائش کی گئی اب اگر آپ اتنا سمجھ چکے تو بس جان لیجئے کہ جو قوم نبی زادوں کے ساتھ اتنا سب کچھ کرسکتی ھے ائمہُ اھلبیت کو زہر دےکر انکی جان لے سکتی ھے انکے بچوں کو یتیم اور انکی بیویوں کو بیوہ بنا سکتی ھےتو بتائیے اس قوم سے یہ کب بعید ھے کہ ان تمام نفوسِ قدسیہ کے جدِّ اعلیٰ  محسنِ اسلام  جناب ابو طالب کے خلاف ایک ایسی روایت وضع کرلے اور اکابرین کے نام سے منسوب کرکے سپلائی کردے  کہ جس سے انکے ایمان واسلام کا انکار ممکن ہوسکے ؟

اور علی کے باپ کو  بھی اسی صف میں کھڑا کیا جاسکے جس صف میں بڑے بڑے  دشمنانِ رسول پہلے سے ہی کھڑے ہیں

 چونکہ عہدِ بنو امیّہ میں علی اور خاندان علی کو ممبر ومحراب سے گالی دینا عام بات تھی جابر حکاّم اس پاکیزہ خاندان کے پیچھے پڑے ہوےُ تھے ظلم وبربریت کی حد یہ تھی کہ روایانِ حدیث پر باضابطہ یہ پابندی تھی کہ جس روایت میں علی کا نام ہو تو وہ روایت انکا نام نہ لیتے ہوےُ ڈائرکٹ نبی علیہ السلام کے نام سے بیان کردی جاےُ 

مطلب یہ کہ جہاں تک بن پڑے  انکا نام کسی اچھی جگہ نہ آنے دیا جائے


دوستو!!

کیا یہ غلط ھے کہ حضرت علی کو گالی دینے کے جنون میں خطبہُ عیدین ایک زمانے تک قبل نماز عیدین دیا جاتا رھا؟؟


حضرات!!


 جب سلاطینِ زمانہ اس درجہ بغاوت پر آمادہ ہوں تو ان سے یہ کب غیر ممکن ھے کہ اس علی مرتضیٰ کے اس باپ کو جسکا  گھردین اسلام کی دعوت کا اول مرکز  بنا جو رسولِ گرامی وقار کا سب سے بڑا وفادار صلاح کار رہا  جسکی موت کے سال کو رسول پاک علیہ السلام نے غم کا سال قراردیا  اسکی تاریخ کےسا تھ بنی امیہ کے اوباش لونڈے  کھلواڑ نہ کریں 


اس کام کو مستقل تاریخ  بنانے کے لئے کچھ بزرگ اصحاب کے ناموں کا استعمال کیا گیا 

تا کہ بعد کے لوگوں کا اعتبارحاصل  کیاجاسکے چنانچہ کچھ اس انداز فکر کےساتھ اس کام کو انجام دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ھمارے بھت سارے بزرگ بھی  اس جھانسے میں آگئے اور  متولئ کعبہ جانشین حضرت عبدالمطلب حضور سیدنا ومولانا وملجانا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کا فر ومشرک لکھ دیا 

اور پھر انھیں کی اقتداء میں بعد کے بھی کچھ بزرگ اس کا شکار ہو گئے


جبکہ حدیثِ پاک کی روشنی میں ھمارے لئے اس قدر سمجھ لینا کافی تھا کہ مدارِ ھدایت ونجات اھلِ بیتِ رسول ہیں انھیں کےساتھ قرآن ھے اورانھیں کے پاس روح دین وایمان بھی ہیے ان سے بہتر قرآن فھمی شریعت شناسی  بڑےسے بڑے مفسر

محدث

 مجتھدوفقیہ

 مجددومفتی کسی سے بھی متصور نہیں 

چنانچہ  مشھورکتاب



معارج النبوة

میں ان عالی قدر کے تعلق سے کئی روایات نقل کرنے کے بعد علامہ ملا معین واعظ کاشفی قدس سرہ لکھتے ہیں

*""ازاھلبیت ایشاں کہ اتفاق دارند برآنکہ ابوطالب بایمان رفتہ ""*

یعنی اھلِبیت کا اس بات پر اتفاق ہیے کہ ابوطالب اس دنیا سے باایمان تشریف لےگئے


معارج النبوة رکنِ دوم صفحہ 69


اس کتاب کا اردو ترجمہ رضااکیڈمی ممبئ نے بھی چھاپا ھے

 

حضراتِ باوقار اھلِ بیت جب دیگر معاملاتِ دینی میں بھی حرفِ آخر ہیں تو خود انھیں کے  گھر کی بات کے تعلق کسی کی  واھی تباہی کا کیااعتبار ؟؟؟


فقیرمداری دعاءگوہےکہ اللہ عزوجل اس کتاب مستطاب کو قبول انام وشہرت دوام عطافرماکر عوام وخواص سبکےلئے مفیدومفیض بنائے اورحضرت مولف کی نجات ومغفرت اوربلندئ درجات کاوسیلہ بنائے .

آمین بجاہ النبی الامین الکریم علیہ الصلوٰةوالتسلیم 



فقط یکےازخادمان سرکارابوطالب.


ازقلم ترجمان اہلبیت محقق ومدبر مصلح ومبلغ مفتی ومدرس مصنف ومولف حضرت علامہ مولانامحمد قیصررضا شاہ علوی حنفی مداری جامعہ عزیزیہ اہلسنت ضیاءالاسلام دائرةالاشراف جھہراؤں شریف ضلع سدھارتھنگر یوپی انڈیا