Musalmanon Ke आविष्कार | مسلمانوں کی ایجادات

MADAARIYA LIBRARY

مسلمانوں کی ایجادات


https://madar-world.blogspot.com/



 صدیاں گزرنے کے باوجود قرون وسطی سے مسلمان دانشوروں ، سانس دانوں طبیبوں ، صنعت کاروں اور انجینئروں کی تخلیقات اور ایجادات کی تابانیوں میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آیا ۔ ان کے پیش کردہ نظرئے ، ان کی دریافتیں ، ان کی بنائی ہوئی مشینیں اور ان کے بنائے ہوئے آلات آج بھی ترقی کے اس دور میں جدید علوم وفنون کی بنیاد ہیں اور بعض نظریات معمولی رد و بدل کے ساتھ جوں کے توں تسلیم کیے جاتے رہے ہیں ان بے نظیر انسانوں نے کارزار حیات کےمختلف النوع شعبوں میں عملی تجربے کے اورعلمی وفنی اور بی کارناموں کے ذریعے بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے فطرت کے رازوں سے پردے اٹھائے ۔ اس کی قدرے تفصیل اس مضمون میں پیش کی جارہی ہے ۔

 

 امت مسلمہ میں جو انجینئر ، آر کی ٹیکٹ ، میٹالر جسٹ ، سول انجینئر اور موجد پیدا ہوئے ان میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں

 

جابر بن حیان ( کیمیا داں ، انجینئر )

الکندی ( فزی سسٹ ، انجینئر ، میٹالرجسٹ )

رازی ( کیمسٹ ، انجینئر ، فزیشین )

بنو موسیٰ برادران ( انجینئر )

ابن الہیثم ( فزی سسٹ ، انجینئر )

البیرونی ( فری سسٹ ، انجینئر )

الجزاری ( انجینئر )

تقی الدین ( انجینئر ) ۔ 


انجینئرنگ کے پیشے سے تعلق رکھنے والے اپنے نام کے ساتھ مہندس لکھتے تھے ۔ اسی طرح آرکیٹیکٹ ، المعمار ، ریاضی داں ، الحسيب ، واچ میکر ، الساعتی ، اور اصطرلاب بنانے والے اصطرابی کہلاتے تھے 


بغداد پانچ سو سال تک امت مسلمہ کا صنعتی (industrial) اور تجارتی (commercial ) مرکز رہا ۔

 یہاں 869 ء میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں ایک سو مشینوں کا ذکر ملتا ہے جیسے میکینکل کھلونے ، سروس ایلی ویٹرز ، ونڈ ملز ، واٹر ملز ، واٹر کلاک ، طبی آلات ، واٹر ویلز اور آٹومیٹک مشینیں(Moktefi` M)- اس کتاب کا نام کتاب الحیل ( Book of Artifices ) ہے جو موی برادران ( محمد 872 ء احمداورحسن ) نے تصنیف کی تھی ، یہ تینوں بھائی با کمال ریاضی داں ، مترجمین کےکفیل اور قدرداں تھے ۔ ان ایک صد مشینوں میں سے ۲۰ عملی اور سودمندتھیں باقی محض سائنسی کھلونے ۔ ان مشینوں میں جس قسم کے پیچیدہ آلات اور سسٹم بیان کیے گئے وہ یہ ہیں۔

 

 Feedback control system , closed loop principle , complex gear . trains & automatic cut off machines . 

 

مسلمانوں نے جو مشینیں ایجاد کیں ان کا خلاصہ یہ ہے : پنڈولم ، وارکلاک ، شمسی گھڑی ، اصطرلاب ، سمندری سفر کے لیے قطب نما ، گن پاؤڈر ، توپ ، صابن ، کاغذ ، فوٹو گرافی کے لیے کیمرے کا اصول ، ڈو سے بحری جہاز کو سطح آب پرلانا ، پن چکی ، راکٹ کے ڈائیگرام ، علم مساحت کا آله ( ورنئیر اسکیل ) ، ہائیڈرالک انجینیرنگ ۔ 


مسلمان سائنس دانوں کو معلوم تھا کہ سائنس میں تحقیق اور اضافے کے لیے زیادہ بہتر اپنے والے آلے یعنی پری سیزن انسٹرومینٹس ( precision instruments ) ضروری ہیں مثلاً البیرونی کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بطلیموس نے اپنے نظریات کے لئے جو آلات استعمال کیے تھے وہ اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے مشاہدات سے صحیح نتائج اخذ کرنا غیر ممکن تھا۔


 ملاحظہ فرمایئے درج ذیل حوالہ :

  " While Muslim scientists did not wholly abandon the Greek

tradition , they reformulated it by introducing a new concept of how knowledge ought to progress , a concept that still governs the way science is done today . Better instruments and better methods would bring accurate results . (Bloom & Blair)


 گلاس , شیشہ , کانچ

        ساتویں صدی میں مشرق وسطی میں گلاس کا استعمال عام تھا ۔ عراق کے شہر سامرا میں گلاس بنائے جاتے تھے ۔ موصل اور نجف میں بھی اعلی قسم کا گلاس بنتا تھا ۔ دمشق کے علاوہ رقہ ، حلب ، سیڈون ، ہبران بھی گلاس بنانے کے مراکز تھے ۔ دمشق کا گلاس پوری اسلامی دنیا میں سب سے اچھا سمجھا جاتا تھا ۔ گلاس سے فلاسک ، بولیں ، شراب کی بوتلیں ، اور عطر کی شیشیاں نیز کیمسٹری کے تجربات کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بنائی جاتی تھیں ۔ گیارہویں صدی میں گلاس کھڑکیوں میں لگایا جاتا تھا ۔ بارہویں صدی میں مسلمان منقش گلاس استعمال کرتے تھے ۔ گلاس کے استعمال کے لیے مصر میں قاہرہ اور اسکندریہ مشہور تھے ۔ گیارہویں صدی میں یونان میں مصر کے کاریگروں نے دو فیکٹریاں لگائیں تو یورپ میں اس کا استعمال شروع ہوا ۔ منگولوں کے حملوں کے بعد شام سے بہت سارے کاریگر یورپ چلے گئے ۔ پھر صلیبی جنگوں کے دوران ونیس ( اٹلی ) کے کاریگروں نے 1277 ء کے ایک معاہدے کے تحت شام سے گلاس بنانا سیکھا ۔ وینس کے لوگوں نے اس فن کو خوب ترقی دی اور تیرہویں صدی میں آرٹ کا مظاہرہ گلاس پر کیا جانے لگا۔ 

            اسلامی اسپین میں غالبًا ابن فرناس نے سب سے پہلے گلاس بنایا تھا ۔ اس نے اپنے گھر میں ایک پلینیی ٹیریم بنایا جس میں ستارے ، بادل حتی کہ آسمانی بجلی کو بھی دیکھا جا سکتا تھا ۔ مشہور عرب امریکن تاریخ داں فلپ ہتی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ابن فرناس دنیا کا پہلا انسان تھا جس نے قرطبہ کی پہاڑی سے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی۔

                          


 برتن اور کپٹرے

      اسلامی دنیا میں بعض شہر اپنی مصنوعات کی وجہ سے مشہور تھے جیسے خراسان شیشے کے کارخانوں کے لیے ۔ بصرہ صابن ، کاغذ اور قواریر کے لیے ۔ کوفہ ریشمی کپڑوں کی تیاری اور ملک شام سونے چاندی کے قسم ہاقسم کے برتن بنانے کے لیے مشہور تھا ۔ اندلس میں تلواریں بنانے میں طلیطلہ اور کاغذ بنانے میں قرطبہ کا اپنا مقام تھا ۔ قرطبہ کے بنے چمڑے کو قرطبی ( cordwain ) اور بغداد کے کپڑے کو بالڈاچین ( Baldachin ) کہا جاتا تھا ۔ موصل کے بنے ہوئے کپڑے کوململ ( muslin ) کہتے تھے۔



 صابن

    صابن مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔ صابن بنانے کی ترکیب رازی نے تفصیل سے لکھی ہے ۔ صابن بنانے کا عمل زیتون کے تیل اور الکی پرمشتمل تھا ۔ بعض دفعہ اس میں نیترون بھی شامل کیا جاتا تھا ۔ شام صابن سازی کا مرکز تھا ، جہاں رنگین ، خوشبو دار اعلی قسم کا صابن بنایا جاتا تھا ۔ شام کے شہروں نابلس ، دمشق ، حلب اور سامراسے صابن غیر ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ 

         مسلمان صفائی کو ایمان کا نصف حصہ جانتے ہیں اس لئے صابن کا استعمال اسلامی ممالک میں ایک ہزار سال قبل ہوگیا تھا جبکہ اس وقت یورپ میں نہانا معیوب فعل سمجھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں ملکہ برطانیہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں اس لئے وہ خوشبو کا استعمال بہت کرتی تھیں۔ اسلامی اسپین میں کپڑا بھی نہایت عمدہ بنایا جا تا تھا۔ یہاں کے کپڑے کی مانگ پوری دنیا میں تھی ۔



کاغذ

     کاغذاگر چین میں ایجاد ہوامگر 712ء میں یہ سمرقند میں بننا شروع ہو چکا تھا ۔

794عیسوی میں بغداد میں کاغذ کی پہلی مل قائم ہوئی تھی جہاں کاغذ کپاس سے بنایا جانے لگا تھا ۔ بغداد سے یہ اسپین پہنچا اور وہاں سے یورپ ۔ انگریزی کا لفظ ریم ( Ream ) یعنی بیس دستوں کی گڈی عربی سے ماخوذ ہے ۔ اٹلی میں کاغذ کی پہلی فیکٹری 1261ء میں گئی جبکہ انگلستان میں پہلی مل 1494ء میں قائم ہوئی تھی ( یعنی بغداد میں پیپر مل کے قیام سے سات سو سال بعد )۔

                                           ۱۳۰۰ء (تیرہویں صدی) میں مسلمان طباعت کے لیے خاص کوالٹی(Quality ) کا  کاغذ استعمال کرتے تھے جس پر چھپائی کا نسہ ( bronze ) کے بنے حروف تہجی سے کی جاتی تھی۔ ان ہندسوں کو سیاہی یا ٹینکچر( incture ) میں بھگویا جاتا تھا ۔ مسلمانوں کا یورپ پر سب سے بڑا احسان کا غذ کی صنعت ہے ۔ اس کے بغیر پرنٹنگ پریس کی ایجاد بلکل بیکار ہوتی ۔

      کاغذ کے معیار کے مطابق اس کے نام ہوتے تھے ۔ بغدادی کاغذسب سے عمدہ قسم کا ہوتا تھا جس پرخلیفۂ وقت کے فرامین اور معاہدات قلم بند کیے جاتے تھے ۔ شامی کاغذ کی مختلف میں قسمیں تھیں- جیسے حموی کا غذسرکاری محکموں میں استعمال ہوتا تھا ،

 ہوائی کا غذنہایت ہلکا کاغذ تھا جس پر لکھے خطوط کبوتروں کے ذریعے ارسال کیے جاتے تھے ۔ ائیرمیل میں خط اسی کاغذ کی یاد دلاتے ہیں ۔ کاغذ مختلف رنگوں میں بنایا جاتا تھا مسلمانوں نے فن خوش نویسی کو بام عروج تک پہنچایا ۔ انہوں نے بہت سے پرکشش اسالیب ایجاد کیے ۔ اس فن کا استعمال کاغذ پرتحریر کے علاوہ تاریخی عمارتوں پر قرآن مجید کی آیات کو خوبصورتی سے لکھنے میں کیا گیا ۔ انہوں نے جلد سازی کے فن کو بھی خوب ترقی دی ، اس کا ثبوت وہ دلآویز کتابیں ہیں جو یورپ اور ایشیا کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں ۔

 

 میٹالرجی ( Metallurgy )

    جہاں تک میٹالرجی کا تعلق ہے لوہا ، تانبا اور دوسری معدنیات کا نوں سے نکال کر شہروں میں لائی جاتی تھیں ۔ شہروں میں انہیں بڑے بڑے تندوروں میں پگھلایا جاتا تھا ۔ زیگرو کا شہر سونا ، چاندی ، پارہ ، بوریکس کے لیے مشہور تھا ۔ چاندی ، تانبا اور سیسہ کے لیے افغانستان اور تا نبے کے لیے قبرص اور لوہے کے لیے اناطولیہ اور بلوچستان مشہور تھے ۔ دھاتوں کو پگھلا کر کھانے کی قابیں ( dishes ) ، کھانے کی ٹریز ( trays ) ، پھول دان ، پانی کے جگ اور ہتھیار بنائے جاتے تھے ۔ دمشق میں بنے ہوئے بندوق کے کندے یورپ میں مقبول عام تھے ۔ 

         مسلمانوں کی ملٹری ٹیکنالوجی کے بارے میں ایک مصنف کہتا ہے :

         

 They invented siege machines derived from Roman technology , and made use of artillery Their advance command of chemistry made them the first to use gunpowder , besides the cannon , balls , their projectiles included incendiary bombs and vitriol devices . [Mathe, Jean]



 ہائیڈرالک انجنئیرنگ 

        خلیفہ ہارون الرشید بذات خود عالی دماغ انجینر تھا تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ سوئیزنہر( suez canal )کھودنے کاخیال سب سے پہلے اسکو آیاتھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمرکو آپس میں ملادیا جائے اس نےعین اسی مقام پر نہر کھونے کا سوچاتھاجہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے۔ مگر اس کے وزیر یحیٰ برمکی نے اس تجویز کے خلاف مشورہ دیا اور کہا کہ بازنطینی حکومت کا بحری بیڑہ بحیرہ روم سے بآسانی مکہ معظمہ کوسگین خطرے میں ڈال دے گا۔ چنانچہ یہ خیال ترک کر دیا گیا۔ [Glubb, Sir John] 

        

          مسلمان جغرافیہ دانوں ( الاصطخری ، ابن حوقل ، المقدسی ، ابن جبیر اورالادرسی ) نے اسلامی انجینیرنگ اور مشینوں کا ذکر اپنے سفر ناموں میں کیا ہے ۔ نیر مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کے درمیان تجارت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ شہروں ، قریوں کے حالات ، بڑی بڑی شاہراہوں ، بلند دروازوں اور مساجد کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے زراعت کے موضوع پر بھی کافی روشنی ڈالی ہے ۔ مختلف فصلوں کی کا شتکاری نیز فوڈ پروسیسنگ ( food processing ) کا ذکر کیا ہے ۔ مثلاً المقدسی نے اپنے سفرنامے میں نہروں کے نظام پر کافی روشنی ڈالی ہے ۔ اس نے مصر میں پانی کے دو بندھوں ( dams ) کا بھی ذکر کیا ہے جن کا مقصد دریائے نیل میں سیلاب آنے پر پانی کو محفوظ کر کے استعمال میں لانا تھا ۔ یہ بندھ پانی سے بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کا ذریعہ بھی تھے ۔ 

          دسویں صدی میں فارس کے صوبے میں امیر عضد الدولہ نے 960 ء میں شیراز اور استخار کے درمیان دریا ئے کور کے اوپر واٹر ڈیم ( water dam ) تعمیر کروایا جو 30 فٹ اونچا اور 250 فٹ لمبا تھا ۔ اس میں واٹروھیل استعال کیے گئے تھے ۔ ہر وھیل کے نیچے مل بنائی گئی تھی ، اس کا نام بندامیر تھا جواب بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔

           زراعت کے لیے واٹر سپلائی نیز واٹر پاور کے لئے اسلامی اسپین میں ویلینسیا ( Valencia ) کے مقام پر جوواٹرڈیم تھا وہ 25 فٹ اونچا اور 420 فٹ لمبا تھا ۔ اس کی چوڑائی 160 فٹ تھی ۔ ہائیڈ راکس ( Hydrolics ) کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں پانی ۲۵ فٹ لمبے پلیٹ فارم پرسترہ فٹ کی اونچائی سے گرتا تھا ۔ یوں اس کی بنیا کونقصان نہیں پہنچتا تھا ۔ ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک موجود ہے ۔

            مایہ ناز مسلمان انجینیر الجزاری نے 1206 ء میں انجینئرنگ پیراپنی کتاب میں پانی سے چلنے والے ایسے پسٹن پمپ ( piston pump ) کا ذکر کیا ہے جس میں دو سلنڈر ( cylinder ) اور ایک سکشن پایپ ( suction pipe ) تھا ۔ ایک اور مشین میں اس نے کر ینک ( crank ) استعمال کیا جو دنیا میں کر ینک کے استعمال کی پہلی مثال تھی ۔ 

           


 تقی الدین نے 1560ء میں پانی سے چلنے والے پمپ کا ذکر کیا جس میں چھ سلنڈر تھے ۔ ہا ئیڈ رالک انجینئرنگ کے موضوع پر عراق میں گیارہویں صدی میں دو کتابیں لکھی گئی تھیں ۔ پہلی کتاب کا مصنف الحسن الحسیب الکراجی ( 1029 ء ) تھا اس کا نام انباط المیاء الخفیہ ہے یعنی چھپے ہوئے پانی کے ذخیرے کوسطح پرلا نا ۔

         کتاب کے پانچویں باب میں سروے اِنگ ( surveying ) اور سروے اِنگ انسٹرومینٹس ( surveying instruments ) پرمعلومات ہیں ۔ دوسری کتاب عراق میں نہروں کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال پر ہے ۔ الادریسی نے بھی قرطبہ میں واٹر ڈیم کا ذکر کیا ہے جو خاص قسم کے پتھر سے بنایا گیا تھا ۔ اس کے ستون سنگ مرمر کے تھے ۔ ڈیم میں تین مل ہاؤسز تھے ، ہر عمارت میں آنے کی چا ملیں تھیں ۔ یہ چکیاں عرصہ دراز تک زیر استعمال ہیں ۔ 

[Smith N] 



         المقدسی نے بیان کیا ہے کہ دریائے دجلہ کے

 سرچشمے پر ایک مل واٹر پاور سے کام کرتی تھی ۔ الاصطخری نے لکھا ہے کہ ایران کے صوبہ کرمان میں ایک دریا کے سرچشے پر ۲۰ ملیں کام کرتی تھیں ۔ قرون وسطی کے اسلام ممالک میں واٹر ریزنگ مشینزیعنی سقایہ (جانور سے چلنے والا کنواں ) اورنوریا (واٹر وھیل ) کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ بلاذرگی نے نوریا کی تعمیر کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ المقدسی نے اہواز ( خوزستان ) میں دریا کے کنارے اور نوریاؤں کا ذکر کیا ہے ۔ الادریسی نے اسپین کے شہر طلیطلہ ( ٹولیڈو ) میں ہائیڈرالک انسٹالیشن ( hydrolic installation ) کا حوالہ دیا ہے جس میں نوریا سے پانی پچاس فٹ کی بلندی تک لا یا جا تا تھا اور اسے آبی ذخیرے ( Aqueduct ) میں اکٹھا کر کے شہر کو سپلائی کیا جاتا تھا ۔ قرطبہ کی جامع مسجد میں وضو کے لئے پانی قریبی پہاڑوں سے پائپوں کے ذریعے لایا جاتا تھا ۔






کتاب : مسلمانوں کے سائنسی کارنامے

زکریا ورک

         

Presented by :

 https:/madaarimedia.blogspot.com/ (Website)

 @Madaarimedia- (Youtube)

@madaarimedia (Telegram)

Hafiz Ghulam Farid Madaari Bisalpuri