نمودِ صبح کا پھولوں کی دلکشی کا سراغ
غمِ حسین سےملتا ہے ہر خوشی کا سراغ
غمِ حسین سےملتا ہے ہر خوشی کا سراغ
فلک کے چاند ستاروں کو اور سورج کو
ملا ہے شامِ غریباں سے روشنی کا سراغ
غمِ حسین میں خود کو مٹا دو اے لوگو!
جو چاہتے ہوکہ مل جائے زندگی کا سراغ
چلو حسین کی دہلیز چوم لیں جھک کر
وہیں سے ملتا ہے فردوس کی گلی کا سراغ
قسم خدا کی وہ صبرِ حسین ہے جس سے
زمانے بھر کو ملا امن و آشتی کا سراغ
چٹک کے کہتی ہیں کلیاں بڑی عقیدت سے
دیا ہے کرب و بلا نے شگفتگی کا سراغ
خدا گواہ بس اک شاہِ کربلا کے سوا
لگا نہ پایا کوئ منزلِ خودی کا سراغ