حضرت سرکار مخدوم محمد جمال الدین جانمن جنتی رضی اللہ عنہ

 
میرے پیارے بھائیو اللہ کی اس لامحدود کائنات  میں لاتعدادمخلوق بستی ہے جس کا محاصرہ کرنے کیلئے انسانی عقل تو قاصر ہی ہے لیکن اگر ہم صرف انسانی مخلوق کی بات کریں تو اس انسانی مخلوق میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی شخصیت بھی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی ہے کیونکہ ان کا جینا ان کا رہنا ان کا کھانا پینا ان کا چلنا ان کا بیٹھنا دیکھنے میں تو عام انسان کی طرح لیکن عام انسان سے مختلف ہوتا ہے حالانکہ ایسے نامی گرامی لوگ تو ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور مذہب کے پیروکار اپنی ان نامی گرامی شخصیتوں کو مانتے بھی ہیں لیکن دوسرے مذاہب کی بلند و بالا شخصیات کی شان و عظمت نہیں پہچانتے اور نہیں مانتے چلو نہ مانیں وہ اپنی جگہ ہے نہ عزت دیں وہ اپنی جگہ ہے لیکن وہ تو اس شخصیت کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کے جب کلمات کہتے ہیں تو دل بغیر ان پر تبراء کیے نہیں مانتا لعنت ہو ایسے لوگوں پر جو منکرین جماعت اولیاء اللہ ہیں
آپ سمجھ ہی گئے ہونگے ہم کس کی بات کر رہے ہیں ہم بات کر رہے ہیں مدار پاک کے اس خلیفہ کی جنہیں سردار ملنگا‌ں کہا جاتا ہے یعنی جنہیں ملنگان کرام کی جماعت کا امام اور پیشوا کہا جاتا ہے جنہیں سلسلہ مداریہ دیوانگان کا سر گروہ کہا جاتا ہے اور جنہیں مدار پاک کے خاص اور عظیم خلفاء میں مقام دیا جاتا ہے چلیے آئے جب آپ یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو جان لیجئے کہ اس شخصیت کا تاریخ کی کتابوں نے

 سید محمد جمال الدین جان من جنتی
ہونے کا اعلان کیا ہے اس مقدس ذات کی وہ شان ہے کہ اولیاء کی جماعت میں آپ کے بعد ایسی شان کسی کو نہیں ملی تو میرے بھائی پہلے ہم وہ چند باتیں بیان کرتے ہیں جن پر لوگ اختلاف کا شکار ہیں اس کے بعد ہم حضرت کی سیرت و سوانح پر روشنی ڈالیں گے
 پہلی بات تو یہ کہ آپ مدار پاک کے خلیفہ ہیں
 دوسری بات یہ کہ آپ مدار پاک کی ہی دعاؤں سے پیدا ہوئے جس کی پیشنگوئی خود سر کار غوث پاک نے ہی فرمائی تھی
تیسری بات یہ کہ آپ بی بی نصیبہ کے صاحب زادے ہیں
چوتھی بات یہ کہ بی بی نصیبہ سرکار غوث پاک کی سگی بہن ہیں یعنی سید محمد جمال الدین جان من جنتی غوث پاک کے سگے بھانجے ہیں
اور پانچویں بات یہ کہ ملنگ صرف آپ ہی کے سلسلے میں ہوتے ہیں اور آپ سلسلہ مداریہ کے بزرگ ہیں
سامعین حضرت سیدنا جمال الدین جان من جنتی کی ولادت پانچویں صدی ہجری کو بغداد میں ہوئی آپ کے والد کا نام سید محمود اور آپ کی والدہ کا نام بی بی نصیبہ ہے آپ کے ایک بھائی بھی ہیں وہ بھی  بہت بڑے اللہ کے ولی ہیں جن کا نام سید احمد ہے جو کہ میراں شاہ بابا کے نام سے مشہور ہیں

آپ کی پیدائش کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کہ حضرت بی بی نصیبہ کے یہاں کوئی اولاد نہیں تھی آپ اپنے بھائی حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی حضور سیدنا غوث پاک نے لوح محفوظ کا مشاہدہ فرماکر بتایا بہن تیری قسمت میں اولاد تو ہے مگر وہ شہنشاہ ولایت حضور سرکار سیدنا بدیع الدین احمد قطب المدار کی دعا پر موقوف ہے عنقریب وہ بغداد میں آئیں گے جب بغداد میں آئیں تو تم ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ان سے دعا کی درخواست کرنا مدار پاک کی دعاؤں کے طفیل اللہ تمہیں ضرور اولاد عطا فرمائے گا ادھر مدار پاک کے قدس سرہ پانچویں صدی ہجری میں سفر فرماتے ہوئے بغداد پہنچے بغداد کے لوگوں نے بھی آپ کے کمالات کا چرچا پہلے ہی سے سنا ہوا تھا اور بغداد ایک عرصے سے آپ کے دیدار کا منتظر تھا کتنے ہی حاجت مند اسی انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب مدار پاک بغداد میں آئیں جیسے یہ خبر ملی کہ مدار پاک بغداد میں تشریف لے آئے ہیں تو پورا بغداد آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں جھوم رہا تھا ہر طرف مسرتوں کا سماں چھایا ہوا تھا لوگ آپس میں ایک دوسرے کو شہنشاہ ولا کی آمد کی اطلاع دے رہے تھے غرض کے پورے بغداد میں آپ کی آمد آمد کی دھوم مچی ہوئی تھی اور ایک کے بعد ایک عقیدت مند آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر فیضان مداریت سے مالا مال ہو رہا تھا اور اب وہ وقت بھی آگیا کہ حضرت بی بی نصیبہ بھی سرکار مدار پاک کی بارگاہ میں عریضہ لے کر پہنچیں حضرت بی بی نصیبہ کی عرضی کو سن کر مدار پاک نے فرمایا یا اللہ عزوجل عنقریب تمہیں دو فرزند سعید عطا فرمائے گا لیکن آپ وعدہ کریں کہ بڑے فرزند کو آپ مجھے دے دیں گے قدسی صفات اس خاتون نے اس شرط کو قبول فرمایا لیا اور کچھ دن کے بعد بی بی نصیبہ کے یہاں سید محمد اور سید احمد رضی اللہ عنہن کی ولادت ہوئی جن کے نام محمد اور احمد رکھے گئے


کچھ عرصہ گذرنے کے بعد حضور قطب المدار قدس سرہ پھر بغداد پہنچے ، پورا بغدا دایک بار پھر آپ کی آمد کی خوشی سے جھوم اٹھا ، بغداد کے اطراف سے بھی لوگ جوق در جوق آنے لگے ، جس قدر بھی لوگ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ ، آپ نے سبھوں کو شادکام فرمایا ۔ حضرت سیدہ بی بی نصیبہ بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور سرکار مدار پاک کو صاحبزادگان کے ولادت کی خبر دی مگر دل ہی دل میں صاحبزادے کی جدائی کے تصور سے کانپ اٹھیں بڑے صاحبزادے سید محمد جمال الدین اب سن شعور کو پہو نیچنے والے تھے جبکہ چھوٹے فرزند سید احمد ابھی ان سے کچھ چھوٹے تھے ، سر کار مدار العلمین قدس سرہ نے سیدہ بی بی نصیبہ سے فرمایا کہ آپ اب اپنا وعدہ پورا کریں یعنی محمد جمال الدین کو میرے حوالے کر دیں ۔ حضور مدار پاک کے زبان فیض سے یہ جملہ سن کر آپ کی ممتا تڑپ اٹھی مگر وعد ہ تو وعدہ اور وہ بھی اتنے عظیم ولی اللہ سے کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آئی بیساختہ حضرت سیدہ کی زبان سے نکلا کہ حضور محمد جمال الدین تو انتقال کر گئے آپ خوب جانتے تھے کی بی بی نصیبہ کو شفقت مادری کے جذبے نے بے اختیار کر دیا ہے مگر آپ نے ان سے کچھ نہیں فرمایا بی بی نصیبہ بھی اجازت مانگ کر گھر کی طرف چل پڑیں ، ابھی آپ گھر کے قریب پہونچی ہی تھیں کی اطلاع ملی کہ محمد جمال الدین زینے سے گر پڑے اس سے پہلے کی آپ ان تک پہونچتیں ، محمد جمال الدین کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ آپ کرب وغم سے بے قرار ہوگئیں اور بلا تاخیر افتاں و خیزاں حضور مدار پاک کی بارگاہ میں پہونچیں اور پورا قصہ بیان فرمایا ۔حضور شہنشاہ ولایت مسکرائے اور فرمایا کہ ٹھیک ہے جاؤ محمد جمال الدین کو میرے پاس لے آؤ ۔ جب حضرت جمال الدین کی نعش مبارک آپ کی خدمت میں لا کر رکھی گئی تو آپ نے ان کے سر پر اپنا دست مقدس رکھا اور فرمایا جمال الدین جان من جنتی اٹھو تمھیں تو دین رسول کی بڑی خدمتیں کرنی ہیں ، آپ کے زبان فیض تر جمان سے یہ جملے نکلے ہی تھے کہ حضرت سید نا جمال الدین جان من جنتی اٹھ کر بیٹھ گئے ۔ آپ کی بارگاہ سے ملا ہوا خطاب جان من جنتی آج بھی آپ کے اسم مبارک سے جڑا ہوا ہے ، دیہاتوں میں اکثر لوگ جمن جتی بھی کہتے ہیں


ثمرات القدس میں ایک روایت اس طرح بھی ہے کہ بعد ولادت سید نا غوث اعظم قدس سرہ اپنے دونوں بھانجوں یعنی حضرت سید محمود کے صاحبزادگان حضرت سید جمال الدین جان من جنتی اور حضرت سید احمد بادیا پہ کو لے کر خود بارگاہ مدار میں تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ دونوں میری ہمشیرہ بی بی نصیبہ کے دلبند ہیں ۔ آنحضرت کی ذات برکات سے فائز المرام ہونا چاہتے ہیں ۔ صاحب بحرزخار نیاس بابت لکھا ہیکہ وسید احمد را از حضرت غوث الاعظم دست گرفته بشاه مدار سپرده که کشائش این مرد به تلقین تو مقرر شده از تربیت او غافل نشوی بحرز خارقلمی شعبہ چہارم 
۔ نوٹ : بحر زخار کا نسخہ مختارا شرف لائبریری کچھوچھہ مقدسہ سے حاصل ہوا ۔
حضور مدار پاک حضرت بی بی نصیبہ کو دعا دے کر حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہو گئے ۔ایک عرصہ دراز کے بعد جب پھر دوبارہ بغداد پہونچے تو حسب وعدہ بی بی نصیبہ اپنے دونوں فرزندوں کو لے کر بارگاہ قطب المدار میں حاضر ہوئیں ، حضور مدار پاک نے بی بی نصیبہ کے فرزندوں کو دل و جان سے قبول فرمایا اور انھیں لے کر استنبول کی طرف روانہ ہو گئے ۔

 
ان حضرات کی تربیت شروع عمر سے ہی ضرور سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ہی فرمائی ہوگی اور جب یہ دونوں بھائی یعنی سید محمد جمال الدین جان من جنتی اور سید احمد بادیپہ کی عمر جب بڑھ گیئ اور آپ سن شعور کو پہنچے تو سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ نے مدار پاک کی بارگاہ میں عریضہ پیش کیا کہ آپ میرے ان دونوں دل بند بھانجوں کو اپنی شاگردی میں لے لیں حضور مدار پاک نے بیوی نصیبہ کو دے کر سید محمد اور سید احمد کو اپنے ساتھ لے لیا سامعین یہ دونوں حضرات بڑے عظیم پائے کے ولی ہیں ہم جتنی ان کی مدح سرائی کریں شان و عظمت کو بیان کریں کم ہے ہم اس سے پہلے حضرت سید محمد جمال الدین جان من جنتی کے بھائی سید احمد بادیپہ کے حالات پر ویڈیو اپلوڈ کر چکے ہیں ان کے حالات آپ اس ویڈیو میں دیکھ لیں اس کا بھی لنک آپ کو ڈسکرپشن میں مل جائے گا
المختصر حضور مدار پاک نے ان کو اپنے ساتھ لے کر استنبول پہنچے اور ان دونوں کو علم صوری کی تعلیم کے لیے حضرت عبداللہ رومی کے حوالے فرمایا اور خود ایک پہاڑ کی گھاٹی میں حبس سے دم کے اشغال میں واحد حقیقی کے ذکر میں مشغول ہو گئے
سامعین حضور مدار العالمین کی ہی نوازش کا صدقہ ہے کہ  محمد جمال الدین جان من جنتی مداری قدس سرہ کا اسم شریف بھی کاملان طریقت کی لسٹ میں سرفہرست ہے آپ نے بھی تقریبا اکثر ممالک کا سفر فرمایا ہے آپ کی عمر شریف بھی کافی لمبی ہوئی تاریخ کی کتابوں میں 400سال بھی تحریر ہے آپ کی عمر کا اکثر حصہ حضور قطب المدار کی خدمت میں گزرا ہے آپ مدار پاک کے بڑے چہیتے اور محب نظر مرید اور خلیفہ ہیں 


آپ کے سر کے بال بہت لمبے تھے آپ کے بال نہ کٹوانے کی دو روایتیں مشہور ہیں۔
ایک تو یہ کی حضور  مدار پاک نے حضرت جمال الدین جان من جنتی کے عہد طفلی میں اپنا دست اقدس ان کے سر پر رکھ کر دعا فرمائی تھی
اور دوسری روایت جو ۔ تذکرۃ المتقین فی احوال خلفاۓ سید بدیع الدین - کے حاشیہ پرتحریر ہے کہ حضور سید نا زندہ شاہ مدار نے حضرت محمد جمال الدین جانمن جنتی کو اجمیر کے ایک پہاڑ پر ذکر حق واشغال جبس دم میں بیٹھنے کا حکم دیا۔حسب حکم ایک طویل عرصے تک آپ جس دم میں بیٹھے رہے ، یہاں تک کہ آپکے سر سے خون نکلنے لگا ۔ جب حضور سید نا مدارا العالمین کو اطلاع ملی تو آپ نے حضرت جان من جنتی کے سر پر اپنے دست مبارک سے دھونی کی راکھ ڈال دی جس کے سبب خون نکلنا بند ہو گیا ۔ جب حضرت سید جمال الدین جان من بنتی قدس سرہ پہاڑ کی گھاٹی سے باہر آۓ تو لوگوں نے آپ کو اس بات کی اطلاع دی کہ ایسا ایسا واقعہ آپ کے ساتھ یہ پیش آگیا تھا پھر حضور سر کار زندہ شاہ مدار نے آپ کے سر پر راکھ ملی تھی ۔ حضرت نے سنا کہ میرے سر پر میرے آقا حضور مدار پاک نے اپنا دست حق رکھا تھا ، بس اس دن کے بعد سے بال کٹوانا بند کر دیا ۔ ملنگان عظام اسی باعث اپنے بال سر سے جدا نہیں کرتے ہیں ، آپ نے پوری زندگی مجردانا طور پر گزاری ہے یعنی زندگی بھر شادی نہیں کی آپکے خلفاء کے ذریعے سے سلسلہ مداریہ کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے بڑے بڑےامرا اور سلاطین نے آپ کی بارگاہ میں حاضری دی ہے اور فیوض و برکات سے مالامال ہوئے ہیں


ایک دفعہ بادشاہ شیر شاہ سوری آپ سے ملاقات کرنے کی غرض سے چلا اور دل میں یہ ارادہ کیا کہ اگر آپ واقعی سچے  پیرہو نگے تو مجھے آم دینگے جبکہ اس وقت آم کا موسم بھی نہیں تھا لیکن جیسے ہی آپ کی بارگاہ میں پہنچا تو شیر شاہ سوری نے دیکھا کہ حضور سیدنا جمال الدین جان من جنتی کے ہاتھ میں آم ہے سرکار جان من جنتی نے وہ آم شیر شاہ سوری کو دے دیا شیر شاہ سوری نے آم آپ کے ہاتھ سے لے لیا اور درویشی و فقیری کے موضوع پر آپ سے گفتگو کرنے لگا جانے کے بعد سرکار جمال الدین جان من جنتی نے فرمایا کہ اگر شیر شاہ سوری آم کھالیتا تو اس کے خاندان میں نسلًا بعد نسلاً  بادشاہت قائم ہوجاتی مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا
حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ بھی بھی حضور سیدنا جمال الدین جان من جنتی سے اپنی ملاقات کا ذکر میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور محمد جمال الدین جان من جنتی شیر کی سواری کیا کرتے تھے -
اور جب آپ جنگلوں میں ہوتے تو چاروں طرف سے جنگلی جانور آپ کو گھیرے رہتے تھے


اور یہ کرامت آج بھی زبان زد عام و خاصہے کہ ایک مرتبہ حضور قطب وحدت سید نا مدار العلمین اور آپ ایک پہاڑی پر قیام فرما ہوئے جہاں تقریبا نو سو سادھو مہنت بھی ٹھہرے ہوئے تھے ان سادھوں کا بھنڈارا صبح شام چلتا رہتا تھا ۔ ایک روز حضور سیدنا زندہ شاہ مدار نے فرمایا کہ جان من جنتی میرا پیالہ لے کر سادھوں کے پاس جاؤ اور تھوڑی آگ لے آؤ ، آپ پیالہ لے کر روانہ ہوئے اور سادھؤوں کے پاس پہونچ کر آگ مانگی ، سب سے بڑا سادھو بولا آگ کا کیا کیجے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ مرشد گرامی نے مانگا ہے ، ایک دوسرے مہنت نے کہا کہ شاید کھانا بنانے کے لیے ہی آگ مانگا ہوگا لہذا انھیں آگ دینے کے بجائے دو آدمیوں کا کھانا دے دیا جائے ۔ حضرت جانمن جنتی نے فرمایا کہ نہیں میرے مرشد تو کھانا کھاتے ہی نہیں ہیں البتہ میں ضرور کبھی کبھی کھا لیتا ہوں مگر ہمیں کھانے کی حاجت نہیں ۔ آگ ہی چاہئے ، بڑے سادھو نے کہا ٹھیک ہے آپ آگ بھی لے لیں اور پیالے میں کھانا بھی لے لیں جب آپ نے دیکھا سادھو اصرار پر اصرار کیے جا رے ہیں تو آپ نے اپنا پیالہ ۔ ان کے آگے کر دیا ۔ باورچی کو حکم ہوا کہ پیالہ میں بھر کر کھانا لے آؤ ۔ باورچی نے پیالے میں کھانا ڈالنا شروع کیا مگر کیا کہیے کہ دیگیں ختم ہوگئیں مگر پیالہ ہے کہ بھر نے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے یہاں تک کہ ساری دیگیں ختم ہوگئیں مگر پیالہ نہیں بھرا ، اب تو تمام مہنت و سادھو حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے اور ایک دوسرے کو حیرت بھرے انداز میں دیکھنے لگے ، معاملہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے والا تھا ۔ آپ کی کرامات و کمالات ان مشرکوں پر بھی ظاہر ہو چکے تھے اور آپ کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھ چکا تھا ۔ حضور سید نا جمال الدین جان من جنتی نے عین اسی مقام پر ایک ایسا وظیفہ کیا کہ کچھ ہی دیر کے بعد آپ کے جسم کے سارے اعضاء الگ الگ ہوگئے ، یہ کیفیت اور یہ منظر دیکھ کر بہت لوگ گھبرا گئے لیکن ان میں سے ایک جادوگر نڈرمہنت نے گھبرا کر آواز بلند کی دیکھتے کیا ہو ، ان کی بوٹی بوٹی کر کے کھا جاؤ ، یہ سارےکمالات تمھارے اندربھی پیدا ہو جائیں گے اور اس کی خوبیاں تمہارے اندربھی سرائیت کر جائیں گی مہنتوں کا دماغ پھرا اور انھوں نے آپ کے جسم کے بکھرے اعضا اور ٹکڑوں کی بوٹی ہوئی کی اور ان ظالموں نے انھیں کھا لیا ادھر حضور قطب المدارآپ کا انتظارفرما رہے تھے ۔ چنانچہ جب زیادہ تاخیر ہوئی تو آپ خود چل کر پہاڑی پر پہونچے اور ایک پتھر پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ جمال الدین جان من جنتی تم کہاں ہو ؟ حضرت خواجہ جمال الدین جان من بنتی نے تمام سادھوں کے پیٹوں کے اندر سے جواب دیا کہ حضور میں مہنتوں کے پیٹ میں ہوں ۔ ہر مہنت کے پیٹ سے یہی صدا بلند ہوئی حضور میں یہاں ہوں حضور سر کار زندہ شاہ مدار نے فرمایا کہ جلدی سے آؤ ۔حضرت جان من جنتی نے جواب دیا کہ حضور کیسے باہر آؤں تمام راستے گندے ہیں حضور زندہ شاہ مدار نے فرمایا کہ تمام سنتوں کے پیٹ سے نکل کر سب سے بڑے مہنت کے پیٹ میں آجاؤ اور پھر اسکا سر پھاڑ کر باہر آ جاؤ تمام سَنت سرکار مدار پاک کی بات سن کر سکتے میں پڑ گئے ابھی تھوڑ اہی وقفہ گذرا ہوگا کہ تمام سنتوں نے جنھیں رتی رتی کر کے کھا لیا تھا ، وہی حضرت سب سے بڑے مہنت کا سر پھاڑ کر باہر آ گئے جب ان کفار و مشرکین نے ایسی عظیم کرامت دیکھی تو سب کے سب نادم و شرمندہ ہو کر قدم بوس ہوئے اور کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے اور دل و جان سے آپ کے مرید وغللام بن گئے ۔ بعد میں ان میں سے بہت سارے لوگ نعمت خلافت و اجازت سے سرفراز ہوکر صاحب کشف و کرامت بھی ہوۓ ، ان لوگوں سے تعلق اور بھی بہت سارے افراد تھے ، وہ بھی نعمت اسلام سے مالا مال ہو گئے ، یہ حیرت ناک واقعہ گجرات میں جونا گڑھ گر نار نامی پہاڑ پر واقع ہوا ، جہاں آج بھی وہ پتھر جس پتھر پر کھڑے ہوکر حضور قطب المدار نے سرکار جانمن جنتی کو آواز دی تھی ، اس پتھر پر آج بھی سر کا زندہ شاہ مدار کے پائے اقدس کے نشان بنے ہوئے ہیں 


 حضور سیدنا جمال الدین جان من جنتی کے دینی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہے  ہندوستان میں کئی مقامات پر آپ کے چلے بنے ہوئے ہیں آپ کے خلفاء کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ہے حضرت فخر الدین زندہ دل حضرت سدھن سرمست حضرت حضرت قطب غوری جیسے آپ کے قابل ذکر خلفاء میں ہیں یہاں تک کہ آپ کا فیض حضرت بابا فرید الدین گنج شکر تک بھی پہنچا ہے 
 آپ کا وصال پر ملال چودہ ۱۴ محرم الحرام  سن 951 ہجری میں ہوا آپ کا مزار مبارک ریاست بہار کے ضلع نالندہ کے قصبہ ہلسہ میں مرجع خلائق ہے