فضائل و مسائل عید قرباں

فضائل و مسائل عید قرباں


عشرۂ ذو الحجہ کے فضائل:
حدیث شریف : سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ عشرۂ ذو الحجہ سے زیادہ کوئی زمانہ نہیں ہے جس میں عبادت کرنا اللہ کے نزدیک محبوب نہ ہو۔اس عشرہ کے ہر دن کے روزے ایک سال کے روزوں کے برابرہیں اور شب کا قیام (عبادت) شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔
حدیث شریف : حضرات صحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت۔ عرض کیا کہ ہمیں اس میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی یعنی بھینس بکری کے جتنے بال ہوتے ہیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ عرض کی صحابہ نے پس ادن (دنبہ) اور بھیڑ اور اونٹ کے ادن ہوتی ہے۔ سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ان کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔

حدیث شریف : سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ نے فرمایاجس نے اپنے کان اور زبان اور نظر کو روز عرفہ محفوظ رکھا اس کے ایک عرفہ سے دوسرے عرفہ تک کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔
حدیث شریف : سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس نے چار شب بیداری کی اس کے لئے جنت یا مغفرت واجب ہوئی۔ ذو الحجہ کی آٹھویں شب، عرفہ کی شب، عید الاضحی کی شب، عید الفطر کی شب۔
عید قرباں کی سنتیں: غسل کرنا، مسواک کرنا، خوشبو لگانا، عمدہ لباس پہننا، عیدگاہ کو پیادہ جانا، ایک راستے سے جانا دوسرے راستے سے واپس ہونا، قبل نماز کچھ نہ کھانا۔


عید قرباں کے مستحبات:
صدقہ کی کثرت کرنا، باہم ملنا، مبارک باد دینا، خوشی کا اظہار کرنا، مصافحہ و معانقہ کرنا۔ سیدنا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسوی میں امام نودی کا قول نقل فرماتے ہیں، ہذا ینبغی ان یقال فی المصافحۃ یوم العید و المعانقۃ یوم العید۔ اور غنیہ میں ہے، کذ المصافحۃ بل ہی سنت عقیب الصلوٰۃ کلھا۔ راہ میں تکبیر تشریق اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْبلند آواز سے پڑھنا، اور جس کے ذمہ قربانی ہو اس کو ذو الحجہ کی چاند رات سے نماز عید تک خط نہ بنوانا، ناخن نہ کٹوانا مستحب ہے۔
تکبیر تشریق: نویں ذو الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک جماعت مستحبہ کے بعد ہر مکلف مرد پر ایک مرتبہ بآواز بلند تکبیر مذکور کو پڑھنا واجب ہے۔ امام بھول جائے تو مقتدی یاد دلادیں۔
نماز عید قرباں: عید قرباں کی دورکعت نماز ہر عاقل بالغ مقیم و تندرست پر شہر میں واجب ہے۔ گاؤں میں عیدین اور جمعہ کی نماز جائز نہیں۔ مگر وہ بڑے گاؤں یعنی قصبہ جو شرعاً شہر کا حکم رکھتے ہیں ان میں عیدین اور جمعہ دونوں کی نمازیں جائز ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ جمعہ میں خطبہ فرض ہے اور عید قرباں میں سنت۔ دوم: جمعہ میں خطبہ نماز سے قبل ہے اور یہاں نماز کے بعد۔ کسی نے عید کی نماز کے بعد خطبہ نہ پڑھا یا نماز سے قبل پڑھ لیا دونوں صورتوں میں نماز تو ہوئی مگر یہ شخص گنہگار ہوا۔ نماز عید نماز جنازہ پر مقدم کی جائے اور نماز جنازہ خطبہ پر۔


عید کی نماز کا وقت: عید کی نماز کا وقت آفتاب کے بقدر نیزہ بلند ہونے سے زوال تک ہے۔ اگر نماز پڑھتے میں زوال کا وقت آگیا نماز فاسد ہو جائیگی۔
دعاء: بعد خطبہ سب ملکر دعاء مانگیں کیونکہ ذکرو عبادت کے بعد دعاء قبول ہوتی ہے۔ خطبہ و نماز دونوں ذکر بھی ہیں اور عبادت بھی۔ حدیث شریف میں مسلمانوں کے اجتماع کے وقت (مثل جمعہ و عید) دعاء کرنا مروی ہے۔ قبل دعاء درودو سلام پڑھیں۔
قربانی: یہ ایک مالی عبادت ہے جو غنی پر واجب ہے۔ خاص جانور کو خاص وقت میں اللہ کیلئے ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔ مسلمان مقیم مالک نصاب آزاد پر واجب ہے۔ اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے ۔ مسئلہ: مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر نفل کے طور پر چاہے تو کر سکتا ہے ثواب پائیگا۔ قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے۔ یعنی تین دن اور دو راتیں۔ لیکن دسویں شب میں افضل ہے پھر گیارہویں پھر بارہویں۔ مسئلہ: شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز کی بعد ہو اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں اسلئے صبح صادق سے ہو سکتی ہے۔ مسئلہ:قربانی کے وقت میں قربانی ہی کرنی لازم ہے۔ اتنی قیمت یا اتنی قیمت کا جانور صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا۔ مسئلہ:قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی اب نہیں ہو سکتی، لہٰذا اگر کوئی جانور قربانی کیلئے خرید رکھا ہو تو اسکو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ مسئلہ:جب قربانی کی شرطیں پائی جائیں تو ایک بکری یا بھیڑ کا ذبح کرنا اونٹ یا بھینس کا ساتواں حصہ واجب ہے، اس سے کم نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں سے کم ہے تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی۔ ہاں اگر سات سے کم شریک ہوں اور حصے بھی کم و بیش ہوں لیکن کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو تو جائز ہے۔ مسئلہ: قربانی کے سب شریکوں کی نیت ثواب حاصل کرنا ہونا چاہئیے ، خالی گوشت حاصل کرنا نہ ہو، لہٰذا عقیقہ کرنے والا شریک ہو سکتا ہے عقیقہ ثواب حاصل کرنے کی ایک صورت ہے۔


گوشت اور کھال: جانور اگر مشترک ہے تو گوشت تول کر تقسیم کیا جائے اٹکل سے نہ بانٹیں۔ اگر کسی کو زیادہ پہونچ گیا تو دوسرے کے معاف کرنے سے بھی جائز نہ ہوگا کہ حق شرع ہے۔ پھر اپنے حصے کے تین حصے کرکے ایک حصہ فقیروں کو دیدیں اور ایک حصہ عزیزوں اور دوستوں کو دیدیں اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کیلئے رکھیں، خود بھی کھائے اور بال بچوں کو بھی کھلائے۔ اگر گھر والے زیادہ ہوں تو سارا گوشت گھر کے صرف میں لا سکتا ہے اور اگر چاہے تو سب صدقہ بھی کر سکتا ہے اگرچہ ایک حصہ اپنے لئے بہتر ہے۔ مسئلہ: اگر میت کی طرف سے قربانی کرے تو اسکے گوشت کا بھی یہی حکم ہے البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کر دینا تو اس صورت میں سارا گوشت صدقہ کرے۔


مسئلہ: قربانی اگر میت کی ہے تو اُس گوشت کو نہ خود کھا سکتا ہے اور نہ غنی کوکھلا سکتا ہے بلکہ اسکو صدقہ کردینا واجب ہے۔ مسئلہ: قربانی کرنے والا سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے مسئلہ:قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے (کہ یہاں کے کفار حربی ہیں) مسئلہ: آجکل لوگ اکثر کھال دینی مدرسوں میں دیا کرتے ہیں یہ جائز ہے مگر مدرسے میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسے میں دیدیں تویہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ:قربانی کا گوشت یا چمڑا قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا ، ہاں اگر دوستوں کی طرح ہدیۃً حصہ دیا تو دے سکتا ہے جب کہ اسے اُجرت میں شمار نہ کرے۔ مسئلہ: بعض جگہ قربانی کا چمڑا مسجد کے امام کو دے دیتے ہیں اگر تنخواہ میں نہ دیا جائے بلکہ بطور مدد کے دیا تو حرج نہیں۔


قربانی کے جانور: اونٹ، بھینس، بکری، بھیڑ، نر، مادہ، خصی، غیر خصی، سب کی قربانی ہو سکتی ہے۔ مسئلہ: وحشی جانور جیسے ہرن، نیل گائے، بارہ سنگھا وغیرہ کی قربانی نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ: اونٹ پانچ سال، بھینس دو سال، بھیڑ و بکری ایک سال تک کی ہو یا زیادہ کی۔ اس سے کم میں ناجائز ہے۔ لیکن دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اسکی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ: قربانی کا جانور موٹا تازہ اور اچھا ہونا چاہئیے اگر تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائیگی مگر مکروہ ہوگی اور اگر زیادہ عیب ہے تو ہوگی ہی نہیں۔ مسئلہ: منڈا جسکے پیدائشی سینگ نہ ہوں جائز ہے البتہ اگر سینگ تھے اور ٹوٹ گئے اور سینگ (گودا) تک ٹوٹ گئے تو جائز نہیں اور اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔ مسئلہ: اندھا، لنگڑا، کانا، بیحد کان کٹا، دم کٹا،بے دانت کا، تھن کٹا، تھن سوکھا، ناک کٹا، پیدائشی بے کان کا، بیمار خنثیٰ،( جسکی دونوں نشانیاں ہوں) جلالہ ( جو صرف غلیظ کھاتا ہو) ان سبکی قربانی جائز نہیں۔مسئلہ: بیماری اگر ہلکی ہے اور لنگڑا پن ہلکا ہے کہ چل پھر سکتا ہے اور قربان گاہ تک جا سکتا ہے یا کان ناک دُم تہائی سے زیادہ نہ کٹی ہو تا جائز ہے۔ مسئلہ: قربانی کرتے وقت جانور اُچھلا کودا اور اس سے عیبی ہوگیا تو حرج نہیں ۔مسئلہ: قربانی کی اور پیٹ میں زندہ بچہ ہے تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لائے اور اگر مَرا ہوا ہو تو اسے پھینک دے۔ مسئلہ:خرید نے کے بعد قربانی سے پہلے جانور نے بچہ دے دیا تو اسے بھی ذبح کر ڈالے اور اگر بیچ دیا تو اسکی قیمت کو صدقہ کردے اور ایام قربانی میں ذبح نہ کیا تو زندہ صدقہ کردے۔ فائدہ: سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ کا کرم عمیم تھا کہ خود اُمتِ مرحومہ کی طرف سے قربانی فرمائی اور اس موقع پر بھی امت کا خیال فرمایا لہٰذا جس مسلمان سے ہو سکے وہ سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی ﷺ کی جانب سے بھی قربانی کرے۔


قربانی کا طریقہ
قربانی کے جانور کو ذبح سے پہلے چارہ پانی دیدے اور چھری تیز کرلے لیکن جانور کے سامنے نہیں۔ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی طرف اس کا منھ ہو اور ذبح کرنے والا اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھکر ذبح سے پہلے یہ دعاء پڑھ لے۔اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّماَ اَناَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ اِنَّ صَلوٰاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیاَیَ وَ مَماَتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعاَلَمِیْنَ۔ لاَ شَرِیْکَ لَہ‘ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَناَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔اَلّٰہُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہ‘ اَکْبَرْ:دعاء ختم کرتے ہی تیز چھری سے جلد ذبح کرے۔ قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعاء پڑھے۔
اَلّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَماَ تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلیَّ اللّٰہُ تَعاَلیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔ ذبح میں چاروں رگیں کٹیں یا کم از کم تین اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری مہرہ تک پہونچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر پاؤں کاٹیں۔ کھال اُتاریں۔ اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کیا ہے تو مِنّی کی جگہ مِن فلاں کہے یعنی مِن کے بعد اسکا نام لے اور مشترک جانور ہو جیسے اونٹ، بھینس تو فلاں کی جگہ سب شریکوں کے نام لے اور اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر ہے کہ خود بھی حاضر رہے۔