حیات سرکار شاہ جی میاں

 حیات سرکار شاہ جی میاں 

فخر ملت اور فخر اولیاء شاہ جی میاں
فخر خواجہ فخر غوث و مرتضیٰ شاہ جی میاں
داد رس فریاد رس مشکل کشا شاہ جی میاں
ہیں فقیر و بے نوا کے آسرا شاہ جی میاں

سیدنا تاج الفقراء غوث الاغواث حضور حاجی شاہ جی محمد شیر میاں قطبِ پیلی بھیت شریف رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ اک ایسا نام ہے جو دنیائے روحانیت سے منسلک کسی بھی صاحبِ ایمان کے لئے انجانا نہیں ہے۔
اگر ہمیں اور آپ کو یہ دیکھنا ہو کہ خانقاہوں میں رہ کر اللہ والوں نے کس طرح اسلام کی تبلیغ فرمائی ہے اور کس طرح علم دین کے نور سے ساری دنیا کو روشن و منور کیا ہے تو ہم سیدنا حضور شاہ جی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پاک کو دیکھ سکتے ہیں۔
آپ کی ولادت ۲؍ اپریل ۱۸۰۵ء ؁ کو شہر پیلی بھیت شریف کے محلہ منیر خاں میں حضرت محبت شیر علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر ہوئی۔ آپکے والد ماجد انتہائی متقئ و پرہیزگار شخصیت کے حامل تھے ۔ آپ کے اجداد میں حضرت دیوانہ بابا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ آپکی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی نور جہاں بیگم تھا جو صاحبِ کرامت ولیہ تھیں اور سرکار شاہجی میاں کے مزار شریف کے متصل انکا مزار شریف بھی ہے۔ اسی خانقاہ میں آپکے والد ماجد کی بھی قبر ہے مگر اوپر اسکا نشان نہیں ہے۔
سیدنا حضور شاہ جی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم زمانہ علمائے کرام و صوفیائے عظام جن کی ولایت جگ ظاہر تھی وہ بھی آپ کی ولایت و بزرگی کے قائل تھے، چنانچہ حضرت خواجہ سید حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘حزب البحر‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
آج سے بیس پچیس سال پہلے پیلی بھیت میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جن کا نام حضرت شاہ جی محمد شیر میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا، اس وقت ہندستان میں چار بزرگ بہت مشہور تھے (۱) حضرت علامہ فضل حق گنج مرادآبادی (۲)حضرت حاجی وارث علی شاہ دیوہ شریف (۳)حضرت غوث علی شاہ پانی پت شریف (۴)حضرت شاہ جی محمد شیر میاں رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
سیدنا حضور شاہ جی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے مقربِ بارگاہ رسول تھے اور آقائے دوجہاں سیدنا اعلیٰ حضرت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے کتنا پیار تھا اسکا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ جب آپ حج بیت اللہ شریف کیلئے حاضر ہوئے تو جانے سے لیکر آنے تک آپنے یا آپکے ساتھ والوں نے کبھی کھانا نہیں پکایا بلکہ کوئی اجنبی آکر کھانا دے جاتا تھا
آپ حج بیت اللہ شریف سے فارغ ہوکر مدینۂ منورہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو کھانا پینا ترک فرمادیا کہ کھاؤں گا تو اجابت بھی ہوگی اور اس مقدس شہر میں اجابت کروں یہ نہیں ہوسکے گا۔ چنانچہ کھانا پینا چھوڑ دیا، مگر سرکار شاہجی میاں پان بھی کھایا کرتے تھے تو کبھی کبھی پان کی خواہش ہوتی تھی مگر نفس کشی فرماتے اور پان بھی نہ کھاتے آخر ایک دن سیدنا اعلیٰ حضرت آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چہیتے پر پیار آگیا اور ایک دن جب آپ روضۂ اقدس کے پاس مراقبہ میں تھے تو روضۂ پاک کی جالیوں میں سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور آپ کو پان عطا کیا گیا جسے آپنے کھایا۔ (حیات شاہ جی میاں)
قبر پاک مصطفےٰ سے پان کا بیڑا ملا
یہ نوازش آپ پر آقا نے کی یا شاہ جی
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ پیلی بھیت شریف سے حاجیوں کا ایک قافلہ پانی کے جہاز کے ذریعے حج بیت اللہ شریف وزیارت مدینہ شریف کے لئے روانہ ہوا۔ دورانِ سفر طوفان نے جہاز کو گھیر لیا اور یہ حالات پیدا ہوگئے کہ جہاز کے کپتان نے اعلان کردیا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ جہاز میں سرکار شاہ جی میاں کے مریدین بھی بھاری تعداد میں موجود تھے اور انہوں نے اس مشکل گھڑی میں سرکار شاہ جی میاں کو مدد کیلئے پکارا ۔ ایک مرید کا بیان ہے کہ میں سرکار شاہ جی میان کو یاد کرکے رورہا تھا کیونکہ مجھے آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ اتنے میں مجھ پر کچھ غنودگی طاری ہوئی تو میں نے دیکھا کہ سرکار شاہ جی میاں تہبند باندھے ہوئے تشریف لارہے ہیں اور ہاتھ میں آپکی لاٹھی ہے۔میں عرض کیا حضور ہماری مدد فرمائیے، سرکار شاہ جی میں نے فرمایا میرے مرید خوف مت کر اللہ بڑا نگہبان ہے۔
چنانچہ سرکار شاہ جی میاں نے ایک زوردار اللہ ٗ کا نعرہ لگایا اور جہاز کو اپنے کاندھے کا سہارا دیکر اس طوفان سے باہر کردیا اور جہاز اپنی سمت کو سیدھا چلنے لگا۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ سب جہاز والے خوش ہیں میں نے ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جہاز طوفان سے نکل چکا ہے۔ میں نے یہ پورا واقعہ اور اس کا وقت لکھ لیا۔
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اُس وقت سرکار شاہ جی میاں اپنے خادم حجام سے بال بنوارہے تھے اچانک اُٹھے اور اپنی لاٹھی لیکر حجرے میں تشریف لے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب حجرے سے باہر تشریف لائے تو مریدین نے دیکھا کہ سرکار شاہ جی میاں کا تہبند پانی میں بھیگا ہوا ہے اور کاندھے پر کچھ خون کے نشانات بھی ہیں۔ مریدین میں اس بات کو لیکر کافی کشمکش ہوئی کہ سرکار شاہ جی میاں کے یہ خون کیسے نکلا کہیں کسی ظالم نے حملہ تو نہیں کردیا۔ آپ سے لوگوں نے بہت پوچھا مگر آپ نے کچھ نہ بتایا ۔لوگ خاموش تو ہوگئے مگر چاہنے والوں کو رہ رہ کر یہ بات ستارہی تھی کہ آخر سرکار شاہجی میاں کے خون کیسے نکلا۔
جب حجاج کا یہ قافلہ واپس آیا تو اُس حاجی نے جہاز کے طوفان میں پھنس جانے اور سرکار شاہ جی میاں کے مدد فرمانے کا پورا واقعہ لوگوں سے بیان کیا اور جب اس واقعے کا وقت اور تاریخ بتائی تو لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تاریخ اور وقت تو وہی ہے کہ جب سرکار شاہجی میاں حجرے میں تشریف لے گئے تھے اور جب باہر نکلے تھے تو آپکے کاندھے پر خون کے نشانات تھے۔
اب سارا واقعہ لوگوں کی سمجھ میں آچکا تھا کہ اس دن سرکار شاہ جی میاں پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ سرکار شاہ جی میاں نے جہاز کو جو کاندھا دیکر پار لگایا تھا اس سے یہ خون کے نشانات آئے تھے۔ یہ واقعہ اُن حاجی صاحب نے سرکار شاہ جی میاں کے سامنے بھی بیان کیا تو سرکار شاہ جی میاں نے فرمایا حاجی صاحب چُپ ہوجاؤ۔
ڈوبتے بیڑے کو ساحل پر لگایا آپ نے
یہ کرامت ہم نے دیکھی آپکی یا شاہ جی
نکالی ہے بھنور سے آپنے حجاج کی کشتی
یہ منصب دیکھ لے اے دیدہ ور! شاہ جی میاں کا ہے
سرکار شاہ جی محمد شیر میاں پیلی بھیتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاں روحانیت کا آفتاب تھے وہیں علم کا ماہتاب تھے ۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کرام جو حقیقت میں عالم بھی تھے اور عارف بھی تھے وہ آپ سے اکتساب فیض کے لئے حاضر بارگاہ ہوتے تھے ۔
اور وہ لوگ جن کو آج زبردستی بڑا بنا نے کی کوشش کی جارہی ہے اور اتنا بڑا بنا نے کی کوشش ہورہی ہے کہ لکھاجارہا ہے کہ سرکار شاہجی میاں کا فیض بند ہوگیا تھا تو ہمارے ملاجی نے وہ بند فیض کھلا۔ (استغفر اللہ) لیکن ایسے لوگ بھی سرکار شاہ جی میاں کے دربار میں علم کی بھیک لینے حاضر ہوا کرتے تھے۔ کچھ ایسے بے عقل جب بھی تھے اور اب بھی ہیں جو یہ بکتے پھرتے ہیں سرکار شاہ جی میاں بے پڑھے لکھے تھے۔ ایسے ہی کچھ عقل سے پیدل لوگ سرکار شاہ جی محمد شیر میاں کی بارگاہ میں آئے اور یہ پلان بناکر آئے کہ آج شاہ جی میاں کا امتحان لیں گے اور جب شاہ جی میاں امتحان میں فیل ہوجائیں گے تو ہم خوب ان کا مذاق اُڑائیں گے۔ چنانچہ انہوں آکر حدیث شریف کی ایک عربی عبارت پڑھی اور بولے کہ شاہ جی میاں اس آیت کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ذرا سمجھادیجئے۔ سرکار شاہ جی میاں کو جلال آگیا اور ارشاد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم لوگ اللہ کے پیارے رسول کی حدیث پاک کو قرآن کی آیت کہہ رہے ہو۔
اتنا سننا تھا کہ ان لوگوں کے ہوش اُڑ گئے اور شرمندہ ہوکر واپس ہوئے۔
وہابیت پنپ پائی نہ اس شہرِ مقدس میں
بڑا احسان پیلی بھیت پر شاہجی میاں کا ہے
(یارسول)

بارگاہ شاہ جی میاں میں
حضورصدر الافاضل کی حاضری
سیدنا حضور صدر الافاضل فخر الاماثل علامہ الحاج مفتی حکیم شاہ سید محمد نعیم الدین مفسر مرادآبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم تھے اور بڑی باریک نظر رکھتے تھے، کون کیا ہے اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایسے عالمِ باکمال کو جب پیر کی ضرورت ہوئی تو انہیں سرکار شاہ جی محمد شیر میاں کا دامن نظر آیا اور آپ مرید ہونے کے لئے مرادآباد شریف سے روانہ ہوئے، راستے میں بریلی بھی آیا اور اس زمانے میں پیلی بھیت شریف کے لئے کوئی سیدھی سواری نہیں تھی بلکہ بریلی اُتر کر بس یا ٹرین بدلنی پڑتی تھی۔
وہ وقت ایسا تھا کہ بڑے بڑے نا اہل لوگوں کو چنیں اور چناں سمجھا جاتا تھا مگر حضور صدر الافاضل عالم ہی نہیں عارف تھے لہٰذا کسی پروپیگنڈے میں نہ آتے ہوئے سرکار شاہ جی محمد شیرمیاں کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

سرکار شاہجی میاں نے ضعیفی کے باوجود کھڑے ہوکر آپ کا استقبال فرمایا اور پُرتپاک ناشتہ کرایا جو کہ خلاف معمول تھا کیونکہ سرکار شاہجی میاں کے یہاں ناشتے میں ایک کپ چائے اور آدھی روٹی ملتی تھی۔ کچھ مریدوں کو یہ ناگوار ہوا کہ سرکار شاہجی میاں ایک نوجوان کیلئے کھڑے ہوگئے اور پھر اسے پُر تکلف ناشتہ بھی کرایا ، سرکار شاہجی میاں نے فرمایا اے لوگو! تم اس نوجوان کا ظاہر دیکھ رہے ہو اور میں اس کا باطن دیکھ رہا ہوں کہ یہ اپنے وقت کا کتنا عظیم عالم ہوگا۔ اس سے پہلے کہ صدر الافاضل یہ عرض کرتے کہ حضور میں مرید ہونے آیا ہوں سرکار شاہ جی میاں نے فرمایا مولانا صاحب آپکے استاذ مولانا گُل شاہ صاحب اللہ کے ولی ہیں میں جب مرادآباد جاتا ہوں تو ان سے ملاقات کرتا ہوں اور آپ جس ارادے سے آئے ہیں وہ حصہ آپ کا آپکے استاذ کے پاس ہے۔
چنانچہ حضور صدر الافاضل مرادآباد شریف تشریف لائے اور اپنے استاذ عارف باللہ شیخ الکل علامہ شاہ سید گُل شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنا ہی چاہتے تھے کہ میں مرید ہونے آیا ہوں کہ حضور گل شاہ صاحب نے فرمایا مولانا آپ کوشاہ جی محمد شیر میاں نے بھیجا ہے، اب تم پرسوں جمعہ کو آنا تمہارا حصہ تمہیں مل جائیگا۔ چنانچہ حضور صدر الافاضل جمعہ کو حاضر ہوئے اور حضور گل شاہ صاحب نے آپکو مرید فرمایا۔
شاہ نعیم الدین بیعت کیلئے حاضر ہوئے
کیسے یہ ذی مرتبہ ہیں حضرت شاہ جی میاں
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہاں مرید ہونے گئے تھے مگر کہنے سے پہلے حضورشاہجی میاں نے حضور گل شاہ میاں کا پتہ بتادیا اور یہاں حضور گل میاں نے حضور صدر الافاضل کے بتانے سے پہلے سارا واقعہ سنادیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ والوں کے درمیان کیسے روحانی تعلقات ہوتے ہیں ۔ حضور صدر الافاضل کے مرید ہونے کا یہ واقعہ ‘‘ہفت روزہ سواد اعظم لاہور‘‘ کے صدر الافاضل نمبر میں بھی چھپا ہے۔
اب تو سرکار شاہ جی میاں کے دربار کے گستاخوں کو عقل آجانی چاہئیے کہ اتنا بڑا عالم جس کی بارگاہ میں مرید ہونے کیلئے حاضر ہوا ہو وہ ہر گز بے پڑھا لکھا نہیں ہوسکتا ۔ اور یہ تو مسلّم ہے کہ ولی ہونے کے لئے ذی علم ہونا لازمی ہے اور سرکار شاہ جی میاں ایسے اللہ کے ولی ہیں کہ کرۂ ارض پر کوئی ذی عقل ایسا نہیں ہے جو انہیں اللہ کا محبوب ولی نہ کہتا ہو اور بیشک وہ اللہ کے ولی ہیں اور باکرامت ولی ہیں اور وہ ہی ولی نہیں بلکہ ان کے در کے غلام بھی باکرامت ولی ہیں۔
آپ کی نظر کرم میں آگیا ہے جو بشر
وہ جہاں میں ہوگیا ہے محترم شاہ جی میاں
اللہ اللہ کیسی اللہ نے انہیں بخشی ہے شان
اولیاء کی بزم میں ہیں محترم شاہ جی میاں
(یا حبیب)
بارگاہ شاہ جی میاں میں
سرکار اللہ ہو میاں کی حاضری

سیدنا حضور تاج العرفاء غوث زماں علامہ شاہ سید محمد عبد البصیر میاں عرف اللہ ہو میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ صوبہ سرحد کے رہنے والے تھے اور زمیندار تھے۔ جب پیر کامل کی تلاش ہوئی تو پیر کامل تلاش کرتے کرتے بریلی تک آگئے مگر کوئی ایسا نہیں ملا جو دل کو بھاجاتا۔
آخر ایک دن آقائے دوجہاں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہزادے کا خیال آہی گیا اور سرکار نے خواب میں بشارت فرمائی کہ پیلی بھیت چلے جاؤ اور محمد شیر کے ہاتھ پر مرید ہوجاؤ۔اُدھر پیلی بھیت شریف میں سرکار شاہجی میاں کو حکم فرمایا کہ ہمارا شہزادہ آرہا ہے اس کو مرید کرلینا۔ چنانچہ سرکار اللہ ہو میاں‘ سرکار شاہجی میاں کے دربار میں حاضر ہوئے تو مرید ہونے کی درخواست پیش کی۔ سرکار شاہجی میاں نے فرمایا مولانا صاحب جس ذات گرامی نے آپ کو یہاں بھیجا ہے اس نے مجھے بھی آپ کو مرید کرنے کا حکم فرمایا ہے اور پھر سرکار اللہ ہو میاں کو آپ نے مرید فرمایا۔ سرکار اللہ ہو میاں جیسے عظیم عالم کہ عربی درسی کتب پر جنکے حواشی موجود ہوں اور وہ آپ کے مرید ہیں تو پھر سرکار شاہجی میاں کے علم کو کون سمجھ سکتا ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ سرکار شاہ جی میاں کے حالات اور کرامات کا بیان تفصیل سے کرنا ہمارے بس سے باہر کی بات ہے۔
سرکار شاہ جی میاں کی ساری زندگی مخلوق میں علم و آگہی تقسیم کرتی گزری اور آج بھی آپکے آستانۂ پاک سے یہ بھیک بٹ رہی ہے۔
۵؍ ذوالحجہ ۱۳۲۴ھ ؁ کو آپنے اس دار فانی سے کوچ فرمایا اورپیلی بھیت شریف کے محلہ شیر محمد میں آپ کا مزار مقدس ہے۔

مصطفےٰ کا دیکھئے احسان پیلی بھیت میں
غوث کا جاری ہوا فیضان پیلی بھیت میں
یہ فضیلت کم نہیں حاصل ہے پیلی بھیت کو
شاہجی بابا کا ہے ایوان پیلی بھیت میں
شہ محمد شیر کے دربار کی یہ شان ہے
با ادب آتے ہیں انس و جان پیلی بھیت میں