بدیع الدین مظہر اسم ظاہر و اسم باطن

 بدیع الدین مظہر اسم ظاہر و اسم باطن 

حامل صمدیت، واصل مقام محبوبیت،جامع کمالات غوثیت و قطبیت و فردیت، شہنشاہ ولایت، معجزہء رہبر دین، ملک العارفین، حضور سرکار سرکاراں سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پانچ سو چھیانوے سالہ طویل ترین حیات مبارکہ کے حالات و کمالات، خوارق عادات، عبادات و ریاضات اور دعوت و تبلیغ اسلام و ترویج دین کی سرگرمیوں وغیرہ کو احاطہء تحریر میں لا پانا بہت ہی مشکل کام ہے

قاسم نعمات، مختار کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی بشارت کے مطابق بدیع الدین ہیں اس لئے ان کی ذات کو عزیز الوجود اور نادر و انوکھا ہونا ہی چاہئے تھا تو بحمد اللہ تعالٰی باعجاز زبان حق ترجمان عجائب احوال و غرائب اطوار کا پیکر جلیل ہوئے بھی - جس کو شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان بھی یوں تحریر فرماتے ہیں

" غرائب احوال و عجائب اطوار از وئے نقل میکنند گویند کہ وئے در مقام صمدیت کہ از مقامات سالکان است بود "

(شیخ بدیع الدین مدار کے عجیب و غریب حالات و اطوار لوگ روایت کرتے ہیں - کہتے ہیں کہ وہ سالکین کے مقامات میں سے مقام صمدیت پر فائز تھے)

اور ملا ابو الفضل جیسا غیر مقلد شخص بھی جس کی عجیب الحالی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے 

" شاہ مدار : لقب بدیع الدین کہ و مہ ہندی بوم بدو گردد والا پائیگی بر گزارد....... وشگرف داستانہا ازو بر میگذارند " (آئین اکبری ج3 ص284) 

(یعنی شاہ مدار کا لقب بدیع الدین ہے ہندوستان کا ہر خورد و بزرگ ان کا معتقد ہے اور بہت تعظیم کرتا ہے ....... ان کے بارے میں عجیب و غریب داستانیں لوگ بیان کرتے ہیں) 

اولیآء کرام عجیب الاحوال ہوتے ہی ہیں مگر بدیع الدین وہ اسم بامسمی ہیں جو صف اولیآء میں غرائب اطوار و عجائب احوال کا پیکر جلیل بن کر عزیز الوجود، نادر روزگار اور بدیع العجائب ہیں 

اسی عجیب الاحوالی اور بے مثالی نے انہیں ایک معمہ بنا دیا ہے اور محققین کے لئے ان کی سوانح ایک عقدہء لاینحل بن کر رہ گئی ہے 

اہل تحقیق اپنے محدود پیرایہ میں عام اولیآء کرام کی طرح جب ان پر تحقیق کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں الجھ جاتے ہیں اور بسا اوقات ورطہءغلط میں پڑ جاتے ہیں

ان کی سیرت و سوانح کا مطالعہ باریکی سے کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسم ظاہر اور اسم باطن دونوں کے پرتو قدس سے مزین ہیں 

جب کبھی اسم ظاہر کا پرتو ان پر غالب ہوتا ہے تو وہ کمال درجہ کی شہرت و مقبولیت کے حامل ہوتے ہیں - جیسا کہ ملا ابو الفضل کا قول آپ نے پڑھا کہ 

" ہندوستان کا ہر چھوٹا بڑا ان کا معتقد ہے اور بہت تعظیم کرتا ہے "

شیخ محقق حضرت علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ فرماتے 

" طریق او جذب خلائق بودہ عوام بسیار بر ایشاں گرد آیند و شہرتے عظیم شد " (اخبار الاخیار)

یعنی شیخ بدیع الدین مدار کا طریقہ جذب خلائق تھا کثیر عوام ان کے گرد آتے اور بڑی شہرت ہوگئ

حضرت واجد علی صاحب علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں - 

" حضرت شاہ بدیع الدین قطب المدار کمالاتش در مملکت ہندوستان شہرت تمام دارد و تصرفات آنجناب در حیات و ممات برابر است " (مطلع العلوم و مجمع الفنون ص 144 - 124) 

یعنی شیخ بدیع الدین مدار کے کمالات ملک ہندوستان میں بہت مشہور ہیں اور آنجناب کا تصرف حیات و ممات میں برابر ہے

غرض صفت ظاہر کا پرتو جب کبھی غالب ہوا تو حضور مدار العالمین کی معرفت ہوئ اور مشہور عالم ہوئے اور ان کی شہرت و مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں سینکڑوں شہروں، قصبوں اور گاووں کے نام آپ کے نام سے موسوم ہیں - مثلاً مدار گنج، مدار نگر، مدار پور، مدار باڑی، پیرو مدارا وغیرہ 

چودہ سو بیالیس مقامات پر آپ کی چلہ گاہیں ہیں جنہیں مدار چلہ، چلہ زندہ شاہ مدار، مدار استھان وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے، مدار ٹیکریاں مداریہ پہاڑ ، مدار ہل، مدار باؤلی، مدار گیٹ وغیرہ،

ماہ جمادی الاولی جس میں آپ کا وصال ہوا اس مہینہ کو مدار کا مہینہ اور مدار کا چاند کہا جاتا ہے

غرض یہ تمام چیزیں آپ کی شہرت و مقبولیت عامہ کی روشن دلیلیں ہیں

آپ سے منسوب متعدد کہاوتیں اور ضرب الامثال بھی ہیں مثلاً

(1) حق اللہ محمد مدار

 جب حضرات فقراء مداریہ (زادھم اللہ شرفاً) آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اسوقت بولتے ہیں -

  مطلب یہ ہوتا ہے کہ

 اطیعوااللہ و اطیعواالرسول واولی الامرمنکم 

کے مطابق اللہ ' رسول اور پیرو مرشد مدار کی اطاعت کرو ! 

 اسکے جواب میں سامعین بولتے ہیں

دم پیر زندہ شاہ مدار

 

(2) دم پیر زندہ شاہ مدار

 یعنی ہم ہر دم اطاعت مرشد ہی میں ہیں (جو دراصل اللہ ورسول ہی کی اطاعت ہے ـ) 

(3) مر ے کو ماریں شاہ مدار


اس مقولہ کی وجہ یہ ہے کہ حضور مدار پاک منزل فنا پر فائز سالک کو واصل مقام فناءالفنا کر دیا کرتے ہیں - 

 عام زبان میں اس وقت بولتے ہیں کہ جب کسی مصیبت زدہ پر کوئ اور مصیبت آجائے


(4) جب کمر میں زور ہوتا ہے تب مدار صاحب بھی بیٹا دیتے ہیں 

مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسی آدمی کی مدد کی جاسکتی ہے جو خود بھی کسی لائق ہو -

  اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے 

کہ 

حضور مدار العالمین کے فیضان کرم سے انکی حیات ظاہری میں بھی اور بعد وصال بھی آج تک بے شمار لاولد صاحب اولاد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں 

 پس لوگ جیسا دیکھتے ہیں ویسا بولتے ہیں - 

(5) کھائیں مدار کا گائیں سالار کا

اس وقت بولتے ہیں جب آدمی فائدہ توکسی اور سے اٹھائے اور نام کسی اور کا لے ـ  


(6) گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں

   مدار پاک کے عقیدتمند ہنود جب کوئ قسم کھاتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مقصد یہ ہوتا ہے کہ گنگا اور مدار کا واسطہ جھوٹ نہ بولا جائے !

   اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ سرکار مدار پاک جب غیر آباد اور بے نام جنگل *مکن پور شریف* آئے تو قرب و جوار میں آپ کا چرچہ ہوگیا اور حاجتمند آپ کے در فیض وعطا پر جوق در جوق آنے لگے ـ انہیں ایام میں بسنت پنچمی کے گنگا نہان کے موقعہ پر کچھ ہندو آپ کی خدمت میں آئے

  آپ نے دریا فت فرمایا ! 

کہاں کا ارادہ ہے؟ 

بولے ! گنگا اشنان کا ! 

 آپ نے فرمایا ! اچها ! تو  

گنگا کو میری انگوٹھی دیدینا  

وہ لوگ انگوٹھی لیکر گنگا کنارے پہنچے مسخرے انداز میں کہا 

لوگنگا میا !

انگو ٹھی مدار بابا نے بھیجی ہے 

 اور انگوٹھی گنگاکی طرف اچھال دی 

دیکھتے کیا ہیں کہ گنگا میں سے ایک ہاتھ نکلا اور انگوٹھی خود بخود اسکی انگلی میں پہنچ گئی 

 یہ دیکھ کر وہ حیرت میں پڑگئے ـ بے اختیاربولے ۔

" اگر گنگا جیسانیر نہیں تومدار جیساپیر نہیں" 

تب سے یہ محاورہ عام ہے 


(7) گنگا مدار کاکیاساتھ؟

اس وقت بولتے ہیں جب دو لوگوں کو الگ الگ کام کرنا ہو یا الگ الگ راستہ پر جانا ہو ـ 

اس کا پس منظر یہ ہے کہ 

"گنگا جیسا نیر نہیں مدار جیسا پیر نہیں" سن کر کوئ حق گو عاشق مدار برداشت نہیں کرسکا اور بے ساختہ بول اٹھا "گنگا مدار کا کیا ساتھ ؟" 

      مطلب یہ ہے کہ اگر چہ گنگا کا کام سیراب کرنا ہے اور مدار کاکام بھی سیراب کرنا ہے مگر گنگا ظاہری جسمانی پیاس بجھاتی ہے 

جبکہ مدارباطنی روحانی تشنگی کو بجھاتے ہیں 

اگرچہ گنگا رواں دواں ہے چل پھر کر پیاس بجھاتی ہے اور مدار بھی سیر و سیاحت میں رواں دواں رہتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ گنگا اپنی مقررہ منزل کیلئے اپنی محدود وسعتوں میں رہتے ہوئے اپنے مخصوص راستہ ہی میں بہتی ہے اوراس کا دائرہ فیض اسکے مخصوص علاقوں ہی تک محدود ہے - جبکہ میرا مدار گنگا کی طرح کسی ایک راستہ کا پابند نہیں ہے اور اس کی اپنی کوئ منزل مقرر نہیں ہے اس کا دائرہء فیض و کرم کسی مخصوص علاقہ ہی تک کیلئے نہیں ہے - وہ گنگا کی طرح نہیں ہے کہ پیاسے اسکے کنارے پر پہنچ کرہی سیراب ہونگے - بلکہ وہ فیض و کرم کا ابر باراں ہے جو کبھی مشرق پر برستا ہے توکبھی مغرب میں، کبھی شمال میں تو کبھی جنوب میں، کبھی پہاڑوں پر توکبھی ریگزاروں پر، کبھی جنگلوں پر تو کبھی آبادیوں پر بلکہ خود گنگا جمنا اسکے باران فیض سے مستفیض ہوتی ہیں ـ  

 غرض تب سے یہ کہاوت بھی چلی آرہی ہے کہ 

" گنگا مدار کا کیا ساتھ؟

 

(8) پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی

         یہ اس وقت بولتے ہیں

جب کوئ شخص ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں پیسوں ہی کا خرچہ ہو اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں

اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ

حضور سید بدیع الدیع احمد قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ جن کی محبوبییت و مقبولیت غیر منقسم ہندوستان کے ہر علاقہ اور ہر طبقہ میں تهی اور ہے اسی محبوبیت و مقبولیت ، عقیدت و محبت اور تعظیم و احترام کی وجہ سے غیر منقسم ہندوستان میں بے شمار مقامات پر سرکار مدار العالمین کے نام پاک سے منسوب میلے لگتے ہیں مثلاً

مارہرہ شریف کی مداری گدی پر 

جس کے بارہ میں سید العلماء ابوالحسنین حضرت مولانا مفتی سید آل مصطفٰے مارہروی برکاتی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں

   "مارہرہ مطہرہ میں بفضلہ تعالی مداری گدی صدیوں سے قائم ہے اور فقیر کے بزرگان کرام ہمیشہ سے اس کی خدمت کرتے چلے آئے ہیں- میرے جد کریم حضور شیدائے ملت والدین سیدنا آل احمد اچھے میاں قدس سرہ العزیز نے اپنے عہد مبارک میں سرکار مدار العالمین کے نام نامی سے منسوب میلہ قائم کرایا - جو 9 جمادی الاولی کو برابر ہوتا ہے" (مکتوب قلمی سید العلماء. ...جمادی الاولی 1381مطابق 9 دسمبر 1961)

غرض اس طرح بےشمار مقامات پر مدار کے میلے لگتے ہیں 

اور قدیم زمانے میں ہندوستان کے چاروں طرف سے ان میلوں میں اکٹھا ہوکر لوگوں کے بڑے بڑے قافلے بن جاتے تهے اور وہ سب عرس مدارالعالمین مکن پور شریف میں پہنچتے تهے

مغلیہ دور حکومت میں ان کی تعداد پانچ چه لاکه ہوتی تهی

  جیسا کہ شہزادہ دارا شکوہ قادری تحریر فرماتے ہیں "ہرسال در ماہ جمادی الاول کہ عرس ایشان است قریب بہ پنج شش لک آدم مرد و زن صغیر و کبیر از اطراف و جوانب ہندوستان در اں روز بزیارت روضہء شریفہ ایشاں با علمہائے بسیار جمع میشوند و ہمہ نذر و نیاز می آرند و کرامات و خوارق عجیبہ غریبہ الحال نیز نقل میکنند" (سفینتہ الاولیاء ص321)

یعنی ہر سال جمادی الاول کے مہینے میں کہ جب ان (سید بدیع الدین مدار) کا عرس ہوتا ہے قریب پانچ چه لاکه لوگ مرد و زن چهوٹے بڑے اطراف و جوانب ہندوستان سے اس روز ان کے روضہء شریفہ کی زیارت کے لئے بہت سے علموں کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں 

اور سب نذر و نیاز پیش کر تے ہیں اور عجیب و غریب خوارق و کرامات اب بهی روایت کرتے ہیں

غرض میلوں ٹهیلوں میں وہ بهی خاص طور سے اتنے عظیم میلہ میں بات بات پر قدم قدم پر پیسے ہی کی ضرورت ہوتی ہے

اور بعض عشاق مدار دیوانہ وار بلا اسباب و ضروریات ظاہری کے ہی دوڑے چلے آتے ہیں

جن کے لئے کہا جاتا ہے

"پیسہ نہ کوڑی مدارن کو دوڑی


(9) میلہ مدار کے دن

درگاہ قطب المدار مکن پور شریف میں دو عظیم اجتماعات ہوتے ہیں

ایک بسنت پنچمی کے موقعہ پر جس کو میلہ کہا جاتا ہے  

اور ایک ماہ جمادی الاولی میں جس کو عرس اور مدار کا مہینہ اور مدار کے دن کہا جاتا ہے

غرض میلہ ہو یا عرس دونوں ہی موقعوں پر اس میلہ یا عرس کی وجہ سے مکن پور شریف اور اطراف کی بستیوں میں مہمانوں کا کثرت سے آنا جانا ہوتا ہے

تو ان کے انتظامات وغیرہ بهی کرنے ہی پڑتے ہیں یا جن لوگوں کو پردیس جانا ہوتا ہے وه ان ایام میں پردیس نہ جاکے گھر پر ہی رہتے ہیں یا پردیسی گھر واپس آجائے ہیں غرض ایسے مواقع اور مہمانوں وغیرہ سے متعلق ضروریات کے پیش نظر جب کوئ بات کہتے ہیں تب بولتے ہیں ـ مثلاً

میلے مدار کے دن ہیں گھر کے سب انتظام ٹهیک ٹهاک کرلئے جائیں

میلے مدار کے دن ہیں اب کیا پردیس جاوگے وغیرہ


(10) بعد جمعہ جو کیجو کار ساتھ میں ہو ویں شاہ مدار


بعض حضرات سے یوں بهی سنا ہے

   "بعد جمعہ جو کیجو کار اس کے ضامن شاہ مدار"


مطلب یہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد جو کام کیا جاتا ہے اس میں کامیابی ملتی ہے

قرآن وحدیث کی روشنی میں تو یہ بات واضح ہے ہی کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر جو کام کیا جائے اس میں کامیابی ملتی ہے ساته میں لوگوں کے عینی مشاہدات اور عملی تجربات بهی شاہد ہیں کہ بعد جمعہ کئے جانے والے کاموں میں کامیابی ملتی ہے

اور حضور قطب المدار جن کی عمر مبارک دعوت و تبلیغ اسلام اور مخلوق خدا کی خدمت ، فیض رسانی اور حاجت روائی میں گذری ہے اور آج بھی آپ روحانی طور پر فریاد رسی اور مشکل کشائی فرما رہے ہیں جسے لوگ بخوبی محسوس کرتے ہیں اور منتیں وغیرہ گذار کر اعتراف اور تحدیث نعت کرتے بهی ہیں غرض لوگ سمجهتے ہیں کہ ہمارے مددگار اور پشت پناہ، کرم فرما مدار پاک ہیں جن کی کرم فرمائ سے ہمارے کام بن جاتے ہیں 

وہ اپنی ہر کامیابی کو ان کا فیض مانتے ہیں اور سمجهتے ہیں کہ ان کے کرم سے کامیابی ضرور ملتی ہے

اور بعد جمعہ کے کاموں میں بهی کامیابی ملتی ہی ہے اس لئے بولتے ہیں کہ بعد جمعہ جو کیجو کار ساتھ میں ہو ویں شاہ مدار 

یعنی کامیابی ضرور ملیگی

(11) کوٹ پیس منہاج مریں کرامات ملیں جہندہ کو


فیروز اللغات میں یوں ہے


"پیس پاس منہاج مرے کرامات محمد ججنڈے کو"


مطلب یہ ہے کہ محنت کوئ کرے اور پهل کسی اور کو ملے

اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت شیخ منہاج الدین بدایونی حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار کے مرید و خلیفہ تهے پیر و مرشد کی خدمت و اطاعت میں بہت زیادہ رہتے تهے لوگ سمجھتے تھے کہ یہاں کی جانشینی انہیں کو ملیگی مگر قبل از وصال جب مدار پاک نے اپنے خلفاء کو علاقے تقسیم فرمائے تو اتفاق سے شیخ منہاج موقعہ پر موجود نہ تهے اس لئے ولایت بدایوں پر شیخ محمد جہندہ کو مقرر فرما دیا 

جب سے یہ کہاوت چلی آرہی ہے

"کوٹ پیس منہاج مریں کرامات ملیں جہندہ کو "

(12) تھوڑی آس مدار کی، بہت آس گلگلوں کی

مطلب یہ ہے کہ پیروں کی قبروں پر چاہے کام ہونے کی امید کم ہو مٹھائی ملنے کی امید پر کئی آدمی جاتے ہیں (فیروز اللغات) 

(13) عید کا چاند، مدار کا پھندنا

اس وقت بولتے ہیں جب کسی آدمی سے ملنے کا اشتیاق ہو لیکن لمبے انتظار کے بعد اس سے ملاقات ہو تو اس طرح بولتے ہیں 

"آپ تو عید کا چاند مدار کا پھندنا ہوگئے "

پھندنا ایک قسم کا دھاگے کا پھول جیسا ہوتا ہے جو قدیم زمانہ میں عرس یا میلے کے دنوں میں لوگ مدار پاک کی درگاہ سے لے جاتے تھے اور اپنے چاہنے والوں میں بھی تقسیم کرتے تھے لوگوں کے عقیدہ کے مطابق مدار پاک کی نسبت کی برکت سے یہ پھندنا ہاتھوں میں باندھنے والا جادو سحر اور بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے لوگ اس کی خواہش بھی کرتے تھے اور سال بھر کا طویل انتظار بھی _ پھندنا خوبصورت بھی ہوتا ہے اس لئے لوگ خوبصورت انسان کے لئے بطور تشبیہ یوں بھی بولتے ہیں 

"چودھویں کا چاند، مدار کا پھندنا"

(14) اینٹ کی پانت دم مدار

اس وقت بولتے ہیں جب کام مشکل ہو لیکن آدمی اسے انجام دینے کی ٹھان لے 

(15) آرے چلے پھر بھی مدار ہی مدار

عاشق ہر ظلم گوارا کرتا ہے مگر معشوق کا ذکر نہیں چھوڑتا 


غرض اس طرح کی اور بھی کہاوتیں اور محاورے ہیں جو عوام و خواص میں بولے جاتے ہیں _ اور عوام و خواص میں مدار پاک کی شہرت و مقبولیت کی دلیل ہیں_

ان سب چیزوں کے ذکر سے بتانا یہ مقصود ہے کہ حضور سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار پرتو صفت ظاہر کے غلبہ کی وجہ سے معروف و مشہور عالم ہیں مگر عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو ذات جتنی مشہور و معروف ہے وہی ذات صفت باطن سے متصف ہونے کی وجہ سے اتنی ہی غیر معروف اور مستور الحال بھی ہے _ 

قادر مطلق جس کو جیسا بھی بنانا یا رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے ویسے ہی اسباب و علل بھی پیدا کر دیتا ہے _ صفت باطن کے پرتو قدس سے مشرف کرنا تھا تو بندہ کو خفاء و استتار کی شان بھی ضرور بخشنی تھی تو اس کے لئے مادی خواہ روحانی اسباب بھی ویسے ہی بننے تھے

چنانچہ حضور مدار العالمین کی مستور الحالی کے اسباب کچھ روحانی ہیں تو کچھ مادی اور جو مادی بھی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی آپ کی روحانیت کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہیں

آپ کی روحانیت کو سمجھنے کے لئے پہلے حدیث شریف کا مطالعہ کرلیں پھر ارشادات اولیآء کرام بھی پیش کروں گا ان شآء اللہ تعالٰی 

"عن ابی امامه عن رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیه وسلم قال ان اغبط الناس عندی مومن خفیف الحاذ ذو حظ من صلوٰۃ غامض فی الناس لایوبہ به کان رزقه کفافا و صبر علیه عجلت منیته و قل تراثه و قلت بواکیه" (ابن ماجه)

حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک مومن خفیف الحاذ ہے نماز میں اس کیلئے حصہ ہے " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاسکتا " اس کا رزق بقدر زندگی ہے اور وہ اس پر صابر ہے۔ اس کی خواہش جلد فنا ہو جائے گی اور اس کی میراث کم ہے اور اس کے رونے والے بیوی بچے نہیں ہیں۔ 

(ابن ماجہ) 

احمد ترمذی ابن ماجه سے مشکوٰۃ میں بایں الفاظ منقول ہے۔

"عن ابی امامه عن النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیه وسلم قال اغبط اولیائی عندی لمومن خفیف الحاذ ذو حظ من صلوٰۃ احسن عبادۃ ربه و اطاعه فی السر و کان غامضا فی الناس لایشار الیه بالا صابع و کان رزقه کفافا فصیر علی ذلک ثم نقد بیده فقال عجلت منیته قلت بو اکیه و قل تراثه"

حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک میرے ولیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک ضرور ایک مومن خفیف الحاذ ہے۔ نماز کا ایک بڑا حصہ دار ہے۔ اپنے رب کی عبادت و اطاعت بہترین طریقہ سے تنہائی گوشہ نشینی میں کرنے والا ہے۔ لوگوں میں وہ ایسا مستور و پوشیدہ رہے گا کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا سے اس کا رزق قوت لا یموت یعنی بہت کم ہوگا اور وہ اپنے نفس کو اسی پر روک کر صبر کرے گا۔ پھر آپ نے اپنی انگلی دوسری انگلی سے ملا کر ارشاد فرمایا اس کی خواہشات نفسانیہ مرجائینگی۔ اس پر کوئی رونے والا یعنی اس کی بیوی بچے نہیں ہوں گے اور اس کی کچھ میراث نہیں ہوگی ۔

ان دونوں روایتوں میں "خفیف الحاذ" کی مستور الحالی کو یوں بیان کیا گیا " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا"  

آیئے معلوم کرتے ہیں کہ خفیف الحاذ کون ہے ؟

سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ تعالٰی عنہ کشف المحجوب میں حدیث نقل فرماتے ہیں _ 

" خیر الناس فی آخر الزمان خفیف الحاذ (آخر زمانہ میں سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے) 

صحابہء کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم خفیف الحاذ کیا ہے ؟ فرمایا الذی لا اھل لہ ولا ولد لہ (وہ شخص جس کے نہ بیوی ہو اور نہ بچے) 

شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ عوارف المعارف میں تحریر فرماتے ہیں 

" حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دو سو برس کے بعد تمہارے درمیان سب سے بہتر خفیف الحاذ ہے _ صحابہء کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم خفیف الحاذ کیا چیز ہے؟ فرمایا وہ شخص ہے جس کے نہ بیوی ہو اور نہ اولاد "

حدیث کی روشنی میں بات بالکل واضح ہے کہ خفیف الحاذ مدار پاک ہیں ان کے بیوی بچے نہیں تھے اور " موتوا قبل ان تموتو" کے مطابق بہت جلد ان پر موت واقع ہوگئی یعنی خواہشات نفسانیہ مرگئیں کھانے، پینے، سونے، تبدیلی لباس وغیرہ حوائج بشریہ سے بے نیاز ہوگئے _ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے دو سو سال بعد یعنی 242 ھ میں پیدا ہوئے اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما دیا " لوگوں میں پوشیدہ ہے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاسکتا" تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ اس کی 596 سالہ حیات کے تمام احوال و کوائف کو معلوم کر پانا اور ان کا ادراک کر پانا آسان نہیں ہے 

ایں سعادت بزور بازو نیست 

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مدار پاک کی روحانیت اور ان کی مستور الحالی کو حدیث سے سمجھنے کے بعد محققین صوفیاء کرام کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں سمجھتے ہیں تو اس سے بھی ہم پر یہی واضح ہوتا ہے کہ 

 روحانیت میں آپ اس عظیم منصب پر فائز کئے گئے ہیں جو کتمان و استتار کا مقام ہے اس مقام پر جلوہ گر اولیآء کرام خود بھی ایک دوسرے کی معرفت نہیں کر پاتے - حضرت خضر علیہ السلام بھی اسی گروہ سے ہیں اور اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کے صحیح مصداق یہی حضرات ہیں ان کی حقیقت و چگونگی کو اللہ و رسول ہی جانتے ہیں _ چنانچہ صاحب بغیۃ المفید تحریر فرماتے ہیں 

 "مقام الکتمیۃ الذی اخفی اللہ تعالٰی کنہ حقیقتہ عن جمیع الخلق، ولم یطلع علیہ الا سید الوجود (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و صاحبہ المختص بہ بحکم اختیار الملک الحق، و ھو المقام الاخص الارفع الذی لیس فوقہ من مقامات العارفین و الصدیقین مقام الا ماثبت للصحابۃ الکرام الذین لیس فوقھم فی الفضیلۃ والسبق الا الانبیآء علیھم الصلوۃ و السلام "

(بغیۃ المستفید لشرح منیۃ المرید ص 241)


(یعنی پوشیدگی کا مقام وہ مقام ہے جس کی کنہ حقیقت (حقیقت کی گہرائ) کو اللہ تعالٰی جمیع مخلوقات سے مخفی فرما دیتا ہے _ اس مقام پر صرف سید الوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ہوتی ہے اور صاحب مقام کو جو اس مقام کے ساتھ مختص ہے _ اور یہ کتمیت اللہ تعالٰی کے حکم و اختیار سے ہوتی ہے اس میں بندہ کی مرضی کو دخل نہیں ہوتا ہے _ اور عارفین و صدیقین کے مقامات میں سے یہ (پوشیدگی کا) مقام نہایت ہی خاص و ارفع ہے جس کے اوپر کوئ مقام نہیں ہے سوائے (شرف صحابیت کے) جو صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے ثابت ہے جن کے اوپر فضیلت و سبقت میں انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ کوئ نہیں ہے _)

جب ہم حضور مدار پاک کے احوال و کمالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی ذات اقدس صفت ظاہر و باطن دونوں کی مظہر نظر آتی ہے اور یہ آپ کی علو شان اور عظمت روحانیت کی روشن دلیل ہے _ اور علو شان فہم و ادراک کے لئے حجاب ہے جب ہم محققین صوفیاء و عرفاء کے ارشادات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت وا ہوتی ہے کہ مدار پاک جب قطبیت کبری یا بلفظ دگر غوثیت عظمی پر فائز ہوتے ہیں تو معروف و مشہور ہوتے ہیں اور جب اس مقام سے ترقی فرما کر فردانیت کے مقام میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو وہ مقام محجوبی و مستوری کا مقام ہے اس مقام میں " اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کے مصداق مستور و محجوب ہوتے ہیں _ اور ایسا آپ کی حیات اقدس میں متعدد بار ہونا حیرت انگیز ہے _ اس قفل کو کھولنے کے لئے عارفین کے اقوال ہی کنجی ہیں لھذا اس معمہ کو سمجھنے کے لئے اور منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے ہم پہلے سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ کی تحریر کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی راہ سے آگے بڑھتے ہیں _

سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ قطبیت، فردیت اور محبوبیت کے مقامات پر قطب، فرد اور قطب حقیقی یعنی محبوب کے استقرار کی مدتیں بحر المعانی میں تحریر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 

قطب المدار اپنے منصب پر کم از کم انیس سال پانچ ماہ اور دو دن رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سے زیادہ تینتیس سال چار ماہ، اگر اس میعاد میں سالک کا اجل آجانا ہے تو وہ رحلت کر جاتا ہے اور اگر عمر دراز ہوتی ہے تو وہ اس مقام سے ترقی کر کے مقام فردانیت میں چلا جاتا ہے (یہ مقام قرب کا مقام ہے اور سالک اس مقام میں مستور الحال ہوتا ہے _ مقام فردانیت کی میعاد پچپن سال ہوتی ہے نہ زیادہ نہ کم _ اگر اس مدت میں سالک کا اجل آجانا ہے تو وہ دنیا سے رحلت کر جاتا ہے اور اگر عمر دراز ہوتی ہے تو سلوک میں ترقی کرکے مقام محبوبیت پر فائز ہوتا ہے یہ مقام معشوقی ہے اور قطب حقیقی و قطب وحدت اس کا نام ہوتا ہے_ اس سے اوپر کوئ مقام نہیں ہوتا اس منصب پر واصل کی میعاد تئیس سال اور دس دن ہوتی ہے

(مرآۃ الاسرار شیخ عبد الرحمن چشتی اردو ترجمہ مولانا کپتان واحد بخش سیال چشتی، مکتبہ جام نور دہلی ص 104/105)

تذکرہ نگاروں کی تصریحات کے مطابق حضور مدار پاک 282 ھ میں بعمر چالیس سال مرتبہء قطب المدار پر فائز ہوئے _ ہم اس مقام میں استقرار کی مدت زیادہ سے زیادہ تینتیس سال چار ماہ کو چالیس سے جوڑتے ہیں تو عمر شریف تہتر سال چار ماہ کی ہوجاتی ہے اور آپ کو اجل آیا نہیں تو سلوک میں ترقی کرکے فردیت میں پہنچے _ اس کی میعاد پچپن سال کو ہم تہتر سے جوڑتے ہیں تو 128 سال چار ماہ کی عمر ہوتی ہے _ اس عمر میں بھی آپ کو اجل آیا نہیں تو سلوک میں ترقی کرکے مقام محبوبیت پر پہنچے اس کی میعاد 23 سال دس دن ہے 128 میں جب ہم 23 جوڑ دیتے ہیں تو بنتے ہیں 151 سال مگر اس عمر میں بھی آپ کو اجل آیا نہیں اور یہ مقام سلوک کا نہیں بلکہ وصل کا ہے ولایت خاصہء محمدیہ میں اس سے اوپر کوئ مقام نہیں _


مدار پاک کی عمر 596 برس سے ہم 151 کم کرتے ہیں تو بچتے ہیں 445 سال _ صاحب بحر المعانی حضرت سید محمد ابن میر جعفر مکی قدس سرہ نے تو یہ تحریر نہیں فرمایا کہ واصل مقام محبوبیت مقام محبوبیت یعنی فردیت کاملہ میں 23 سال گذار لینے کے بعد کس مقام میں چلا جاتا ہے _

مگر سرکار غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے کلام سے یہ بند دروازہ بھی کھل جاتا ہے آپ ارشاد فرماتے ہیں_

" فان اراد الحق بالعبد خیرا جعلہ دلیلھم و طبیبھم و مؤدبھم و مدربھم و ترجمانھم و سائحھم و منحقھم و سراجھم و شمسھم، فان اراد منہ ذلک کان، والا حجبہ عندہ و غیبہ عن غیرہ، آحاد افراد من ھذا الجنس یردھم الی الخلق مع الحفظ الکلی والسلامۃ الکلیۃ یوفقھم لمصالح الخلق و ھدایتھم "

یعنی جب حق تعالی کسی بندہ کے ساتھ بھلائ کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو لوگوں کا راہبر، ان کا طبیب، ان کا ادب سکھا نے والا، انکو مہذب بنا نے والا، ان کا ترجمان، ان کو ترانے والا، ان کا میل کچپل کھرچنے والا، ان کا چراغ، اور ان کا آفتاب بنا دیتا ہے ۔ پس اگر بندہ سے یہ (ارشاد و تربیت کا) کام لینا چاہتا ہے تو ایسا ہوتا ہے ورنہ اسکو اپنے پاس چھپا لیتا اور اپنے اغیار سے غائب کر لیتا ہے( کہ کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا) اس نوع کے افراد میں سے کسی کسی کو پوری حفاظت اور کامل سلامتی کے ساتھ مخلوق کی طرف لوٹا دیتا ہے اور انکو توفیق بخشتا ہے لوگوں کی مصلحتوں اور ان کو ہدایت کرنے کی 

(فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی مجلس 5 ص 49 اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دھلی)


 قطب الارشاد جو کمالات فردیہ کا بھی جامع ہوتا ہے بہت عزیز الوجود اور نایاب ہے اور بہت سے قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا گوہر ظہور میں آتا ہے اور عالم تاریک اس کے نور ظہور سے نورانی ہوتا ہے اور اس کی ہدایت و ارشاد کا نور محیط عرش سے لیکر مرکز فرش تک تمام جہان کو شامل ہوتا ہے اور اس کے وسیلہ کے بغیر کوئی شخص اس دولت کو نہیں پا سکتا مثلا اس کی ہدایت کے نور نے دریائے محیط کی طرح تمام جہان کو گھیرا ہوا ہے اور وہ دریا گویا منجمد ہے اور ہر گز حرکت نہیں کرتا اور وہ شخص جو اس بزرگ کی طرف متوجہ ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے یا یہ کہ وہ بزرگ طالب کے حال کی طرف متوجہ ہے تو توجہ کے وقت گویا طالب کے دل میں ایک روزن کھل جاتا ہے اور اس راہ سے توجہ و اخلاص کے موافق اس دریا سے سیراب ہوتا ہے ایسے ہی وہ شخص جو ذکر الہیٰ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہے انکار سے نہیں بلکہ اس کو پہچانتا نہیں ہے اس کو بھی یہ افادہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن پہلی صورت میں دوسری صورت کی نسبت افادہ بہتر اور بڑھ کر ہے لیکن وہ شخص جو اس بزرگ کا منکر ہے یا وہ بزرگ اس سے آزردہ ہے اگر چہ وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہے لیکن وہ رشد و ہدایت کی حقیقت سے محروم ہے یہی انکار و آزار اس کے فیض کا مانع ہوتا ہے بغیر اس امر کے کہ وہ بزرگ اس کے عدم افادہ کی طرف متوجہ ہو یا اس کے ضرر کا قصد کرے کیونکہ ہدایت کی حقیقت اس سے مفقود ہے وہ صرف مرشد کی صورت ہے اور صورت بے معنی کچھ فائدہ نہیں دیتی اور وہ لوگ جو اس عزیز کے ساتھ محبت و اخلاص رکھتے ہیں اگرچہ توجہ مذکورہ اور ذکر الٰہی سے خالی ہوں لیکن فقط محبت ہی کے باعث رشد و ہدایت کا نور ان کو پہنچ جاتا ہے_

علامہ ابن حجر ہیتمی الشافعی تحریر فرماتے ہیں - 

" القطب ھو الغوث الفرد الجامع جعلہ اللہ تعالٰی دائرا فی الآفاق الاربعۃ من ارکان الدنیآء کدوران الفلک فی افق السمآء و قد ستر اللہ احوالہ عن الخاصۃ و العامۃغیرۃ من الحق غیر انہ یری عالما کجاھل ابلہ کفطن تارکا آخذا قریباً بعیدا سھلا عسرا آمنا حذرا _ و مکانتۃ من الاولیآء کالنقطۃ من الدائرۃ اللتی ھی مرکزھا_ بہ یقع صلاح العالم "

(الفتاوی الحدیثیۃ ص 322)


(یعنی قطب المدار جو غوث و فرد ہے اور مقامات کا جامع ہے اللّٰہ تعالٰی اسے دنیا کے چاروں گوشوں میں گشت کراتا ہے جیسے آسمان کے افق میں فلک اور ستارے گردش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی غیرت داری میں اس کے احوال کو خواص و عام سے پوشیدہ رکھتا ہے۔ وہ عالم ہونے کے باوجود نا خواندہ لگتا ہے ذہین ہوتے ہوئے بھی کم فہم معلوم پڑتا ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر بھی دنیا کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے خدائے تعالٰی سے قریب تر ہوتے ہوئے بھی کجھ دور سا لگتا ہے درد مند ہوتے ہوئے بھی تںگدل جان پڑتا ہے بے خوف ہونے کے باوجود سہما سہما سا محسوس ہوتا ہے

اولیآء اللہ میں اس کا مقام ایسا ہے جیسے دائرہ کے مرکز نقطہ کا _ اسی پر عالم کی درستگی کا دار و مدار ہے) 

مدار پاک کی سوانح کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے کہ اس بزرگ جامع قطبیت و غوثیت و فردیت کے اوصاف و کمالات کا مظہر آپ ہیں _ میرے اس دعوے کی تائید شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی قول سے بھی ہوتی ہے _ انہوں نے مدار پاک کے اوصاف میں تحریر فرمایا 

" بعضے اوضاع ایشاں بر خلاف ظاہر شریعت بود " (اخبار الاخیار) 

(شیخ بدیع الدین مدار کے بعض طریقے شریعت ظاہر کے خلاف تھے) 


بات بالکل واضح ہو گئی کہ حضور مدار العالمین وہ قطب ہیں جو کمالات فردیہ کے بھی جامع ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کبھی آپ قطبیت کی طرف نزول فرماتے ہیں تو کمالات قطبیت و غوثیت کا آپ سے ظہور ہوتا ہے اور آپ کی معرفت و شہرت ہوتی ہے اور جب مقام فردیت کی طرف عروج فرماتے ہیں تو اولیآئ تحت قبائ لا یعرفھم غیری کا مصداق بن کر علماء و عارفین کے بھی درک و معرفت سے باہر ہوجاتے ہیں_ یہی بنا ہے کہ بعض اولیآء کرام آپ کی عظمت و رفعت سے نا آشنا رہتے ہوئے آپ سے مناظرہ و مباحثہ اور مخالفت پر آمادہ ہوجاتے تھے _

اب آخر میں خود حضور مدار العالمین کی تحریر نقل کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں تاکہ بات بخوبی واضح ہو جائے کہ حضور بدیع الدین مدار پاک کی شان ہی اتنی عظیم ہے کہ خدائے پاک نے انہیں اپنے قرب کی چادر میں ڈھانک کر مستور و محجوب کر لیا ہے اور جب وہی چاہتا ہے تو کسی کو اپنے اس محبوب کے درک و عرفان کی دولت عطا فرماتا ہے _ تو لیجئے ملاحظہ فرمائیں _ مدار پاک فرماتے ہیں 

ائے برادر! عوام را..... دانستن اسرار خواص الوہیت از بس مشکل است_ بداں کہ گوشہ نشینان خانقاہ عدم مردانند و بر مرکب نفخت فیہ من روحی شہسوار اند کہ بندگاں را در اسرار شاہاں آں جا راہ نیست از بس کہ در مقام قرب اند و از سایہء حدوث خویش دور اند جبرائیل علیہ السلام را برکاب داری نمی گیرند و میکائیل را بغاشیہ برداری نمی پذیرند بیک تگ از ہر دو عالم بیروں شدہ اند و بصحرائے الوہیت بعالم لا مکاں کہ نا محدود و نا متناہی است جولانگری می نمایند و "لیس عند اللہ صباحا و لا مساء" مقام دارند بعلم "یمحو اللہ ما یشآء و یثبت" محو در محو اند، بے نام و بے نشاں، از جملہ خلائق دور اند_ حق تعالٰی از غیرتے کہ دریں قوم است از مردماں محفوظ و مستور می دارد مگر آنکہ اورا می خواہد " لہ مقالید السموات و الارض مر او را است ایں درویش در بستہ بر وے می کشاید و مامور بامر اللہ تعالٰی واللہ غالب علی امرہ پیش می آید و خویشتن را بکسوت بشریت بدو می نماید کہ بداں امر است (مکتوب شریف حضور مدار العالمین بنام ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی) 

(یعنی ائے برادر! بارگاہ الوہیت کے خواص حضرات کے اسرار کا علم عام لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے_ جان لو کہ وہ حضرات خانقاہ عدم کے گوشہ نشین اور "نفخت فیہ من روحی " کے میدان کے شہسوار ہیں غلاموں کو بادشاہوں کے اسرار تک رسائی کی کوئی راہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایسے مقام قرب الہی میں ہیں کہ وہ اپنے حدوث کے سایہ سے بھی دور ہیں_ وہ جناب جبرئیل علیہ السلام کو بھی اپنی رکاب داری میں نہیں لیتے اور نہ جناب میکائیل کو اپنی غاشیہ برداری میں قبول کرتے ہیں وہ ایک قدم میں دونوں عالم کو عبور کر لیتے ہیں اور صحرائے الوہیت سے عالم لا مکانی میں جو لا محدود و نا متناہی ہے آتے جاتے رہتے ہیں، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنا شب و روز گزارتے ہیں حال یہ ہے کہ بارگاہ رب العزت میں صبح و شام کی قید نہیں ہے _ اور " یمحو اللہ ما یشآء و یثبت" کے علم میں مستغرق ہو کر محو در محو ہو کر بے نام و نشان ہوجاتے ہیں_ وہ جملہ خلائق سے دور ہیں حق تعالٰی کی اس قوم سے ایسی غیرت ہے کہ اپنی غیرت داری میں لوگوں سے انہیں محفوظ و مستور رکھتا ہے_ " لہ مقالید السموات و الارض" کا مزدہ انہیں کو زیب ہے _ یہ فقیر اس بند دروازے کو اس کے لئے کھولتا ہے جس کے لئے اللہ تعالٰی کا حکم ہوتا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے امر پر غالب ہے یہ بات سامنے رہتی ہے اور خود کو جامہء بشریت میں اس لئے دکھاتا ہے کہ اسی کا حکم ہے) 


 مدار پاک کے سلاسل طریقت میں سے ایک سلسلہ قلندریہ بھی ہے

جو سلطان العارفین حضرت خواجہ بایزید بسطامی عرف طیفور شامی سے عین الدین شامی، یمین الدین شامی، عبد العزیز مکی عرف عبداللہ علمبردار کے توسط سے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہم سے ملتا ہے _ دوسرے سلاسل و مشارب طریقت کی طرح اس سلسلہ اور مشرب کا اثر بھی آپ کی ذات و صفات اور آپ سے منسلک حضرات پر پڑنا ہی چاہئے تھا تو پڑا _ مدار پاک اور سلسلہء مداریہ کے بزرگوں پر تحقیق کرتے وقت محققین کے لئے لازم ہے کہ ان کی نسبتوں اور مشرب کو بھی مد نظر رکھیں _ 

سلسلہء قلندریہ کیا ہے ؟ اور اس کامشرب کیا ہے ؟ اسے جاننے کے لئے آیئے ایک طائرانہ نظر مشرب قلندریہ پر بھی ڈال لیتے ہیں تاکہ سمجھ میں آئے کہ مدار پاک پر یا سلسلہء مداریہ کے بزرگوں کے حالات پر تحقیق مشکل کیوں؟


سلسلہء قلندریہ کیا ہے ؟ 

وجود و شہود کی گہرائیوں میں غرق، اخفا و کتمان کا شائق، مخلوق سے علیحدگی میں گرم، سلسلہء قلندریہ ہے 

اس سلسلہ کے سر گروہ مکہ معظمہ کے ایک گمنام و مستور الحال بزرگ حضرت عبدالعزیز مکی عبداللہ علمبردار تھے۔ اہل طریقت کے مطابق ان کو حضرت رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا اور اپنی خدمت و اطاعت سے قلندر کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے

بعض اہل طریقت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالعزیز مکی کو علم برادری کا بھی منصب عطا ہوا تھا آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ تیس سال سکر و بیہوشی میں گزر گئے شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی خلفاء راشدین کا زمانہ آیا لیکن بادۂ وحدت کے مست کو ہوش نہ آیا وہ اپنے حال میں مست و سرشار رہا اور دنیا و مافیھا سے بے خبر اور بے نیاز ہی رہا۔ جنگ صفین کا زمانہ آیا اور مولائے کائنات حضرت امیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا لشکر ادھر سے گزرا فوج پر ظفر کی آواز کانوں سے ٹکرائی مستی و سرشاری سے چونکے اور جناب امیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دوبارہ بیعت سے سرفراز ہوئے صد ہا سال کی عمر پائی لیکن جذب و سرمستی اور دائمی سرشاری اور سرمستی خمیر سے نہ گئی۔ آخر کار غیبی اشارے سے سیر و سیاحت کرتے ہوئے ملک ہند آئے اور پاک بٹن کے مقام پر ایک سردابہ میں داخل ہوکر ہمیشہ کیلئے یاد حق میں غرق ہو گئے۔

چونکہ حضرت شیخ عبدالعزیز رضی اللّٰہ تعلیٰ عنہ کو دربار رسالت سے قلندر کا بلند پا یہ خطاب ملا تھا۔ اسی کی کار فرمائی تھی کہ اسماء الرجال کی کتابوں میں کہیں ان کا نام نہیں ملتا۔ حضرات صحابہء کرام رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کی طویل فہرست میں کہیں پتہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ علماء ظاہر کو ان کے وجود ہی سے انکار ہے۔ آپ کے ایک شاگرد رشید اور مرید خاص حضرت خضر رومی کھپراہاروی تھے جن کی ساری عمر تجرد، گمنانی اور گوشہ نشینی اور ریاضت شاقہ میں گزری۔ انہوں نے بھی اپنے پیر و مرشد کی طرح سینکڑوں سال کی عمر پائی۔ اس سلسلہ کے بزرگوں کی عمریں طویل ہوتی ہیں۔ انکی خود فراموشی اور نسبت حبی کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک مراقبہ میں چھ چھ ماہ گزر جاتے۔ گمنامی کے اس حدتک شائق کہ ولادت و وفات تو در کنار کسی کو آپ کے مزار مبارک تک کا علم نہ ہو سکا۔


آپ کے خلیفہ حضرت سید نجم الدین غوث الدہر قلندر نے ملک عرب کی سیاحت کر کے مالوہ اور وسط ہند میں قلندری کا ڈنکا بجایا۔ اس وقت کے بادشاہوں کا جلال آپکی نظر کرم کا رہین منت ہے۔ لیکن خول قلندری اپنی جگہ اسی آن بان اور شان سے اسی طرح جلوہ گر تھی کہ مزار مبارک کا صحیح نشان بھی نہیں ملتا۔ مؤرخین اور تذکرہ نگاروں کا بیان ہے کہ مانڈو کے قریب نعلچہ کے تالاب کے کنارے آپکی تربت تھی۔ غیاث الدین خلجی نے اس پر گنبد تعمیر کرایا۔ سلطان محمود شاہ نے اس کے چاروں سمت محلات اور باغات نصب کرائے نسبت قلندری کا ظہور ہوا محلات ویران ہوئے باغات خشک ہو گئے۔ اسی درمیان میں خطہء اودھ کے ایک عقیدت مند سیاح نے بہ ہزار تلاش و کوشش ایک تربت کا سراغ لگایا جسکی بابت یہ گمان ہوا کہ سید نجم الدین غوث الدہر قلندر کا آستانہ مبارک ہے اس بیچارے مسافر نے ریاست دھار کے ایک اعلی افسر کے ذریعے مزار کے کنارے پتھر نصب کرانا چاہا تو وہ افسر معزول ہوا اور لوح مزار گم ہو گئی۔


کیا خوب فرمایا ہے ایک عارف کامل نے 

قلندر بے زمان و بے مکان است

قلندر را نشان بے نشان است



شمالی ہند کے قلندری فقرا کا سر سری جائزہ

شمالی ہند کے مغربی حصہ میں حضرت شاہ بو علی قلندر پانی پتی نے اور وسط میں قطب الدین بینائے دل قلندر سرانداز غوثی جونپوری نے قلندری جاہ و جلال کا جلوہ اور تماشہ دکھایا یہ تاریخی حقیقت ہے کے شاہان شرقی جونپور ان کے ادنٰی اشاروں پر سر تسلیم خم کرتے تھے ۔ مگر خمول و گمنامی مرشدین عظام کا مسلک اور مشرب جو تھا اس کا اثر کہاں چلا جاتا؟ حضرت بو علی قلندر کا نام کس کو معلوم نہیں۔ لیکن یہ مسئلہ آج تک حل نہ ہو سکا کہ آپ کا مدفن پانی پت ہے یا کرنال؟ اور یہی حال بالکل حضرت قطب الدین بینائے دل قلندر جونپوری کا ہے کہ چھ سو سال سے یہ مسئلہ نہ حل ہو سکا کہ آپ کا مزار جیل کے اندر ہے یا باہر؟ 

  الغرض، پوشیدگی و خود فراموشی اس سلسلہ کے مشرب میں ہے ۔ اور حضور مدار العالمین ، کو بایزید بسطامی کے توسط سے عین الدین شامی، یمین الدین شامی اور عبد العزیز مکی عبداللہ علمبردار کی نسبت بھی حاصل ہے تو اس نسبت کی وجہ سے بھی آپ اور آپ کے سلسلہ کے خلفاء کا مشرب بھی خمول و گمنامی اور مستور الحالی ہے جس کی وجہ سے مکمل حالات معلوم و مشہور نہیں ہو پاتے _ 

یہی سب باتیں ہیں جنکی وجہ سے مدار پاک کے سن ولادت اور نسب شریف سے لیکر دوسرے معاملات میں بھی کثیر اختلافات ہیں اور یہ اختلافات در اصل ایک غلاف ہیں _ جو ان کی شخصیت و حقیقت کو چھپائے ہوئے ہیں _ اس کو بھی امر اتفاقی کہئے یا پھر امر ربی ہی سمجھئے کہ آپ کا نسبی تعلق بھی اس خاندان سے ہے جو حکومت عباسیہ کے ظلم و ستم اور خوارج کے فتنوں کی وجہ سے مستور و مکتوم رہا، آپ کے نسب شریف میں ایک جد بزرگوار ہیں سید محمد (مکتوم) ابن سید اسماعیل اعرج ابن امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم کتمان و رو پوشی کی وجہ سے ان کا لقب ہی "مکتوم " ہو گیا، ان کی نسل سے سید قدوۃ الدین علی (مدار پاک کے والد محترم) خوارج کے فتوں کی وجہ سے مدینہء طیبہ سے ترک سکونت کرکے مضافات حلب میں اقامت پذیر ہوئے - غرض اسباب جو کچھ بنیں مگر حق یہ ہے کہ حق تعالٰی اپنے بندگان اخص الخواص کو اپنی غیرت داری میں لوگوں سے چھپاتا ہے

مدار پاک تیسری صدی ہجری میں ملک شام کے حلب میں پیدا ہوئے اور قدیم عربی مصادر آپ کے تذکرہ سے خالی ہیں اس کے باطنی اسباب کے علاوہ ظاہری اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شخصیات کے تذکرے عموماً بعد وصال لکھے جاتے ہیں اور آپ کی ولادت 242 ھ میں ہوئ جبکہ وصال شریف 838 ھ میں بعمر 596 سال ہوا


دوسرا سبب آپ کے دعوتی و تبلیغی اسفار بھی ہیں 17 سال کی عمر شریف تک درس و تدریس میں گذری _ پھر 259 ھ میں بقصد حج و زیارت راہئ حرمین شریفین ہوئے _ وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے حکم باطنی پر دنیا میں دعوت و تبلیغ کے لئے سیر و سیاحت اختیار کی یہ سفر ایک ایسا سفر تھا جس میں نہ تو کوئ منزل متعین تھی اور نہ ہی کوئ راستہ مقرر، کم و بیش 23 برس حجاز، عراق، ایران وغیرہ کی سیر و سیاحت فرمائ وہ بھی اس طرح کہ کسی مقام پر مہینہ دو مہینہ سے زیادہ قیام پذیر نہ ہوتے اس سے قبل ہی کہ کہیں کے لوگ اچھی طرح آشنا ہوپاتے وہاں سے کوچ کر جاتے اور دوسری جگہ اقامت کرتے _ 

282 ھ میں وارد ہندوستان ہوئے اور یہاں کے جاہلوں، کافروں میں چل پھر کر دعوت و تبلیغ و ترویج اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے، آبادیوں سے دور جنگلوں اور پہاڑوں میں قیام پذیر ہوکر یاد حق میں مشغول رہتے _ بھارت کی سر زمین پر 1442 مقامات پر آپ کی چلہ گاہیں، انگنت گدیاں اور بے شمار تکئے آج بھی آپ کی دعوت و تبلیغ اسلام اور ترویج دین متین کی کہانیاں اہل فہم و بصیرت کو سناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں کہ مدار پاک اہل اسلام و اہل علم کے درمیان رہ کر عبادت و ریاضت اور رشد و ہدایت وغیرہ کا فریضہ انجام نہیں دے رہے تھے جو اہل علم و قلم ان کے حالات و کمالات لکھتے بلکہ جاہلوں، گنواروں، کافروں میں دعوت و تبلیغ اور ترویج دین کا مشن چلا رہے تھے _ ان لوگوں کے بیچ یہ کام کر رہے تھے جو لوگ آپ کے لئے اجنبی تھے اور آپ ان کے لئے اجنبی جو لوگ خود اپنے راجے مہاراجے اور رشیوں، منیوں کی تاریخ محفوظ نہ کرسکے وہ بھلا مدار پاک کے حالات کیا لکھتے


 حضرت علامہ، مولانا مفتی ہاشم علی بدیعی مصباحی ایک نکتہ داں , محقق , مفکر , مدبر, ,سنجیدہ طبیعت, متحرک اور فعال شخصیت کا نام ہے جس نے اتنی کم عمر میں تحقیق و تاریخ کے گہرے سمندرمیں غواصی کرکے نہ صرف دامن طلب میں گوہر مراد بھرلئے ہیں بلکہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے سمندر کو ہی کوزے 

میں بھر دیا یہی وجہ ہے کہ


تذکرہء مشائخ مداریہ

عام تصنیفات کی طرح نہیں نہیں ہے بلکہ اپنی نوعیت کی ایک تحقیقی طرز تحریر کا مرقع ہے جسے پڑھ کر آپ اس جواں دل مصنف کے جنون عشق کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں 

کہ

یہ بے مثل لعل نہ تو شاہوں کے خزانوں میں ہے نہ فقیر کی گدڑی میں 

بلکہ قطب مدار کی نگہ التفات کا انتخاب ہے جس نے انہیں اپنی قصیدہ نویسی و مدحت سرائ کیلئے منتخب کرلیا 


اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ علامہ موصوف کو ہمیشہ اپنے فضل وکرم کی چادر کاسایہ میں رکھے صحت وتبدرستی کے ساتھ عمر خضری عطافرمائے نیز علم میں، عمل میں شہرت میں فضل میں شرف میں کرم میں برکتیں عطافرماکر مقبول.انام بنائے اور کتاب تذکرہء مشائخ مداریہ کو شہرت و قبولیت عام عطافرماکر اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے



آمین




سید منور علی حسینی جعفری مداری