حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی

حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی
حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی کی ولادت 1203 ہجری یعنی سن 1789 عیسوی کو ہوئی آپ خاندانی امیر و رئیس تھے کوینکہ آپ کے دادا محترم سید جلال الدین عادل گولکنڈہ کے فرماں روا تھے اور سید قطب علی شاہ کی یادگار تھے اورآپ کی مادری زبان اردو تھی۔آپ نے عربی ،فارسی اوربعدازاں انگریزی زبان سیکھی۔
آپ خوب صورت اور خوب سیرت شخصیت کے مالک تھے ۔آپ نے عملی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن میں فوج کی ملازمت سے کیا۔آپ نے دوران ملازمت انگریزوں کو بہت قریب سے دیکھاجانااوربعض انگریز رفقا کی ترغیب سے برطانیہ کاسفرکیا،
پھر مصرگئے ،حجازمقدس کی زیارت کی،حج کیا، بعدازاں ترکی،ایران اورافغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان لوٹے ۔ آپ نے یہ سیر وسیاحت اپنی جوانی کے دور میں کی۔
القصہ آپ ایک جہاندیدہ اور باہمت شخصیت کے حامل تھے ۔گویاکہ کہ آپ کی پرورش اورتعلیم وتربیت نوابی یعنی امیرانہ ماحول میں ہوئی مگر آپ کی طبیعت میں بچپن سے ہی فقیری یعنی طلب صادق غالب تھی۔آپ کاتصوف سے خاص تعلق تھا۔اور اسی روحانی جستجونے آپ کو سارے ہندوستان کی سیاحت کرائی۔ اور آپنے بیکانیر اورسانبھر میں 12سال تک ریاضت،مجاہدہ اور چلہ کشی بھی فرمائی اور جب تصوف کی طرف آپ کی طبیعت مائل ہوئی اور جب دادا محترم سید جلال الدین عادل سے ٹیپو سلطان کا تختہ الٹنے کا واقعہ سنا تو طبیعت بلکل کمزور ہوگئی اور پھر احمد اللہ شاہ مدراسی نے سب کچھ چھوڑ کر سیاحت اختیار کر لی اور سیاحت کرتے ہوئے ٹونک راجستھان پہنچے اور ٹونک راجستھان سے آپ جے پور پہنچے اور جب آپنے حضرت سیدنا محراب علی شاہ قلندر مداری کا چرچہ سنا تو ان سے فیض حاصل کرنے کے لیے آپ گوالیر پہنچے اور حضرت سید محراب علی شاہ قلندر مداری کی خدمت میں پہنچکر آپنے بیعت و ارادت یعنی مرید ہونے کا عریضہ پیش کیا حضرت محراب علی شاہ قلندر مداری نے فرمایا کہ اے احمد اللہ شاہ میں تمہیں اس شرط پر مرید کروں گا کہ تم ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کا وعدہ کرو جب سیدنا محراب علی شاہ قلندر مداری نے یہ شرط رکھی تو حضرت سید احمد اللہ شاہ مدراسی نے ایسا جواب دیا کہ جس سے وطن کی محبت اور مرشد سے عقیدت دونوں اپنے کمال کی حد تک پہنچ جاتے ہیں

یعنی حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی نے فوراً جواب دیا کہ یہ شرط مجھے منظور ہے
لہٰذا آپ مجھے اپنا مرید بنا لیں میں ضرور ملک کو آزاد کراؤں گا اور یہ وعدہ کرنے کے بعد آپ نے پورے ملک میں آزادی کی تحریک چلائی اور آپ راجہ پوائیں سے تعاون لینے کے لیے یعنی مدد لینے کے لیے بندیل کھنڈ آئے راجہ پوائیں اگر مدد دینے کے لیے تیار ہو جاتا تو احمد اللہ شاہ مدراسی کو سانس لینے کا موقع ملتا مگر راجہ پوائیں نے غداری کی اور غداری بھی اس طرح سے کی کہ پتھر دل ظالم بھی ایسی غداری دیکھ کر شرم سارہو جائے یعنی پہلے تو راجہ پروائی بھائی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا اور جب تیار ہوا بھی تو اندر سے حویلی کا دروازہ بند کر کے حضرت احمد اللہ شاہ مداری مدراسی پر اتنی گولیاں چلوائیں کہ آپ کا جسم چھلنی ہو گیا
اتنے میں راجہ بلوان سنگھ نے آپ کا سر تن سے الگ کرکے صاحب کلیکٹر شاہ جہاں کے سپرد کردیا اور جسم اقدس کو آگ میں پھینک دیا اور آپ کے سر مبارک کو دریا پار محلہ جہان آباد مسجد متصل احمد پور کے پہلو میں دفن کردیا گیا

سامعین! حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی کا کردار جنگ آزادی میں کتنا اہم تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ سرکار نے حضرت احمد اللہ شاہ مدراسی پر حملہ کرنے والوں کو انعامات سے نوازا اور پچاس ہزار نقد روپیہ اور خلعت فاخرہ راجہ پوائیں کو بھجوائیں آپ کی شہادت کے بعد آپ کے مریدین اور خلفاء کی کثیر تعداد نے اور سادات مکنپور نے بھی خاص کر سید خان عالم میاں روح الاعظم میاں علاوہ آپکے مکنپور شریف کے بہت سے حضرات نے اس آزادی کی تحریک کو جاری رکھا اور سامعین یہ سانحہ عظیم 13 ذی قعدہ 1385 ہجری بمطابق 5 جون سن 1858 عیسوی کو پیش آیا
_________________________________________________