سلطان الہند، عطائے رسول، خواجہ خواجگاں سرکار
سیدنا خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری ثم اجمیری
المعروف خواجہ غریب نواز، ہندالولی رضی اللہ تعالٰی عنہ
آپ اللہ کے وہ مقبول بندے ہیں کہ جب اپنی حیات ظاہری میں میں جلوہ گر رہے تو مرجع خلائق بن کر رہے اور جب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو اپنی راجدھانیوں میں بہ فیض ربی حاجت رواے عالم بن کر رشک دارا و سکندر ہو گئے
سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی ولادت 537ھ میں خطئہ سجستان کے موضع سنجر شہر خراساں میں میں ہوئی
آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی حضرت خواجہ سید غیاث الدین حسن ہے۔ آپکا شجرہ نسب چند واسطوں سے امام عالیمقام سیدنا امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ آپکی والدہ محترمہ کا نام بی بی ام الورع رضی اللہ عنہما ہے ۔ آپ بی بی ماہ نور کے نام سے مشہور تھیں۔ چند واسطوں سے آپکا شجرہ نسب ہم شبیہہ مصطفے سیدنا حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے جا ملتاہے۔ اسی باعث سرکار غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی یعنی نجیب الطرفین سید ہیں۔
سرکار غریب نواز کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار حضرتخواجہ سید غیاث الدین حسن اپنے وقت جید عالم دین تھے۔ خواجہ صاحب نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرما لیا اور اس کے بعد سنجر کے ایک مکتب میں حصول علم کی غرض سے داخلہ لیا۔ آپ نے یہاں ابتدائی طور سے تفسیر، فقہ اور حدیث کی تعلیم پائی اور تھوڑے ہی عرصے میں آپ نے تمام علوم میں مہارت تامہ حاصل کرلی۔
مسالک السالکین سے پتہ چلتا ہے کہ خواجہ غریب نواز اور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ اور سیرالاقطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ غریب نواز ایک رشتے سے حضرت غوث پاک کے ماموں ہوتے ہیں۔ (مسالک السالکین صفحہ 271، 272، سیر الاقطاب صفحہ107)
آپکا شجرہء بیعت
پندرہ واسطوں سے قبلہ گاہِ اولیاء امام العالمین سیدنا مولا علی علیہ الصلاۃ والسلام تک ملتا ہے۔ جسکو آپ اپنی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں
۔
حضرت خواجہ معین الدین
خواجہ عثمان ہارونی
حاجی شریف خدندنی چشتی
قطب الدین مودور چشتی
خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی
خواجہ ابو محمد چشتی
خواجہ ابدال چشتی
خواجہ ابو اسحاق چشتی
خواجہ ممشاد علادنیوری
شیخ امین الدین بصری
شیخ سدید الدین حذلقۃ المرعشی
سلطان ابراہیم ادہم بلخی
خواجہ فضیل بن عیاض
خواجہ عبدالواحد بن زید
حضرت خواجہ حسن بصری
شہنشاہ ولایت سیدنا مولا علی علیہ السلام
۔چشتی کی وجہ تسمیہ
حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی بیعت کرنے کی غرض سے گئے۔ خواجہ ممشاد دنیوری نے آپ کو بیعت ارادت سے مشرف کرنے کے بعد فرمایا؛۔ تیرا نام کیا ہے ؟ عرض کیا۔ اس عاجز کو ابو اسحاق کہتے ہیں۔ یہ سن کر خواجہ ممشاد علاد دینوری نے فرمایا۔ آج سے ہم تجھے ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلہء ارادت میں قیامت تک داخل ہوگا وہ چشتی کہلائے گا۔
ابو اسحاق شامی اپنے پیر کے فرمان کے مطابق “چشت“ تشریف لاکر رشد و ہدایت میں مصروف ہوگئے۔ چنانچہ خواجہ معین الدین کے پیران عظام میں سے ہیں اس وجہ سے حضرت خواجہ بھی چشتی مشہور ہوئے۔ (احسن السیر و مسالک السالکین)
خواجہ صاحب کی زندگی
نہادت سادی تھی۔ آپ نے صفات بشری ترک فرما کر روحانیت میں کمال حاصل کیا۔ آپ کے پیرو مُرشد خواجہ عثمان ہارونی کو آپ کی مُریدی پر بڑا ناز تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے۔
ہمارا معین خدا کا محبوب ہے۔ مجھے اس کی مُریدی پر فخر ہے۔ آپ نے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا اپنا اُصول بنا رکھا تھا۔ سنت رسول کے پابند تھے آپ کا کُل وقت ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں گزرتا تھا۔ آپ اکثر باوضو رہتے تھے۔ اور عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے۔ دن رات میں قرآن پاک ختم کرتے تھے آپ کی مُرید نوازی بہت مشہور ہے۔ مُریدوں کا خیال بے حد رکھتے تھے۔ آپ کا فرمان عالی ہے کہ معین الدین اس وقت تک جنت میں قدم نہیں رکھے گا جب تک اپنے مُریدوں اور مُریدوں کے مُریدوں کو جو قیامت تک سلسلے میں ہوں گے جنت میں نہ لے جائے گا۔
سرکار خواجہ غریب نواز کے اخلاق و عادات نہایت تحمل و بردبار تھے۔ خطا معاف فرما دیتے۔ اور بے حد سخی تھے۔ غریبوں اور محتاجوں کی ہر طرح سے امداد کرتے۔ بھوکوں کو کھانا کھلاتے بیماریوں کی خبر گیری کرتے۔ مظلوموں کو ظالم کے پھندے سے نکالتے۔ آپ حلیم اور منکسر المزاج تھے آپکا لباس نہایت سادہ تھا اور کپڑا پر خود پیوند لگا لیتے تھے اور آپ کی خوراک بہت کم تھی۔
علمی شغل
آپ ایک خدا رسیدہ بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال مبلغ و مصلح، صاحبِ طرز مصنف اور خوش گو شاعر تھے۔ مندرجہ ذیل تصنیفات آپ کے ذوق علمی پر شاہد ہیں:۔
(1) انیس الارواح (2) کشف الاسرار (3) گنج الاسرار (4) رسالہ تصوف منظوم (5) رسالہ آفاق و انفس (6) حدیث المعارف (7) رسالہ موجودیہ ( 8 ) دیوان معین۔
سرکار خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد اجمیر میں 561 ہجری کو ہوئی جب آپ ہندوستان آ رہے تھے تو کرمان میں آپ کی ملاقات سرکار بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی سرکارِ مدار رضی اللہ عنہ کرمان میں مخلوقِ خدا کی ہدایت میں مصروف تھے
کہ خواجہ معین الدین بھی پہنچ گئے آپنے مدار پاک سے ملاقات کی اور عرض کیا مجھے کچھ نصیحت کیجئے سرکار مدار نے آپکو دنیا میں قہقہ مارکر ہنسنے کا عبرتناک واقعہ سنایا اور فرمایا دنیا ہنسنے کی جگہ نہیں ہے
اور سرکارِ مدار نے ہندوستانی ماحول سے روشناس کراتے ہوئے فرمایا اے معین الدین ہندوستانیوں کا ماحول گزشتہ عربوں سے کم نہیں ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے نرمی سے بات کی جائے اگر ایسا کیا تو بہت جلد کامیاب ہو جائیں گے یہاں سے رخصت ہو کر سرکار غریب نواز مختلف دریا و امصار سے گزرتے ہوئے .....ھجری کو اجمیر شریف پہنچے اسلام کی تبلیغ میں آپ اس قدر مصروف تھے کہ کسی اور بات کا خیال بھی نہ تھا، چنانچہ ایک رات سرکار رسالت مآبﷺ نے خواب میں دیدار سے مشرف فرمایا اور فرمایا کہ معین الدین! تم ہمارے دین کے معین ہوتمہیں ہماری سنت نہیں چھوڑنی چاہئیے،اس خواب کے ذریعہ آپکو نکاح کا حکم فرمایا گیا۔چنانچہ ایک نیک بخت محترمہ بی بی امۃ اللہ سے ۵۹۰ھ مطابق 1194ء میں آپکا نکاح ہوا۔
آپ سے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کی ولادت ہوئی۔
بڑے صاحبزادے سیدنا خواجہ فخر الدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ۵۹۱ھ میں ہوئی ، سرکار خواجہ غریب نواز کے وصال شریف کے بیس سال بعد تک آپ سجادہ نشین رہے اور مخلوق کو فیض پہونچاتے رہے۔ ۵؍ شعبان المعظم 661ھ میں سلواڑ شریف ضلع اجمیر شریف میں آپ کا وصال شریف ہوا اور وہیں آپ کا مزار اقدس ہے۔
دوسرے صاحبزادے سیدنا خواجہ حسام الدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے جو بچپن ہی میں روپوش ہوکر ابدالوں کی جماعت میں شامل ہوگئے اور کسی کو پتہ نہیں چلا کہ آپ کہاں تشریف لیگئے۔
آپ کی اکلوتی صاحبزادی سیدتنا حضرت بی بی حافظہ جمال رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت متقی و پرہیزگار تھیں اور سرکار خواجہ غریب نواز آپ سے بیحد محبت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت شیخ رضی الدین عرف عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپکا نکاح ہوا اور اجمیر شریف میں اپنے والد گرامی سرکار خواجہ غریب نواز کے مزار اقدس کے پاس ہی آپکا مزار پاک ہے۔
ایک صاحب جن کا اسم گرامی سید وجیہ الدین تھا وہ اپنی صاحبزادی کے لئے ایک مناسب رشتے کی تلاش میں تھے۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضور امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ رسول پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ حکم ہے کہ تم اپنی صاحبزادی کا نکاح معین الدین سے کردو۔
وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور یہ خواب سنایا۔اس وقت سرکار خواجہ غریب نواز کی عمر شریف ۸۳ سال تھی، آپ نے فرمایا کہ اگرچہ میں سن رسیدہ ہوچکا ہوں مگر حکم نبوی کی تعمیل ضرور ہوگی اور یہ رشتہ قبول فرمالیا۔
اس طرح آپ کا دوسرا نکاح سیدتنابی بی عصمۃ اللہ سے 620 ھ میں ہوا اور ان سے ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئی جنکا اسم گرامی سیدنا خواجہ ضیاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ آپکا پچاس سال کی عمر میں وصال ہوا اور درگاہ سرکار غریب نواز میں آپ کا مزار شریف ہے۔
سرکار خواجہ غریب نواز کی بے پناہ جد جہد سے سارے ہندوستان میں اسلام کا بول بالا ہوگیا، ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں سنائی دینے لگیں اور پھر وہ وقت آگیا جس کے متعلق قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر ذات چکھنے والی ہے موت کو۔ چنانچہ 6؍ رجب المرجب 633ھ کو آپ کا وصال شریف ہوا۔
آج بھی اجمیر مقدس میں آپ کا مزار پُر انوار رحمت و نور کی برسات کر رہا ہے اور آج بھی کتنے غیر مسلم آپ کے دربار میں اپنی حاجتیں لیکر حاضر ہوتے ہیں اور جب انکی خالی جھولیاں گوہر مراد سے پُر ہوجاتی ہیں تو اسلام کی حقانیت ان پر عیاں ہوتی ہے اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے آج بھی سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ کا مزار پُر انوار اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہے۔