حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ


حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ

حضرت سید احمد بادیا پا رضی اللہ عنہ کا نام تو سنا ہی ہوگا
جو کہ میراں شاہ بابا کے نام سے مشہور ہیں اور تصوف کی پرانی کتابوں میں
ان کی درگاہ شریف کے علاقے کا نام
کلہاوابن ملتا ہے جسے آج مدھوبن کہا جاتا ہے جو کہ ضلع مؤ میں لگتا ہے
ان کا مختصر ذکر ہم اپنی ایک ویڈیو میں کر چکے ہیں
جس کا لنک آپ کو ڈسکرپشن میں مل جائے گا

لیکن پھر بھی ہم یہاں پر بطور یاددہانی بتاتے چلیں
کہ حضرت سید احمد بادیاپا جو کہ میراں شاہ بابا کے نام سے مشہور ہیں پانچویں صدی ہجری کو بغداد میں سرکار مدار العالمین رضی اللہ عنہ کی دعاؤں سے
پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد کا نام نام حضرت سید محمود اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی نصیبہ ہے جو کہ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی سگی بہن تھی آپ کے بڑے بھائی حضرت سید محمد ہیں
جو سرکار جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں

چنانچہ آپ یعنی سید احمد بادیاپا المعروف میرا شاہ اور سید محمد جمال الدین جان من جنتی آپ دونوں حضرات سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ کے حکم سے مدار پاک رضی اللہ عنہ کی صحبت میں آکر مدار پاک کے ساتھ ہی ہندوستان آئے اور آپ ہی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور سلسلہ مداریہ میں اجازت و خلافت حاصل فرمائی
آپکی ایسی مقدس ذات ہے کہ آپکو شیخ وجیہ الدین اشرف نے تاج بخش سلاطین فقرہ کے القاب سے یاد کیا ہے یعنی حضرت سید احمد بادیاپا رحمتہ اللہ علیہ المعرف میرا شاہ کی کرامات میں خاص کرامت یہ تھی کہ آپ نے بادشاہوں اور فقیروں کے سر پر تاج رکھا اور سامعین اس بات میں کتنی سچائی ہے آپ اگے بیان ہونے والے واقعات کو سن کر جھٹلا نہیں پائینگے چنانچہ جب آپ کا سفر مشرق کی جانب ہوا اس وقت ایران و تاتار میں مجیب خانہ جنگیاں تھیں کشت و خون کا بازار گرم تھا ترکوں کے حملے اور تاتاریوں کی لوٹ مار سے سے سخت ابتری پھیلی ہوئی تھی
اس وقت بغداد کا حاکم ابوالغیث تھا جس کی حکومت ایران تک پھیلی ہوئی تھی اور بغداد کا حاکم ابو الغیث تھا جس کی حکومت ایران تک پھیلی ہوئی تھی اس نے سید احمد بادیاپا سے سلطنت میں امن و امان کےا قائم ہوجانے کے لئے دعا کی درخواست کی سرکار سید احمد بادیا نے دعا کی اور امن و امان قائم ہو گیا
اور جب سنہ 681 ہجری میں گلزار خاں بن ہلاکو خان بغداد کے تخت و تاج کا وارث ہوا تو حضرت سید احمد بادیاپا کی تبلیغ سے اس نے اسلام قبول کیا یعنی سید احمد بادیاپا کے ہاتھ پر گلزار خان بن ہلاکوخان - اورابن ہلاکو خان کی ساری فوج نے اسلام قبول کرلیا ابن ہلاکو خان کے اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد آپ نے اسکا نام گلزار خان سے بدل کر سلطان احمد رکھا اور اس طرح سے ہلاکو خان کی اولاد میں سید احمد بادیاپا المعروف میراں بابا کی بدولت اسلام داخل ہوگیا
سید احمد بادیاپا یہاں سے چین کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں آپ نے اپنا نام ننگ چو بتایا اس وقت چین کا حکمران سلوسر جنگ تھا وہ بھی آپ کی تبلیغ سے اور اسلام کی رشد و ہدایت سے مشرف بہ اسلام ہوا
اور اسکے بعد جب سید احمد بادیاپا چین سے واپس ہوئے تو بخارا ہوتے ہوئے 685 ہجری میں آرمینیا پہنچے اس وقت آرمینیا کا حکمران عثمان جنگ تھا وہ بھی آپ کے کردار اسلامی کو دیکھ کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے آکا مرید ہوگیا اس کے بعد سید احمد بادیاپا مصر کی جانب روانہ ہوئے اس وقت وہاں کا حاکم ناصر حسن تھا وہ بھی آپ کی کرامات دیکھ کر آپ کا معتقد و مرید ہو گیا اس کے بعد آپ خراسان کی طرف لوٹے وہاں کا حاکم ابوالحسن معزول ہو چکا تھا یعنی تخت و تاج گنوا چکا تھا لیکن آپ کی دعا سے اس کو پھر سے حکمرانی مل گئی
امیر تیمور لنگ بھی آپ ہی کی پیشنگوئی سے جو کہ آپ کو مدار پاک نے دی تھی یعنی امیر تیمور لنگ بھی آپ ہی کی دعاؤں سے 1398 عیسوی میں ہندوستان پر زبردست حملہ کرکے دہلی پر قابض ہو گئے
اور اسی طرح شیر شاہ سوری اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہی سید احمد بادیاپا کی بزرگی اور کمالات کا حال کال سن چکا تھا جب شیر شاہ کے باپ حسن خان نے شیر شاہ سوری کو تخت سے اتار کر سلیمان خان کو اپنی جاگیر سونپ دی تو شیرشاہ سوری پریشانی اور مایوسی کے عالم میں سید احمد بادیاپا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں کولہوابن حاضر ہوا جب یہ حاضر ہو تو اسوقت حضرت مراقب تھے تو شیر شاہ سوری سلام کر کے دیر تک کھڑا رہا جب حضرت کی آنکھ کھلی تو شیر شاہ سے فرمایا بیٹھ جاؤ اور اتنا کہکر پھر سے یاد الہی میں غرق ہوگئے جب آپنے دو بارہ سر اٹھایا تو شیر شاہ پر ایسی لرزہ کی کیفیت طاری تھی کہ وہ حضرت حکم کے بیٹھا تک نہیں اور کھڑا ہی رہا
حضرت نے شیر شاہ کو ڈانٹ کر کہا بیٹھ جا یا چلا جا یہ سن کر شیر شاہ سوری سہم کر بیٹھ گیا پھر حضرت نے شیر شاہ سے پوچھا تم کہاں سے اور کیوں آئے ہو شیر شاہ نے اپنی داستان سنائی اس کی داستان سن کر سید احمد نے اس کو تسلی دی اور فرمایا یا انشاء اللہ تم جلد جاگیردار اور پھر بادشاہ بن جاؤ گے اور بن جاؤ تو رعایا کی بھلائی کے کام انجام دینا اور انصاف پر قائم رہنا اور دوسری یہ کہ جب تم کو اللہ تبارک و تعالی اولاد دے تو پہلی اولاد ہماری خدمت میں دے دینا شیر شاہ نے دونوں شرطوں کو قبول کیا اور رخصت ہوکر سہسرام کے لئے روانہ ہوگیا پھر کچھ عرصے کے بعد بعد اگر چلا گیا اور دولت خان کے یہاں ہاں جو بارہ ہزار سوار کا سردار تھا اسکے یہاں ملازمت اختیار کر لی رفتہ رفتہ شیرشاہ کی بہادری اور مقبولیت میں میں اضافہ ہوتا گیا یہانتک کہ اسوقت کے عظیم حکمران بادشاہ ہمایوں کو اس سے خطرہ محسوس ہونے لگا تو ہمایوں شیرشا کی سرکوبی کے لیے لیے 25 جون 1539 عیسوی کو لشکر کے ساتھ روانہ ہوا بکسر کے قریب جونسا کے مقام پر شیر شاہ سوری اور ہمایوں یوکی فوج کے بیج مقابلہ اور سید احمد بادیاپا کی پیشنگوئی کے مطابق شیر شاہ سوری کو اس جنگ میں جیت حاصل ہوئی اور ہمایوں شکست کھا کر بھاگا کہ شیر شاہ نے دہلی پر قبضہ کرلیا اب شیر شاہ سوری بادشاہ بن چکا تھا اور اور وقت گزرنے کے ساتھ اولاد بھی عطا ہو گئی تھی چنانچہ شیر شاہ سوری اپنے وعدے کے مطابق چند سال کے بعد سید احمد بادیاپا کی خدمت میں کولہوابن میں دوبارہ حاضر ہوا سید احمد بادیاپا کی قدم بوسی کی اور شکریہ ادا کیا اور جب شیر شاہ سوری رخست ہونے لگا تو سید احمد بادیاپا نے فرمایا اب تو تم بادشاہ تو ہوگئے اور اولاد بھی اللہ نے عطا کردی مگر وعدہ کے مطابق تم اپنی پہلی اولاد کو اپنے ساتھ نہیں لائے آئے

بادشا نے عرض کیا کہ حضرت میں اس سے غافل نہیں ہوں میری پہلی اولاد ماہ بانو ہے اور ابھی اس کی عمر کم ہے اور یہاں کوئی کوئی قیام کا بندوبست نہیں ہے قلعہ کے تیار ہوجانے کے بعد میں اپنے وعدہ کے مطابق اپنی پہلی اولاد ماہ بانو کو آپ کی خدمت میں پیش کر دونگا المختصر شیر شاہ کے حکم سے قلعہ تعمیر ہوگیا تو ماہ بانو نے خواب دیکھا کہ سید احمد بادیاپا فرماتے ہیں کہ تم درگاہ کولہوابن حاضر ہو کر اللہ کی یاد میں مستغرق ہو جاؤ ماہ بانو آنے کے لئے تیار ہو گئیں اور کہا کہ تاحیات حضرت کی خدمت میں رہ کر عبادت کرونگی شیر شاہ نے اپنی صاحبزادی کو اس کے استاذ سید اسماعیل کی سپردگی میں کچھ خادموں کے ساتھ روانہ کردیا ماہ بانو نے کولہوابن پہنچکر قلعہ میں قیام کیا اور عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گئی
اسکے بعد پھر سے شیر شاہ حاضر دربار ہو اور ما ہ بانو اور روضہ شریف کے اخراجات کے لیے بارہ گاؤں کی معافی کا اعلان کیا ماہ بانو کے نام پر ایک گاؤں بھی آباد کیا جس کا پورا نام چک بانو عرف درگاہ ہے
سامعین یہی نام آج تک سرکاری کاغذات میں چلا رہا ہے اور شیرشاہ کے حکم سے ہی سید احمد بادیاپا کا روضہ شریف ایک ایکڑ زمین میں تعمیر ہوا

سامعین این شیرشاہ کی ناگہانی موت کے بعد اس کا چھوٹا لڑکا جلال سلیم شاہ تخت پر بیٹھا اور شیر شاہ کے انتقال کے بعد جتنے بادشاہ تخت نشین ہوئے ہوئے انہوں نے نہ صرف شیر شاہ کے نظر کیے ہوئے بارہ گاؤں او کی معافی کو قائم رکھا بلکہ اس میں میں مزید اضافہ صفحہ کرتے گئے گئے اس طرح 52 گاؤں کے معافی نامے موجودہ اللہ سدا نشین کے پاس موجود ہیں