حیات سرکار اللہ ہو میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اللہ تبارک وتعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں اس عظیم ہستی کا دامن حاصل ہے جنکا شمار ان اولیاء کرام میں ہے جو عرفان ہی کا نہیں بلکہ علم کا بھی سمندر تھے اور وہ ذات گرامی سیدنا حضور تاج العرفاء غوث زماں حضرت علامہ مولانا الحاج شاہ سید محمد عبد البصیر میاں عرف سرکار اللہ ہو میاں پیلی بھیتی رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ آپکو جس نے بھی جس کمال میں پرکھا آپ کا مل نظر آئے، نسب دیکھو تو سیدنا حضور سلطان اولیاء شاہ سید محمد گُل بابا میاں رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کی اولاد ہونے کا شرف آپ کو حاصل ہے۔ آپکی ولادت مبارکہ ۱۲۷۹ھ میں تورڈھیر شریف ضلع صوابی پاکستان میں ہوئی۔ آپکو آل رسول اور آل غوث اعظم ہونے کا شرف حاصل تھا۔ آپ نجیب الطرفین سید یعنی حسنی حسینی سید ہیں اور آپکا شجرۂ نسب چند واسطوں سے سرکار غوث اعظم پیران پیر دستگیر شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔آپکا شجرۂ نسب اسطرح ہے: (۱) سیدنا حضو ر سید محمد عبد البصیر میاں عر ف اللہ ہومیاں صاحب(۲) سیدنا حضور سیدرحیم اللہ میاں صاحب (۳)سیدنا حضور سید معز اللہ میاں صاحب (۴) سیدنا حضور سید حبیب اللہ میاں صاحب (۵) سیدنا حضور سید جان محمد میاں صاحب (۶)سیدنا حضور سید محمد گُل بابا میاں صاحب (۷) سیدنا حضور سید مراد محمد میاں صاحب (۸) سیدنا حضور سید خاں محمد میاں صاحب (۹)سیدنا حضور سید محمد عبد العزیز میاں صاحب (۱۰) سیدنا حضور سید پوردل بابا صاحب (۱۱) سیدنا حضور سید شاہ نقیب میاں صاحب (۱۲)سیدنا حضور سید عبد الرزاق میاں فرزند پنجم سرکار غوث اعظم جیلانی (۱۳) سیدنا حضور شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
پیر دیکھو تو سیدنا حضور تاج الفقراء غوث الاغواث سرکار حاجی شاہجی محمد شیر میاں پیلی بھیتی رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ آپ کے پیر ہیں جو خود ہی ولی نہیں بلکہ ولی گر ہیں جس پر نظر ڈالدیں اللہ کا ولی بنادیں۔
اولاد دیکھو تو سیدنا حضور تاج الاولیاء قطب زماں علامہ الحاج شاہ سید محمد عبد القدیر میاں رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ آپ کے صاحبزادے ہیں جن سے چلتے پھرتے کرامتوں کا ظہور ہوتا تھا۔
پوتا دیکھو تو سیدنا حضور تاج الشرفاء شیخ العرب والعجم شبیہ سیدنا حضور غوث اعظم قبلۂ عالم علامہ الحاج شاہ سید محمد عبد الرشید میاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جنکی کرامتیں سر کی آنکھوں سے دیکھنے والا ایک میں ہی نہیں ہوں بلکہ لاکھوں ہیں۔
ایک قدم اور آگے بڑھائیں ‘‘پرپوتا ‘‘ دیکھیں سیدنا حضور تاج الفقہاء سراج عالم علامہ الحاج قاضی سید محمد عبد الاحد میاں قبلہ مدظلہ النورانی ڈبل ایم اے، جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اللہ کا ولی کیسا ہوتا ہے۔
سیدنا حضور اللہ ہو میاں رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب ولایت لفظوں میں بیان کرنا مجھ ناچیز کیلئے محال ہی نہیں ناممکن ہے ، البتہ ولایت کے اس سمندر سے کچھ موتیوں کو عقیدت و محبت کے دھاگے میں پِروکر نذر قارئین کرنے کی سعادت ضرور حاصل کر سکتا ہوں۔
سیدنا حضور اللہ ہو میاں پیلی بھیتی رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ ولایت کے کس اونچے منصب پر فائز تھے اس کا اندازہ اس سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ دنیا والوں کو دیکھیں کہ لوگ مال و دولت کی خاطر اپنا وطن چھوڑتے ہیں، روپیہ کمانے کیلئے اپنا گھر چھوڑتے ہیں مگر سرکار اللہ ہو میاں نے وطن چھوڑا گھر بار چھوڑا، زمینداری چھوڑی تو پیر کامل کی تلاش میں ، اور سینکڑوں میل کا سفر طے فرماکر پیر کامل کی تلاش کرتے کرتے تورڈھیر شریف(جو اب صوبہ سرحد پاکستان میں ہے) سے بریلی تک تشریف لے آئے لیکن کوئی پیر کامل نظر نہیں آیا۔
سیدنا اعلیٰ حضرت امام الانبیاء والمرسلین آقائے دوجہاں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لال کو پیر کامل کی تلاش میں یوں تڑپتا ہوا دیکھا تو بشارت فرمائی کہ پیلی بھیت میں محمد شیر کے ہاتھ پر بیعت ہوجاؤ، اور اُدھر پیلی بھی شریف میں سرکار شاہجی محمد شیر میاں کو بشارت فرمائی کہ ہمارا بیٹا آرہا ہے اس کو مرید کرلینا۔ چنانچہ سرکار اللہ ہو میاں پیلی بھیت شریف تشریف لائے اور سرکار شاہجی محمد شیر میاں سے شرف بیعت حاصل کیا ۔ اور جب پیر کامل پا لیا تو ہمیشہ کے لئے پیر کے در کو ہی اپنا مسکن بنالیا۔
آپ کی پیر کامل کی تلاش یہ بتا رہی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ میں للٰہیت اور ولایت کی چمک مرید ہونے کے بعد آئی بلکہ ولایت تو آپ کو وراثت میں ملی تھی اور آپ مادرزاد اللہ کے ولی تھے۔
روحانیت کے ساتھ ساتھ آپ علم کے بھی پہاڑ تھے آپ کی تصنیف کردہ بہت سی کتب مطبوعہ ہیں اور کچھ غیر مطبوعہ ہیں۔ درسی کتب پر آپ کے معرکۃ الاراء حواشی آج بھی موجود ہیں جو آپ کی علمی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔
میرے والد ماجد سیدنا امیر اہلسنت مجدد دین و ملت حضور مناظر اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا حضور قبلۂ عالم شیخ العرب والعجم نبیرہ سیدنا حضور اللہ ہو میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ رب قدیرجل مجدہ‘ نے سرکار اللہ ہو میاں کو ایسی عظیم قوت حافظہ عطا فرمائی تھی کہ جس کتاب کو آپ ایک مرتبہ دیکھ لیتے اسے آپ حفظ فرمالیا کرتے ، یہی و جہ ہے کہ از آمد نامہ تا بخاری شریف پورا درس نظامی آپ کو حفظ تھا۔
ہم بھی عالم ہیں اور ہزاروں علماء سے ہمارا رابطہ بھی ہے کسی کو ایک دو کتا بیں بھی حفظ نہیں ہوتی ہیں مگر یہ سرکار اللہ ہو میاں کی روحانی طاقت ہی تھی کہ جس نے آپکو ایسی عظیم نرالی عالمانہ شان عطا فرمائی۔ اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ نطفہ اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے چنانچہ سرکار اللہ ہو میاں کی اولاد بھی علم کا پہاڑ ہے چاہے وہ حضور تاج الاولیاء ہوں یا حضور قبلۂ عالم وہ حضور سراج عالم ہوں یا انکے شہزادۂ والاشان حضور تاج العلماء ۔ اور حضور سراج عالم تو عالم دین قاضئ شرع متین ہونے کے ساتھ ساتھ ڈبل ایم اے بھی ہیں یعنی اس گھر کا بچہ بچہ علم و عرفان کا سمندر نظر آرہا ہے۔ اور آج صرف سرکار اللہ ہو میاں کے خاندان ہی میں علم کی ریل پیل نہیں ہے بلکہ دربار سیدنا حضور اللہ ہو میاں پیلی بھیت شریف میں مرکز اہلسنت الجامعۃ القدیریہ کے روپ میں علم کا دریا بہہ رہا ہے اور آج پوری دنیا میں سرکار اللہ ہو میاں کے فیضان علمی کا ڈنکا بج رہا ہے۔
رب قدیر کا شکر ہے اس کے محبوب کا کرم ہے کہ آج سرکار اللہ ہو میاں کے غلاموں میں اتنے علماء ہیں جن کا شمار کر پانا ناممکن ہے اور آج دنیا بھر کے بے ایمان ان غلامان اللہ ہو میاں سے نظریں ملانے کی جسارت نہیں کر پاتے ہیں۔
یہ سرکار اللہ ہو میاں کا فیضان علمی ہی ہے کہ آج ان کے غلاموں میں مترجم قرآن کریم ہیں، مفسر فہیم ہیں اور مجدد ہیں ، انہی کا غلام ہے جس نے تین نعتیں و منقبتیں لکھ کر تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔
سرکار اللہ ہو میاں پیلی بھیتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات مبارکہ مسلک سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترویج و اشاعت میں بسر ہوئی، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دور میں کئی مسائل پر زبردست جد و جہد فرمائی اور بفضلہ تعالیٰ و بکرم حبیبہ الاعلیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فتح و ظفر نے آپ کے قدم چومے۔ چنانچہ آپ کے دور میں مسئلۂ اذان ثانی نے کافی طول پکڑا، سرکار اللہ ہو میاں اذان ثانی جمعہ داخل مسجد کے قائل تھے جیسا کہ تمام اولیاء کرام کا معمول رہا ہے، لیکن اُس دور میں کچھ لوگ اس اذان ثانی کو خارج مسجد کہلوانا چاہتے تھے۔ چنانچہ جب پیلی بھیت شریف میں علامہ وصی احمد سورتی نے اس مسئلے کو جنم دیا تو سرکار اللہ ہو میاں نے ا سکی مخالفت فرمائی اور بات کورٹ تک جاپہونچی۔ جج نے اعلان کیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ جمعہ کے دن جامع مسجد ہی میں کیا جائے گا۔ چنانچہ جمعہ کے دن قبل نماز جمعہ جج نے اعلان کیا کہ جو لوگ اذان ثانی داخل مسجد چاہتے ہیں وہ اندر چلے جائیں اور جو باہر چاہتے ہیں وہ یہیں رہ جائیں، تو سب سے پہلے سرکار اللہ ہو میاں نے ایک ضرب اللہ‘ لگائی اور مسجد کے اندر تشریف لے چلے، سرکار اللہ ہو میاں کا اندرمسجد میں جانا تھا کہ تمام نماز آپ کے پیچھے پیچھے مسجد کے اندر پہونچ گئے اور محدث سورت اپنے دو حمایتیوں کے ساتھ دیکھتے ہی رہ گئے۔ جج نے ایک نظر بھر کے محدث سورتی کو دیکھا اور اعلان کردیا کہ معمول کی طرح اذان ثانی جمعہ داخل مسجد ہی ہوگی۔(اذا ثانی کا فقہی حکم صفحہ ۱۳)
اسی طرح ایک واقعہ سیدنا تاج الاولیاء قطب زماں حضرت علامہ مولانا الحاج شاہ سید محمد عبد القدیر میاں پیلی بھیتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے عارف حق پیر کامل حضرت الحاج صوفی اعجاز محمد میاں قدیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نانکار شریف نے بیان فرمایا کہ ایک بار سیدنا حضور اللہ ہو میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ شیری میں حاضر تھے اور ماہ محرم الحرام تھا۔ پیلی بھیت شریف میں ہمیشہ سے تعزیوں کی دھوم رہی ہے اور تعزیہ داری دھوم کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ سرکار شاہ جی میاں نے سرکار اللہ ہو میاں کو حکم فرمایا کہ مولوی صاحب جائیے تعزیوں کی زیارت کر آئیے! سرکار اللہ ہو میاں تشریف لے گئے اور توقع سے زیادہ وقت تعزیوں کی زیارت میں مشغول رہے۔
جب واپس ہوئے تو سرکار شاہ جی میاں نے فرمایا مولوی صاحب! ہم نے آپ کو تعزیوں کی زیارت کو بھیجا تھا مگر آپ بہت وقت کے بعد واپس آئے ہو کیا بات ہے؟ سرکار اللہ ہو میاں نے عرض کیا حضور! آپ نے صرف تعزیوں کی زیارت کا حکم فرمایا تھا لیکن جب میں وہاں پہونچا تو دیکھا کہ وہاں سیدینا حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جلوہ گر تھے اور میں انہیں کے جلوؤں میں کھویا رہا اور اتنا وقت گزر گیا۔
یہ واقعہ حضرت عارف حق کی موجودگی میں ۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۲۶ھ کو عرس قدیری کے عظیم الشان اجلاس میں سیدنا امیر اہلسنت مجدددین وملت غوث زماں حضور مناظر اعظم محدث عظیم مفسر فہیم مترجم قرآن کریم علامہ حافظ قاری مفتی سید محمد انتخاب حسین قدیری اشرفی مداری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا۔
اس سے بہت ساری باتوں کا خلاصہ ہوتا ہے کہ ہمارے حضرات بزرگان سلسلہ عالیہ قدیریہ نے کبھی بھی کسی نئے دھرم یا نئے مسلک کو قبول نہیں فرمایا بلکہ آپ عمل کے ساتھ ساتھ اُسی مسلک و مذہب کے مبلغ بھی رہے جو چودہ سو سال سے بزرگان اہلسنت کا رہا ہے۔ اور بفضلہ تعالیٰ و بکرم حبیبہ الاعلیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلامآج بھی سرکار اللہ ہو میاں کے نام لیوا اس مشن کو زندہ رکھے ہوئے۔
۲۶؍ ربیع الاول شریف۱۳۴۴ھ دوپہر ایک بجکر پچاس منٹ پر آپ نے عالم ظاہر سے پردہ فرمایا۔ حسب حکم جس حجرۂ مبارکہ میں بیٹھ کر آپ مخلوق خدا کو فیضان تقسیم فرمایا کرتے تھے اُسی میں آپ کا مزار مبارک بنایا گیا۔
تمہارا اس پہ ہر انعام اللہ ہو میاں ہوگا
وظیفہ جس کا صبح و شام اللہ ہو میاں ہوگا
کرم کردو ہمارا کام اللہ ہو میاں ہوگا
زمانے میں تمہارا نام اللہ ہو میاں ہوگا
نہ اُترے گا لحد میں، حشر میں، اور باغِ جنت میں
وہ کیف آور تمہارا جام اللہ ہو میاں ہوگا
اب اللہ ہو میاں کا فیض ہوگا اس طرح ظاہر
لقب سارے جہاں میں عام اللہ ہو میاں ہوگا
رب قدیر سرکار اللہ ہو میاں کے اس گلشن کو یونہی سرسبز و شاداب رکھے اور ساری دنیا ہمیشہ اس دربار
سے علم و عرفاں کی بھیک لیتی رہے۔