روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ

MADAARIYA LIBRARY

روشن ہے مثل آفتاب سلسلہ مداریہ۔






تیسری صدی ہجری سے لیکر نویں صدی ہجری تک جس عظیم  خانوادہ کے بانی کی قربانیوں کا لہوکشت اسلام پر باغ و بہار بن کر پھیلا ہوجس کے حبس دم سے نسیم سحری کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے چلے ہوں جس کی ٹھوکروں سے سبزے اگے ہوں جس کی دعا سے مرادوں کی گرہیں کھلی ہوں جس کے دم سے دم کائنات قائم ہوجس کے دست حق پرست پرکرڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہو

ہر دور ہر زمانے میں

،،شاہی جہاں کی رہی ہوگدائ،

کائنات عالم میں وہ کیا کچھ نہیں ہوگا

صرف غیر منقسم ہندوستان میں جس کی تین لاکھ خانقاہوں کے حریم وفصیل سے وحدانیت کا پیغام دیا جاتا ہو سینئہ ارضی پرجسکی محنت نے اسلام کی عظمت کا مینار ہ کھڑا کردیا ہو پھر اسکی فلک بوس چوٹیوں سےصدائے اللہ اکبر نے کفر کے کان پھاڑ دئیے ہوں پورے ملک میں جس کے چودہ سو بیالیس چلے اسلام کی عظمتوں کا خطبہ پڑھ رہے ہوں تو پوری دنیا پر اس کے احسان کیا نہیں رہے ہونگے ؟؟

راجہ بلوان سنگھ ، جس کی محنت سے حلقہ بگوش اسلام ہوجائےراجہ جسونت سنگھ کو جو داخل اسلام کرلےمحمود غزنوی جسکی دعا ئیں لے کر سومنات فتح کرلے

حضور قطب المدار کی حیات طیبہ میں ابرہیم شرقی بادشاہ جونپور عشق مدار میں گرویدہ ہوکرعرض کرتا ہے حضور اگر آپ حکم دیں توآپکے شہزادوں کیلئے محلات تعمیر کرادیں آپ فرماتے ہیں ہم خاک نشین محلوں میں نہیں رہتے

بادشاہ ابراہیم شرقی ہجری 840 میں جس کا روضہ تعمیر کرائےاور متعلقہ آراضی کے علاوہ پانچسو بیگھا آراضی بھی لکھ دےجلال الدین اکبر کی جلالت جہاں لرزہ براندام1565ءمیں حاضر آستانہ ہوکرفرمانئہ شرقیہ کی تجدید کردےپھر 555 بیگہ آراضی کا اضافہ کرکے مزار مقدسہ پر چادر چڑھاکرجبین نیاز خم کردےنورالدین محمد سلیم حاضر آستانہ ہوکر منت مانگے اور پوری ہونے کےبعددریائے ایسن پر پل تعمیر کرادےشاہجہاں جس کے در پہ حاضر ہوکر مسجد،اور مسجد سےمتعلقہ حجرہ اور ایک وسیع دالان تعمیر کرائےاورنگ زیب عالمگیر جہاں گھٹنوں کے بل آئےاس صاحب بصیرت سے پوچھو کیا شہنشاہ ہند ؟

در مدار ولایت کی راجدھانی ہے کہ نہیں ؟تو پکار اٹھتا ہے


بیاکہ اوج کمالات را ظہور اینجاست

بیاکہ مرجع ہر قیصرو قصور اینجاست

جناب اقدس شہنشاہ مدار جہاں

 بپائے دیدٰہ بیا و ببیں کہ نور اینجاست

 

اسی آستانہ پرخاک نشین ہوجاتا ہے اور اپنی فتح و نصرت کی دعا مانگتا ہےپھر نگا ہ قطب المدار اس کی ارجمندی کا فیصلہ کردیتی ہےتوخانقاہ مدارالعالمین میں جامع مسجد ،دمال خانہ، بنواکرروضہ مقدسہ پر مرمرین جالیاں نصب کرا کےموجودہ اولاد ہر سہ خواجگان کیلئے مواضعات لکھدیتا ہے تاکہ انکی کفالت ہوانکے علاوہ سن 1603 ء

میں دولت خان رکن دربار دہلی نےسہ دری مسجد تعمیر کرائ سن 1794ء میں مچل لال پتو لال کھتری نے قرآن خوانی والا دالان تعمیر کرایاشہنشاہ شاہ عالم فرخ نے ایک سنگین دالان تعمیر کرایامہاراجہ گوالیر اور دبیر الملک منشی ٹکیٹ رائے نے ڈیگیں نذر کیں سیر محمد شاہ اور بہادر شاہ ظفر کے فرامین انکی عقیدت کی غمازی کرتے ہیں شاہان اسلام کی عقیدتیں انکی چوکھٹ سے وابستہ  ہیں  راجہ مہا راجاؤں نے انکی دہلیز پر سر خم کرکے اپنی عقیدتوں کا خراج عمارتوں کی شکل میں پیش کیا ہے

راجہ بھاگمل ، راجہ دتیا ، راجہ منجھولا ، راجہ ٹھٹھ ، و مسٹر ہیر ٹشن ، مسٹر گلے ، وغیرہ جیسے مہاراجاؤں کے فرامین انکی عقیدت کیشی کے مدح خواں ہیں سابق مکھ منتری اتر پردیش این ڈی تواری جہاں مرمرین فرش بچھائےیہ ہے وہ شہنشاہی جسے انکے درپہ جھکی پائ آئیے طریقت و تصوف میں سلسلہ مداریہ کی عظمتیں دیکھتے ہیں

 قادری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے فیض یافتہ

 چشتی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے یافتہ

 سہروردی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 نقشبندی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 اشرفی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ 

صفوی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ 

نظامی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ 

ابو العلائ سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ جہانگیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 شیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 قدیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 بشیری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 نیازی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ 

صابری سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ 

برکاتی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 وارثی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

 نعیمی سلسلہ مداریہ سلسلہ سے وابستہ

چھوٹے بڑے تمام سلاسل 

سلسلہ مداریہ سے وابستہ


 جس کے در پر سالانہ بسنت پنچمی پر لگنے والےمیلے کا اژدہام کثیربارہ تیرہ  لاکھ کا بلا تفریق مذہب و ملت مجمع پکار اٹھتا ہے



پاکے قطب دوعالم کا در زندگی

 بے بہا بن گئ کس قدر زندگی

بس یہیں پر ملی ہم کو تسکین دل

یوں تو لے کر پھری در بدر زندگی


وہیں وہیں عرس پاک میں پندرہ بیس لاکھ کامجمع پکار اٹھتا ہے


یگا نوں بے گا نوں کو بہم دیکھ رہے ہیں

تفریق کا سر ہوتے قلم دیکھ رہے ہیں

اغیار بھی حاضر ہیں در قطب جہاں پر

ہم مٹتے منافق کا بھرم دیکھ رہے ہیں


اب بھی ہم کچھ نہیں ؟

یہ بات الگ ہے


وقت کے ہاتھوں کیسے ہم پس گئے

صبح کیا تھے اور شام کیا ہوگئے


مگر جوتم کہتے ہو تمہاری داستاں تک نہ بچی ان داستانوں میں

میں کہتا ہوں بد نیتوں کا غلبہ ہوا

بد خلوص جاہ حشم والے ہوئے


للہیت کے پیکروں کے وجود پر گرد جم نے لگی

جس کی جوتیوں کے نشان سے بھارت کی تقدیر روشن ہوئ آج نئے ملے اسے صفحہ دہر سے مٹانے میں لگے ہیں کہتے ہیں کتابوں میں تمہارا تذکرہ نہیں مولویوں کی زبانوں پر تمہارا نام نہیں پھر ....تم ہو کیایاد رکھوہم وقت کے ہاتھوں برباد تو ہوگئے مگر مٹے نہیں ہیں ہم کل بھی صاحب وقار تھےآج بھی صاحب وقار ہیں ہمیں وقار نہ نیتاؤں نے دیا تھانہ راجنیت سے زندہ نہ کل مولویت کے محتاج تھے نہ آج نہ کسی کے مرہون منت تھے نہ ہیں بھارت کی تاریخ رقم کرنے والے آج بے تاریخ کیوں گھوم رہے ہیں ؟

کیوں بے نام و نشاں سمجھے جا رہے ہیں ؟


تو سنواس ملک کی آزادی کیلئے سب سے پہلے1763میں علم آزادی جس ذات نے بلند کیا وہ ہے سلسلہ مداریہ کا ملنگ حضرت مجنوں شاہ مداری ہے  مداری فقیروں ملنگوں ، پیروں ، شہزادوں نے تحریک چلائ تب برٹش سرکار نے ہمیں تہ و بالا کردیاکیونکہ اس کا گورا چہرہ ہم نے کالا کردیا

جسکی وجہ سے ہماری لائبریریاں پھونک دی گئیں ہماری تاریخ ختم کردی گئ ہماری خانقاہیں مسمار کردی گئیں ہمیں مٹانے کیلئے تنظیمیں چلیں تب !!!

ہم وقت کے ہاتھوں کچل گئےجس پر بے درد بلکہ

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

جب بولنے لگے تو ہمیں پہ برس پڑے

یہ مانا وقت کے ہاتھوں ہم برباد تو ہوگئے ہیں

املی کے درخت پر لوکی کی بیل چڑھ تو گئ ہےلیکن لوکی کی عمر ہی کتنی ہوتی ہےاملی بہر حال املی ہےآج نہیں تو کل جب لوکی سوکھے گی املی کی حقیقت سب پر عیاں ہوجاٰئیگی ان شاء اللہ


 ہم اپنا ماضی واپس کر ہی لینگے

 

ہم نے راج بہادر کو عبدالرحیم میں ہم نے بدلا

 رام دلارے کو عبد الرحمٰن کیا

ہم نے جنہیں مسلمان کیا مسلمان کیا

آج وہ ہنستے ہیں

 

تم ہو کیا ؟اس سوال پر اتنا کہونگا

مرے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر

ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

 اللہ  متکبر تکبر سے محفوظ رکھے آمین

طالب خیر


سید ازبر علی شکو ہی المداری خادم آستانہ قطب المداردارالنور مکن پور شریف کانپور یوپی انڈیا

9648180965