قطب الاقطاب سید المشائخ حضرت سرکار قطب الدین رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات کے پیش نظر ہے سامعین حضرت قطب الدین رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام نام قطب الدین ہے لیکن آپ قطب غوری یا قطب شاہ غوری کے نام سے مشہور ہیں آپ کے آباواجداد کا تعلق ملک افغانستان کے رہنے والے شاہی خاندان سے تھا تاریخ مدار الاولیاء کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ کا اسم گرامی قطب الدین اور آپ کے والد کا نام ناصرالدین اور آپکے دادا بہاوالدین ابن محمود بن غیاث الدین غوری ہے غرض کہ سال ولادت اور حسب و نسب کے بارے میں تذکرہ نگاروں کا اتفاق نہ ہوسکا ہے مگر مشہور یہ ہے کہ آپ ۱۶ رجب المرجب ۶۵۷ ہجری مطابق ۱۲۵۷ء میں پیدا ہوئے حضرت قطب غوری رضی اللہ عنہ نے کے ایک معزز گھرانے میں پرورش پائی بچپن ہی سے آپ کے دل و دماغ میں دین کی محبت موجزن تھی اور حکومت کے نشیب و فراز آپ اچھی طرح سے جان چکے تھے
ابتدائی تعلیم سے مکمل فارغ ہوکر مزید تعلیم آپنے اپنے سلسلے کے مشائخ سے حاصل فرمائی
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ افغانستان کے بادشاہ تھے اور بادشاہت چھوڑ کر مرشد حق کی تلاش میں بیرون ملک ہندوستان آئے تھے کیونکہ سرکار قطب غوری جس زمانے میں اپنی زندگی گزار رہے تھے اس دور میں سیاسی حالات سازگار نہ تھے اور آپ بادشاہت سے بیزار ہو چکے تھے آپ نے بچپن ہی سے دنیا کی بے ثباتی کو ملاحظہ فرما لیا تھا اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے آپ کا دل لرزنے لگاتھا چنانچہ کم عمری ہی میں آپنے سلطنت کو خیر آباد کہہ دیا اور ہندوستان تشریف لےآئے جس وقت آپ ہندوستان میں تشریف لائے اس وقت آپکی ۱۴ یا ۱۵ سسل کی تھی اور اس وقت ہندوستان میں سلطان ناصرالدین قباچہ کی حکومت تھی اور سلطان ناصر الدین قباچہ کا دور اقتدار ۱۲۴۶ء سے ۱۳۲۶ء تک ہے سلطان الدین نے طینت اور خداترس انسان تھے تھے جس وقت سلطان ناصر الدین دین تخت نشین ہوئے اس وقت حضرت قطب غوری کی عمر تقریبا 11 سال تھی
دنیاوی شاہی تخت و تاج کو چھوڑنا معمولی بات نہیں ہوتی مگر جس دل میں خدا کی محبت و الفت بس جائے ان کے لئے دنیا ایک مچھر کے پر سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتی آپ نے اپنے مہربان استاد سے سنا کہ دنیا فانی ہے یہاں کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے باقی رہنے والی ذات اللہ کی ہے تو پھر آپ کے دل میں خدا کی عظمت و محبت گی گی اور آپ جنگلوں اور بیابانوں میں اکثر اوقات صرف کیا کرتے تھے اور ذکر الہی میں محو ہو جاتے تھے اتنی بڑھ جاتی تھی کہ آپ بے خود ہو جایا کرتے تھے آپ کے اساتذہ کرام کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات فراہم نہ ہوسکیں تاہم آپ کے ابتدائی اساتذہ کرام میں شاہی اتالیق ہوا کرتے تھےآپنے بالخصوص مولانا برہان الدین محمود بن ابولخیرا سعد بلخی متوفی ۶۸۷ھجری سے بھی تعلیم حاصل فرمائی جو صرف مذہبی علوم میں یہ گانا حیثیت کے حامل ہی نہ تھے بلکہ اپنے وقت کےعلما سے آگے بڑھے ہوئے تھے آپ نے اپنی زندگی میں ایک ایسی کتاب لکھی جو آج بھی ابھی دنیا جہان میں مشہور ہے جس کو ہدایت شریف کے نام سے جانا جاتا ہے اس کتاب کے مصنف حضرت قطب غوری رضی اللہ تعالی عنہ کے استاذ محترم تھے ان کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام سے بھی آپ نے علوم شرعیہ ظاہرہ حاصل کیا اور علوم طریقت اپنے پیر و مرشد حضرت محمود برمکی رضی اللہ عنہ سے حاصل ہوا اورحضرت محمود برمکی خلیفہ تھے حضرت جمال الدین جان من جنتی رضی اللہ عنہ اور آپ خلیفہ خاص تھے حضور مدار العالمین رضی اللہ تعالی عنہ کے
یہ وہ عظیم شخصیتیں ہیں جنہوں نے حضرت قطب غوری کو بے مثل بے مثال بنا دیا آپ صرف عارف کامل ہی نہیں بلکہ واقفیت روموز شریعت بھی تھے اور علومِ معرفت و طریقت کے علوم اور شریعت کے بحر ذخار بھی تھے بس اِس شیخِ طریقت و معرفت کی نگاہ کرم نے آپ کو طریقت میں اس بلندی پر پر فائز فرمایا اور علوم دین میں آپ کو بصیرت تامہ عطا فرمائی آپ مسلکاً حنفی اور مشرباً طیفوری طبقاتی مداری تھے سامعین حضرات غوری کی شخصیت ایک معمہ ہے جو لفظ بنجر کے مقام میں ہے آپ بھی ایک عظیم راز ہے جسے سمجھنے کے لئے عقل اور خرد ہی نہیں بلکہ عقیدت اورمحبت درکار ہے آپ پوری زندگی دا نیت کے گیت گاتے رہے اور بعد از وصال بھی اپنے معبود حقیقی کی قدرت کو اجاگر فرماتے رہے آپ نے اپنے وصال سے پہلے اپنے تمام مریدین خاص و خلیفہ مقرب حضرت سید فتح قادری مداری دیدار مست اور چند مریدوں کو بلا کر فرمایا کہ فلاں دن فلاں وقت میں اس دار فانی سے کوچ کروں گا لہذا بعد وصال غسل و کفن اور جنازہ کے بعد دفن مجھے وہی کرنا جہاں تمہیں دفنانے کا حکم ملے اس کی علامت یہ ہے کہ میرا جنازہ لے کر چلنا جہاں بھاری ہو جائے تم اٹھا نہ سکو تو سمجھ لو کہ وہی مقام ہے دفنانے کا‘ جب آپ کا انتقال ہو گیا تو ۷۰ مریدوں کی ایک جماعت تشکیل دی گئی اور اس جماعت کے امیر آپ کے خلیفہ مقرر حضرت سید فتح قادری مداری دیدار مست تھے ان کی ماتحتی میں جنازہ مبارک کاندھوں پر اٹھایا گیا اور نعرہائے تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے جنازہ کو لیکر چلے سامعین یہ ایک ایسا منظر تھا کہ ستر پروانوں کے جھرمٹ میں شمع اسلام جل رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسا کہ دولہا اپنے باراتی کے ساتھ چل رہا ہو جدھر سے گزرتے گئے کفر کے بادل چھٹتے جاتے تھے اور پرچم اسلام بلند ہوتے جا رہا تھا اب اسے مشیت الہی کہیے کہ اللہ تعالی آپ کے جنازے سے اشاعت اسلام کا کام لے رہا تھا الغرض وہ مریدان بامراد جنازۂ مقدسہ لیکر ذکر الہی کے ساتھ لے کر پھرتے رہے شہر شہر قریہ قریہ چلتے رہے اور وہ مرید باوفا تھے اور پیر بھی ایسے باعمل تھے آج کے مرید ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا کہا جاتا ہے کہ بارہ سال ملک ہندوستان کے چپے چپے کونے کونے میں آپ کا جنازہ گزشتہ لگاتا رہا اور 12 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی چہرے میں وہی شگفتگی وہی تازگی باقی تھی جو وصال کے وقت تھی بلکہ اس سے زیادہ نورجمال ٹپک رہا تھا المختصر وہ جگہ آئی جس کی حضرت قطب غوری نے نشاندہی فرمائی تھی کہ دفن وہیں کرنا جہاں تمہیں دفنانے کا حکم ملے مجھے جہاں پر جنازہ بھاری ہو جائے تم اٹھا نہ سکو
آج آپکا مزار مبارک کرناٹک کے شہر کولار میں مرجع خلائق ہے
سامعین یہ معلومات آپ کو کیسی لگی ہمیں کمنٹ باکس میں کمنٹ کرکے ضرور بتائیں