ملک الاولیاء امام الفقراء شیخ و الشیوخ علامۂ کبیر ہست جامِ بے غشی
جو جماعت اولیاء کے ایک عظیم ولی ہوئے ہیں اور آپکا سیدنا حضور مدارالعالمین سے کا تعلق
کچھ اس طرح ہے
کہ جب حضرت مدار پاک کی عمر شریف چار سال چار مہینہ چار دن کی ہو گئی تو مدار پاک کے والد بزرگوار حضرت قاضی قدوۃالدین علی حلبی نے سرکار مدار پاک کو حضرت حذیفہ شامی کی خدمت میں پیش کیا تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب پہلے دن حضرت مدار پاک کو حضرت حذیفہ شامی نے الف پڑھایا تو مدار پاک نے الف کی تشریح بیان فرمانا شروع فرمادی اور آپ کئی روز تک استاذ کے سامنے الف کی شرح بیان فرماتے رہے مدار پاک کی زبان سے الف کی شرح بیان سنتے سنتے اچانک مولانا حذیفہ شامی کی زبان سے برجستہ یہ جملے نکلے "ہذا ولی اللہ" یہ اللہ کے ولی ہیں اور سعید ازلی ہیں
سامعین کبھی کبھی حضرت حذیفہ شامی کی بارگاہ میں سرکار قطب المدار ایسی باریک باتیں بیان فرماتے کہ حذیفہ شامیں بھی حیران رہ جاتے(جدید مدار اعظم) غرض کے مدار پاک چودہ برس کی عمر تک قرآن حدیث تفسیر , فقہ , اصول معانی , اور دیگر علوم مروجہ میں مہارت حاصل فرمائی اور تمام علوم ظاہری سے آراستہ و پیراستہ ہوگئے
سامعین تذکرۃ الکرام اور لطائف اشرفی کے مطابق دیگر کتب سماویہ یا یعنی توریت و زبور انجیل کے بھی حافظ عالم ہو گئے تھے اس کے علاوہ علوم نوادرہ یعنی ریمیا کیمیا سیمیا ھیمیا بھی حاصل کر لیے تھے(انوار سلسلۂ مداریہ)
حضرت حذیفہ شامی بھی اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اور عالم باعمل و علم و فضل میں میں یکتائے روزگار اور ایک صاحب دل و کشف و کرامت بزرگ گزرے ہیں جس کا کچھ اندازہ آپ آگے بیان ہونے والے واقعات سے لگا پائیں گے
سامعین مولانا محمد امام الدین حنفی چشتی لکھتے ہیں
(مراۃ السالکین)
حضرت خواجہ سدیدالدین حزیفہ شامی حضرت خواجہ فضیل بن عیاض کی شرف صحبت سے بھی مشرف ہوئے اور حضرت بایزید بسطامی نے آپ کے لئے دعا فرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ حذیفہ بزرگ ہوگا اور بہت آدمیوں کو واصل باللہ کرے گا حضرت حذیفہ شامی کی سات برس کی عمر میں قارئ ہفت کی قرات ہو گئی تھی اور آپ ہر روز ایک ختم قرآن شریف کا کیا کرتے تھے اور ہمیشہ درویشوں کی خدمت میں حاضر اور فقراء کی رضا جوئی میں مصروف رہتے تھے
آپ علم ظاہری و باطنی میں بھی اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے ہمیشہ با وضو رہنا آپ کی عادت تھی آپ اکثر روزہ رکھتے اور افطار کے بعد تین چار لقمے سے زیادہ نہیں کھاتے تھے
حذیفہ اور آپ کی عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا ستر برس تک آپ نے اپنے رکوع و سجود کے مقام سے کہیں جنبش نہیں کی اور کبھی اپنے عبادت خانے سے باہر قدم نہیں رکھا اور اکثر حاجی لوگ جب زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہو کر آپ کے پاس آتے تو آپس میں کہتے کہ ہم نے حذیفہ شامی کو کو بیت اللہ شریف میں دیکھا ہے اور کوئی کہتا کہ ہم نے حذیفہ شامی کو بیت المقدس میں مصروف اعتکاف دیکھا تھا سامعین حضرت حذیفہ شانی ہر وقت اللہ کی یاد میں مستغرق رہتے تھے ایک دن آپ نے ایک مجلس میں یہ آیت پڑھی کہ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر اور کہنے لگے کہ مجھے معلوم نہیں نہیں میں کون سے فرقے میں ہوں ہو اور انجام میرا کیا ہوگا ہوگا یہ کہہ کر ایک نعرہ لگایا اور بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو غیب سے آواز آئی کہ اے خواجہ حذیفہ میں نے تجھ کو برگزیدہ کیا اور درویشان باکرامت پر سروری عنایت کی اور قیامت میں اپنے حبیب , محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تجھ کو بہشت میں داخل کروں گا اس وقت تین سو جو کافر پھر جو اس مجلس میں موجود تھے مجھے دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے
سامعین حضرت حذیفہ شامی کے متعلق حضرت عبدالرحمن چشتی لکھتے ہیں(مراۃ الاسرار)
کہ آپ زہد و عبادت اور ترک و تجرید میں یگانہ روزگار تھے آپ کے کرامات اور کمالات بے شمار ہیں اور حضرت امام یافعی نے نے آپ کے احوال اور کرامات میں اکثر حکایات بھی نقل کی ہیں
چنانچہ سرکار مدار العالمین رضی اللہ عنہ کی ذات سرکار حذیفہ شامی سے اس درجہ قربت خاص رکھتی ہے کہ آپ اپنی رسم بسم اللہ کے بعد حذیفہ شامی کی شاگردگی میں آئے
سامعین! حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشی شامی رضی اللہ عنہ کی وفات مراۃالسالکین کے مطابق 25 شوال 276ھجری ایک اور جدید مدار اعظم کے مطابق آپ کی وفات 262ھجری میں ہوئی
___________________________________