ادب شناسی ہے محو حیرت شعور بھی پیچ و تاب میں ہے
سبک قدم اے صبا گزر جا کہ حق کا محبوب خواب میں ہے
سبک قدم اے صبا گزر جا کہ حق کا محبوب خواب میں ہے
انہیں کا جلوہ انہیں کا پرتو رخ مہ و آفتاب میں ہے
یہ کون کہتا ہے کم نگا ہو! جمال آقا حجاب میں ہے
نشاط ہستی کی مجھ کو نعمت ملے تو سمجھوں میں بے حقیقت
نصیب دل کو مرے وہ لذت غم رسالت مآب میں ہے
جو راز تابانیوں کا پوچھا تو بول اٹھیں چمکتی کرنیں
یہ چھوٹ ہے حسن مصطفیٰ کی جو ضوفگن ماہتاب میں ہے
تلاش حق کی ڈگر پہ چل کے ملا ہے یہ درس مصطفیٰ سے
ہے اتنا ہی فرق کفر و ایماں جو فرق آب و سراب میں ہے
یہ ہے پسینے میں کس کے خوبی کرے فضا میں جو عطر بیزی
نمک کو جو شکریں بنادے یہ وصف کس کے لعاب میں ہے
مٹی جو تاثیر خواب غفلت تو سامنے آئی یہ حقیقت
کہ واقعی اسوۂ رسالت نہاں ہر اک انقلاب میں ہے
نہ چھوڑ یادِ جمال خضرا ہوائے طیبہ ذرا ادھر آ
سکون پا جائے کچھ تو وہ دل جو حالت اضطراب میں ہے
یقیں ہے ہم جائیں گے جو طیبہ اٹھے گی ان کی نگاہ رحمت
جنوں کے صدقے کشش کچھ ایسی ہمارے حال خراب میں ہے
حرم کی کیا ہو سکے حفاظت حضور یہ ہو گئی ہے حالت
جو قوم رکھتی تھی درد ملت وہ محو چنگ و رباب میں ہے
در نبی پردم حضوری ہیں لرزاں خاکی ہوں یا کہ نوری
بڑے بڑوں کی نہیں ہے گنتی " ادیب " تو کس حساب میں ہے