اے شوق دید گنبد خضرا ہے سامنے
یعنی دعائے بانی و کعبہ بے سامنے
خیر الوریٰ کا حسن سراپا ہے سامنے
موسی کہاں ہیں طور کا جلوہ ہے سامنے
دہری کمر ہے حشر میں بار گناہ سے
خوش ہیں مگر غلام کہ آقا ہے سامنے
اللہ ری بلندی پرواز مصطفیٰ
باز و سمیٹے طائر سدرہ ہے سامنے
رکھنا انہیں کو بے مری بے چہرگی کی لاج
جن کا فرشتو! قبر میں چہرہ بے سامنے
جن کی عطا کو وسعت کو نین بھی ہے تنگ
اے جرات سوال وہ داتا ہے سامنے
سجدے جبین شوق نگاہوں سے کر ادا
ناداں نبی کا نقش کفِ پا ہے سامنے
اللہ ری کمال تصور کی برکتیں
محسوس ہو رہا ہے کہ طیبہ ہے سامنے
راہی انہیں کے نقش قدم پر نگاہ رکھ
وہ دیکھ بام عرش معلی ہے سامنے
دشت عرب میں پائے جنوں کانپ کانپ اٹھے
جب آگیا خیال مدینہ ہے سامنے
ان کے فقیر آج بھی فاقوں میں مست ہیں
ٹھوکر پہ ہے جو دولت دنیا ہے سامنے
اس فکر میں بلال ہیں کیسے اذان دیں
اصرار ہے حسین کا خضرا ہے سامنے
زلف عمل سنوارنا دشوار اب نہیں
آئینہ حیات صحابہ بے سامنے
ہو کیوں نہ بد حواس حضور آپ کا " ادیب
کوہ گراں ہے پشت پہ دریا ہے سامنے