جلال معبودیت ہے پنہاں عجیب خاشاک بندگی میں
نہ جانے کیا دیکھتی ہیں آنکھیں جمالِ روئے محمدی میں
نہ جانے کیا دیکھتی ہیں آنکھیں جمالِ روئے محمدی میں
خدائے قادر ہی جانے کتنی کشش ہے زلف محمدی میں
بساط اسباب سب ہے برہم جلالت جوش عاشقی میں
بنا کے اپنا حبیب یکتا خدا نے ہر اک طرح سے دیکھا
بقید کار پیمبران ہزار انداز دلبری میں
جو بن گیا دل سے تیرا بندہ خدائی اس کی خدا بھی اسکا
تری رضا ہے رضائے خالق خوشی خدا کی تری خوشی میں
جنم جنم کی عداوتوں میں محبتوں کے نقوش بھر کے
تو انقلاب عظیم و برتر ہے لایا انساں کی زندگی میں
خدا را اے عازم مدینہ یہ سر ہو قدموں پہ تیرے صدقے
ادب سے میر اسلام کہنا پہنچ کے دربار احمدی میں
ہوں تشنہ دید روئے احمد مجھے مری تشنگی مبارک
ہزار سیر ابیاں نچھاور وہ کیف ہے میری تشنگی میں
ہو سامنے باب خلد طیبہ نظر میں سرکار کا ہو روضہ
لبوں پہ جاری ہو نام عالی یہی تمنا ہے بے خودی میں
نہ کوئی خواہش نہ کوئی ارماں یہی ہے حسرت یہی تمنا
حیات دو روزہ بیت جائے ادیب " اب مدحت نبی میں