عشق محمد عام نہیں ہے

 عشق محمد عام نہیں ہے
بند کوئی انعام نہیں ہے

مضبط سرور دید محمد
ہوش و نظر کا کام نہیں ہے

ذکرِ محمد عام ہے لیکن
ذات محمد عام نہیں ہے

عشق نبی کے افسانے میں
تذکرہ انجام نہیں ہے

ہوش لئے ہے جلوۂ طیبہ
وحشی کو آرام نہیں ہے

دور حیات سرور عالم
کس کیلئے پیغام نہیں ہے

عشق نبی میں جنت دل ہے
رنج غم و آلام نہیں ہے

آنکھوں میں ہے سرکار کا روضہ
ذوق طلب نا کام نہیں ہے

میرے لئے کیا اے میرے آقا
طیبہ کی صبح و شام نہیں ہے

باقی کل کی اس پہ ہیں نظریں
بہر فنا اسلام نہیں ہے

نعت ادیب " اتنی برجستہ
کیا ہے جو یہ الہام نہیں ہے
-----------------


--