میں جب بھی ذکر محمد زباں پہ لاؤں گا
کلی کلی کو ہنساؤں گا گل بناؤں گا
در حبیب کہاں تجھ سے ہٹ کے جاؤں گا
کہ چھٹ کے تجھ سے تو جنت میں جی نہ پاؤں گا
غم حبیب خدا اس طرح اٹھاؤں گا
جو خون روئیں گی آنکھیں تو مسکراؤں گا
مثال شمع جلا کر فراق احمد میں
دل خراب میں جینا تجھے سکھاؤں گا
اتار سوچ نہ اے چارہ گر خدا کے لئے
ہوں مست حب نبی ہوش میں نہ آؤں گا
صبا خدا کیلئے کر مری طلب پوری
در حبیب کے ذروں کو دل بناؤں گا
نگاه ساقئی کوثر مری طرف تو پھرے
تمام عمر کی میں تشنگی بجھاؤں گا
پئے ہی جاؤں گا یوں ہی کہ ہے یقین مجھے
سنبھال لیں گے محمد جو لڑکھڑاؤں گا
رہے جایوں ہی تو معصوم اے جبینِ " ادیب "
کہ اب مدینے ہی جا کر تجھے جھکاؤں گا