مختار نظام کون و مکاں ہے ذات مدینے والے کی
ہر دن ہے مدینے والے کا ہر رات مدینے والے کی
آہوں کا دھواں گھنگھور گھٹا اشک ہجراں رم جھم برکھا
پھر یاد دلانے آئی ہے برسات مدینے والے کی
بس ایک نظر کی جنبش ہے یہ رنج ، خوشی بن سکتا ہے
موقوف ہیں مرضی پر سارے حالات مدینے والے کی
بیدار و بھلا کیا سمجھیں گے مہجور مدینہ سے پوچھو
یہ درد میں ڈوبی آئیں ہیں سوغات مدینے والے کی
کیفیت فقر و فاقہ ہو یا عالم خواب و بیداری
خالق کی نظر میں پیاری ہے ہر بات مدینے والے کی
جو دے بھی سکے دلوا بھی سکے کوئی بھی نہیں ایسا لیکن
اک ذات ہے کعبے والے کی اک ذات مدینے والے کی
کونین کے چپے چپے پر ہیں ان کے غلاموں کے مسکن
بٹتی ہے جہاں میں ہر در سے خیرات مدینے والے کی
قسمت میں ہماری اے مالک لکھدے تو مدینے کی گلیاں
ہم بن کے بھکاری مانگیں گے خیرات مدینے والے کی
ہم بھی ہیں جبیں پر داغ لئے محرومی کا مایوسی کا
ہم کو بھی عطا کر دے مالک خیرات مدینے والے کی
عاصی ہے ادیب " زار تو کیا محشر کا نہیں اس کو کھٹکا
-----------------