madaarimedia

آنے والے ہیں قطب دوعالم

Aane Wale Hain Qutbe aalam

تجلئ مہر ولایت کا دن ہے
مدار جہاں کی ولادت کا دن ہے

دل ہر محب ولایت ہے شاداں
منافق کو یہ دن قیامت کادن ہے

کسی کا بھی دامن رہے گا نہ خالی
ادیب آج کا دن سخاوت کا دن ہے

دنیا کا حسین ترین خطہ ارضی (شہکار قدرت) پہاڑوں کی بلند چوٹیوں سے سجا اچھلتی کودتی ندیوں کے پرکیف نظاروں کے مناظر سے حسین تر آبشاروں کے دلکش اور دلفریب نظاروں سے مزین اور زمین کے نشیب وفراز براعظم برصغیر یوروپ وایشیاء عرب وعجم میں آباد تقریبا دوسوممالک لاکھوں لاکھ قریات وقصبات میں گھنے اور بلند قامت درختوں کے سائے میں آباد جنت نشاں ایک چھوٹا سا قصبہ جنار بڑا دلکش ،حسین وخوبصورت جیسے صناع عالم نے تمام تر رعنائیاں اسی کے مقدر میں ثبت فرمادی ہوں جنار کے دامن میں تاروں کی بارات مانگ میں کہکشاں کا سندور گھنیرے درختوں کے سائے زلف واللیل کا صدقہ پھولوں کی شباہت ورنگت اللہ اللہ

باغ مدینہ کی بھینی بھینی مہک نے خاروں پر عطر بیزی کا کام کیا مظہر ارض طیبہ پر ہر طرف رونق و خوبصورتی ہے ویسے بھی صبح عید کی آمد آمد کا ڈنکا اہل ایمان کی بستیوں میں بج رھا تھا جس کی دھمک سے کفر والحاد کے بلند و بالا قلعوں کی فصیلیں درے کھا گئیں عکس مدینہ سے تابندہ، منور درخشاں ، قصبہ جنار میں آج اتنی رونق تھی کہ مظہر شب ولادت مصطفیٰ بنا ہوا تھا ماہ رمضان المبارک کی الوداع الوداع تھی مطلع افلاک وانوار پر عید سعید کے چاند کی نمود نے اھل ایمان کو اپنی زیارت کراکے چہر وں پر آثارتازگی آنکھوں کو نور دلوں کو سرور بخشا خاصان خدا کی جماعتوں میں اتنا طرب اتنی شادمانیاتنی مسرتیں تھیں جس سے بزم ولایت میں نیرنگیاں جھلک رہی تھیں

حسب معمول امام الاصفیا, خاصہ کبریا, سید الطائفہ ,سکون اہل تقا ,طرئہ تاج صالحیں ,قطب الاقطاب حضرت سیدنا سید علی حلبی دلبند زھرا حسنی حسینی جعفری نے نماز عشا ادا فرمائ اور حسب معمول مصلے پر معمولات میں مشغول ہوگئے مراقبہ کرتے کرتے آنکھ لگ جاتی ہے آنکھوں کے نصیبے پر کونین کے نصیبہ تصدق ہونے لگتے ہیں سید عالم وعالمیاں نازش انبیاء و مرسلاں فخرابراہیم وآدم صلی اللہ علیہ وسلم مع چار یار تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے علی اپنی قسمت پر ناز کر آج میں تمہیں ایک سعید بیٹے کی بشارت سناتا ہوں جو ازلی ولی ہوگا اور میرا فرزندمعنوی ہوگا اس کا نام میرے نام پر احمد رکھنا سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم تو بشارت عظمی ٰ اور مژدہ جانفزاسناکر چلے گئے ادھر حضرت قاضی قدوۃ الدین علی الحلبی بیدار ہوجاتے ہیں

ولادت باسعادت
سرکار قاضی سید قدوۃ الدین علی الحلبی دیکھتے کیا ہیں جیسے ستارے انجمن در انجمن اتر کر کاشانہ علی پر بوسے لے رہے ہوں اور کچھ واپس ہورہے ہوں پوری رات یہ سلسلہ جاری رہا نماز تہجد ادا فرمائ ندائے غیبی آئ اے علی حلبی اپنے نصیبے کی ارجمندی پر ناز کر تین بار یہ آواز آئ پھر موذن نےاللہ اکبر کی صداؤں سے فجار کی دیوارں پر شگاف ڈالدئے
ادھر موذن نے تکبیر کے کلمات ادا کئے ادھر ایک ایسی ذات آئ جس نے قلوب کی کرسیوں پر قبضہ کیا ایسی ذات آئ جو رونق بزم جہاں بنی ایسی ذات آئ جو رونق بزم اہل وفا بنی ایسا عجیب الاحوال آیا کہ دور سے دیکھنے والے کیا قریب سے دیکھنے والے انگشت بدنداں رہتے کہ یہ ہے کون جسے عارفین حق بھی نہ سمجھ پائے

یعنی مقتدائے اولیاء خاصہ کبریاء پیشوائے اصفیا شاہ باز آسمان ولایت و کرامات شہسوار میدان سخاوت وقناعت ہادی شریعت ساقی جام طریقت معلم رازحقیقت واقف اسرار حقیقت غواص بحر معرفت مورد فیوض الٰہی پیکر اخلاق مصطفیٰ وارث اوصاف مرتضیٰ قدوۃالکاملین عمدۃالعارفین رہبر دین قبلہ اہل یقین سلطان العارفین سیدالسالکین امام الاولیاء شہنشاہ ولایت ، قطب وحدت، حامل مقام صمدیت، واصل مقام محبوبیت، شمس الافلاک قطب الاقطاب ، قطب الارشاد، مرجع الاوتاد قطب المدار زندان الصوف ، زندہ شاہ مدار ، زندہ مدار ، شاہ والا ، شاہ کونین ، حضرت سید بدیع الدین شیخ احمد مدارالعالمین رضی اللہ عنہ نے قدم ناز جب آغوش مادر میں پسارے تو دنیا کے تمام عیش وطرب انکے در پر کھڑے خیرات مانگنے لگے

یکم شوال المکرم بروز جمعہ بوقت صبح صادق ہجری 242میں خاندان فاطمی میں سیدنا مولاعلی کی نسل میں ایک پھول کھلا جس کی خوشبو سے مشام کائنات معطر ہوگیا والد گرامئ مرتبت نے سخاوت کے دہانے کھول دئیے سات دن تک خوشیوں کی ہماہمی رہی سارا عالم تصوف وجد کناں ہوگیا
آپ کی ولادت سے پہلے اور بعد میں ایسے ایسے خوارق وعادات وعجائبات کا ظہور ہونے لگا جس سے عقل انسانی کاادراک ماوری ہے اہل سیر وسوانح لکھتے ہیں کہ آپ کی ولادت مقدسہ سے پہلے آسمان پر ایک سبز پرندہ نمودار ہوا جو ”یاایھاالذین آمنواتقوااللہ اللہ اللہ“ صدائیں بلند کرتاہوا اڑرہاتھا جب آپ پیداہوئے تو آپ کاسر سجدہ میں اور زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا بوڑھی بکری نے دودھ دینا شروع کیا

اہل سیر نے لکھا کہ آپ کے گھر میں ایک بوڑھی بکری تھی جس نے عرصئہ دراز سے دودھ دینا بند کردیا تھا جب آپ اس کائنات میں رونق افزا بنے تو اس لاغر ونحیف وضعیف بکری نے اتنا دودھ دینا شروع کردیا کہ پوراگھر بلکہ اہل حاجت تک سیراب ہونے لگے

سیدالا تقیاء آپ کی والدہ محترمہ سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت فاطمہ ثانیہ بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے بدیع الدین کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے دودھ نوش نہیں کیا والد محترم قاضی القضاۃ قطب کامل سید علی حلبی رضی اللہ عنہ نے ایک دایہ کا انتظام فرمایا آپ نے دایہ کا بھی دودھ نوش نہیں فرمایا تب آپ کے والد بزرگوار سمجھ گئے اور نقل مکانی کیا تب آپ نے دودھ پیا کیونکہ آپ کے مکان پر ایک سود خور کے مکان کاسایہ پڑتا تھا تو کیسے یہ سیدالاتقیاء دودھ پیتا

عجیب تقوی
آپ کی والدہ محترمہ جب بغیر وضو آپ کو دودھ پلانا چاہتی تھیں تو آپ نہ پیتے حتی کہ آپ کی والدہ مکرمہ وضو کرلیتیں

ایساروزہ دار کہاں
رمضان شریف میں آپ رضی اللہ عنہ کبھی دن میں دودھ نہ پیتے تھے افطار کے وقت آپ کی والدہ دودھ پلاتیں آپ نوش فرماتے

بچپن مدار کا نہ جوانی مدارکی
عام بچوں کی طرح بھوک سے بے چین نہ ہوتے تھے جب آپ کی والدہ نوش کرادیتی تھیں آپ نوش کر لیتے ورنہ قناعت پذیر رہتے عام بچوں کی طرح کھیل کود سے بہت دور رہتے ہروقت تجسس حق میں رہتے اور تلاش معرفت الٰہی میں محو رہتے

سیدنا خضر پیغمبر سے ملاقات
ایک مرتبہ حضور قطب المدار محلے کے بچوں کے ساتھ جنگل کی طرف کہیں جارہے تھے ندائے غیبی آئ اے بدیع الدین کیا تم اسی لئے پیدا کئے گئے ہو آپ روتے ہوئے واپس ہوئے اور ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے خشیت الٰہی سے آنکھوں میں سیلاب دل پرسوز روح غمزدہ لئے بیٹھ گئے کافی دیر تک روتے رہے اچانک ایک باہوش سفید پوش بزرگ نمودار ہوئے اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے آپ نے فرمایا بدیع الدین پوچھا تمہاری اصل کیا ہے ٹیلے سے ایک مٹھی مٹی لیکر فرمایا یہ مٹی تب سیدنا خضر علیہ السلام نے اپناتعارف کراکے آپ کو سینے سے لگایا اور عرفان وآگہی کے دریچے کھولے

احمداسم گرامی
بدیع الدینالقاب
ابوترابکنیت.

بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں,اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکو عبداللہ قطب المدارفردالافرادکہتے ہیں”مدارعالم,مداردوجہاں مدارالعالمین’شمس الافلاک القابات ہیں غیر منقسم ہندوستان میں زندہ شاہ مدار ، زندہ مدار ، مدار صاحب زندہ ولی مدار العالمین شاہ والا القاب سے زیادہ مشہور ہیں

ولادت باسعادت
آپکی ولادت باسعادت یکم شوال المکرم (عیدالفطر) کی صبح صادق بروز پیر سنہ دوسوبیالس ہجری(242 مطابق856) عیسوی میں عباسیہ دور حکومت میں ملک شام کے شہرحلب میں قصبہ جنار”میں ہوئی” صاحب عالم” ۲۴۲ سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے

والد ماجد کا نام نامی اسم گرامی
قاضی سید قدوۃ الدین علی الحلبی رضی اللہ عنہ ہے والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ ہے

آپ نجیب الطرفین سیدالسادات حسنی حسینی سید ہیں۔
حضرت سید بدیع الدین قطب المداررضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں ”اناحلبی بدیع الدین اسمی۔بامی وامی حسنی حسینی“ ”جدی مصطفے سلطان دارین۔ محمد احمد و محمود کونین“ (الکواب الدراریہ) میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہے , ماں کیطرف سے حسنی اور باپ کی طرف سے حسینی سید ہوں , میرے نانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔
اسی طرح سے حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں بھی آپکا شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہے کہ ”آں (زندہ شاہ مدار) اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدر آں عالی قدر سید علی حلبی ابن سید;بہا ء الدین ابن سید ظہیر الدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن سید امام الائمہ جعفر صادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارین زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء“ یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں آپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاء الدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن.سیدامام الائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

مادری نسب نامہ
سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابومحمدابن سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت سید حسن مسثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور
آپ جب شکم مادر سے اس جہاں میں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا
حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت قطب مداررضی اللہ عنہ، جب اس عالم گیتی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطہار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئے اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی اورہاتف غیب سے ندا ہوئی ھذا ولی اللّہ ھذا ولی اللّہ
کا مژدہ سنایاشاھدان بارگاہ لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے۔

تعلیم وتربیت
جب سرکار مدار رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئ تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق والد گرامی نے آپکو بسم اللہ خوانی کے لئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی متوفی ..276.ھ کی خدمت میں پیش کیا۔استاذ محترم نے فرمایا پڑھو الف مگر سرکار مدار نے الف پڑھنے کے بجائے الف کی تشریح بیان کرنا شروع کردی اور متواتر ایک ہفتہ تک الف کی تشریح فرماتے رہے تو آپ کے استاد محترم بے اختیار پکار اٹھے *ھذاولی اللہ ھذاولی اللہ ھذاولی اللہ جب آپکی عمر شریف 14,سال کی ہوئی تو ابتدائ تعلیم سے لیکر جملہ علوم دینیہ علوم عقلیہ ونقلیہ حاصل کرلئے حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت زبور انجیل,کے بھی حافظ وعالم تھے-(تذکرۃالکرام تاریخ خلفائے عرب واسلام)

حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا,سیمیاکیمیااور ریمیامیں کامل دسترس رکھتے تھے- (لطائف اشرفی فارسی..ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی)

بیعت وخلافت
ظاہری علوم سے فراغت کے بعد سعادت ازلیہ نے جذب دروں کو علم باطن کے حصول کہ لیے پابہ اشتیاق کردیا-جذبہ شوق نے زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہوگے-جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ اولیاء حضرت بایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا

پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئ نہیں دکھا چلتے چلتے ٹھہر گئے آواز برابر اًرہی تھی پہلے بیت المدس جاو بایزید بسطامی تمہارا انتظار کر رھے ہیں سمت مکہ سے سمت بیت المقدس رخ موڑ لیاقلب کی عجیب کیفیت تھی پہلے سے زیادہ اب نازک تر تھا ًًاب نازکی انکے دل کی نہ پوچھےً ایک تلاطم خیز طوفان تھاجو تھم نے کا نام نہیں لیتا ایک کاروان شوق ہے جو پڑاو نہیں چاہتا ایک انتظار تھا جواور بڑھ گیا لیکن شیریں اور باوقار پررعب آواز نے ناچار کردیا اب بجائے مکہ کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا ہی پڑا جیسے تیسے راستہ طے کیا اور یہ راہئ طیبہ مسجد اقصی کے صحن میں پہونچا آواز آئ آو میرے لاڈلے میں کب سے تمھارا انتظار کر رہا ہوں آنے والے کے قدم کیا پڑے اسکی آمد کا منتظر مسندانتظار کے نشین کی حیرت واستعجاب کے سارے بند ٹوٹ جاتے ہیں ایک نظر آنے والے کو دیکھتا ہے دوسری نظر صحن بیت المقدس پر ڈالتا پہر فرمان جاری کرنے میں دیر نہیں لگائ کہ اے بدیع الدین تمھارے آنے سے پہلے میں یہاں نور کا ایک ستون دیکھا کرتا آج تمہیں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ نور کا ستون تمہیں ہو آو تم میری مراد ہو قطب المدار آگے بڑھے بایزید پاک بسطامی نے آگے بڑھ کر سینے سے لگالیا اور عرفان الٰہی کے سارے حجابات منکشف ہوتے چلے گے

اس نور کی وضاحت احادیث نبویہ میں موجود ہے
حضرت سلطان العارفین نے صحن بیت المقدس میں دس شوال المکرم 259 ھجری میں حضرت قطب وحدت سیدنا سید بدیع الدین شیخ احمد مدارالعالمین کو سلسلہ طیفوریہ میں بیعت فرماکر تاج خلافت سے مزین فرمایا نسبت,صدیقیہ,طیفوریہ,وبصریہ,طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت وخلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا-تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی معیت میں رہکر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے- ذکرواشغال اورادو وظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی تعلیم فرمائی۔

حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری
مرشد سے جدائی کے بعد حضرت سرکار سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپ نے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائی کہ دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپکا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور دنیا و آخرت سے مجرد ہوگے تجلیات ربانیہ کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنواء میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھو ں کے دریچے بند ہوئے تھے کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئی اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کہ ”بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت قریب آگیا ہے” گنبد خضری کے مکین رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انتظارفرمارہے ہیں

دیوان محشر کےصدر نشین گنبد خضری مکین سروردنیاودین رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منتظر ہیں
خواب راحت کے دبیز پردے ہٹے آنکھیں کھلیں تو بحر قلب میں امیدوں اور مسرتوں کا طوفان برپا ہوگیا وارفتگی عشق ومستی کے احساس و وجدان پہ قابض ہوئ لیکن عقل نے کان بھرے کہ اے شوق مچل ‘اے پاوں ٹہر ‘اے د ل کی تمنا خوب تڑپ آپ نے رہوار شوق کو سمت بیت اللہ موڑ دیا دھیرے دھیرے مکہ معظمہ بھی آگیا چونکہ حج کا موسم تھا فریضئہ حج وزیارت بحسن خوبی اداکئے جب جمال یزدانی تجلیات رحمانی کے فروغ سے قلب دروں کندن ہوگیا تو ارض دل مضطرب و بیتاب پر قلب نازک ومشتاق پر شوق مدینہ دیدار طیبہ کے گلشن لہلانے لگے وہ ارض طیبہ جسکے نام کو سنکر اہل ایمان وایقان کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں وہ نورانی گلیاں جن میں جاروب کشی کے لیے مقصد ہستی مچلتا اور پاؤں رگڑتا آنکھیں اور پلکیں جہاں فرش راہ بننے کیلئے بیتاب رہتی ہیں آرزو مند رہتی ہیں مسجد نبوی شریف کے وہ منور ومعطر منقش ستون جنکے تصور میں آتے ہی احساس وجدان سجدہ ریز ہوجاتے ہیں وہ گنبد خضریٰ جس سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر ساری کائنات کو روشن کرتی ہیں اب وہاں کی حضوری رسائی اور باریابی کی تگ ودو میں پائے شوق وارفتہ وتند رو ہوتا جارہا ہے جوں جوں منزل مقصود قریب آرہی ہے دل ودماغ اور روح کی تمام حسیات پر ادب واحترام کارنگ غالب ہوجاتا رہا ہے مقدر کی باریابی سے در حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حضوری ہوتی ہے یہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربار ہے یہاں جن وانس حوروملک بلکہ تمام خلقت کا ہجوم رہتا ہے یہاں تو شہنشاہ بھی گدا بن کے آتے ہیں یہ مقام تو فہم وادراک کی منزل سے بھی بالاتر ہے یہاں شرمساری کے جلووں میں امیدوں کا دیا جلتا ہے اضطراب کے پس پردہ چین وسکون کی ہوا چلتی ہے وہ ادھر دائیں ہاتھ کومنبر نبوت ہے اور وہ ریاض الجنۃ یہاں قدم قدم پر انوار رحمت سجدہ ریز ہیں نور ونکہت کی زمین پر چاند سورج اور ستارے دست بستہ نور کی خیرات کے لیے کھڑے ہیں دن رات کی کسی گھڑی میں ایک پل کے لیے بھی یہ جگہ خالی نہیں رہتی ہے دیوانے اور مستانے یہاں دھونی رمائے رہتے ہیں بیک وقت ستر ہزار فرشتے درودوسلام کے نغموں کے ساتھ یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں اہل محبت کا یہاں ہر دم ہجوم رہتا ہے اللہ ھو کی باز گشت فضا کو گرمائے رہتی ہے یہاں کا ایک سجدہ ہزاروں سجدوں پر بھاری ہوتا ہے حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ رسالت میں باریاب ہیں دل کی بیتابی کو قرار مل رہا ہے اضطراب شوق پر حصول تمنا کی امیدوں کا غلبہ ہورہا ہے احساسات پر سکون کی خنکی چھائی ہوئی ہے رات اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے فجر صادق اپنے اجالے کو کائنات پر بکھیر نے کی تیاری کررہا ہے کہ اسی اثنا میں رحمت ونور کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نورانیت کے ساتھ عالم مثال میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے دلبند بدیع الدین قطب المدار کو اپنے دامن رحمت میں ڈھاپ لےتے ہیں قطرہ سمندر سے ملکر سمندر ہونے جارہا ہے ذرہ آفتا ب بن رہا ہے معا شیرخداحضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم عیاں ہوتے ہیں بارگاہ رسالت سے حکم جاری ہوتا ہے اے علی یہ ولی تمہاری روحانی تربیت وتدریس سے سنورے گا اس لئے اپنے نور نظرلخت جگر کو روحانیت کی تربیت دےکر اور رجل کامل بناکر میرے پاس لاؤ مولائے کائنات علی المرتضیٰ علیہ السلام نے خوب خوب تعلیم وتربیت فرمائ پھر روح مہدئ معود نے مرتب فرمایا

نسبت اویسیہ
مصدر ولایت آقائے نعمت مولیٰ نے آپکو اپنی آغوش عاطفت وشفقت ومحبت میں لیکر آپکی روحانیت کو صیقل کیا اور قلب کو متحمل بار ولایت عظمیٰ بناکر بارگاہ رسالت پناہی میں پیش کردیا رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بشمول عواطف فرماکر خانہ نبوت میں اسلام حقیقی تلقین فرمائی اور اپنے جمال جہاں آرا سے آپکے قلب وروح کو مزین فرماکر شرف اویسیت سے ممتاز فرمایا اور ہندوستان جانے کی تاکید فرمائی ہندوستانی سفر میں پیش آنے والے حالات وواقعات وکرامات سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے اویسیت پر ہلکی سی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں

اویسیت کسے کہتے ہیں
تارک السلطنت شاہ سمنان حضرت سیدنا مخدوم میر اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں کے شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ گفتہ کہ قومے ازاولیاء اللہ عزّوجل باشد کہ ایشاں کہ را مشائخ طریقت وکبرائے حقیقت اویسیاں نامندکہ ایشاں را درظاہر ہربہ پیری احتیاج بنود زیراکہ ایشاں راحضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم در حجرہ عنایت خود پرورش می دہند بے واسطہ غیرے چنانکہ اویس دادہ ایں عظیم مقامی بود وروش عالی ترکرااینجارسانند وایں دولت بکہ رونماید بموجب آیت کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (لطائف اشرفی ملفوظات حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ لطیفہ 14/واں )

شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں بزرگان دین مشائخ طریقت اویسی کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ عنایت میں بذات خود انکی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اسمیں کسی غیر کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کسی کی یہاں تک رسائی ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب آیت کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے
یوں تو سرکار قطب المدار رضی اللہ عنہ نے نو دس سلسلوں سے نسبت محمدیہ ارواحنا فداہ صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کی ہیں لیکن اویسی نسبت ایسی نسبت ہے جس نسبت کو حاصل کرنے کیلئے تمام سلاسل طریقت نے آقا مدارالعالمین سے فیض حاصل کیا اسی لئے اویسی نسبت پر مختصر روشنی ڈالدی

ہے کون نہیں جس پر احسان بدیع الدیں


وماتوفیقی الاباللہ فقط والسلام


سید ازبر علی جعفری مداری

Leave a Comment

Related Post

Top Categories