madaarimedia

کیا تعزیۂ امام حسین حرام ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے
بارے میں کہ تعزیہ شریف بنانا ، اس سے حسن عقیدت رکھنا ، اور تعزیہ شریف کو گاؤں و محلّوں میں گھمانا کیسا ہے ؟ بکر جو کہ ایک مسجد کا امام ہے اس نے تعزیۂ امامِ حسین کو حرام کہا ہے ۔ کیا اس کا کہنا درست ہے اگر نہیں تو ایسا کہنے والے کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ قرآن و حدیث اور شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی
نبی احمد ڈرائیور نارائن نگلا بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
تعزیہ شریف بنانا ، اس سے حسنِ عقیدت رکھنا ، تعزیہ شریف کو گاؤں اور محلّوں میں گھمانا ، اس کو چومنا ، اور اس کی تعظیم و تکریم کرنا ، اور تعزیہ شریف کی زیارت کرنا بزرگانِ دین کی سنت ہے ، اس کے قریب فاتحہ خوانی کرنا بهی جائز ہے ، اور دعائیں مانگنا ، منتیں ماننا بهی جائز ہے ، کیونکہ تعزیہ شریف امامِ عالی مقام حسین علیہ السلام کے روضے کا تصوراتی نقشہ ہے ۔
جس طرح نعل پاک و گنبد خضریٰ اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کا نقشہ بنانا اور اس سے برکتیں حاصل کرنا جائز و مستحسن ہے ، اسی طرح یہ بھی جائز و مستحسن ہے ۔
اکابر علمائے کرام نے نقشۂ نعل پاک رکھنے اور اس سے فیوض و برکات حاصل کرنے پر مستقل رسائل تصنیف فرمائے ہیں جس طرح نعلین شریفین اور مقدس مقامات کی تعظیم لازم ہے ، اسی طرح ان کے نقوش کی بھی تعظیم ضروری ہے ۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے
علمائے دین نے نقشہ کا اعزاز و اعظام وہی رکھا ہے جو اصل کا رکھتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 9 / صفحہ 150)

لهٰذا تعزیہ شریف بنانا بھی شرع شریف کی روشنی میں جائز و مستحسن ہے ، پهر خواہ وہ روضۂ امامِ عالی مقام کا ہو بہو نقشہ ہو یا تصوراتی نقشہ ہو دونوں صورتوں میں نسبت حسینی کی وجہ سے اس کی تعظیم کی جائیگی ۔
کیونکہ شئے اپنی نسبت سے ممتاز ہوجاتی ہے ۔ نسبت خواہ منجانبِ اللّٰه ہو خواہ منجانبِ العباد ، شریعت میں دونوں کا اعتبار ہے ، اور اسی کے مطابق احکام جاری ہوتے ہیں ، اس سلسلہ میں ہم ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس سے اس امر پر خاص روشنی پڑے گی کہ شریعت مطہرہ میں تصور ، نقشہ ، اور نسبت کی کیا حیثیت ہے ۔
چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے
” ان رجلا جآء الی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم قال یا رسول اللّٰه ! انی حلفت ان اقبل عتبتہ باب الجنتہ فامر النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ان یقبل رِجل الام وجبهۃ الاب ویری’ انه قال یا رسول اللّٰه ! ان لم یکن لی ابوان ؟ فقال قبل قبرهما قال فان لم اعرف قبرهما قال خط خطین و انوبان احدهما قبر الام والآخر قبر الاب فقبلهما فلا تحنث فی یمینک۔ (رواہ فی کفایت الشعبی ومغفره الغفور)
ترجمہ :- بیشک ایک شخص حاضر ہوئے پیارے نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بارگاہ میں تو عرض کیا انہوں نے یا رسول اللّٰه بیشک میں نے قسم کھائی ہے کہ میں بوسہ دوں گا جنت کی چوکھٹ کو تو حکم فرمایا پیارے نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یہ کہ چومو پاؤں ماں کے اور پیشانی باپ کی ، اور روایت کیا جاتاہے کہ بیشک انہوں نے عرض کیا یا رسول اللّٰه ! اگر نہ ہوں میرے والدین ؟
تو فرمایا پیارے نبی نے کہ چوم لو والدین کی قبروں کو، انہوں نے عرض کیا نہیں پہچانتا میں والدین کی قبروں کو، فرمایا پیارے نبی نے کہ ” کهینچ لو دو لکیریں اور نیت کر لو کہ ایک ان دونوں میں ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی قبر پهر چوم لو دونوں لکیروں کو تو حانث نہیں ہوگا اپنی قسم کے بارے میں یعنی قسم پوری ہوجائیگی ۔ (جامع مداری شریف جلد اول صفحہ 1096 )

دیکھیئے کتنا صاف ارشادِ نبوی صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے کہ دو لکیریں کهینچ لو اور نیت ( تصور) کرلو کہ ان میں سے ایک باپ کی قبر ہے اور دوسری ماں کی اور دونوں کو چوم لو ۔
اس حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ بزرگوں کے مزارات وغیرہ کے نقشے بنانا اور قبر وغیرہ کا تصور کرنا اور اس کو اسی تصور اور نسبت کی بنیاد پر چومنا اور اس کی تعظیم کرنا درست ہے ، اور نہ صرف درست بلکہ عین منشائے نبوت کے مطابق ہے ۔

ایسے ہی تعزیہ شریف بهی اگر چہ روضۂ امامِ عالی مقام کا ہو بہو نقشہ نہ ہو مگر اپنے تصور و خیال کے اعتبار سے وہ روضۂ امامِ عالی مقام کا نقشہ ضرور ہے ، اور اس کی نسبت چونکہ روضۂ امام سے کی گئی ہے ، لهذا نسبت کی بنیاد پر اس کو چوما بهی جائیگا اور اس کی تعظیم بهی کی جائے گی اور یہی عقیدت و ادب کا تقاضہ بھی ہے ۔
تعزیہ شریف اٹھانا اس کا جلوس نکالنا گلیوں میں گشت کرانا جائز بلکہ بہتر ہے ، تاکہ پردہ نشینوں کو چوک پر جا کے زیارتِ تعزیہ شریف کی ضرورت نہ رہ جائے یا زیارت سے محرومی نہ رہ جائے ۔

اس لئے کہ جو چیز اللّٰه والوں سے منسوب ہوجاتی ہے وہ “شعآئراللّٰه” قرار پاتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے “إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِاللّٰهِ ” یعنی : بے شک صفا اور مروہ(پہاڑیاں) اللّٰه کی نشانیوں سے ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ : آیۃ 158)
“فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ” اس میں کچھ تشریعی اورکچھ تکوینی کھلی نشانیاں ہیں من جملہ ان نشانیوں کے ایک مقام ابراہیم (نشانی )ہے ۔ (آل عمران : آیت 97)
“وَالْبُدُنَ جَعَلْنَاھَا لَکُمْ مِن شَعَائِرِاللّٰه” یعنی : اور ہم نے قربانی کے جانور تمہارے لئے اللّٰه کی نشانیوں سے کردیئے ۔(حج آیت 26)

“حضرت امام ابن جریر لفظ شعائر کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ شعیرۃ بروزن فعیلۃ کی جمع ہے جس کا معنی ہے وہ علامت جس سے کسی چیز کی پہچان ہو سکے “وشعائرہ اللتی جعلھا امارات بین الحق و الباطل ” یعنی جن چیزوں سے حق اور باطل کی شناخت ہو سکے ان کو شعائراللّٰه کہتے ہیں ۔
اس کلیہ کے پیش نظر یہ ثابت و متعین ہے کہ تعزیہ فی زماننا ہمارے دیار میں اہل سنت کا شعار بن چکا ہے اور تعزیہ دار صرف اہلِ سنت میں پائے جاتے ہیں ، اہلِ بدعت و شناعت اسے ناجائز سمجھتے ہیں الا ماشاء اللّٰه ۔

لہذا تعزیہ سے حسینیت کی پہچان ہوتی ہے اور یزید پلید کو رضی اللّٰه عنہ لکھنے والوں اور سیدنا امام حسین پاک رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کو ماننے والوں کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے اس لئے اس کے بنانے اور نکالنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے ۔ (جوازِ تعزیہ داری انعامِ فضلِ باری / صفحہ 10 + 11)

اور اس کی تعظیم کا درس ہم کو قرآن کریم دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا
“وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ”یعنی : اور جو اللّٰه کی نشانیوں کی تعظیم کرے پس بیشک یہ دلوں کا تقویٰ ہے ۔(حج آیت 32)
امامِ مسجد بکر نے جو تعزیۂ حسین کو حرام کہا ہے اس کا حرام کہنا بلا دلیل ہے ، شریعت مطہرہ میں جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، بلکہ جائز کو ناجائز و حرام کہنا بهی بجائے خود ناجائز و حرام اور گناہ ہے ، کہ یہ شریعت مطہرہ پر افتراء ہے ، قائل پر توبہ لازم ہے ۔
واللّٰه و رسولہ اعلم بالصواب ۔

کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری مرادآبادی
خادم :- دار الافتاء الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند
تاریخ 14/ محرم الحرام 1441 ھجری, بروز شنبہ ، مطابق 14/ ستمبر 2019 عیسوی۔

الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء :- دار الافتاء الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories