وہ نور جسکو شہ مشرقین کہتے ہیں
اسی کو نور خدا نور عین کہتے ہیں
بکھر گیا تو وہی نور کائنات بنا
سمٹ گیا تو اسی کو حسین کہتے ہیں
نواسئہ مصطفی جگر گوشۂ علی مرتضی سکون دل سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا شہزادہ کونین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی حق و صداقت تقوی وطہارت ، جرات و ہمت، صبر و استقلال ، ایمانی قوت و عمل ، تسلیم ورضا، اطاعت ربانی، عزم و استقلال کی وہ عظیم پیکر ہے جو پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے اور تاریخ از اہمیت کی حامل ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی صاحب فکر و شعور انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی فرد یا قوم کی تعمیر میں قوت ایمانی کے ساتھ روح کی پاکیزگی ، قلب کی طہارت، خاندانی وجاہت، حسن تربیت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان جملہ لوازمات کے ساتھ ایمان کی جرات میں جتنی زیادہ تپش اور شدت ہوگی اسی قدر شخصیت کو زندگی اور زندگی کو معراج کمال عطا ہو گی ، اس کے بغیر دنیا میں نہ کوئی امتیازی حیثیت حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس کی کوئی قابل اعتناء پہچان ہوسکتی ہے۔
انسان واجب الوجود کا شاہکار تخلیق ہے عالم ایجاد میں ، انسان کی شرافت و برتری کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس اخلاق و کردار اور قوت ایمانی کا وہ ملکہ ہے جو اس کو دوسری تمام مخلوقات سے یکسر جدا کرتا ہے۔ یہ تمام تر خوبیاں نقطہ کمال کو پہونچ جائیں تو پھر وہ انسانی عزت و عظمت، قدر و منزلت اور جلالت شان کے سابلند و بالا مقام پر پہونچ جاتا ہے جس کی حد عروج کا ادراک بغیر توفیق باری کے ناممکن ہے۔ اس وقت ذکر کرنا مقصود ہے نگاہ نبوت کے اس تراشیدہ گوہر نایاب کا جس کی چمک سے انسانیت کا ہر شعبۂ زندگی روشن و تابناک ہے۔ گلشن طہارت کے اس شگفتہ پھول کا جس کی خوشبو سے مشام کا ئنات معطر ہے، جرات و شجاعت کے اس جبل استقامت کا ظلم و جبر کی سنامی لہریں جس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں، سلطنت روحانیت کے تاجدار، نو جوانان جنت کے سردار، گلشن فاطمی کی فصل بہار، نگار خانۂ نبوت کے گوہر آبدار، وقار عظمت حیدر کرار امام عرش مقام حسین پاک و علی جدہ الصلوۃ والسلام ہیں۔
ولادت باسعادت
موسم بہار کی ایک خوشگوار رات کا آخری پہر تھا مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں میں مدینے کی درودیوار سے بازگشت کرتی تلاوت قرآن پاک اور نغمات قدسی کی صداؤں سے فضا معطر ہورہی تھی۔ حضرت ام الفضل زوجہ حضرت عباس ابن عبد المطلف رضی اللہ عنہم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں باریاب ہوئیں چہرے سے پریشانی کے آثار نمایاں تھے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی شفقت کے ساتھ پریشانی کی وجہ معلوم کی، تو عرض کیا “یا رسول الله صلى الله عليه وسلم اني رأيت حلما منكرا هذا الليلة” آج کی شب انتہائی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ جس کے تصور سے دل کانپ جاتا ہے، ارشاد ہوا “ما هو ؟ خواب بیان کرو، عرض کی یا رسول اللہ وہ انتہائی ڈراؤنا خواب ہے ، آپ نے فرمایا بیاں کرو آخر کیسا خواب اور کیا خواب ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا علیحدہ کیا گیا وہ ٹکڑا میری گود میں آگیا۔ یہ سن کر رسول پاک نے تبسم فرمایا “وقال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم رأیت خیرا تلد فاطمتہ ان شاء اللہ غلاما یکون فی حجرک” اللہ کے غیب داں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چچی جان مبارک ہو آپ نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ان شاء اللہ عنقریب شہزادی کونین فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے گھر شہزادے کی ولادت ہوگی اور آپ اسے اپنی گود میں اٹھا ئیں گی۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان نبوت سے اس بشارت کے کچھ عرصہ بعد آغوش فاطمہ سلام اللہ علیہا میں جمال ونور کا وہ پیکر جلوہ گر ہوا۔ ستاروں کی انجمنوں کے ساتھ شمس و قمر بھی حسن و د لکشی کی خیرات لینے جھک گئے۔
وہ روشنی ہے علی کے گھر میں فلک سے جو نور بہہ رہا ہے
محبتوں کے کنول کھلے ہیں پہاڑ نفرت کا ڈھہ رہا ہے
تمام شب آسماں سے لیکر زمیں تلک ذکر شہہ رہا ہے
عجب چراغاں ہے کہکشاں کا ملک ملک سے یہ کہہ رہا ہے
حسین میرا حسین تیرا حسین رب کا حسین سب
ہجرت نبوی کا چوتھا سال تھا شعبان المعظم کی پانچ تاریخ تھی سیدہ کائنات فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی پاک آغوش میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام عالی مقام حسین پاک رضی اللہ عنہ جلوہ گر ہوئے ، کائنات عالم میں صرف اور صرف یہی وہ پاک گھرانہ ہے جس کی پاکیزگی و طہارت کی گواہی قرآن مقدس دیتا ہے تاریخ شاہد ہے جب آپ کی ولادت با سعادت کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچی آپ خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف فرما ہوئے نو مولود کو آغوش رحمت میں لیا تکبیر و اقامت کہی اور اپنا لعاب دہن بطور اولیں خوراک منھ میں ڈالا۔ اور نام حسین تجویز فرمایا۔
دنیا جانتی ہے آب وگل کی اس دنیا میں جب کوئی نومولود قدم رکھتا ہے تو اس کا کوئی ذاتی تعارف نہیں ہوتا، بلکہ لوگ سوال کرتے ہیں اس کے والد کا نام کیا ہے اس کے دادا کون ہیں۔ اس کا خانوادہ کیا ہے۔ کس خاندان کا چشم و چراغ ہے، سماج میں اس خاندان کی خدمات کیا ہیں، ملت اس خانوادے کی کن کارگزاریوں سے متاثر ہے۔ یہ وہ حوالے ہیں جو عموماً کسی بھی بچے کیلئے ولادت سے زندگی کی آخری سانس تک بطور تعارف ساتھ ہوتے ہیں اور اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ لازوال شرف و کرامت فقط حسین پاک کو حاصل ہے کہ وہ سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نواسے ہیں اور اس والد گرامی کے فرزند ارجمند ہیں جن کی پیشانی کبھی بھی سجدۂ غیر اللہ سے آلودہ نہ ہوئی جس کی ہر ایک سانس میں خوشبوئے زلف واللیل رچی بسی رہی ، جس کو باب العلم کا لافانی خطاب حاصل ہے جس کی ذات اقدس جرات و شجاعت، تقویٰ و طہارت کا وہ سر چشمہ ہے جس میں تا قیام قیامت سعادت مند تشنہ روحیں سیراب ہوتی رہیں گی۔ حسین پاک اس آغوش عفت و طہارت میں جلوہ گر ہوئے حوران خلد کو بھی جس کی عصمت و پاکیزگی پر ناز ہے۔ جس کی چادر تظہیر کا گوشہ سایۂ جنت ہے، مملکت عشق کی وہ شہزادی جس کے در و دیوار کا طواف جبرئیل امیں کرتے ہیں جس کے تقدس کا یہ عالم
بے اجازت حسین کے گھر جبرئیل بھی آتے نہیں
قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلبیت
امام پاک کا اصل کمال اور انفرادیت یہ ہے کہ اتنی عظیم پشتینیوں اور بلند حوالوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت جس کا کوئی نعم البدل نہیں اسے قائم رکھا جو کارنامہ ناممکن تھا حسین پاک نے اسے ممکن بنادیا یہ صرف اور صرف انہیں کا خاصہ اور اعزاز ہے، بڑے باپ کا بیٹا ہونا عظیم ماں کا فرزند ہونا، جلیل القدر خانوادے کا چشم و چراغ ہونا، پرشکوہ گھرانے کا فرد ہونا یقینا باعث سعادت ہے مگر یہ چیزیں ایک صاحب ظرف کیلئے ایک امتحان اور آزمائش بھی ہیں، بڑے باپ کی عظمت کی لاج رکھنا عظیم ماں کی تربیت اور آغوش رحمت کا حق ادا کرنا، خاندان کی قدر و منزلت کا پاس و لحاظ رکھنا اور گھرانے کی شوکت و عظمت کا تحفظ کرنا جو صرف رنگ خدا سے خلاصہ ہوتا ہے کوئی معمولی بات نہیں ، حسین پاک تاریخ انسان کی بہت ہی منفرد شخصیت ہیں جن کو صدیاں گذر جانے کے باوجود آج تک پڑھا لکھا اور سمجھا جا رہا ہے ، تحقیق و جستجو کے خوگر انہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں ان سے محبت کرنے والے اپنی انتہاء کو چھونے کیلئے بیقرار ہیں۔
چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش رحمت جو اسلام کی تربیت گاہ تھی پوری چاہت اور ناز برداری کے ساتھ نواسوں کی پرورش میں مصروف ہوگئی۔ اسلام اور دونوں شہزادوں کا گہوارہ ایک تھا جس میں یہ پروان چڑھتے رہے ، ایک طرف رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جن کا مقصد حیات ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی ، دوسری جانب شیر خدا رضی اللہ عنہ جو اپنے کردار و عمل سے مرضئ رب کے خریدار بن چکے تھے، تیسری جانب شہزادی کونین سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جو صف نسواں میں پیغمبر کی رسالت و مقصدیت کو پہونچانے کیلئے قدرت کی انتخاب تھیں اس نورانی ماحول میں حسین پاک کی پرورش ہوتی رہی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نواسوں سے حد درجہ محبت فرماتے کبھی سینہ اقدس پر بیٹھانا کبھی دوش مبارک پر اٹھانا اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے کہ ان سے محبت رکھو ان کی محبت سرفرازئ کو نین کی علامت ہے مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز نرالے تھے ، نماز کے اندر حالت سجدہ میں حسین پشت مبارک پر آگئے تو سجدہ طویل کردیا یہاں تک کہ شہزادے خود سے بخوشی جب اترتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک اٹھاتے کبھی خطبہ پڑھنے کے دوران حسین مسجد میں داخل ہونے لگے اور کسی طرح زمین پر گر گئے تو رسول پاک نے خطبہ روک کر شہزادے کو آغوش میں اٹھایا ممبر پر جلوہ گر ہوئے اور ارشاد فرمایا مسلمانو! دیکھ لو یہ حسین ہیں انہیں خوب پہچان لو ان کی فضیلت کو یاد رکھو ” الحسین منی و انا من الحسین حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
سیدنا امام حسین علیہ السلام نے تقریبا چھ سال چھ مہینے تک سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کریمین سے غیر معمولی شفقت و محبت فرماتے اور تمام صحابہ کرام بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حسنین کریمین سے خصوصی شفقت و محبت کا اظہار فرماتے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پاک کے بعد خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم بھی حضرات حسنین کریمین کو نہایت عزیز اور مقدم رکھتے اور انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔
چنانچہ ایک بار حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حسنین کریمین کے لیے خصوصی اعزاز واکرام کی وجہ جاننا چاہا تو آپ نے اپنے صاحبزادے سے سوال کیا بتاؤ کیا تمہاری ماں ان کی ماں کی طرح ہے؟ عرض کیا بالکل نہیں، پوچھا کیا تمہارے نانا ان کے نانا کی طرح ہیں؟ عرض کیا نہیں، پوچھا کیا تمہارا خاندان ان کے خاندان کی طرح ہے؟ جواب ملا نہیں ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے بیٹے یہی وہ اعزاز واکرام ہیں جس نے حسین پاک کو کونین کی سرفرازیوں کا حقدار بنا دیا۔ رب کی جانب سے یہ میرے لئے اعزاز سے کم نہیں کہ اس نے اس کی تکریم کی توفیق بخشی ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت و محبت کی علامت ہے۔
امام عالی مقام حسین علیہ السلام بے حد فیاض انتہائی متقی عبادت گزار اور بکثرت نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری ، اخلاق و تربیت ، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ کثرت نماز، تلاوت قرآن کا ذوق اس حد تک کہ بڑے بڑے زاہدان باصفا اس پر رشک کرتے ، اکثر روزے رکھتے حج و عمرہ کی ادائیگی کا شوق اس درجہ کہ آپ نے پاپیادہ اور بارکاب تقریباً پچیس حج کئے گویا کہ آپ کی تنہا ایک ذات میں محاسن و مکارم کی ایک دنیا آباد تھی۔
حسین پاک نے علم و تقوی کے ماحول میں آنکھیں کھولی اور خانوادہ نبوی میں پرورش پائی۔ اس لئے معدن فضل و کمال بن گئے علم کا باب آپ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقوی حسین کی گھٹی میں ملا تھا۔ اس لئے آپ فطری طور پر اپنے دور میں شریعت و طریقت کے امام تھے تمام ارباب سیر نے امام پاک کوان جملہ محاسن کے ساتھ فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے۔ حضرت علی مرتضی باب شہر علم رضی اللہ عنہ قضاء وافتاء میں انتہائی بلند مقام رکھتے تھے۔ سیدنا حسین پاک نے بھی حصول علم کے بعد مسند تدریس کو زینت بخشی اور مند افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابر مدینہ مشکل مسائل میں آپ ہی کی طرف رجوع فرماتے ، سبط رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپ کے تبحر علمی علم و حکمت ، فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپ کے خطابات سے کیا جا سکتا ، الغرض جگر گوشتۂ بتول امام عالی مقام فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشندہ باب ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ آپ کی فضیلت و عظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔ بارگاہ رسالت میں حسنین کریمین کی محبوبیت اور عظمت کا یہ عالم ہے کہ اکثر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم آپ دونوں کیلئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے ، آپ نے فرمایا حسن و حسین یہ دونوں میرے بیٹے ہیں میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی تو محبت فرما سر کار ابدقرار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ذالک فضل اللہ يوتى من يشاء
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تقریبا پچیس سال تک شیر خدا کی خانہ نشینی علوم نبویہ کی ترویج واشاعت، قائدانہ صلاحیتوں سے اپنے شہزادوں کو مصقل کرنے کا دور ہے، حسین پاک اس زمانے میں طرح طرح کے نامساعد حالات کا جائزہ لیتے رہے اور اپنے والد گرامی کی سیرت کو ملاحظہ فرماتے رہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں آپ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا، ۳۵ھ میں جب حسین پاک کی عمر تیس سال کی تھی عام مسلمانوں کیلئے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفة المسلمین امیر المؤمنین کی حیات طیبہ کے یہ آخری پانچ سال تھے۔ جس میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں حضرت امام حسین اپنے بزرگ و مرتبہ کی نصرت و حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جو ہر دکھاتے رہے۔
ہجرت نبوی کا چالیسواں سال تھا رمضان المبارک کی انیس تاریخ تھی حضرت علی کوفہ کی جامع مسجد میں معمول کے مطابق تشریف لائے دیکھا ابن ملجم اپنے نیچے تلوار کو چھپا کر الٹا سورہا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا ابن ملجم اٹھ جا نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے وہ ملعون اٹھا حضرت علی نے آخری سجدہ کیا یکا یک ابن ملجم آگے بڑھا اور ایسا وار کیا کہ سر مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا حالت روزہ میں ایسا کاری زخم لگا کہ پھر آپ اٹھ نہ سکے مسجد کوفہ میں شور برپا ہو گیا قیامت کا منظر تھا۔ محبان علی نالہ و فریاد کرنے لگے حسنین کریمین مسجد تشریف لائے اپنے والد کی ریش مبارک خون سے تر دیکھی اور گریہ کرنے لگے۔ اصحاب حضرت علی کو اپنے کاندھوں پر ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام بپا ہو گیا بیٹیاں تڑپ گئیں اس خونی منظر کو دیکھ کر ، حکماء نے علاج شروع کیامگر زہر اپنا کام کر چکا تھا تین دنوں تک اس زخم کی شدت میں تڑپتے رہے ۲۱ رمضان المبارک کی رات میں حضرت علی نے فرشتۂ اجل کو لبیک کہا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے لخت جگر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے دست حق پر خلافت کی بیعت ہوئی، اس وقت صورت حال یہ تھی کہ صرف عراق ، خراسان کی خلافت امام حسن کے حصے میں آئی جبکہ شام، فلسطین، یمن، حجاز اور مصر وغیرہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اموی کے زیر تسلط تھے جنہوں نے خون عثمان غنی کے مسئلے کی بنا پر حضرت علی کی بیعت سے انکار کر دیا تھا وہ بھلا اب حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کیسے تسلیم کر لیتے۔ ربیع الاول ۴۱ھ کو صورت حال اس نوبت کو آن پہنچی کہ امام حسن کے ساتھ چالیس ہزار (40000) سے زائد مسلح افراد تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے ساٹھ (60000) ہزار کا لشکر قتل و غارت گری کیلئے صرف ایک اشارے کا منتظر تھا ، حضرت امام حسن نے اپنے والد گرامی کے پانچ سالہ خلافت کے پر آشوب زمانے میں مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں ذبح ہوتے دیکھا تھا اس لئے باہمی خون خرابہ اور نہ ختم ہونے والے قتل وغارت کے سلسلے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے خود کو میدان سے ہٹالیا اور خلافت کا عہدہ حضرت امیر معاویہ کو سپرد کردیا اگر چہ امام حسن حق پر تھے اور امت کے جائز خلیفہ تھے۔ رجب المرجب ۶۰ھ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد خلافت کا مسئلہ دوبارہ پیدا ہوا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو اپنے والد کی شہادت اور بھائی کی خلافت سے دست برداری سے خوش نہ تھے انہوں نے یزید کی خلافت سے ایسے ہی انکار کر دیا جس طرح اس سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہیں سے امام حسین کا وہ کردار شروع ہوتا ہے جس کی یاد یوم عاشورہ کی شکل میں عالم اسلام میں منائی جاتی ہے۔
حریت اور آزادی ہر معتدل نظام کی بقا کیلئے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے آزادی پیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف تھا وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلاسکیں انسانی معاشرے کو فرعونی نظام سے نجات دلا سکیں۔ حریت آزادی ایک ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان فطری طور پر اسے جانتا ہے آزادی خدا کی طرف سے بندوں کیلئے ایک عظیم نعمت ہے جبکہ غلامی انسانیت کی سب سے بڑی ذلت ہے ، چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے گردو پیش پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار میں اسلامی اقدار کاسر بازار تماشہ بنا کر روح اسلام کی تذلیل کی جارہی ہے اسلامی احکام و قوانین طبعی انحراف کا شکار ہورہے ہیں ، جانثار اہلبیت کو حقارت اور ذلت آمیز نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ آواز بلند کرنے کے جرم میں قہر و جبر کی سلاخوں میں رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اسلامی غیرت وحمیت نے انگڑائی لی اور حق کی سربلندی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ اسلامی نظام حکومت کی بنیاد جمہوری و شورائیت پر تھی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کیلئے شریعت اسلامیہ نے مقرر کئے ہیں۔ سیر و شکار ، شراب و شباب ، رقص و رباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمراں تسلیم کرنا امام حسین رضی اللہ عنہ کیلئے بھلا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ یزید کی تخت نشینی اور حکومت کا آغاز ظلم وستم اور سیاسی جبر وتشدد کے ذریعہ ہوا اس نے اپنی غیر قانونی اور بے اصولی اقتدار کو دوام بخشنے اور اپنی مستقل بادشاہت قائم کرنے کیلئے ملوکیت اور آمریت سے کام لیتے ہوئے خلفائے راشدین کے قائم کردہ نہ صرف تمام ریاستی ادارے تباہ و برباد کئے بلکہ مشاورت و جمہوریت کی دھجیاں بکھیر دیں، اس نے قومی خزانے میں لوٹ مار اور اسے ذاتی استعمال میں لانے کو رواج دیا ، عریانی و فحاشی ، شراب نوشی ، بدکاری اور قمار بازی کو عام کیا ، رقم بیت المال سے بڑے بڑے محلات تعمیر کرنے کے علاوہ بندروں کو کتوں کو پالنا شروع کیا۔ شراب و کباب کی محفلوں کا آغاز ہوا، رشوت کا بازار گرم اور شاہی قربت کی دور کا منظر سامنے آیا۔ نااہل اور جاہل لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے لگے، اسلامی تعلیم وتربیت کی جگہ جہالت نا خواندگی اور بے راہ روی عام ہوگئی ، جھوٹ ، دجل ، فریب اور دھوکہ دہی معاشرے کا اہم حصہ بن گئی، بے ہودہ اور اوباش لونڈے اس کے ارد گرد منڈلانے لگے ، جس کی نشاندہی مخبر صادق نے اپنی ایک حدیث میں فرمادی تھی بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی نقل فرماتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اوباش نو جوانوں کی حکومت سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا تھا اے اللہ میں ۶۰ھ کے آغاز اور بیہودہ اوباش لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگتا ہوں (الصواعق المحرقه)
یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ کی وساطت سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کی ولید بن عقبہ نے امام حسین اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قاصد کے ذریعہ بلایا اگر چہ ابھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی تاہم دونوں جلیل القدر ہستیوں نے بلاوے کا مقصد اچھی طرح سے جان لیا امام حسین رضی اللہ عنہ سے جب بیعت کیلئے کہا گیا تو آپ نے فرمایا میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا جب بیعت عام ہوگی اس وقت آجاؤنگا۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لیکر مکہ روانہ ہوگئے ، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا بصورت دیگر مدینے کی پاک سرزمین مظلوموں کے خون سے رنگین ہو جاتی۔ لہذا ۲۷ رجب میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے، مکہ پہونچ کر شعب ابو طالب میں قیام کیا، مکہ پہونچتے ہی اہل کوفہ کے خطوط کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ، آپ نے مسلم بن عقیل کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کر دیا کوفہ پہونچتے ہی تقریباً بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام پاک کو کوفہ آنے کی دعوت دیدی اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کیلئے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمر و ابن عبد اللہ، عبد اللہ ابن عباس، عبداللہ ابن زبیر ، سب نے مشورہ دیا کہ چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے اور وہاں ان کی افواج اور سامان حرب و طرب سب کچھ موجود ہے اور وہ قابل اعتماد نہیں اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ میں رہیں۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے تجویز پیش کی کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدو جہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ رضامند نہ ہوئے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوفہ کے بدلے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا اگر کوفہ کا سفر ہی آپ کیلئے ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھئے کہ وہ یزید کے حاکموں کو پہلے وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں، جوابا آپ نے ارشاد فرمایا اے ابن عباس میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو لیکن میں عزم کر چکا ہوں اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیں مجھے ڈر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کئے جائیں گے لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور بالآخر ۳/ذی الحجہ مکہ سے کوفہ کیئے روانہ ہو گئے، دوران سفر کئی قسم کے واقعات و حادثات پیش آئے مکر عزم مصمم کو شریک سفر بنا کر اپنا سفر جاری رکھا اور آخر کار حسین پاک کی قیادت میں اہلبیت اور جاں شاروں کا یہ مختصر قافلہ ۲/محرم الحرام ۶۱/ھجری میدان کربلا میں فروکش ہو گیا۔ دوسرے ہی دن عمر ابن سعد نے چھ ہزار سپاہیوں کے ساتھ آپ کو اپنے محاصرے میں لے لیا، عمر ابن سعد چونکہ ایک روایت کے مطابق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کا خواہش مند نہ تھا اس لئے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا قرہ بن سفیان سے امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تمہیں میرا آنا پسند نہیں ہے تو میں مکہ واپس جانے کیلئے تیار ہوں لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور عمر ابن سعید کو حکم دیدیا اگر امام حسین بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کر دیا جائے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو ایسی حالت میں جبکہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا یہ سنکر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی اور عمر وابن سعید کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ امام حسین اور ان کے ساتھی اپنے آپ حوالے کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو
شمر لعین خط لیکر عمر وابن سعد کے پاس پہونچا اس لالچی بھیڑیے نے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تلوار اٹھانا گوارہ کرلیا صلح کی
آخری گفتگو نا کام ہونے کے بعد نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام نے اپنے رفقاء سے فرمایا جو جانا چاہتے ہیں انہیں میری جانب سے اجازت ہے اس کے بعد چند جاں نثار اور اعزا باقی رہ گئے جنہوں نے آخری سانس تک ساتھ دینے کا عہد کیا جن کی تعداد صرف بہتر (۷۲) تھی۔ امام پاک نے اس مختصر ترین فوج کو مرتب کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو میسرہ پر حبیب بن مظاہر کو متعین کر کے حضرت عباس کو علم مرحمت فرمایا ، آغاز جنگ سے قبل اللہ رب العزت کے حضور دعا کی اور حصول شہادت کیلئے ثابت قدمی کی غیبی مدد کی درخواست کی، اس کے بعد اتمام حجت کیلئے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ، اے لوگو جلدی نہ کرو پہلے میری بات سن لو مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو اگر تم میرا عذر قبول کرو گے اور میرے لئے انصاف کروگے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کیلئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ، تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف پورا زور لگالو مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہیں کرڈالو اللہ میرا کارساز ہے اور وہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔
جو نہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہونچے تو خیموں سے اہلبیت کی مستورات کی شدت رنج سے چیخیں نکل گئیں ، آپ تھوڑی دیر کیلئے رک گئے اور اپنے بھائی حضرت عباس کو انہیں چپ کرانے کیلئے بھیجا، جب خاموشی طاری ہوئی تو آ پ نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ لوگو! تم میرے حسب ونسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں، اپنے گریبانوں میں منھ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تیرے نبی کا نواسہ اور اس نبی کے چازاد بھائی کا بیٹا نہیں ہوں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسول پر ایمان لائے سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول کا وہ قول یاد نہیں کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے اگر یہ میرا بیان سچا ہے اور بیشک سچا ہے تو بتاؤ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا گوارا ہے؟ اوراگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے تم ان سے دریافت کر سکتے ہو پھر تم بتاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک کے ہوتے ہوئے بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے۔ لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر اس دل پذیر خطاب کا کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ تقریر سننے کے بعد حربن یزید تمیمی کی سعادت مند تشنہ روح تڑپ اٹھی اور یہ کہتے ہوئے کہ یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے میں نے جنت کا انتخاب کر لیا یزیدیو اب تم مجھے چاہے ٹکڑے ٹکڑے کر دو یا جلا کر رکھ دو جنتی جوانوں کے سردار کے قدموں میں آچکا ہوں مجھے کوئی خوف نہیں اس کے بعد شخصی مبارزت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا۔
جس میں اہلبیت اطہار کا پلڑا بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیدیا، فدایان اہلبیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا فدائی ایک ایک کرکے جان جاں آفریں کے سپرد کرتے رہے جسم کے ٹکڑے میدان کربلا میں بکھرتے رہے لیکن میدان جنگ سے کسی نے منہ نہیں پھیرا دوپہر تک امام حسین علیہ السلام کے شیدائی ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرتے گئے اب باری باری حضرت علی اکبر عبداللہ ابن مسلمہ ، حضرت جعفر طیار کے پوتے عدی، حضرت عقیل کے فرزند عبدالرحمن حضرت حسن علیہ السلام کے صاحبزادے قاسم پھر ابو بکر وغیرہ میدان کارزار میں اترے اور اپنے خون جگر سے گلشن اسلام کی آبیاری کرتے گئے۔
نکتہ شناس مورخین نے سچ کہا ہے
معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور حریت، خودداری، جرات، شجاعت، ایثار و قربانی اورصبر وانقلب کا مکمل فلسفہ ہے اور اس کرب و بلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ کسی جواں پیروسالہ کا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سن ہونے کے مقصد نبوی اور اسلام کو زندہ رکھا، اپنی معصومیت لیکن جرات و کردار اور عمل سے اسلام کو ایسی قوت عطا کردی کہ وہ رہتی دنیا تک کیلئے لازوال مثال بن گئے اور دین اسلام کو ناقابل تسخیر بنادیا، ان بچوں میں سے پاک دختر سید الشہداء امام عالی مقام سید بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے اپنے چچا حضرت عباس علمبردار رضی اللہ عنہ کو اپنے ننھے ننھے ساتھیوں کیلئے پانی لانے کو کہا، اس بے تقصیر بچی کے کرتے میں یزیدی فوج نے آگ لگادی اور ان کے کانوں کی بالیاں بھی کھینچ کر انہیں زخمی کر دیا لیکن بچی کا صبر و استقامت برقرار رہا حسین پاک کی شہادت کے بعد بھی ان پر ظلم وستم کی انتہاء کر دی گئی۔ اور تن تنہا زنداں میں قید کر دیا گیا لیکن ان کے عزم و حوصلوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی۔
ایک ننھا شہید فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کا قاسم بھی وہ محض تیرہ سال کے تھے حضرت امام حسین نے جب انہیں میدان کربلا میں روانہ کیا تو یہ پوچھا کہ تم راہ حق میں موت کو کیسا پاتے ہو؟ تو شہزادہ قاسم نے بلا خوف و خطر جواب دیا کہ میں موت کو شہد سے بھی زیادہ شیر میں پاتا ہوں۔ اس ننھے شہید کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاش پر گھوڑے بھی دوڑائے گئے اور امام حسن کے جگر کا یہ ٹکڑا ان گنت ٹکڑوں میں بٹ گیا، محافظ امامت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے دو بیٹے عون و محمد بھی کربلا میں شہید ہوئے اور بھائی کی عقیدت و محبت میں سرشار بہن نے اپنے بچوں کا غم بھلا کر ہمشکل پیغمبر حضرت علی اکبر کی جدائی میں خود کو اسیر غم کر لیا۔
اسلام کی تکمیل کبھی نہ ہوتی اگر اس کے دامن میں چھ ماہ کے علی اصغر کی قربانی نہ ہوتی ، اگرعلی اصغر راہ خدا میں ہدیہ نہ ہوتے تو کوئی کیسے جان بچا سکتا کہ راہ حق میں اسلام کی بقا کیلئے اپنی قیمتی سے قیمتی چیز کو بھی قربان کردینی چاہئے۔ لیکن افسوس اس بے رحم امت پر کہ جس نے نواسہ رسول کے ششماہے کی بھی پروانہ کی پیاسے کی پیاس نہیں بجھائی اور گھوڑے کو مارنے والے تیروں سے علی اصغر کی گردن چھلنی کردی ، الغرض ایک ایک کر کے بچے پیر و جواں سب نے جام شہادت نوش کرلیا ، اب حسین پاک تن تنها میدان کارزار میں کھڑے تھے عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغے میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہو رہی تھی کیوں کہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر جائے، بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بد بختی مول لی اور دست و بازو پر تلوار کے کئی وار کئے سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ لڑکھڑا کر گرگئے ان کے گرتے ہی بد بخت شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین نے فرمایا میرے نانا رسول خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلبیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے۔ ابے بد بخت شمر تو ہی وہ کتا ہے جس کی نسبت میرے آقا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد ظالم شمر نے آپ کا سر پیچھے کی طرف سے کاٹ کر تن سے جدا کردیا۔
آسماں تھا زلزلے میں اور تلاطم میں زمیں
اس کے آگے کیا ہوا مجھ سے کہا جاتا نہیں
سر کاٹ لینے کے بعد وحشی یزیدیوں نے اس عظمت و عصمت کے پیکر اور شرم وحیا کے پتلے کو برہنہ کر دیا جسم مبارک سے تمام کپڑے اتار لئے اور سر بریدہ لاش کو گھوڑوں کو ٹاپوں سے روند ڈالا جس سے جسم نازنین کے تمام اعضاء الگ الگ ہو گئے وہ جسم پاک جس کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رحمت بھری گود میں لیتے تھے آج وہ جسم مبارک ریزہ ریزہ ہو کر کربلا کے تپتے صحرا میں بکھر گئے۔ آفتاب عالمتاب کربلا کے اس اندوہناک منظر کو زیادہ دیر نہ دیکھ سکا اور دنیا والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور کربلا کی ساری فضا گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب گئی۔
بے چین روح سید لولاک ہوگئی
تیغوں سے مصطفی کی قبا چاک ہو گئی