ستم طراز نگاہوں کا مدعا سمجھوں
شکستہ دل تیری قیمت کو اور کیا سمجھوں
ہر ایک ذرہ ہے طالب وفا کے سجدوں کا
کسے کسے رہِ عرفان میں خدا سمجھوں
ان آنسوؤں کی کہ جن سے نئی ہے عزت غم
میں کیسے زینت دامان مدعا سمجھوں
وہ ابتدائے ازل ہو کہ انتہائے ابد
یہ سب قریب لحن ہے اس کو کیا سمجھوں
ذرا سی ٹھیس سے ایک شور حشر اٹھتا ہے
دل غریب کو کیوں ساز بے صدا سمجھوں
کمال فہم و بصیرت یہ حکم دیتا ہے
کہ دہر عشق میں رہزن کو رہنما سمجھوں
لکھا ہو جن کے مقدر میں آپ کا دامن
ان آنسوؤں کو میں کیسے نہ بے بہا سمجھوں
بتا رہا ہے فریب خوشی کے میں نیر
غم فراق کو جینے کا آسر سمجھو
sitam taraz nigahon ka maddua samjhoon
غزل : حضور ببن میاں علامہ نیر مکنپوری