دل ہے شرمندۂ احسان تمہارا کیسا
اس کو اور تم سے عنایت کا سہارا کیسا
مصلحت سے چمن غیر کو اپنایا ہے
ورنہ بیگانہ بہاروں کا سہارا کیسا
غم کے افسانے میں کچھ بات نہیں ہے تو پھر
تذکرہ غیر کی محفل میں ہمارا کیسا
دل سے اے نگہہ یار نہیں ربط تیرا
تو یہ ہر لمحہ تڑپنے کا اشارہ کیسا
اجنبیت سی جو پاتا ہوں تڑپ جاتا ہوں
التفات اور بانداز کنارہ کیسا
دیکھنا آنکھ سے آنسو میری ٹپکا تو نہیں
یہ شب ہجر کے دامن میں ستارہ کیسا
جو پہر سکتے ہیں طوفانوں میں انکو نیر
کیسے منجھدار بھنور کیسے کنارا کیسا
dil hai sharminad e ihsan tumhara kaisa
غزل : حضور ببن میاں علامہ نیر مکنپوری