نہ جانے کس قیامت کا نظارہ ہے مدینے میں
گریبان نظر بھی پارہ پارہ ہے مدینے میں
کلیم اللہ جس کی جستجو میں طور تک پہنچے
وہی حسن الٰہی آشکارا ہے مدینے میں
الگ ہٹ فکرِ دنیا مجھ سے دامن چھوڑ دے میرا
کہ مجھ کو میرے آقا نے پکارا ہے مدینے میں
وہیں جا کر رکے گی کشتئ عمرِ رواں میری
مصیبت کے سمندر کا کنارا ہے مدینے میں
جہاں کے جبر سے مجبور ہو کر مضطرب رہ کر
یہاں ہم ہیں تو کیا دل تو ہمارا ہے مدینے میں
” ادیب” اس کو حیات عارضی کا ماحصل کہیے
وه لمحہ زندگی کا جو گزارا ہے مدینے میں
_______________
ساری دنیا نے دیا کیا ہمیں نفرت کے سوا
صرف طیبہ ہے جہاں کچھ نہیں الفت کے سوا
قہر خالق کو کرم سے جو بدل سکتا ہے
ایسا کوئی بھی نہیں شاہ شفاعت کے سوا
منھ چھپائیں گے گنہگار کہاں حشر کے دن
حق کے محبوب ترے دامن رحمت کے سوا
امن عالم کی نئی راہ دکھانے والا
کس کا پیغام ہے پیغام رسالت کے سوا
منکر و ! مان لو سر کار کی عظمت ورنہ
کچھ نہ ہاتھ آئے گا محشر میں ندامت کے سوا
دیدۂ شوق کو دنیا ہو کہ سیر جنت
کچھ نہیں چاہئیے سرکار کی صورت کے سوا
ذات احمد سے عبارت ہے وجود کونین
سب ہیں افسانے اسی ایک حقیقت کے سوا
جائیں گے ہم سے گنہگار بھی جنت میں ادیب”
اور کیا کہئے اسے ان کی عنایت کے سوا
_______________