madaarimedia

جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے


جہاں میں نورِ رسالت مآب آتا ہے

مٹے گی ظلمت شب آفتاب آتا ہے


بشکل پیکر رحمت خدا کی جانب سے

ستم کشوں کی فغاں کا جواب آتا ہے


نئے اصول و ضوابط حیات کو دینے

جہاں میں صاحب ام الکتاب آتا ہے


اب اپنی کشتِ تمنا بھی لہلہائے گی

برسنے خشک زمیں پر سحاب آتا ہے


چلا یہ آس لئے ہوں کہ پوچھ لیں آقا

یہ کون ہے جو بحال خراب آتا ہے


میں کیسے پیش کروں اپنا نامہ اعمال

خطا شعار ہوں آقا حجاب آتا ہے


ادیب ” ختم رسل کا تھا معجزه ورنہ

جبلتوں میں کہاں انقلاب آتا ہے 

 _______________


دیار طیبہ کے جانے والے رواں دواں جب نظر ہیں آئے

 
دیار طیبہ کے جانے والے رواں دواں جب نظر ہیں آئے
خیال وحشت نے کی جماہی جنوں کے جذبات تلملائے

چلا ہے جو زائر مدینہ تو ہم سے دامن ذرا بچائے
ہوائے احساس نارسی سے چراغ امید بجھ نہ جائے

سرور و مستی کی مجھ کو نعمت جومل گئی ہے تو چھن نہ جائے
میں عشق احمد میں کھو گیا ہوں خدا کرے اب نہ ہوش آئے

سبھی حضوری کی آرزو میں نہ جانے کب سے ہیں لو لگائے
ہے قابل رشک اس کی قسمت مدینے والا جسے بلائے

ہے تیرے ہاتھوں میں میرے مالک مری تمنا کی لاج رکھنا
مدینہ جب تک پہنچ نہ جاؤں مجھے پیام اجل نہ آئے

دیار انوار سرمدی کی تجلیوں سے یہ عرض کرنا
رہیں گے کب تک ہمارے دل پر ہجوم غم کے سیاہ سائے

تڑپتے جذبوں مچلتی آہوں نے ہے رسائی کی آس پائی
کہو کہ امید جھوم اٹھے کہو تمنا سے مسکرائے

دیار طیبہ کی آرزو میں ادیب ” ہم بھی تڑپ رہے ہیں
ہمیں بھی ہے حسرت حضوری کہو کہ اللہ راس لائے

 _______________


کوئی اصحاب سرکار سے پوچھ لے رکھتی ہے کیا نظر مصطفیٰ کی نظر


کوئی اصحاب سرکار سے پوچھ لے رکھتی ہے کیا نظر مصطفیٰ کی نظر

اسکو دنیا میں دیدار خالق ہوا پڑ گئی جس پہ خیر الوریٰ کی نظر


آپ مٹ جائیں گے سارے طوفانِ غم خود اٹھائیں گے سرکار چشم کرم

ڈوب جائے کوئی پھنس کے مجدھار میں دیکھ سکتی ہے کب نا خدا کی نظر


جب جہاں سارا مثل کف دست ہے پیش چشم شفیع دو عالم تو پھر

دیکھتی ہے میری حالت زار بھی عرش پیما حبیب خدا کی نظر


منزل عشق ہو جائیں گی آپ طے ہاں مگر عشق خیر الوریٰ شرط ہے

راہرو کو بھٹکنے کا خطرہ نہیں واقف راہ ہے رہنما کی نظر


کیوں نہ چمکیں زمانے کی پھر قسمتیں کیسے برسیں نہ پھر ہر طرف رحمتیں

خود خدا ناظر روئے محبوب ہے اور خدائی پہ ہے مصطفیٰ کی نظر


سن کے میری فغان دل مبتلا جب یہ فرمائیں گے تو ہے کیا چاہتا

میں کروں گا یہی عرض سرکار سے چاہئے بس تمھاری رضا کی نظر


کھینچ کر آنکھ میں روح بیچارگی تو ادیب” آج بن پیکر بیکسی

کچھ تعجب نہیں سبز گنبد سے جو دیکھ لیں وہ تری التجا کی نظر 

 _______________


حبیب حق کا ہو جس میں ظہور کیا کہنا

 

حبیب حق کا ہو جس میں ظہور کیا کہنا
وہ ایک لمحۂ کیف و سرور کیا کہنا

دلوں کے پاس نگاہوں سے دور کیا کہنا
مرے رسول کا غیب و حضور کیا کہنا

اس ایک محور حق ہی کے گرد پھرتے ہیں
تمام عالم ظلمات و نور کیا کہنا

لب کلیم و مسیحا پہ عظمتیں ان کی
انہیں کے حق میں کلام زبور کیا کہنا

ز فرش تا بہ سر عرش کوئی محفل ہو
حضور آپ ہیں صدر الصدور کیا کہنا

تمہارے قدموں میں جنت کی کنجیاں ہونگی
تمہارا مرتبہ روز نشور کیا کہنا

در رسول پہ دونوں کو سر رنگوں پایا
جنوں کا جوش خرد کا شعور کیا کہنا

زمانہ لائے گا کیا ایسی سادگی کی مثال
چٹائی فرش ، غذا میں کھجور کیا کہنا

نگاه رحمت عالم بھی جھوم جھوم اٹھی
ترا نصیب دل نا صبور کیا کہنا

کسی کو صدق ملا اور بنا کوئی فاروق
تمہاری مرحمتوں کا وفور کیا کہنا

جمال گنبد خضرا کا کیا بیاں ہو ” ادیب”
طواف میں ہے تجلئ طور کیا کہنا

 _______________


تعبیر چاہتا ہوں یہ دیکھا ہے خواب میں

تعبیر چاہتا ہوں یہ دیکھا ہے خواب میں
حاضر ہوں بارگاہ رسالت مآب میں

آخر رسول پاک کو آہی گیا ترس
کس درجہ تھی کشش مرے حال خراب میں

کونین اس اشاره انگشت پرنثار
جس نے شگاف ڈال دیا آفتاب میں

محشر میں اک نگاہِ رسالت بجھا گئی
جتنی بھری تھی آگ دل آفتاب میں

کونین سے اندیھروں کی چادر سمٹ گئی
چمکا جو آفتاب حراء تھا حجاب میں

لائی صبا مدینے سے پیغام انبساط
میری گزارشات الم کے جواب میں

وہ رحمت تمام ہیں کیا غم تجھے ” ادیب”
کب امتی کو دیکھ سکیں گے عذاب میں

 _______________


درخشاں نور خالق کا ستارا ہے مدینے میں

 
درخشاں نور خالق کا ستارا ہے مدینے میں
ہم ایسے بے سہاروں کا سہارا ہے مدینے میں

نہ جانے کس قیامت کا نظارہ ہے مدینے میں
گریبان نظر بھی پارہ پارہ ہے مدینے میں

کلیم اللہ جس کی جستجو میں طور تک پہنچے
وہی حسن الٰہی آشکارا ہے مدینے میں

الگ ہٹ فکرِ دنیا مجھ سے دامن چھوڑ دے میرا
کہ مجھ کو میرے آقا نے پکارا ہے مدینے میں

وہیں جا کر رکے گی کشتئ عمرِ رواں میری
مصیبت کے سمندر کا کنارا ہے مدینے میں

جہاں کے جبر سے مجبور ہو کر مضطرب رہ کر
یہاں ہم ہیں تو کیا دل تو ہمارا ہے مدینے میں

” ادیب” اس کو حیات عارضی کا ماحصل کہیے
وه لمحہ زندگی کا جو گزارا ہے مدینے میں

 _______________


ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے


ربط ہو جائے جو پیدا بخدا طیبہ سے

آج بھی ملتا ہے پیغام بقا طیبہ سے


نہ ہوئے پھر کبھی غربت پہ امارت کے ستم

مٹ گیا سلسلۂ جور و جفا طیبہ سے


امن عالم کا تصور بھی نہ تھا دنیا میں

گوش مخلوق نے یہ لفظ سنا طیبہ سے


اب نہیں پاس کی ظلمت کا ٹھکانہ دل میں

شمع امید نے پائی ہے ضیا طیبہ سے


تپش دل خلش درد یقین درمان

طالب عشق کو کیا کیا نہ ملاطیبہ سے


جسم سے جان بھی ایسے نہ نکلتی ہوگی

جیسے زائر کوئی ہوتا ہے جدا طیبہ سے


کوبکو ٹھوکریں کھانے کیلئے دنیا میں

کیوں پلٹ آئی تو اے باد صبا طیبہ سے


ہاتھ اٹھے تھے کہ یہ عرش سے آواز آئی

مانگنے والے تجھے ہو گا عطا طیبہ سے


اب بھلا ہوش میں کیوں آنے لگے دیوانے

آئی ہے گیسوئے احمد کی ہوا طیبہ سے


با ادب ہو کے بنے بوذر و سلمان و بلال

بے ادب جو تھے انھیں کچھ نہ ملاطیبہ سے


آئیں آفت زدہ دامان کرم میں آئیں

ائے ادیب ” آتی ہے پیہم یہ صدا طیبہ سے 

 _______________


مدینے میں تن خاکی اگر بے جاں نہیں ہوتا


مدینے میں تن خاکی اگر بے جاں نہیں ہوتا

تو ہم پر اے اجل تیرا کوئی احسان نہیں ہوتا


ذرا لے تو چلے مشاطئ تقدیر طیبہ میں

سمجھنا تیرا مشکل گیسوئے پیچاں نہیں ہوتا


وہاں پر ناخدائی کام آتی ہے محمد کی

جہاں طوفاں سے بچنے کا کوئی امکاں نہیں ہوتا


جہاں نے آپ کو دیکھا تو جانا ذات خالق کو

نہ ہوتے آپ تو اللہ کا عرفاں نہیں ہوتا


ہمہ دم ہے تصور میں جمالِ گنبد خضری

ہمارے دل کو احساس غم ہجراں نہیں ہوتا


دکھا دے راہ طیبہ تو مری آوارہ پائی کو

کرم اتنا بھی تجھ سے گردش دوراں نہیں ہوتا


وہ دل بیکار ہے اہل محبت کی نگاہوں میں

چھپا جس دل میں ان کے عشق کا پیکاں نہیں ہوتا


کرم فرمائیاں ان کی سیاہ کاروں پہ ہیں ورنہ

کسی نا کارا شئے کا کوئی بھی خواہاں نہیں ہوتا


غریق بحر غم ہوں پھر بھی صدقے عشق احمد کے

اب احساس ہلاکت خیزئ طوفاں نہیں ہوتا


یہ درس مصطفیٰ ہے مت بہاؤ ظالمو! اس کو

لہو انسانیت کا اس قدر ارزاں نہیں ہوتا


ہم ایسا وہ بشر ہوتا تو سدرہ حد آخر تھی

بشر بن کر کبھی وہ عرش پر مہماں نہیں ہوتا


سلاسل ٹوٹ جاتے اور بکھر جاتیں سبھی کڑیاں

در سر کار کا جو سلسلہ جنباں نہیں ہوتا


دعائیں دے جمال سرور کونین کو ورنہ

حسیں اس درجہ تو اے عالمِ امکاں نہیں ہوتا


جہاں میں صرف در بار رسالت ہے جہاں جا کر

کسی کو شکوہ کوتاہی داماں نہیں ہوتا


ہنسی آتی ہے تیری جرت بیجا پہ اے ناداں
کہ نعت مصطفی کہنا ” ادیب” آساں نہیں ہوتا 

 _______________


ہے جلوہ گر جو آئینہ ہے شانِ کبریائی کا


ہے جلوہ گر جو آئینہ ہے شانِ کبریائی کا

دل ناداں یہی موقعہ ہے قسمت آزمائی کا


یقیناً قعر دوزخ میں گرا دینے کو کافی ہے

تصور بھی نبی محترم سے بے وفائی کا


یہ ہیں مجنون و ساحر ذہن بوجہلی پکار اٹھا

ملا جب کوئی بھی پہلو نہ آقا میں برائی کا


مدینہ مل گیا مقصود ہستی پالیا میں نے

مجھے اب زندگی کیا خوف تیری کج ادائی کا


نظر آنے سے پہلے نقش پائے سرور عالم

مرے مالک جبیں کو حوصلہ دے جبہ سائی کا


ضرورت پل صراط و حشر میزاں کی نہ تھی کچھ بھی

مگر مقصود تھا اظہار شان کبریائی کا


نظر ہٹتی نہیں ہے اے جمال گنبد خضری

کوئی سیکھے تو بس تجھ سے طریقہ دلربائی کا


عذاب روح کہتے ہیں کسے مجسھے کوئی پوچھے

مری آنکھوں میں ہے منظر مدینے سے جدائی کا


نہیں آسان درک آیۂ قوسین او ادنی
ادیب ” اندازہ ہو کیسے بھلا ان کی رسائی کا 

 _______________


حاصل شوق حضوری نہیں حسرت کے سوا

 
حاصل شوق حضوری نہیں حسرت کے سوا
ہم اسے کیا کہیں محرومی قسمت کے سوا


ساری دنیا نے دیا کیا ہمیں نفرت کے سوا
صرف طیبہ ہے جہاں کچھ نہیں الفت کے سوا

قہر خالق کو کرم سے جو بدل سکتا ہے
ایسا کوئی بھی نہیں شاہ شفاعت کے سوا

منھ چھپائیں گے گنہگار کہاں حشر کے دن
حق کے محبوب ترے دامن رحمت کے سوا

امن عالم کی نئی راہ دکھانے والا
کس کا پیغام ہے پیغام رسالت کے سوا

منکر و ! مان لو سر کار کی عظمت ورنہ
کچھ نہ ہاتھ آئے گا محشر میں ندامت کے سوا

دیدۂ شوق کو دنیا ہو کہ سیر جنت
کچھ نہیں چاہئیے سرکار کی صورت کے سوا

ذات احمد سے عبارت ہے وجود کونین
سب ہیں افسانے اسی ایک حقیقت کے سوا

جائیں گے ہم سے گنہگار بھی جنت میں ادیب”
اور کیا کہئے اسے ان کی عنایت کے سوا

 _______________


Top Categories