انجام میرا تھا نہ حصار خطر میں ہے
ہر امتی شفیع امم کی نظر میں ہے
مکہ چلا جو اس نے یہ جانا سفر میں ہے
طیبہ گیا تو سمجھا کہ اپنے ہی گھر میں ہے
انسانیت کو جس سے نئی زندگی ملی
پنہاں وہ درس سیرت خیر البشر میں ہے
کہد و ادب سکھائیں نگاہوں کو اہلِ دل
عکس رخ حبیب جمال قمر میں ہے
اب راہ روک لے کوئی میری یہ کیا مجال
سودائے عشق سرور کونین سر میں ہے
ان کا جمال ہو دم آخر نگاہ میں
حسرت بس ایک زندگئی مختصر میں ہے
فیضان ہے نگاہ رسالت مآب کا
وه نور حق شناس جو چشم عمر میں ہے
سن لیتے ہیں وہ دل کے دھڑکنے کی بھی صدا
کتنا اثر ادیب ” فغان سحر میں ہے
کتنا اثر ادیب ” فغان سحر میں ہے