بس مجھے کافی ہے کردار میں ارغونی ہوں
کرنا کیا جبہ و دستار میں ارغونی ہوں
شافع حشر چھپا لیں گے اسے دامن میں
جب یہ کہہ دے گا گنہگار میں ارغونی ہوں
آخرت رہتی ہے ہر لمحہ میری نظروں میں
نہیں دنیا کا طلبگار میں ارغونی ہوں
گردشیں سن کے میرا نام لرز جاتی ہیں
مجھ میں نسبت کے ہیں انوار میں ارغونی ہوں
قافلے والوں سے پوچھا تھا ہے نسبت کس سے
بول اٹھا قافلہ سالار میں ارغونی ہوں
میرے دشمن تو میرا کچھ نہیں کر پائے گا
ووگی کوشش تیری بیکار میں ارغونی ہوں
مجھ پہ ہے قطب دو عالم کا کرم اے مصباح
مجھ سے کرتے ہیں سبھی پیار میں ارغونی ہوں