madaarimedia

سیرت حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مداررضی اللہ تعالی عنہ

madaarimedia.com

حضرت سید

بدیع الدین احمد قطب المدار

زندہ شاہ مداررضی اللہ تعالی عنہ

 

فقیرنے حضرت الشاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ کی کتاب” اخبارالاخیار” شریف کے ترجمہ کے دوران حضرت زندہ شاہ مدارکے احوال پڑھے تو تجسس ہوا کہ ان کے تفصیلی حالات معلوم کئے جائیں مختلف ذرائع سے ان کی زندگی کے جو بھی گوشے سامنے آئے فقیرجمع کرتا رہا یوں ایک مستقل کتاب بن گئی جو نذرقارئین ہے ۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت زندہ شاہ مدارقدس سرہ، کے روحانی فیوض وبرکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔

آمین بحرمت سیدالانبیاء والمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

 

سرزمین ہند کی یہ خصوصیت رہی ہے 

کہ یہاں ہزارہا اولیاء اﷲ کے قدوم بابرکت نے اس گلستان کو شرف و زینت بخشا ۔ ان اولیاء اﷲمیں حضرت سید شاہ بدیع الدین احمد المقلب بہ حضرت قطب المدار ، زندہ شاہ مدار کا نام نامی بھی ہے۔

 

اسم گرامی کنیت والقاب

سید بدیع الدین احمد ہے کنیت ابوتراب ہے بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں,اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکو عبداللہ قطب المدارفردالافرادکہتے ہیں”مدارعالم,مداردوجہاں”مدارالعالمین’شمس الافلاک آپکے القابات ہیں برصغیر ہندوپاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔

 

ولادت باسعادت

آپکی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت پیر کے دن یوم عیدالفطریکم شوال المکرم سنہ دوسوبیالس ہجری(242 مطابق856)عیسوی میں عباسیہ دور حکومت میںملک شام کے شہرحلب میں محلہ جنار”میں ہوئی” صاحب عالم” سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے والدماجد کا نام نامی سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی ہے اوروالدہ ماجدہ سیدہ بی بی فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ سے مشہورہیں۔

 

آپ حسنی حسینی سید ہیں

حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔

اناحلبی بدیع الدین اسمی۔بامی وامی حسنی حسینی جدی مصطفے سلطان دارین۔محمداحمدومحمودکونین

(الکواب الدراریہ)

میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہے,ماں کیطرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوں,میرے نانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔

 

حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں آپکا شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہے کہ

آں (زندہ شاہ مدار) اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدرآں عالی قدرسیدعلی حلبی ابن سیدبہا ء الدین ابن سید ظہیر الدین ابن سیداحمد ابن سیدمحمد ابن سید اسماعیل ابن سید امام الائمہ جعفر صادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارین زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء ۔

یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیںآپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاء الدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن.سیدامام الائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداء امام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

والدہ ماجدہ کی طرف سے نسب نامہ

والدہ ماجدہ کا نام نامی فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابومحمدابن سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت سید حسن مسثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

 

پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور

آپ جب شکم مادر سے اس جہاں میں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا جس میں آپ پیدا ہوئے پیدا ہوتے ہی جبین نیاز کوخالق بے نیاز کی بارگاہ میں بہر سجدہ جھکا دیازبان حق نواسے یہ صدا بلند ہوئ۔لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ

حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت زندہ شاہ مداررضی اللہ عنہ، جب اس عالم گیتی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک صاحب لولاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطہار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئے اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی اورہاتف غیب سے ندا ہوئی ھذا ولی اللّہ ھذا ولی اللّہ کا مژدہ سنایاشاھدان بارگاہ لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے۔

 

تعلیم وتربیت

اللہ تعالی جسکو اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور اپنی محبوبیت کے لیے انتخاب فرماتا ہے اسکی تعلیم وتربیت کے لئے بھی بہترین انتظام فرماتا ہے چناچہ جب حضرت زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئے تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق والد گرامی نے آپکو بسم اللہ خوانی کے لیئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی متوفی ..276.ھ کی خدمت میں پیش کیا۔استاذ محترم نے حق استاذی ادا کیا.ابتداء تعلیم سے لیکر شریعت کے تمام علوم وفنون سے آراستہ وپیراستہ کیا جب آپکی عمر مبارک 14,سال کی ہوئی تو علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپکو مہارت تامہ حاصل ہو چکی تھی-حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت زبور انجیل,کے بھی حافظ وعالم تھے-(تذکرۃالکرام تاریخ خلفائے عرب واسلام)

حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیںکہ بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا,سیمیاکیمیااور ریمیامیں کامل دسترس رکھتے تھے-

لطائف اشرفی فارسی..ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی

بیعت وخلافت

ظاہری علوم سے فراغت کے بعد سعادت ازلیہ نے جذب دروں کو علم باطن کے حصول کہ لیے پابہ اشتیاق کردیا-جذبہ شوق نے زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہوگے-جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ اولیاء حضرت بایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں-آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا-259,,ھجری میں سلطان الاولیاء حضرت بایزید بسطامی عرف طیفور شامی قدس سرہ السامی نے صحن بیت المقدس میں نسبت,صدیقیہ,طیفوریہ,وبصریہ,طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت وخلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا-تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی معیت میں رہکر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے-ذکرواشغال اورادو وظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی تعلیم فرمائی۔

 

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال 

مرشد برحق نے مرید صادق کو عرفان حق اور مشاہدات حقیقت کا ایسا لطیف احساس اور سلیم جذبہ عطا فرمایا کہ آپ مشاہدہ ذات الہی اور ادراک صفات لا متنا ہیہ میں محو ومستغرق رہنے لگے -دوسو اکسٹھ ہجری کا سورج اپنے آٹھویں برج میں قدم رکھ چکا تھا چودہویں رات کا چاند اپنی پر شباب چاندنی سے جبین کائنات کو منور و روشن کر چکا تھاداعی اجل نے حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کے در زیست پر دستک دی اور عالم وقرب واقرب میں حضوری کا دعوت نامہ پیش کردیا یکم شعبان المعظم 261ہجری مطابق 875ء میں اس دار فانی سے عالم بالا کی طرف کوچ کر گے اناللّہ وانا الیہ راجعون

 

حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری

مرشد سے جدائی کے بعد حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپ نے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائی کہ دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپکا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور دنیا و آخرت سے مجرد ہوگے تجلیات ربانیہ کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنواء میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھو ںکے دریچے بند ہوئے تھے کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئی اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کہ ”بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت قریب آگیا ہے” گنبد خضری کے مکین رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرا انتظارفرمارہے ہیں آنکھیں کھلی تو دل کی دنیا میں مسرتوں کا طوفان برپا تھا وارفتگی شوق احساس و وجدان پہ چھاتی جلی گئی لیکن خرد نے سر گوشی کی کے اے شوق مچل ‘اے پاوں ٹہر ‘اے د ل کی تمنا خوب تڑپ آپ نے رہوار شوق کو خانہ کعبہ کی طرف موڑ دیا موسم حج شروع ہو چکا تھا فریضہ حج وزیارت ادا کیا جب جمال الہی کی تجلیوں کے فروغ سے قلب دروں کندن ہوگیا تو دل بیتاب پر مدینہ منورہ کے احساسات چھاتے چلے گئے وہ سر زمین جسکے نام کو سنکر اہل ایمان کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں وہ نورانی گلیاں جن میں جاروب کشی کے لیے آنکھیں اور پلکیں آرزو مند رہتی ہیں مسجد نبوی شریف کے وہ معطر منقش ستون جنہیں تصویروں میں دیکھ کر ہی احساس وجدان سجدہ ریز ہوجاتے ہیں وہ گنبد خضریٰ جس میں سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر ساری کائنات کو روشن کرتی ہیں اب وہاں کی حضوری رسائی اور بایابی کی دھن میں پائے شوق وارفتہ وتند رو ہوجاتا رہا ہے جوں جوں منزل مقصود قریب آرہی ہے دل ودماغ اور روح کی تمام حسیات پر ادب واحترام کارنگ غالب ہوجاتا رہا ہے مقدر کی باریاب سے در حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حضوری ہوتی ہے یہ اللہ کے حبیب صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کا آستانہ ہے یہاں خلقت کا ہجوم رہتا ہے یہاں تو شہنشاہ بھی گدا بن کے آتے ہیں یہ مقام تو فہم وادراک کی منزل سے بھی بالاتر ہے یہاں شرمساری کے جلووں میں امیدوں کا دیا جلتا ہے اضطراب کے پس پردہ چین وسکون کی ہوا چلتی ہے وہ ادھر دائیں ہاتھ کومنبر نبوت ہے اور وہ ریاض الجنۃ یہاں قدم قدم پر انوار رحمت سجدہ ریز ہیں نور ونکہت کی زمین پر چاند سورج اور ستارے دست بستہ نور کی خیرات کے لیے کھڑے ہیں دن رات کی کسی گھڑی میں ایک پل کے لیے بھی یہ جگہ خالی نہیں رہتی ہے دیوانے اور مستانے یہاں دہونی رمائے رہتے ہیں بیک وقت ستر ہزار فرشتے درودوسلام کے نغموں کے ساتھ یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں اہل محبت کا یہاں ہر دم ہجوم رہتا ہے اللہ ھو کی باز گشت فضا کو گرمائے رہتی ہے یہاں کا ایک سجدہ ہزاروں سجدوں پر بھاری ہوتا ہے حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ رسالت میں باریاب ہیں دل کی بیتابی کو قرار مل رہا ہے اضطراب شوق پر حصول تمنا کی امیدوں کا غلبہ ہورہا ہے احساسات پر سکون کی خنکی چھائی ہوئی ہے رات اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے فجر صادق اپنے اجالے کو کائنات پر بکھیر نے کی تیاری کررہا ہے کہ اسی اثنا میں رحمت ونور کے پیغامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نورانیت کے ساتھ عالم مثال میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے دلبند بدیع الدین قطب المدار کو اپنے دامن رحمت میں ڈھاپ لےتے ہیں قطرہ سمندر سے ملکر سمندر ہونے جارہا ہے ذرہ آفتا ب بن رہا ہے معا شیرخداحضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم عیاں ہوتے ہیں بارگاہ رسالت سے حکم جاری ہوتا ہے اے علی اپنے نور نظر کو روحانیت کی تربیت دےکر اور رجل کامل بناکر میرے پاس لاؤ۔

زندہ شاہ مدارکانسبت اویسیہ سے مشرف ہونا

تاجدار اقلیم ولایت نے آپکو اپنے آغوش عاطفت میں لیکر آپکے روحانیت کو صیقل فرمایا اور قلب کو متحمل بار ولایت عظمی بناکر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بشمول عواطف فرماکر خانہ نبوت میں اسلام حقیقی تلقین فرمائی اور اپنے جمال جہاں آرا سے آپکے قلب وروح کو مزین فرماکر شرف اویسیت سے ممتاز فرمایا اور ہندوستان جانے کی تاکید فرمائی۔

 

اویسی کا مطلب 

اگرچہ فقیرنے اویسی کی تحقیق اپنی تصنیف ” سلسلہ اویسیہ کے ثبوت” میں لکھ دی ہے تاہم قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے واضح کرتا جاؤں کہ !اویسیت کیا ہے ?اور اسکی شان کتنی نرالی ہے ?اسکے فہم وادراک کے لیے شاہ سمنا ن حضرت مخدوم اشراف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں تھوڑی دیر کے لیے حاضری دیتے ہیں ,آپ فرماتے ہیں کے شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ کا گفتہ کہ قومے ازاولیاء اللہ عزّوجل باشند کہ ایشاں کہ را مشائخ طریقت وکبرائے حقیقت اویسیاں نامندکہ ایشاں را درظاہر ہربہ پیری احتیاج بنود زیراکہ ایشاں راحضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم در حجرہ عنایت خود پرورش می دہند بے واسطہ غیرے چنانکہ اویس دادہ ایں عظیم مقامی بود وروش عالی ترکرااینجارسانند وایں دولت بکہ رونماید بموجب آیت کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم

(لطائف اشرفی ملفوظات حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ لطیفہ 14/واں )

 

شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں بزرگان دین مشائخ طریقت اویسی کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ عنایت میں بذات خود انکی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اسمیں کسی غیر کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کس کی یہاں تک رسائی ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب آیت کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے۔

مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین المقلب شاہمدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند وبسے مشرب عالی داشتند وبعضے علوم نوادر از ہیمیاوکیمیا وریمیا ازایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے راباشد

(لطائف اشرفی فارسی ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی )

ترجمہ۔حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بہ شاہ مدار قدس سرہ، بھی اویسی ہوئے ہیں نہایت ہی بلند مرتبہ ومشرب والے ہیں بعض نوادر علوم جیسے ہیمیا سیمیا کیمیا ریمیا انسے مشاہدہ میں آئے ہیں جو اس گروہ اولیاء میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔

(ف)فقیراویسی غفرلہ، شاداں وفرحاں ہے کہ نسبت اویسی حاصل ہے اس نسبت میں کیسے کیسے محبوبان خدا شامل ہیں ۔

 

فیضان سلسلہ مداریہ

طریقت وتصوف اور ارشاد و سلوک میں سلسلہ مداریہ ایسا آفتاب جہاں تاب ہے جسکی ضیا پاشیوں سے شرق غرب میں طریقت وتصوف کے تمام سلاسل اور ارشادو سلوک کے تمام مراکزبلاواسطہ یا باالواسطہ کسی نہ کسی طور سے صراحتًہ یاضمنًا وابستہ ہیں اور جابجااسکا اظہار بھی کیا ہے.

چونکہ سلسلہ مداریہ صرف چار,پانچ یا چھ واسطوں سے رحمت عالم آفتاب کرم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے اس لیے یہ خیر کثیرخیرالقرون اورخیرالرسل .رحمت تمام سیدالانام صلی اللہ علیہ.وسلم سے قریب تر سلسلہ ہے اور فیضان محمدیہ اور برکات احمدیہ کا بہت قریب تقسیم کار ہے اس پر مزید انعام.خاص یہ ہے کہ یہ شرف اویسیت سے بھی ممتاز ہے انہیں خصائص اور امتیازات کی وجہ سے طریقت ومعرفت کی سجادگی پر مسند نشین اہل دل اور اہل نظرنے اس سلسلہ عالیہ قدسیہ کو حاصل فرماکراپنی کامیابی اور کامرانی کی تکمیل پر مہرلگائی ہے 

اور اس برکات وحسنات سے اپنے دامن مراد کو پرکیا ہے

سلسلہ اویسیہ بھی

اس طرح سلاسل روحانیہ میں سلسلہ اویسیہ کوبھی یہ شرف حاصل ہے کہ چندواسطوں سے یہ سلسلہ سرکارکریم رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیں فقیرکی تصنیف” سلسلہ اویسیہ کا ثبوت ”

ذیل میں ان چند سلاسل اولیاء اللہ کا ذکرکرتے ہیں جنہوں نے فقیرمعلومات کے مطابق فیضان مداریت سے استفادہ کرکے اپنے منصب کمال پرمہر تصدیق ثبت کئے ہیں

 

شیخ حاجی محمد مداری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت سیدنا شیخ یٰسین جھونسوی قدس سرہ کی کتاب ”مناقب العارفین” میں ہے کہ ”حضرت شیخ حاجی محمد مداری رحمتہ اللہ علیہ دو واسطوں سے ملک العارفین حضور سیدنا شاہ بدیع الدین مدار کے خلیفہ تھے 

 

بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ

ملک العارفین صفحہ نمبر 125حضور شیخ الاسلام سیدنا خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ،(پاک پتن شریف) کو بھی سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی۔ 

الشجرات الرفاعیہ کتاب سمات الاخیار صوفیاء بہار بحر زخّار ثواقب الآثار تجلیات انوارفی شیوخ بہار مکتوبات شیخ حسین نوشتہُ توحید بحر الحقائق مقصود الطالبین زادالسالکین وغیرہ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہوجاتی ہے

 کہ سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت ہندوستان میں مروج تمام سلاسل عالیات کے مشائخ کے درمیان ہرزمانہ ہرصدی میں موجود پائی گئی ہے 

 

 سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ پر فیضان مداریت

امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی قدس اللہ سرہ العزیز کہ ذات گرامی ہندوپاک کے مسلمانوں کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے پورا عالم اسلام آپکے علم وفضل کا قائل ہے طریقت وتصوف میں آپ اعلی مدارج پر فائض تھے-آپکے مکتوبات آپکی عبقریت پر حجت ہیں-بزرگان دین کے جن سلاسل عالیات میں آپکواجازت وخلافت حاصل تھی ان میں سلسلہ عالیہ مداریہ بھی خصوصیت کے ساتھ مزکور ہے  چناچہ خزینۃ الاصفیا میں ہے کہ

حضرت شیخ مجدد اجازت وتلقین درسلاسل مثل ھم سلسلہ رفاعیہ و مداریہ کبرویہ وغیرہ وغیرہ علیحدہ علیحدہ ازشیخ عبدالاحد پدر بزرگوارخوداست

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کوسلسلہ رفاعیہ ومداریہ کبرویہ وغیرہ میں تلقین فرمانے کی اجازت وخلافت آپکے والد بزرگوارشیخ عبدالاحد قدس سرہ سے ہے

(خزینۃ الاصفیا جلد اول ص609/611)

 

حضرت غلام علی نقشبندی مجددی دہلوی علیہ الرحمہ حضور مجدد الف ثانی امام ربانی کے احوال بیعت اور حصول نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اولاً!بیعت ا.زوالد ماجدخود درخاندان عالی شان چشتیہ,نمودہ بودند واجازت وخلافت ایں خاندان یافتہ بودند بلکہ ا والد بزرگوار اجازت طریق دیگر مثلا سہروردیہ, وکبرویہ,وقادریہ,وشطاریہ,ومداریہ,ہم یافتہ بودہ اند

ترجمہ;پہلے اپنے خاندان عالیشان چشتیہ,میں اپنے والد بزرگوارسے بیعت تھے اور اس خاندان سے آپکو اجازت وخلافت حاصل تھی بلکہ والد بزرگوار سے دوسرے طرق سہروردیہ’کبرویہ’قادریہ’شطاریہ’اور سلسلہ مداریہ کی بھی اجازت وخلا فت آپکو حاصل تھی۔

درالمعارف ملفوظات حضرت غلام علی نقشبندی علیہ الرحمہ ص-123-مولف شاہ روف احمد مجددی مطبوعہ وقف الاخلاص استنبول ترکی

شجرہ مجددیہ مداریہ

حضرت امام ربانی کا شجرہ مداریہ اس طرح سے ہے”شیخ احمد فاروقی سرہندیان کو اجازت وخلافت حاصل ہوئی انکے والد بزرگوار شیخ عبدالاحد بن زین العابدین سے انکو اپنے پیرو مرشدشیخ رکن الدین سے انکو اپنے والد ماجد شیخ عبدالقدوس گنگوہی سے انکو اپنے پیرومرشد درویش محمد بن قاسم اودھی سے انکو سید بڈہن بہرائچی سے انکو اپنے والد ماجد سید اجمل بہرائچی سے انکو حضرت قطب الاقطاب سید بدیع الدین قطب المدار قدس اللہ تعالی سرہ سے۔

(تذکرہ المتقین)

 

حضرت سیداشرف جہانگیرسمنانی 

غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ النورانی ایک سفر میں آپ کے ساتھ رہے اور فیوض و برکات حاصل کئے ۔ لطائف اشرفی حصہ دوم فارسی صفحہ 64

 

حضرت مولانا ابوالفضائل محمد نظام الدین غریب یمنی لطائف اشرفی میں ایک عبارت نقل کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شاہ مدار نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کو خرقہ بھی عطا فرمایا تھا اور اس کے علاوہ بہت سے روحانی انعامات بھی فرمائے اسی لئےسلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی ان کا بے حد احترام کرتے تھے ان دونوں حضرات میں بڑی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سفر کے اختتام پر ایک دوسرے سے رخصت ہورہے تھے تو سیداشرف جہانگیر سمنانی اور حضرت شاہ مدار کی آنکھیں پرُنم تھیں۔

 

سلسلہ قادریہ برکاتیہ پرفیضان مداریت

الحمدللہ فقیرسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں حضورسیدی مفتی اعظم ہند الشاہ مصطفی رضاخا ن شہزادہ اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمدرضا خان علیہ الرحمہ والرضوان کے ذریعے داخل ہے ہمارے بزرگوں نے بالواسطہ براہ راست اور بنوع دیگر کئی کئی طریقوں سے سلسلہ عالیہ قدسیہ بدیعیہ مداریہ کا فیضان حاصل کیاہے اور سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت سے ماذون ممتاز ہوکرفخرو مباہات کا اظہار فرمایا اور اپنے بزرگوں کی سیرت وسوانح کی کتابوں میں اسکا بر ملا اعلان بھی فرمایا ہے۔

حضرت شاہ جمال الاولیاء کڑوی پر فیضان مداریت

سلسلہ مداریہ کا نعرہ دم مدار بیڑاپار

دم مدار اصل میں دمِ مدار ہے

 اضافت کے ساتھ کثرت استعمال سے دم کا زیر گرگیا دم مضاف اور مدار مضاف الیہ ہے چونکہ ترکیب اضافی میں مضاف ہی مقصود ہوتا ہے اس لئے دم مدار میں دم ہی مقصود ومراد ہے دم کئی معنوں میں مستعمل ہے مثلاً طاقت,ہمت ,حوصلہ سانس,وقت اور اصطلاح صوفیہ مداریہ میں لوگوں کے اختلاف واحوال کے وجہ سے دم مختلف ومعانی ومطالب کیلئے مستعمل ہے عوام جب کسی مصیبت ,پریشانی میں گرفتار ہوتے ہیں یاگرتے پھسلتے ٹھوکر کھاتے ہیں یادشمن سے مقابلہ ہوتا ہے اسوقت دم مدار بیڑاپار کہتے ہیں جیسے بوقت مشکل بولتے ہیں یا اللہ خیر ,یارسول اللہ.,یا علی.,یا غوث المدد,یونہی دم مدار بیڑاپار بھی کہتے ہیں جس سے ان کامطلب ہوتا ہے مدد قطب المدار کی سالکین طریقت جب طریقت وسلوک میں دم مدار کہتے ہیں تو اس سے واقف اسلام حقیقی قاسم فیضان اویسیہ حضور سید نا مدارالعالمین کی توجہ مراد ہوتی ہے جو بیک دم حجابات کو اٹھا کر عرفان کی دولت سے نواز دیاکرتے ہیں فقراء مداریہ میں جب باہم ملاقات کرتے ہیں تو ایک.دوسرے کو یوں تلقین کیاکرتے ہیں حق اللہ محمد مدارجس سے یہ تلقین مقصود ہوتی کہ

اطیعواللہ واطیعوالرسول اولی الامر منکم کے مطابق اللہ ,رسول(صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم) اور شیخ مرشد کا حق ادا کرتے رہو ,,سامعین دم مدار بیڑا پار زندہ شاہمدار یا دم پیر شاہمدار کہہ کر جواب دیتے ہیں جس سے انکی غرض ہوتی ہے کہ ہم ہم دم اتباع مدار میں مشغول ہیں اور مدار پاک کی اتباع رسول پاک(صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم) کی اطاعت ہے اور رسول اللہ(صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم) کی اطاعت در اصل خدا ہی کیا اطاعت ہے جیسا کہ حضرت مولانا عبد الباسط قنوجی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرمایا۔

ویزید بعضھم لفظ الحق بفتح القاف ویقول حق اللہ محمد مدار فتقدیر ہ ادواحق اللہ بمعرفتہ وحق محمد باطاعتہ وحق المدار بمتابعتہ .فیجب المخاطب یقولہ دم مدار زیادۃ لفظ الدم المسعملۃ فی الفارسیۃ بمعنی الساعۃ ای انا مشتغل فی کا ساعۃ ولمحۃ بحفظ متابعۃ الشیخ لان الشیخ فی قومہ کالنبی فی امۃ فمتابعۃ اطاعہ الرسول واطاعۃ الرسول معرفۃ المولی(بحوالہ تذکرہ المتقین) 

اور بعض لوگ لفظ حق کا اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں حق اللہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم) مدار پس اسکی مراد ہوتی ہے اللہ کا حق ادا کرو اسکی معرفت سے اور محمد رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم)کا حق ادا کرو انکی اطاعت سے اور مدار کا حق ادا کرو انکی متابعت سے پس مخاطب جواب دیتا ہے اس قول سے دم مدار لفظ دم کی زیادتی کے ساتھ جوفارسی میں ساعت کے معنی میں مستعمل ہے یعنی میں ہر گھڑی ہرلمحہ متابعت شیخ کی حفاظت میں مشغول ہوں اس لئے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسے ہیں جیسے اپنی امت نبی میں اور شیخ کی متابعت اطاعت رسول(صلیٰ اللہ علیہ آلہٖ وسلم) ہی ہے ا ور اطاعت رسول معرفت مولی ہے۔

الغرض اصطلاح صوفیہ میں موقعہ ومحل کے لحاظ سے دم مدارکے مختلف معانی ہیں مثلا مدار کی روشنی مدار کی پشت پناہی مدار کا فیضان ,مدار کی قربت ,مدار کی توجہ ,مدارکی نظر,مدارکی رہبری,مدارکا وسیلہ مدار کے ا نفاس وغیرہ ..اب دم مدار بیڑاپار کا مطلب واضح ہوگیا یعنی جسے مد ار کی روشنی مدارکی پشت پناہی ,مدار کا فیضان مدار کی قربت مدار کی توجہ اور مدار کی رہبری مل گئی مدارکا وسیلہ مل گیا اسکا بیڑاپار ہے اسکی پریشانیاں دور ہیں الحمد للہ ہم اہلسنت ہیں اور یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ تمام ندائیں جن میں کوئی نبی یاولی منادی ہوچاہے نعرہ یارسول اللہ ہویا نعرہ حیدری ,دم مدار بیڑا پارکا نعرہ ہو یا ندائے یاغوث دستگیر یاخواجہ غریب نواز کی دہائی سب کے سب جائزو مستحسن اورثابت بالکتاب والسنۃ ہیں انبیاکرام اولیاء عظام کو اللہ تعالی نے اختیارات وتصرفات عطافرمائے ہیں اور انہیں خلق خدا کوفیض رسانی اور حاجت برابری کاذریعہ ووسیلہ بنایا ہے۔ وہابیہ نجدیہ اس کو شرک سے تعبیرکرتے ہیں جو ان کی جہالت ہے ۔اس کی مزیدتحقیق کے لیے فقیرکی تصانیف ”ندائے یارسول ” اورشیأاًللہ کا ثبوت ”اولیاء اللہ اورمن دون اللہ میں فرق ”کا مطالعہ کریں  فقیراویسی غفرلہ

 

ہندمیں آمد اورسلسلہ فیض

حضرت زندہ شاہ مدارقدس سرہ، مکن پور شریف ضلع کانپور صوبے اتّر پردیس، ہند میں ٨١٨ ؁ھجر میں تشریف لائے۔ اور گجرات میں بھی قیام فرمایا یہیں سے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دیکھائی اور لاکھوں کو دائرہ اسلام کیا اس کے بعد مختلف شہروں میں قیام رہا اور ہرجگہ رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رہا آپ سخت ریاضت و مجاہدہ کرتے تھے عبادت اور ریاضت اور تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے آپ کے چہرے ہر ایسا نور تھا کہ جوشخص بھی ایک نظر آپ کے رخ انور کو دیکھ لیتا گرویدہ ہوجاتا تھا اکثر لوگ تو صرف آپ کے چہرے کو دیکھ کر ہی تائب ہوئے اور راہ ہدایت اختیار کی بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ کے حسن وجمال میں نورالہی کی جھلک آتی تھی جس کی وجہ سے دیکھنے والے بے اختیار کلمہ حق شروع کردیتا تھا۔ اس لئے آپ چہرے پر نقاب ڈالے رہتے تھے ۔ آپ کی محفل میں جو بھی آتا آپ کی نظر کیمیا اثر سے تائب ہوکر سچا مسلمان بن جاتا تھا آپ کے خلفاء کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ مریدین کی تعداد بے شمار ہے روحانیت میں آپ کے بلند مقام کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اکابراولیاء نے آپ کی صحبت اختیار کی اور فیض حاصل کیا ان میں غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی، قاضی حمید الدین ناگوری ،مولانا حسام الدین مانکپوری ، قطب اودھ حضرت شاہ مینا، حضرت خواجہ سید ابومحمد ارغوان ، حضرت ابوالحسن طیفوری ، سید جمال الدین جان من ، حضرت اجمل بہرائچی، قاضی محمود کنتوری، قاضی شہاب الدین دولت آبادی، سلطان ابراہیم شرقی، حضرت قاضی صدر جہاں ، حضرت محمد غزنوی، حضرت شاہ بھیکا قنوجی ( رحمہم اللہ اجمعین)اور دیگر جلیل القدر بزرگان دین کے اسمائے شامل ہیں ۔

خلفاء کرام حضرت زندہ شاہ مدار

براہ راست حضرت سید ناسید بدیع الدین احمد قطب المدار زندہ شاہ مدار کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ ہے”طبقات شاہجہانی”اور علامہ ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی کی کتاب “تذکرہ مشائخ عظام” میں تحریر ہے کہ حضرت زندہ شاہ مدار نے کافی طویل عمر پائی اس لیے آپ کے مریدین اور خلفا کا شمار غیر ممکن ہے۔

مستند کتاب بحر ذخار “تاریخ سلاطین شرقیہ وصوفیاء جونپور “وغیرہ میں حضرت مدار پاک کے بہت سارے خلفا کے حالات تحریر ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سلسلہ مداریہ انتہائی فیض رساں سلسلہ طریقت ہے اس سلسلہ کے جاری وساری ہونے پر بہت سارے علماء اہلسنت ومشائخ طریقت کی کتابیں شاہد ہیں ، ان میں سے چند کتابوںکے نام حسب ذیل ہیں”مناقب العارفین”سمات الاخیار”مردان خدا”تواریخ آئینہ تصوف ”کنزالسلاسل”گلستان مسعودیہ”رسالہ قطبیہ “مرأ ۃ مسعودی “اخبارالاخیار “مقالات طریقت”نزہتہ الخواطر”تذکرہ مشائخ بنارس”تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ”حیات اعلحضرت “الاجازت المتینہ”تاریخ مشائخ قادریہ”تذکرہ آبادانیہ “الشجرۃ الرفاعیہ” 

ان کتابوں کے علاوہ کئی درجن کتابیں آج بھی موجود ہیں جس سے سلسلہ مداریہ کی ہمہ گیریت اور اجراء کا پتہ چلتا ہے لہذا بلا شک وشبہ سلسلہ عالیہ مداریہ جاری وساری ہے۔ اس سلسلہ عالیہ سے اجلہ اولیا ئے کرام وابستہ ہیں بس کسی بھی طرح ایک سنی صحیح العقیدہ مسلمان کواس سلسلہ عالیہ کے بابت سوخت ومنقطع کی بات کہنا مناسب نہیں۔

قطب المدار کے تصرفات حیات وممات میں برابر ہیں۔

صاحب مطلع العلوم ومجمع الفنون ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت بدیع الدین قطب المدار کمالاتش درمملکت ہندوستان شہرت دارد وتصرفات آنجناب درحیات وممات برابر است۔

ترجمہ: قطب المدار کے تصرفات حیات وممات میں برابر ویکساں ہیں۔ (مطلع العلوم ومجمع الفنون )

 

وہ چار بزرگ ہیں جومثل احیاء کے تصرف کرتے ہیں

صاحب مرأۃ الاسرار شیخ عبدالرحمن چشتی فرماتے ہیں کہ مرأۃ الاسرار کی تصنیف کے بارہ سال کے بعد 1065ہجری میں زیارت حضرت پیر ودستگیر معنوی خواجہ بزرگ معین الحق والدین چشتی قدس سرہ سے دوچار ہوا حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم کو چار مرد صاحب ولایت وصاحب تصرف کے درمیان جگہ دی ہے جو قیام قیامت تک اپنی قبور میں مثل احیاء زندہ کی طرح اپنی قبر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمیشہ تمہارے ممدوومعاون رہیں گے۔

مغرب کی طرف شیخ بدیع الدین شاہ مدار رضی اللہ عنہ

مشرق کی طرف سید اشرف جہانگیر رضی اللہ عنہ

شمال میں سید سالار مسعود غازی رضی اللہ رضی اللہ عنہ

اور جنوب میں شیخ حسام الدین مانکپوری رضی اللہ عنہ

ان چارو ں کے درمیان تم ہمیشہ امن وامان میں رہوگے ۔

(بحوالہ سیرۃالاشرف جلد اول صفحہ 69مرأۃ الاسرارصفحہ 1252)

قطب المدار دنیا کے چارو ں گوشوں میں سیرفرماتاہے

امام یافعی علیہ الرحمہ الحاوی میں ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ فتاوی حدیثیہ میں فرماتے ہیں کہ 

القطب الغوث الفردالجامع جعلہ دائرافی الافاق الاربعۃ فی افق السماء وقد ستر اللہ احوالہ عن الخاصۃ والعامۃ غیرۃ الحق غیرانہ یری عالما کجاھل ابلہ کفطن تارکا اخذاقریبا بعیداسھلا عسراًامنا حذراومکانتہ من الاولیاء کالتقطۃ من الدائرۃاللتی ھی مرکز ھابہ یقع صلاح العالم ۔ 

الفتاوی الحدیثیہ صفحہ 322

ترجمہ: قطب (مدار)جوغوث وفرد کے مقام ومراتب کا جامع ومتحمل ہوتا ہے اس کواللہ تعالی دنیا کے چاروں گوشوں میں گشت کراتا ہے جیسے آسمان کے چاروں طرف ستارے چکر لگاتے ہیں اور اللہ تعالی اسکی غیرت داری میں اسکے احوال کوخاص وعام سے پوشیدہ رکھتا ہے وہ عالم ہونے کے باوجود ناخواندہ لگتا ہے وہ ذہین ہوتے ہوئے بھی کم فہم معلوم ہوتا ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر بھی کچھ دور سا لگتا ہے دردمند ہوتے ہوئے بھی تنگدل جان پڑتا ہے بے خوف ہونے کے باوجود سہما سہما محسوس ہوتا ہے اولیاء اللہ میں اسکا مقام ایسا ہے جیسے دائرہ کے مرکز نقطے کا اسی پرعالم کی درستگی کا دارومدار ہوتا ہے۔

اس عبارت سے حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کی ایک اجمالی سوانح عمری ہے تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے آفاق عالم کی سیر فرمائی ایشیا،یورپ، امریکہ ،افریقہ اور آسٹریلیا گویا کہ پوری دنیا کے اکثر مقامات پر آپکے چلہ جات آپکے خلفاء کے مزارات اور آپکے نام سے منسوب دیگر نشانیاں آپکی عظمتوں کی یادگار ہیں حق تعالی نے اپنی غیرت کی قبا میں آپکے احوال کو اتنے جتن سے مستور فرمادیا ہے۔چونکہ آپ نسبت اویسی کے بھی حامل ہیں اویسی ہوتا ہی وہ ہے جو پوشیدہ ہو اس کی تفصیل فقیرنے اپنی تصنیف ”ذکراویس” میں لکھ دی ہے ۔

ملنگ کسے کہتے ہیں؟؟؟

ہمارے معاشرہ کی لاعلمی ہے یاجہالت کہ آج ہرکڑے پہنے اوراپنی حالت کو بے حال بنانے اورلباس گندہ پہنے والے نشئی کو ملنگ کہتے ہیں ”استغفراللہ” حالانکہ ملنگ اہل تصوف کی اصطلاح ہے ولایت میں اعلیٰ منصب ہے ۔ فقیریہاں عرض کرنا چاہتا ہے ۔

لفظ ملنگ اسی “سلسلے کی اصطلاح ہے فیروز اللغات میں لکھا ہے کہ ملنگ سلسلہ مداریہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور مشاہدہ ہے کہ ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہوگا جہاں ملنگانِ پاکباز کی ڈیریاں اور ان سے منسوب نشانیاں نہ ہوں 

مزید جانکاری حاصل کرنے لئے ان کتب کا ضروربالضرور مطالعہ کریں ان شاء اللہ عزوجل علم میں اضافہ ہوگا۔

اخبارالاخیار، گلستان مسعودیہ، تذکرۃ الکرام، مرآۃ مسعودی، طبقات شاہجہانی، ناصرالسالکین، سیرالاخیار،الشجرات الرفاعیہ،تاریخ سلاطین شرقیہ وصوفیائے جونپور، اصول المقصود، بدایوں قدیم وجدید،تنویرالعین،مداراعظم، تذکرۃ المتقین، مقالات طریقت، جواہرہدایت عبدالقدیرمیاں، شاہ برکت اللہ حیات اورعلمی کارنامے،الاجازۃالمتینہ،تاریخ مداراعظم،فیضان اولیاء ،ضرب یداللہی، سعی آخر،النوروالبہافی اسانیدالحدیث،حیات اعلحضرت،تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ،تاریخ مشائخ قادریہ ،تذکرہ علماء ہند، تذکرہ اکابر علمائے اہلسنت، فضائل اہلیبیت اطہار، کلیات امدادیہ، فصول مسعودیہ، مطلوب الطالبین،تذکرۃ الفقراء ، تحفئہ چشتیہ، خم خانئہ تصوف، نصیبۃ الابرار، نقاء السلافہ، اشجارالبرکات ،بحرذخار،کشف المحجوب، مشائخ گورکھپور،مکتوبات امام ربانی، مفتاح التوراریخ، تذکرہ سیداحمد باد، فتاوی مصطفویہ،تحفظ عقائد نمبر، سوانح اعلیحضرت، معارف مثنوی، مایاجگت ہندی پتریکا، لطائف اشرفی، منہاج الطریقہ،سبع سنابل، شرح المطالب والدین مصطفی، تذکرہ علمائے بستی،معارف شارح بخاری، عوارف المعارف، بحرالمعانی، مرآۃالاسرار، منتخب العجائب، خوابوں کی بارات، مکتوبات قلمی حضورسیدالعلماء ، ماہنامہ سلسلہ مکنپور شریف، رسالہ الامداد، تاریخ پورنیہ، صحائف اشرفی، سوانح باباکمال شاہ وغیرہ۔

 

وصال مبارک

وصال سے دس دن قبل 7جمادی الاول 838 ہجری کو آپ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا !

حضرت خضر علیہ السلام کے مجھ پر احسانات ہیں وہ میرے مقام استمرار ( ہمیشگی )پر بضد ہیں کہ یہ خلعت خاص میرا ہے میں ان سے انکار نہیں کرسکتا لہذا میری عمر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے آپ نے وصال کے بعد کے حالات پر اکشافی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ، میرے خلفاء دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں ایک دور ایسا آئے گا کہ میرے دوستوں کو سخت امتحان سے گزرنا ہوگا جو بچیں گے وہ صاحب ایمان ہوں گے اور ان کی شفاعت کا وعدہ میرے نانا حضور ؐ نے کیا ہے پھر قدرت ایسے لوگ بھیجیں گے جو گمشدہ امانت کو جو بکھری پڑی ہوگی اور معدوم ہوگئی ہوگی اس کو فراہم کریں گے وہ حق پر ہوں گے وغیرہ یہ خطبہ حجت المدار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ حی المدار ، اسرار بدیع ، جمال بدیع اور متعدد کتب کی روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار چارسو چالیس خلفاء ومرید ین کی موجودگی میں خطبہ دیا تھا اور اسی روز ایک ہزار چارسو بیالیس مرید ین کو خلافت سے سرفراز کیا تھا۔

(ماہنامہ ترجمان اہلسنت جلد 12 شمارہ 10صفحہ 265)

17 جمادی الاول 838ہجری کو آپ نے مکن پور انڈیا میں وصال فرمایا ۔ انا للّہ و انا الیہ راجعون

آپکی وصیت کے مطابق آپ کی نمازجنازہ آپکے مریدوخلیفہ علامہ شیخ حسام الدین سلامتی جونپوری قدس سرہ نے پڑھائی۔

 

مزارپرانوارکی تعمیر تزئین  

مزارمقدس پر سلطان ابراھیم شرقی نے دیدہ زیب عمارت تعمیرکرواکر خراج عقیدت پیش کیا اس آستانہئ فیض رساں پرسلطان ظہیرالدین بابر جلال الدین اکبر نورالدین جہانگیر شاہجہاں اورنگ زیب عالمگیرنصیرالدین ہمایوں شیرشاہ سوری اوربہت سارے سلاطین زمانہ نے حاضرہوکرجبینِ عقیدت خم کی ہے۔

٭سلطان ابراہیم شرقی جو کہ آپ کے خلیفہ ہیں مزار شریف اور قبا مبارک او راس کے اطراف میں چہاردیواری تعمیر کرائی ۔ بادشاہ عالمگیر اورنگ زیب علیہ الرحمہ و برادر عزیز داراشکوہ میں جب کہ جنگ ہوئی تو ظفر مندی و کامیابی کے سلسلے میں اورنگ زیب نے بارگاہ مدارالعالمین میں عرضی پیش کی تھی بطفیل اولیائے مدار اورنگ زیب کا کامیابی حاصل ہوئی جس کو داراشکوہ کا وزیر نعمت خاں علی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے دوبارہ اورنگ زیب بارگاہ مدارالعالمین میں حاضر ہوئے اور ایک رباعی پیش کی۔

بیا کہ اوج کمالات را ظہور اینجا ست  

بیاکہ مرجع ہرقیصر و قصور اینجا ست

جناب اقدس شاہنشہ مدار جہاں 

بپائے دیدہ بیاؤ بیں کہ نورایجاست

ترجمہ۔

ہر اوج ہرکمال کا مظہر ہے اس جگہ ۔

 امید گاہ شاہ تونگر ہے اس جگہ 

آنکھوں کے بل جوار مدار جہاں میں آؤ ۔

 دیکھو کہ نورخالق اکبر ہے اس جگہ

اور آپ کے قبا مبارکہ کے دروازوں میں سنگ مرمر کی جالیاں نصب کرائیں اور جامع مسجد تعمیرکرائی کنوئیں بنوائے راستے درست کروائے ۔

(فضائل اہلبیت اطہار و عرفان قطب المدار صفحہ 209)

 

عمرمبارک

حضرت قطب مدارسرکارزندہ شاہ مدارنے چھ سو سال سے زائد عمر پائی لاکھوں خلفاء اور بے شمار مریدین چھوڑے مزارمبارک نواح قنوج میں موضع مکن پور ہے۔

ہر سال آپ کا عرس ١٧ جمادی الا ُ ولیٰ (اسلامی کیلنڈر کے مطابق)مدار کے چاند میں ہوتا ہے۔

 

قطب کا لغوی معنی۔

حضرت زندہ شاہ مدارقدس سرہ، ۔قظب مدار”قظب اقطاب ہیں اس لیے فقیر لفظ ”قطب ”لفظی تحقیق ضروری سمجھتا ہے لغت عرب میں قلب چکی کے کیل کو کہتے ہیں جس پر چکی گھومتی ہے۔مدارکامعنی ‘سردارقوم، زمین کی محور کا کنارہ ، ایک ستارہ کا نام بھی ہے جس سے قبلہ کا تعین کرتے ہیں۔

 

قطب کا اصطلاحی معنی

قطب اسکو کہتے ہیں جوعالم میں منظور نظرحق تعالی ہو ہر زمانہ میں اور وہ بر قلب اسرافیل علیہ السلام ہوتا ہے ۔(الدرالمنظم 50، لطائف اشرفی)

اقطاب کی برکت سے عالم محفوظ ہوتا ہے۔

حضرت شیخ اکبر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فتوحات مکیہ کے باب تین سو تراسی میں لکھتے ہیں کہ قطب کے سبب سے اللہ تعالی محفوظ رکھتا ہے کل دائرہ وجودکو عالم کون وفساد سے اور امامین کی وجہ سے عالم غیب وشہادۃ کو اور اوتاد کی وجہ سے جنوب وشمال کو اور مشرق ومغرب کواور ابدال کی وجہ سے اور ولایتوں کو محفوظ رکھتا ہے اور قطب الاقطاب سے ان سب کوکیونکہ وہ تو وہ شخص ہے جس پر سارے عالم کا امر دائر ہے۔

 

ایک قطب کے تصرف کی حد کیا ہے

سیدالاولیاء شہنشاہِ بغدادحضورسر کار غوث پاک عبدالقادر جیلانی قطب ربانی شیخ صمدانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اقطاب کے لیے سولہ عالم ہیں اور ہر عالم ان میں سے اتنا بڑا ہے جو اس عالم کے دنیا و آخرت دونوں کو محیط ہے مگر اس امر کو سوائے قطب کے کوئی نہیں جانتا ۔

 (الدرالمنظم فی مناقب غوث اعظم صفحہ 58)

 

قطب المدار کی حاکمیت

فقیر نے حضرت خواجہ غلام فریدکوریجہ (کوٹ مٹھن شریف ) کے ارشادات فریدی (قلمی )کے

 مطالعہ کے دوران قطب المدارکے متعلق دیکھا 

کہ اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب قطب المدار کے محکوم وماتحت ہوتے ہیں اور یہ بارہ اقطاب جن کا ماسبق میں ذکر ہوا وہ قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں اور اب بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں انکو قطب ولایت کہتے ہیں قطب عالم یعنی قطب مدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض تمام اولیاء پرجاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہیگا ۔ 

(مرۃ الاسرار اردو صفحہ 938)

قطب علوم اسرار کا عالم ہوتا ہے

شیخ عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر کے پینتالیسویں باب میں لکھتے ہیں کہ شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو پچپن میں لکھتے ہیں کہ قطب اپنی قطبیت میں قائم نہیں رہ سکتا تاوقتیکہ اسکو ان حروف مقطعات کے معانی معلوم نہ ہوں جو اوائل سور قرآنی میں ہوتے ہیں۔ (بحوالہ الدرالمنظم)

شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو ستر میں لکھتے ہیں کے قطب کا نام ہر زمانہ میں عبداللہ اور عبدالجامع ہے اور اسکی تعریف یہ ہے کہ وہ موصوف باوصاف الہی ہو یعنی بمصداق واتصفوا بصفات اللہ وتخلقواباخلاق اللہ قطب صفات الہیہ سے متصف ہوتا ہے اور اخلاق سرمدیہ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس طور پر کے اس میں تمام معانی اسمائے الہیہ پائے جاتے ہیں ۔لطائف اشرفی (مؤلف حضور نظام یمنی رضی اللہ عنہ) میں ہےکہ قطب کہتے ہیں چند ذاتوں کو جو متفرق آبادیوں میں رہتے ہیں کیونکہ ہر ولایت میں اگر قطب نہ ہو تو آثار برکات اور ظہور حسنات اور قیام دنیاوی ممکن نہ ہو۔

 

قطب کی وراثت

شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ قطب وہ مرد کامل ہے جس نے وہ چار دینار حاصل کیے ہوں جس کا ہر دینار پچیس قیراط کا ہو اور ان سے مردان خدا کی کیفیت معلوم کی جاتی ہوں اور چار دینار سے مراد رسول انبیاء اولیاء اور مومنین ہیں اور ان سب کا وارث قطب ہوتا ہے ۔

 

قطب کی شان

شیخ اکبر فتوحات مکیہ کہ باب تین سو اکاون میں رقم طراز ہیں کہ قطب کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس حجاب میں رہتا ہے جو اسکے اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتا ہے اور حجاب مرتے دم تک نہیں اٹھتا اور جب قطب انتقال کرتا ہے تو اللہ تعالی سے جاملتا ہے۔

ہر زمانہ اور ہر ولایت کے لیے ایک قطب ہوتا ہے۔

الدرالمنظم میں ہے کہ ہرہر مقام کی حفاظت کے لئیے وہ گاؤں ہو قصبہ ایک ولی اللہ ہوتا ہے جو اس گاؤں کا قطب کہا جاتا ہے خواہ اس گاؤں میں مسلمان رہتے ہو یاکافر اگر مسلمان موجود ہیں توان کی پرورش زیر تجلی اسم ہادی ہوگی اور اگر کافر ہیں توانکی پرورش زیر تجلی اسم مضّل ہوگی اور یہ دونوں صفتیں ایک ہی ذات کی ہیں۔ 

(الدرالمنظم ص64) 

اور فصل الخطاب میں ہے کہ بقول صاحب فتوحات مکیہ ا قطاب کی کوئی انتہا نہیں ہرہرسمت میں ایک قطب ہوتا ہے جیسے قطب عبّاد ، قطب زھّاد،قطب عرفاء ، قطب متوکلان وغیرہ۔

 

اقطاب امم سابقہ

یادرکھیں کہ اقطاب سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہتا۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہردور میں قطب زماں کا ورود وظہور ہوا ہے ۔شیخ اکبر فتوحات مکیہ کے چودھویں باب میں فرماتے ہیں “امم سابقہ کے تمام اقطاب کاملین حضرت آدم علیہ السلام سے عہد مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک کل پچیس ہوئے ہیں اللہ تعالی نے مشہد قدس میں کہ جو مشاہدہ برزخیہ ہے ان سے میری ملاقات کرائی اس وقت میں شہر قرطبہ میں تھا اور وہ پچیس یہ ہیں ۔

(1)فرق( (2مداویالکلوم( 3)بکاء (4)مرتفع (5)شفاء الماضی (6)ماحق (7)عاقب (8)منجور (9)سجرالماء (10)عنصرالحیات (11)شرید (12)صائغ (13(راجع (14)طیارہ (15)سالم (16)خلیفہ (17)مقسوم (18)حی (19)راقی (20)واسع (21)بحر (22)مضف (23)ہادی (24)اصلح (25)باقی۔

وہ اقطاب جو انبیاء علیھم السلام کے قلب پر ہیں

شیخ عبدالرحمن چشتی بحوالہ فتوحات مکیہ نقل فرماتے ہیں بارہ اقطاب ایسے ہیں جو بعض انبیا ء علیھم السلام کے قلب پر ہیں جس میں پہلا قطب حضرت نوح علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ یاسین شریف ہے دوسرا قطب حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نصر اذاجاء نصراللّہ ہے چوتھا قطب حضرت عیسی علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ فتح ہے۔پانچواں قطب حضرت داؤد علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ الزلزال ہے ۔چھٹا قطب حضرت سلیمان علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ واقعہ ہے ساتواں قطب حضرت ایوب علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ بقر ہے۔آٹھواں قطب حضرت الیاس علیہ السلام کے کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ کہف نواں قطب حضرت لوط علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نمل ہے دسواں قطب حضرت ہود علیہ السلام کے قلب پرہے اسکا ورد سورہ انعام ہے گیارواں قطب حضرت صالح علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ طٰہ ہے بارہواں قطب حضرت شیث علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ ملک ہے اور قطب المدارقلب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوتا ہے اور بڑے شہر میں ہوتا ہے اسکا فیض عالم سفلی وعلوی پر برابر ہوتا ہے۔

(اردو مرآۃ الاسرار ص93شیخ عبدالرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام نوردہلی)

 

تمام اقطاب قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں

اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب کے سب قطب مدار کے محکوم وماتحت ہوتے ہیں اور یہ بارہ اقطاب بھی اور جنکا ماسبق میں ذکر ہوا قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں اور ان بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں۔ انکو قطب ولایت کہتے ہیں ۔قطب عالم یعنی قطب مدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض اقطاب ولایت پر آتاہے اور اقطاب ولایت کا فیض تمام اولیاء پر جاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہے گا 

(مرآۃ الاسرار اردو ص938شیخ عبد الرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام نور دہلی)

مراتب اقطاب

گزشتہ اوراق میں بیان ہوچکا ہے کہ ولایت کے چار مرتبے ہیں (1)صغری (2)وسطی (3)کبری (4)عظمی اور ان چاروں کے ہر مرتبے میں تین تین مقام ہیں (1)بدایت (2)وسط (3)نہایت اسی طرح اقطاب کے بھی مختلف مقامات ومراتب ہیں چناچہ سیدنا سید نصیر الدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ اپنی تصنیف ”بحرالمعانی” میں تحریر فرماتے ہیں کہ جب ولی یعنی قطب ترقی کرتا ہے تو قطب ولایت ہوجاتا ہے اور قطب ولایت ترقی کرکے قطب اقلیم اور قطب اقلیم ترقی کرکے قطب عالم ہوجاتا ہے اور قطب عالم ترقی کرکے عبدالرب کے مرتبے پر جو وزیر چپ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور قطب اقلیم ہی کو قطب ابدال بھی کہتے ہیں پھر تیسری مرتبہ یہ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور قطب الارشاد ترقی کرکے مقام فردانیت میں پہنچ جاتا ہے الغرض قطب عالم کو اختیار ہے اگر چاہے تو اقطاب کو قطبیت سے معزول کردے۔

اس عبارت سے اقطاب کے مراتب ودرجات میں ترقی صاف ظاہر ہے مزید برآں قطب زہاد ‘قطب عباد’قطب عرفا’قطب متوکلاں وغیرہ بھی اقطاب کے درجات ہیں جیسا کہ فصل الخطاب میں ہے اور حضرت مولانا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ والرضوان نفحات الانس میں حضرت احمد جام کے احوال میں لکھتے ہیں کہ وہ قطب اولیاء تھے اور قطب اولیاء تمام ربع مسکوں(پوری زمین) میں ایک ہوتا ہے جسکو قطب ولایت کہتے ہیں اور اس کو قطب جہاں اور جہاں گیر عالم بھی کہتے ہیں کیونکہ اسکے ماتحت کے کل اقسام ولایت کا قیام اسی کے وجہ سے ہوتا ہے

(نفحات الانس علامہ جامی)

اس عبارت سے ظاہر ہوا کہ قطب ولایت کو قطب اولیاء قطب جہاں اور جہاں گیر عالم کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔

 

کیا قطب عالم صاحب زماں قطب الاقطاب اور قطب المدار ایک ہی شخص کے نام ہیں؟

اسی طرح قطب عالم صاحب الزماں قطب الاقطاب قطب اکبر قطب الارشاد اور قطب المدار کے بارے میں کیا جاتا ہے کی یہ سب ایک ہی شخص کے نام والقاب ہیں چناچہ سید السادات سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں کہ قطب الارشاد قطب الاقطاب اور قطب العالم اور صاحب زماں اور قطب المدار ایک شخص کے نام ہیں جو بالاصالت عرفان کی کنجی ہے اور اقطاب کے در اصل موصل الی اللہ ہیں وہ نیابت میں قطب الاقطاب کے رہتے ہیں اور اس کو اختیار ہوتا ہے کے وہ چاہے انکو اپنی نیابت میں رکھے یا نہ رکھے۔

 (مطالب رشیدی ص267الدرالنظم فی مناقب غوث اعظم)

 

بحرالمعانی میں ہے قطب عالم ہر زمانہ میں ایک ہوتا ہے اور موجودات علوی وسفلی کا وجود اسکے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے اور بوجہ اس کے قطب عالم ہونے کے سبب چیزیں قائم ہوتی ہیں اور بارہ اقطاب اسکے سوا ہوتے ہیں اور قطب عالم کو حق تعالی سے بے واسطہ فیض پہنچتا ہے اور اسی کو قطب اکبر قطب الارشاد اور قطب الاقطاب اور قطب المدار بھی کہتے ہیں۔

(کذالک فی مرآۃ الاسرار ص91)

بحرالمعانی میں مزید یہ بھی تحریر ہے کہ علامت قطب الارشاد (قطب المدار)یہ ہیں کہ اسمیں نور تمکین نظر آئے جو سبز رنگ کا ہوتا ہے اور کبھی کبھی سرخ رنگ کا اور

وہ بے جہت تمام اطراف کو آنکھ کھولے خواہ بند کیئے ہویکساں دیکھتا ہے ۔اس نور کی حقیقت جاننا خاصہ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ہے کیونکہ آپ ہی پر اسکا پرتو پڑا ہے (انتہی کلامہ)۔

 

اسی طرح تذکرۃ العابدین میں ہے اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان تمام گروہوں میں کیا کیا مرتبہ اولیاء اللہ کا ہوتا ہے ۔دنیا کا کل کارخانہ اللہ جل وشانہ نے اولیاء کرام کی ذات سے وابستہ کیا ہے اور اس گروہ کہ بارہ اقسام ہیں۔اول ان میں قطب الاقطاب ہے جسکو قطب العالم بھی کہتے ہیں وہ ایک ہی ہوتا ہے خواہ قطب الارشاد ہو یا قطب المدار اسکے بارہ نائب یایوں کہیے کہ مدارالمہام ہوتے ہیں دوسرا غوث ہے مرتبہ اسکا قطب سے کم ہوتا ہے الخ۔ان عبارتوں سے خوب خوب معلوم ہوا کہ اقطاب کے مختلف درجات ومقامات ہیں نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ قطب اکبر قطب عالم قطب الاقطاب اور قطب الارشاد وقطب المدار ایک ہی شخص کہ نام ہیں۔ان ناموں میں سے کسی نام سے انکے اوصاف مراتب اور مقامات ومناقب بیان ہوں وہ سب قطب المدار کے اوصاف ومراتب اور مقامات ومناقب ہوں گے۔

 

سب سے بڑا قطب قطب المدار ہوتا ہے

فقیرنے تفسیر روح البیان کا اردو ترجمہ فیوض الرحمن زیر ایۃ والجبال اوتادا (پ ٣٠) میںحضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق لکھی ہے ملاحظہ ہو ۔ 

کہ ہر زمانے میں ایک قطب ہوتا ہے یہ سب سے بڑاہوتا ہے اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔قطب عالم قطب اکبر قطب الارشاد قطب مدار قطب جہاں اور جہانگیر عالم عالم علوی اورعالم سفلی میں اسی کا تصرف ہوتا ہے اور ساراعالم اسی کے فیض وبرکت سے قائم ہوتا ہے اگر قطب عالم کا وجود درمیان سے ہٹادیا جائے تو سارا عالم درہم برہم ہوکر رہے جائے قطب عالم براہِ راست اللہ تعالی سے احکام وفیض حاصل کرتا ہے اور فیوض کو اپنے ماتحت اقطاب میں تقسیم کرتا ہے وہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں سکونت رکھتا ہے بڑی عمر پاتا ہے نورخام مصطفوی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہرسمت سے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ماتحت اقطاب کے تقرر تنزل اور ترقی کے اختیار کا مالک ہوتا ہے ۔

ولی کو معزول کرنا ‘ولایت کو صلب کرنا’ولی کو مقرر کرنا’اسکے درجات میں ترقی دینا اسی کے فرائض میں ہے۔وہ ولایت شمس پر فائزہوتا ہے لیکن اسکے ماتحت اقطاب کو ولایت قمری میں جگہ ملتی ہے قطب عالم اللہ تعالی کے اسم رحمن کی تجلی کا مظہر ہوتا ہے ۔سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مظہر خاص تجلی الولایت ہیں قطب عالم سالک بھی ہوتا ہے اور اسکا مقام ترقی پزیر ہوتا ہے حتی کے وہ مقام فردانیت تک پہنچ جاتا ہے ۔یہ.مقام محبوبیت ہے رجال اللہ میں اس قطب عالم کانام عبداللہ بھی ہے ۔

(تفسیرفیوض الرحمن اردوروح البیان اردو ص 12 زیرآیت والجبال اوتادا..پ ٣٠ /)

 

قطب المدارپر مخلوق کے احوال روشن رہتے ہیں

چونکہ قطب المدار پر خلق کے احوال گردش کرتے رہتے ہیں اس لیے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے اور اس پر خلق کی حالت آشکار ہوتی ہے۔

شیخ عبدالرزاق قاشانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ القطب فی اصطلاح القوم اکمل الانسان متمکن فی مقام الفردیۃ تدور علیہ احوال الخلق 

(رسالہ ابن عابدین الشامی ص256)

 

قطب المدار ولایت کے تمام مقامات واحوال کا جامع ہوتا ہے

صاحب فتاوی شامی علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ الخلیفۃ الباطن وھوسید اھل زمنہ سمی قطبا لجمع جمیع المقامات والاحوال ودورانھاعلیہ (رسالہ ابن عابدین شامی)

خلیفہ باطن جواپنے زمانے والوں کا سردار ہوتا ہے اسی کو قطب المدار کہتے ہیں کیونکہ تمام مقامات واحوال کا وہ جامع ہوتا ہے اور تمام مقامات و مراتب اسی کے گرد گھومتے ہیں۔

 

مرتبہ قطب المدار

شیخ اکبر ابن عربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قطبیت کبری قطب الاقطاب کا مرتبہ ہے کہ جو باطن نبوت آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ مرتبہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کیلئے مخصوص ہے اس لیے کہ آپ صاحب نبوت عامہ ورسالت شاملہ میں سارے عالم کیلئے اور اکملیت کے ساتھ مخصوص ہیں توخاتمالولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا باطن خاتم النبوت پر ہوں۔

(فتوحات مکیہ فصل 31باب 198بحوالہ الدرالمنظم ص 150)

مرتبہ قطب المدار منتہائے درجہ ولایت ہے

صاحب الدرالمنظم فرماتے ہیں قطب الاقطاب وہ ہے جس کے مرتبہ سے اعلی سوائے نبوت عامہ کے اور کوئی مرتبہ نہ ہو اسی وجہ سے قطب الاقطاب صدیقوں کا سردار ہوتا ہے ( الدرالمنظم ص 50)

حضرت سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں مقام قطب الارشاد بہت رفیع المنزلت ہے جس آگے اولیاء کا مقام نہیں ۔

(الدرالمنظم60)

 

لطائف اشرفی میں شیخ اکبر رحمہ اللہ تعالی کے فرمان کو اس طرح نقل کیا ہے:

اما القطب وھو الواحد الذی موضع نظر اللہ تعالی من العالم فی کل زمان وجمیع اوان وھو علی قلب اسرافیل علیہ السلام والقطب الاقطاب باطن نبوتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلا یکون الالوارثتہ لا خنصاصہ علیہ السلام مالا کملیت فلا یکون خاتم.الولایۃ وقطب الاقطاب الا علی باطن خاتم النبوۃ

(لطائف اشرفی نقل ازفتوحات مکیہ فصل 31/باب198)

یعنی قطب.وہ ہے جو عالم میں منظور نظر الہی ہو تا ہے اور وہ ہر زمانے میں ہوتا ہے اور وہ اسرافیل علیہ السلام کے مشرب پر ہوتا ہے اور قطبیت کبری جو قطب الاقطاب (قطب المدار)کا مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ باطن نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ مرتبہ کمال صرف وارثان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ.وآلہٖ وسلم کا ہے اس لیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم النبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہو۔

 

جادوسے نجات کا عمل یہ عمل کئی حضرات سے منقول ہے

اگر کسی پر حاسد دشمن نے سحر یا جادو کر دیا ہو۔ یا کسی نے جادو یا کالے علم کی موٹھ چلائی ہو جس کی وجہ سے مسحور بیمارہو۔ یا جادو کے دیگر بد اثرات مسحور پر ہوں، سب کے لیے یہ عمل خوب کام کرتا ہے۔ مسحور پر سے جادو کے بُرے اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور سحر، جادو یا ٹونہ لوٹ کر جادو کرنے والے پر چلا جاتا ہے، منتر یہ ہے:

لوبن دھار۔ بن دھار باندھوں۔ لوہا اَگن سار۔ تاب تجاری کیا کرایا بھیجا بھیجایا باندھوں۔ دَم دَم زندہ شاہ مدار اس کا طریقہ یہ ہے کہ مسحور پر صبح و شام سات سات مرتبہ منتر پڑھ کر دم کیا جائے اور پانی پر دم کر کے پلایا بھی جائے۔ کم از کم سات یوم تک اور زیادہ سے زیادہ اکیس یوم تک ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ متاثرہ مریض صحت یاب ہو جائے گا اور جادو کرنے والے پر تمام اثرات واپس چلے جائیں گے۔ مگر ضروری ہے کہ کسی بھی چاند یا سورج گرہن میں ایک سو آٹھ مرتبہ پڑھ لیںتاکہ عمل کی قوت قابو

میں آ جائے۔

 

فقیرنے چند نشستوں میںیہ مضمون مکمل کیا ہے ادارہ ہے کہ حضرت قطب عالم زندہ شاہ مداررضی اللہ عنہ، کے تفصیلی احوال پہ کتاب لکھوں ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 افاضات حضرت فیض ملت مفسراعظم پاکستان 

حافظ مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی محدث

 بہاولپورنوراللہ مرقدہ

 

سیرت حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مداررضی اللہ تعالی عنہ

 افاضات حضرت فیض ملت مفسراعظم پاکستان 

حافظ مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی محدث

 بہاولپورنوراللہ مرقدہ

Leave a Comment

Related Post

Top Categories