خون میں ڈوبی ساری فضا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
جس کی محبت ملک ایماں کی ہے راجدھانی
ملتا ہے جس کے صدقے خلقت کو دانہ اور پانی
آج وہی کنبہ پیاسا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
پائی وراثت میں ہے غیرت کی جس نے تاجداری
اہل جہاں کی ، کی ہے جس نے ہمیشہ پردہ داری
ظلم نے چھینی اس کی ردا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
رو رو کے پڑھتے ہیں شہ لکھا ہوا ہے سندیس
کیسے جئیے گی صغری سب تو گئے ہیں پردیس میں
آنکھیں ہیں بھیگی دل ٹوٹا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
کفر کی شامیں اک سو اک سمت ایماں کے سویرے
اک سمت نور حق ہے اک سمت باطل کے اندھیرے
اک سو وفا ہے اک سو جفا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
رخصت کیا ہے اپنے بچوں کو زینب نے یہ کہہ کر
آئیں نہ واپس رن سے ہو جائیں قرباں دین حق پر
اک ماں نے مانگی کیسی دعا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
عون و محمد ہیں نہ قاسم و اصغر ہیں نہ اکبر
جنت سدھارے سب ہی عباس صفدر ہیں نہ سرور
عابد بے پر اب تنہا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
اہلِ حرم میں لوگو! ہر سمت بر پا ہیجان تھا
مہر بلب تھی دھرتی سکتے میں سارا آسمان تھا
زینب نے جس دم خطبہ دیا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
مجبوریوں کی دیکھو تصویر کیسا یہ ستم ہے
بیمار پاؤں میں ہے زنجیر کیسا یہ ستم ہے
جور و جفا کی اب انتہا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے
لگتا ہے سارا عالم آواز حق کو سن رہا ہے
“مصباح ” پیہم آتی اللہ اکبر کی صدا ہے
نیزے پہ شہ کا سر بولتا ہے
کرب و بلا ہے کرب و بلا ہے