madaarimedia

بابائے قوم و ملت کرداروعمل کے آئینہ میں

بشکریہ
سہ ماہی رہبر نور
جنوری فروری مارچ 2025

بابائے قوم و ملت کرداروعمل کے آئینہ میں

جمال سیرت قطب المدار لگتاہے
ولی تو نور کا اک آبشار لگتا ہے

عارف باللہ, ولی کامل, حکیم الامت, بابائے قوم و ملت حضرت علامہ حکیم سید محمد ولی شکوہ میاں جعفری مداری نفعناببرکاتہ
زمرئہ مومنین ، گروہ عاشقین ، جماعت صالحین ، طائفئہ اہل یقین، بزرگان دین ، اولیائے کا ملین ، میں اس عدیم المثال اور درباجمال کا نام ہے جو عکس نقوش پائے مدارالعالمین سے تابندہ تر ہوکرجواہرات تصوف میں اپنی قیمت آپ رکھتا تھا
اور آج بھی زمانہ انہیں بھیگی پلکوں کےساتھ خراج عقیدت پیش کرتاہے اس لیے کہ اپ اس درجہ کمال پر فائض تھے کہ خداوند تعالی نے اپ کو بصیرت کے ساتھ بصارت ,فہم کے ساتھ فراست, جسم کے ساتھ طہارت, تزکیہ نفس,خشیت الہی ,تقوی وپرہیزگاری, عبادت وریاضت تلاوت,اخوت ومحبت,صداقت و عدالت ,سخاوت شجاعت, رحم دلی, اخلاق, کردار ,معیار, علم و عمل ,دور اندیشی, روشن ضمیری, کا سنگم بنایا ایسا انمول گوہراور نادر روزگار بنایا نوادرات تصوف و سلوک میں تصوف کا بے مثال ہیراسلوک کا تابندہ صدف ,مصفی اور مزکی قلب کے ساتھ میدان فکر و عمل کا جری جوان بنایا وراثت میں مال و دولت ثروت و تونگری ہونے کے باوجود غربت و افلاس کو اپنایا

فاقہ کشی کی سر مستی میں زندگی گزاری والد بزرگوار
طرئہ تاج صالحین، قدوتہ الکاملین ،عمدتہ العارفین
حضرت مولانا حکیم سید محمد علی شکوہ میاں جعفری مداری رضی اللہ وارضاہ عنا نے اپنے پیچھے میراث میں اتناسرمائہ چھوڑا تھا کہ اگربابائے قوم و ملت اور آپ کے چھوٹے بھائ قائد بے بدل عزت مآب سیدداراشکوہ مداری علیہ الرحمہ چاہتے تو نرم ونازک بستروں پر فرح وطرب کی بساط پر عیش و عشرت کی کروٹوں کے ساتھ لطف زندگی سے ہم آہنگ ہوتے
مگر معاملہ برعکس تھا
مولاعلی کی فاقہ مستی کا وارث, سیدہ فاطمہ کی محنت کشی کا عکس جمیل حضرت ابوزرغفاری کے توکل کا امین
حضرت عثمان غنی جیسی سخاوت کا وارث بنادیا
کہ آج بھی اہل دل اہل نظر اہل محبت کے حلقوں سے یہ صدائیں بازگشت کررہی ہیں کہ

اب خون فاطمی کی وراثت اداس ہے
ایساسخی گیا کہ سخاوت اداس ہے

لازم تو یہ تھا کہ اجداد کے ترکہ سے بچوں کی پرورش کی جاتی
مگر سیدہ فاطمہ کی وراثت نے بچوں کو بہلاکر پرورش کردیا
مفلس و نا دار لوگو ں کے گھروں کا جائزہ لےکر اپنی خدمات پہونچاتے
اورگھر میں بچوں کو بھوکا سلاتے
اپ پیشے سے حکیم تھے اس کے علاوہ مریدین اور معتقدین سے ملنے والے نذرانے پر گزر بسر کر پانا بہت مشکل تھا مگر اس کے بعد بھی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی سائل ,بھوکا, پریشان, نادرو مفلس نظر اتا تو آپ اس کی امداد فرماتے اور اپنے بچوں کو بھوکا ہی سونے دیتے ہیں
اگر کسی کی پریشانی مفلسی سن لیتے تو اپ بھی پریشان ہو جاتے اور جب تک اس کو کچھ دے نہ دیتے اپ بے قرار رہتے تھے
فاقہ مستی میں بھی تفکر اور تجسس میں منہمک رہتےژولیدہ مسائل سلجھانے میں درجہ کمال پر فائز تھے

حضور بابائے قوم وملت علیہ الرحمہ کی زندگی تبلیغ واشاعت حکمت بتعلق خدمت خلق کے ساتھ ساتھ ژولیدہ وپیچیدہ مسائل کی تلاش وجستجو میں رہ کر اپنے والد محترم ودیگر مشائخ اکرام ادام اللہ ظلھم وفیوضھم سے اکتساب فیض فرماتے ایک مرتبہ کسی سائل نے آپ سے سوال کیا کہ حضورسیادت کی پہچان کیا ہے آپ نے سائل کوتو تشفی بخش جواب دے دیا وہ مطمئن ہوکر چلابھی گیا مگر آپ ازخود اس سے مطمئین نہیں ہوئے اورتجسس میں لگ گئے مزیدغوروخوض کرنے لگے

آنے والے کی نظر برآمدہ پر پڑجاتی ہے آج وہ سرجھکائے متفکر انہ انداز میں بیٹھا ہے
سوچ و فکر میں ایسا ڈوبا جسے دنیا میں کوئ ہے ہی نہیں
تدبر علمی ، بلند خیالی ،سوچ و فکر ، تحقیق و تلاش پر جو اپنی مثال آپ تھا
لیکن آج کی انہماکی عجیب رنگ لئے تھی
آنے والے سے بھی بے خبر
آنے والے نے بڑی نرم اور شیرینی آمیز آواز سے پوچھا
ولی شکوہ کیا سوچ رہے ہو
اچانک
جیسے آنکھ کھل گئ ہو
آئیے ماموں جان
آنے والا قدرت کے حسین کرشموں میں سے ایک کرشمہ تھا
جسکی اندازو ادا بانئ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم
کی طرزو ادا سے جدا نہ تھی
زندگی کا ہر نفس ذکر الہی سے تعبیر تھا
سخت سے سخت مراحل پر مسکراکے گزر جانا آپ کی نمایاں خصوصیت تھی
آنے والے رہبر شریعت ، ،امین نسبت مداریت ، قطب زماں ،قطب العصر حکیم امت ، پاسبان چادر تطہیر ،حضرت علامہ حکیم سید ظہیر الحق صاحب قبلہ جعفری مداری علیہ الرحمہ
جو حضور بابائے قوم و ملت کے پیر تھے
(اور ممواں سسر بھی تھے )
پیکر خشیت الہی کو دیکھ کر بابائے قوم و ملت کھڑے ہوجاتے ہیں
آئیے ماموں جان
ولی شکوہ
کیا سوچ رہے ہو
کیا مسئلہ الجھ گیا ہے
عرض کیا حضور
میں سوچ رہا ہوں کہ سیادت کی پہچان کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا پرسوں مغرب کی نماز پڑھ کر ہمارے گھر آجانا
ہم بتادینگے
اب پرسوں تو بہت دور تھی
ایک اک لمحہ بے قراری لئے ہوئے تھا
خیر
حضور حکیم الملت حکیم سید ظہیر الحق صاحب قبلہ جعفری مداری علیہ الرحمہ
کچھ دیر بیٹھے
اور شریعت و طریقت کے رازہائے سربستہ کو منکشف کرکے
آپ گھر تشریف لے آئے
ادھر حضور قبلہ بابا ئے قوم و ملت تکیہ کے نیچے سے کوئ کتاب نکال.کر مطالعہ میں مشغول ہوگئے
کھانے کا وقت ہوا تو
تھوڑا کھانا
فقر حیدری سے تیار ،
کرکےلایا گیا
ایک نوالہ توڑا ہی تھا کہ
باہر سائل نے آواز دی
بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا بیٹا اٹھتا ہے
کھانا فقیر کو دے کر
دھولے ہاتھ لئے بیٹھ گیا
اب کچن میں کچھ نہیں تھا جو دیاجاتا
دوسرا دن آیا
صبح اٹھ کر بزرگوں کی محفل میں انیس محفل بن کر تزکئہ نفس ریاضت ومجاہدہ کرکے گھر واپس آئے بھوک شدت سے لگ رہی تھی پوچھا گھر میں کچھ کھانے کو ہے
اپ کی بیٹی نے کہا جی
لاؤ
دوسرے دن بھی تھوڑا کھانا میسر آیا
نوالہ توڑا ہی تھا کہ پھر سائل نے دست سوال دراز کیا
آپ نے دوسرے دن بھی کھانا سائل کودے دیا
اور خود بھوکے رہے
تیسرا دن آیا
حسب معمول کھانا لگا سائل آیا سائل کو دے دیا
اب جو فکر تھی
وہ سیادت کی پہچان کی تھی
اب تین دن ہوچکے تھے
حسب وعدہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر
حضور بابائے قوم و ملت اپنے پیر کے آستانہ پر حاضر ہوتے ہیں
زانوئے ادب طئے کرکے بیٹھ گئے
اور
پوچھا حضور سیادت کی پہچان کیا ہے ؟
آپ کے پیران پیر روشن ضمیرحضرت سید ظہیر فرماتے ہیں
ولی شکوہ
تین دن سے جو تم عمل کررہے ہو کیا یہ سیادت کی پہچان
نہیں ہے ؟
پوچھا حضور کون سا عمل
فرمایا خود نہ کھانا
سائل کو دے دینا
بابائےقوم و ملت مطمئین ہوجاتے ہیں
لیکن اس فکر نے بے چین کر دیا کہ آپ کو کیسے معلوم
فرمایا
علی کا جانشین ہوں
روشن ضمیری
پہچان ظہیری
اللہ اکبر جس پیر کا یہ مقام ہو اسکی عظمتوں کو کون سمجھ سکتا ہے
آپ اس روشن ضمیر کی مراد تھےبابائے قوم و ملت کو جس پیر نے گھر چل کر بیعت کی دعوت دی ہو
اس نے کیا کچھ نہیں دے دیا ہوگا بزرگوں سے سنا ہے کہ جس وقت حکیم الملت حضرت علامہ حکیم سید ظہیرالحق صاحب کاانتقال ہوا اس وقت حضور بابائے قوم وملت اپنے حلقئہ اراردت سرونج مدھیہ پردیش میں تھے

حالت علالت حضور بابائے قوم وملت کو یاد کیا کہ ولی شکوہ نہیں آئے بتایاگیا کہ سفر میں ہیں فرمایا نیاز کو بلاؤ
حضرت علامہ نیازاحمد نیاز صاحب علیہ الرحمہ کوبلایا گیا آپ تشریف لائے چونکہ آپ علامہ نیاز کے بھی پیر تھے تو بارامانت اٹھانے کے متحمل تھے فرمایا نیاز میرے سینے سے سینہ لگاؤ آپ حکم پاکر سینہ سے سینہ لگائے رہے علم سینہ منتقل ہوگیا توفرمایا کہ یہ امانت ہے جب ولی شکوہ آجائیں توانہیں واپس کردینا آپ کے وصال کے تیسرے روز حضور بابائے قوم وملت مکن پور شریف تشریف لے آئے حضرت علامہ نیاز مکن پوری نے آکر بابائے قوم وملت کو سینہ سے لگایا اور جوعلوم واسرار ملے تھے سب منتقل ہوگئے

یقینا
ہیرے کی قدر جوہری جانتا ہے
پیر طریقت حضرت زاہد حسین صاحب ظہیر مداری نے مجھ سے فرمایا تھا کہ بیٹا ہم 40 نوجوان
حکیم.صاحب قبلہ کے ایک ساتھ مرید ہوئے تھے ان چالیس میں سے نگاہ نوازش ولی شکوہ بھیا پر ٹھہری ان کا انتخاب کر لیا
اللہ اکبر

اپ اپنے بزرگوں کا اپنے اسلاف کا نقش حیات تھے
بلا تفریق چھوٹے بڑے سب اپ کی عزت کرتے تھے بابا کی عزت اپنے اعزا اقرباء نوجوانوں اور بچوں کے اندر اتنی تھی کہ اگر کہیں گلیوں میں بچے کھیل کود کرتے تھے اور حضور تشریف لےآتے تو بچے دیکھ کر بھاگ جاتے تھے کہ بابا ا رہے ہیں اگر لوگ گلیوں میں چبوتروں پر
دو کانوں پر ہوٹلوں میں ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوتے حضور بابا ادھر سے تشریف لاتے تو وہ لوگ ادبا کھڑے ہو جاتے تھے کہ بابا ا رہے ہیں کیا چھوٹا کیا بڑا ہر ایک اپ سے محبت کرتا تھا اور اپ بھی ہر ایک سے محبت کرتے تھے بڑوں کے سامنے سراپا نیاز چھوٹوں کے سامنے سراپا شفقت
یہی وہ ادا تھی جس نے ہر آنکھ کو بہنے پر،ہر دل کو بیٹھنے پر، ہر گھر کو
غم کدہ بنانے پر مجبور کردیا
وہ پیکر خلق تھا
بزرگوں کے سامنے سراپا عجز کے باوجود خاندانی ننہالی عزیز و اقرباء کے بڑے بزرگ لوگ بھی اپ کو بھیا کہتے تھے
چھوٹوں پر مجسمئہ شفقت تھے تبھی یہ عالم تھاکہ ہر چھوٹا اپ کو بابا کہتا تھا
اللہ کے ذکر سے تڑپ جاتے تھے
ہجر رسول کے باوجود وصل رسول لمحات سے جگمگا جاتے اور کہہ اٹھتے

یہ سائہ خضری میں احساس کا عالم ہے
لپٹے ہوں ولی جیسے جلووں کی رداؤں میں

مؤذن کی صدائیں جسکے ہنگامئہ حیات پر غالب آجائیں
تہجد کی نماز نرم وگرم لحاف کو پھنکوادے
اہتمام رمضان اس درجہ حسین
پندرہ بیس روزہ دار اس کے دسترخوان پر پورے ماہ افطارکریں
پھر طرئہ امتیاز دیکھیں
خود افطار کااہتمام اپنے ہاتھوں سے کرتے
جھوٹ بولنادرکنارجھوٹ سننا بھی پسند نہ کرتےتھے
مہمان نوازی اس درجہ کے سب کچھ لٹا دیتے
مہمان کی تکلیف و اذیت جس پر گراں بار نہ ہو
دشمنوں کی ایذارسانی کا خوش طبعی سے خیرمقدم کرکے پکار اٹھے

برتاؤ زمانے میں کوئ کرے جیسے
ہے کام ولی اپناہراک کودعادینا

دوستوں کی بےوفائ پر بااجازت کہہ دے

میرے آنسوؤں پہ ہنسو ہنسو تمہیں کون روکے گا دوستو
مجھے چھوڑو غیروں کا ساتھ دو تمہیں کون روکے گا دوستو

اس ولی شکوہ کا ثانی
اس ولی شکوہ کا مماثل اس ولی شکوہ کی نظیر اہل نظر و بصارت نے نہ دیکھی ہوگی
اورنہ دیکھیں گے
آج بھی جس کے چال و چلن سے آواز آتی ہے

ڈھونڈوگے گر قریوقریو ملنے کو نہیں وہ نایاب ہیں ہم
تعبیر ہوجسکی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ان کے وصال پر ایسی صف ماتم بچھی کہ

شہر میں جو ہے سوگوارہے آج
چشم اعدابھی اشکبارہے آج
نازش خلق کا محل نہ رہا
رحلت فخرروزگارہے آج

وہ پیکر خشیت و تقوی جسکی خاموش چالیس سالہ تہجد کا راز فاش ہوا وہ حضور بابائے قوم و ملت حکیم الامت حضرت علامہ مولانا حکیم سید محمد ولی شکوہ میاں جعفری مداری علیہ الرحمہ تھے
جس مرید کے ذریعہ راز فاش ہوا وہ حضرت ہاشم علی صاحب مداری علیہ الرحمہ نقیب آستانئہ عالیہ مداریہ تھے
جس بہن پر راز موت منکشف کردیا
وہ راقم السطور کی والدہ محترمہ مخدومہ عفت مآب سیدہ ساحر النساء جعفری مداری دام ظلہا علینا ہیں
اس واقعہ کےگواہ
حضرت علامہ مولانا سید مقتدا حسین صاحب مداری محقق عصرسید منور علی صاحب مداری ، حسان الہند،علامہ مولانا سید مصباح المراد صاحب صوفی با صفا سید اختر حسنین صاحب، حکیم سید ظفر الاسلام صاحب راز، میری والدہ محترمہ سیدہ ساحرالنساء خود فقیر مداری سید ازبر علی آپ کے شہزادگان گھر خاندان کے سبھی حضرات بستی والے اللہ سب کو سلامت رکھے سینکروں لوگ موجود ہیں
یہ تقوی تھا یہ عبادت تھی حضور بابائے قوم و ملت علیہ الرحمہ کی

اللہ اور اس کے رسول کی رضا میں اس قدر ڈھلے ہوئے تھے کہ اپ کا ہر عمل اللہ رب العالمین کو محبوب تھا اور یہ اسی کا صلہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی مخلوق بھی اپ کی مطیع اور فرمانبردار محسوس ہوتی تھی ایک مرتبہ کی بات ہے
سورج کی گرم گرم کرنوں سے زمین کے رخسار سرخ ہوچکے تھے
فضاپر لو لپٹ اس درجہ اثرانداز تھی کہ دیواروں کے سائے میں پرندے زبانیں کھولے پیاس سے بےجان تھے
ہرے بھرے چمنستان بھی اجڑے ہوئے صحرا سے کم نہیں تھے
مئ کا آخری ہفتہ سن 1995 کی دوپہر تھی
حسب عادت آج وہ قیلولہ کرنے چلا
نورانی بدن سے صدری اور کرتہ اتارا ہی تھا کہ حی علی الصلوتہ کی صدائے جانفزانےکانوں میں رس گھول دیا
مشتاق سجدئہ بارگاہ الہی کو اب کہاں جراءت جو ایک لمحہ بھی ٹھہر سکے سجدوں کی تڑپ نے بے چین کردیا لمبے لمبے قدموں سے آگے بڑھے
گویا اب نہ دھوپ ہے نہ دوپہر ہے
گھر سے چند قدم کے فاصلہ پر مسجد ہے
مسجد میں انکی رونقوں کی چمک آج بھی موجود ہے لگتاہے کہ جیسے ابھی ابھی گئے ہوں
انکی محفلوں کی شمع فروزاں کا اجالا آج بھی بکھراہے جسکی روشنی سے مجھ جیسوں کو اکتساب ہورہا ہے
آنے والے قدسی النفس پر میری نظر پڑی سلام مسنون کے بعدآداب شرعیہ بجالا یا
مسجد کے صحن میں ایک کنواں تھا (جو اب نہیں ہے)
کنوئیں میں ڈول ڈال کر میں نےجلدی جلدی پانی بھرااور خدمت اقدس میں پیش کیا دعاؤں کیلئے پتلی پتلی پنکھڑیاں ایک دوسرے سے جداہوئیں اور موتی بکھرنے لگے جو میرے لئے برکتوں کا سبب بنے مسجد میں قدرےٹھنڈا تھا ٹھنڈک کی وجہ سے مکھیاں بہت تھیں
جن کی اچھل کود نزاکتوں سے اٹکھیلیاں کر رہی تھی بلکہ ان کاوجود نماز کے ،خضوع و خشوع کا قاتل تھا
جب اس پیکر رعنائ نے اندر قدم رکھا اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے مسجد کی خاموشی اوراس کے سناٹوں کا تسلسل بکھرتے دیکھا تو آپ یوں لب کشا ہوئے ’’ جاوبھائ کہیں اور جاکے تسبیح پڑھو ہم لوگوں کو نماز پڑھنا ہے “
واللہ یہ جملے نکلے ہی تھے کہ مکھیاں اڑگئیں

بخدا !
جب سے آج تک اتنی کثرت سے مکھیاں اس مسجد میں نہیں دیکھیں
یہ کرامت میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے ماموں صاحب
سیدی مرشد ی حکیم الامت بابائے قوم و ملت علامہ مولانا حکیم سید محمد ولی شکوہ صاحب قبلہ جعفری مداری رضی اللہ عنہ کی دیکھی
آج بھی میری نگاہوں میں یہ منظر بساہے
میرے علاوہ اور بھی لوگ موجود ہیں جنہوں نے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا
اور میں اپنے محسن اور کرم فرما آقائ مولائ مرشد ی سیدی بابائے قوم و ملت علامہ حکیم سید محمد ولی شکوہ جعفری مداری علیہ الرحمہ
کی ہر اس ادا کو آنکھوں میں محفوظ کئے ہوں جسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے

جسکی ہراک سانس پر ہو تیرا احساں
وہ بھلا کیسے تجھے بھول جائے


Syed Azbar Ali
Hazrat Maulana Hakeem Hafiz Syed Azbar Ali Arghooni Jafari Madaari Makanpur Sharif U.p

Leave a Comment

Related Post

Top Categories