والدہء ماجدہ فاطمتہ بنت عمرو بن عائذ قبیلہ بنو مخزوم کی شہزادی تھیں
برادران آپ کے سگے دو بھائی حضرت زبیر اور حضرت عبداللہ تھے
خواہران سگی 5 بہنیں تھیں
آپ کے والد مکرم معظم حضرت سیدناعبدالمطلب کی چھ شادیاں ہوئ تھیں جن میں سے12بیٹے اور6بیٹیاں پیداہوئیں
نکاح حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے دو نکاح ہوئے
پہلی زوجہ محترمہ کا اسم با عصمت فاطمتہ بنت اسد رضی اللہ عنھا ہے آپ سابقون الاولون اور مبشرہ باالجنتہ اور حبشہ کی ہجرت میں مولاعلی المرتضی علیہ السلام کے ہمراہ پیدل ہجرت فرمانے والی پہلی خاتون اسلام ہیں جنھیں ان کی عزت و شرافت اور منفرد مقام بزرگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ماں فرمایا اور ان کو کفن کیلئے اپنا کرتہ عنایت فرمایا آپ انکی قبر مبارک میں لیٹے
اولاد امجاد
چار بیٹے طالب،عقیل،جعفرطیار،اور مولاعلی رضی اللہ عنھم
شہزادیاں
دوسری زوجہ محترمہ سے تین بیٹیاں ام ہانی،جمانہ،اسماء جنھیں رہط بنت ابوطالب بھی کہا جاتا ہے پیدا ہوئیں
پیشہ
حضور ابوطالب پیشے سے شہر مکہ کے بڑے تاجر وں میں شمار کئے جاتےتھے
کفالت رسالت
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپ کی عمر شریف آٹھ سال تھی بس 8سال کی عمر سے کفیل و ناصر ومحافظت فرماتے رہے اور42سال تک حمایت و نصرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مقدس زندگی کے نقوش تاریخ اسلام کی قرطاس پر سنہرے حروف میں لکھے
ایمان حضرت ابوطالب
یوں تو حامئ نبوت ناصر رسالت، محسن اسلام خواجہء بطحا متولئ کعبہ حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ایمان وعدم ایمان نیز سکوت بر کفروایمان پر شروع ہی سے امت تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے
ہاں!
اس پر مناظرہ مباحثہ اور باہم کشیدگیوں کا سلسلہ نہیں چلا مگر دور حاضر میں کفر حضرت سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ پر اس قدر زور دیا جا رہا ہے اور کافر کافر کی اتنی رٹ لگائی جا رہی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی تنظیم کا منشور ہو اور وہ صرف اس وجہ سے اس موقف پر قائم ہے کہ آپ یعنی محسن اسلام سیدنا ابوطالب حضور مولائے کائنات امیر المومنین سیدنا علی مرتضٰی علیہ السلام کے والد مکرم ومعظم ہیں بس!!
کیونکہ دیکھا جا رہا ہے کہ علی کا والد ہونا ہی قیامت نہیں بلکہ علی والا ہونا بھی لوگوں کے نزدیک جرم عظیم ہے
جوتاریخ اہلبیت علیھم السلام کے خون سے لکھی گئی ہو دارورسن کے پھندوں سے بندھی ہوئ ہو اس تاریخ کی انتہا بھی ایسی ہی سازشوں پر ہوگی لیکن یہ جان لیں
ہردور میں اٹھتے ہیں یزیدی فتنے
ہردور میں شبیر جنم لیتے ہیں
عزیزان ملت اسلامیہ سب جانتے ہیں کہ ہر زمانے میں ناصبی اور خارجی اہلسنت کی روح وجان میں مہلک ایمان جراثیم چھوڑتے رہے ہیں جس سے خود اہلسنت باہم دست و گریبان ہوتے رہے ہیں اور آج کا یہ واقعہ آخری بھی نہیں کہا جاسکتا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہےکیا
ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں _ مثلاً
محرم الحرام کا مقدس مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہوتا ہے حسینیت سے سرشار فرزندان اہلسنت شہر ، شہر، گاؤں گاؤں، نگر، نگر، ڈگر، ڈگر اپنے مرکز عقیدت پر آنسووں سے بھیگی ساعتیں ،غم و الم میں مبتلا شب و روز ، کرب حسینی سے تڑپتے ، مچلتے صبح و شام ، کیساتھ تعزئیے۔ ،علم، لنگر، مجالس حسینی ، پوری شان وشوکت کے ساتھ منعقد کرکے اپنے عشق حسینی اور انسیت و محبت اہلبیت کا سچا پکا ثبوت دینے کیلئے موجودہ یزیدیت کا سر کچلنے کیلئے ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں
اٹھاؤ سبط پیمبر کا تعزیہ لوگو
یہی نجات کا سیدھا ہے راستہ لوگو
توہماری ہر حسینی آہ و کراہ پر جو ایک خاص ذہنیت کے لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں انگڑائ لیکر بیدار ہوجاتے ہیں اور حرام حرام کی ہلدی بانٹنے لگتے ہیں مفتیوں کے سوکھے قلم دان روشنائ اگلنے لگتے ہیں نام نہاد علماء کی گونگی زبانوں میں بولنے کا مادہ رسیانے لگتا ہے غنڈوں کی لاٹھیوں پر تیل کا خرچہ بڑھنے لگتا اور یہ سب تیاریاں محبان اہلبیت اور کشف برداران اہلبیت کیلئے ہوتی ہیں لیکن حسینی جیالے نہ فتووں سے ڈرتے ہیں نہ لاٹھیوں کی ضرب ان کا کچھ بگاڑسگتی ہے بلکہ میدان عمل میں اعلان کرتے ہیں
دیکھنا ہےزور کتنا بازوئے قاتل میں یے
کیا سنیت ان سب باتوں سے بے خبر ہے؟
نہیں ہرگز نہیں! وہ جانتی ہے کہ یزید کے ایمان پر شور خطابات سے کان پھوڑے جارہے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے مولوی بالشت بالشت بھر کے مسند نشین نام نہاد علماء چندہ بٹور تحریکیں، اور کچھ سنیت کا ٹائٹل لگاکر خارجیت کا کام کرنے والے کہیں یزید کے ایمان پر ساری قوتیں صرف کررہے ہیں
کہیں قتل امام علیہ السلام سے یزید کو بری کررہے ہیں _
ائمہء اہلبیت کے ناموں کے ساتھ “علیہ السلام” پر عدم جواز کے فتوے
تعزیہ داری کے خلاف فتوے
غم حسین منانے پر فتوے
کبھی بے خطا بے گناہ کا نعرہ لگاکر معاذاللہ مولی علی المرتضی علیہ السلام کو خطاوار کہنے کی کوشش
کبھی سیدہء کونین مخدومہء دارین سلام اللہ علیھا کو خطاوار ٹھہرایا جارہا ہے _
موسم ایسا بن گیا ہے کہ
ادیب ہو نہ بپا کربلا کہ پھرکچھ لوگ
حسینیت سے ہیں الجھے یزید ہی کی طرح
ایسا لگتا ہے کہ یہ سب سوچی سمجھی اسکیم اور منظم پلاننگ ہے جس نے حب آل مصطفی علیھم السلام کو دلوں سے نکالنے کیلئے محبین اہلبیت علیھم السلام کو رافضی اور شیعہ کا نام دینا شروع کردیا تاکہ لوگ سرمایۂ ایمان حب اہلبیت نبی ﷺ کو دلوں سے نکالدیں کفرابوطالب پر زور دینا بھی کیا اسی سلسلہ کی ایک کڑی معلوم نہیں ہوتا ہے؟ تاکہ اہلسنت اس عظیم محسن اسلام کو کافرہی جانیں اور اس ذات کے ایمان کا انکار کریں جس نے اعلان نبوت سے پہلے ہی توحید خداوندی کااعلان اور نبوت محمدی ﷺکااقرار اپنے ایمان کی دلیل میں حرم کعبہ میں فصیل کعبہ کے سائے میں آغوش تربیت میں اپنے بھتیجہ رحمت للعالمین ﷺ کو اٹھاکر فرمایا تھا
وابیض یستقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتمی عصمتہ الارمل
دوسری جگہ فرمایا
وشق لہ من اسمہ لیجلہ
فذوالعرش محمود ھذا محمد
جس ذات کے کفر پر فلک شگاف نعرے ہیں ذرا پوچھو اس سرکار ابوطالب سے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر مکہ والوں کے تین سالہ سوشل بائیکاٹ اور شعب ابی طالب میں محصور ی کے دن اس انداز میں گزارے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے پیارے بھتیجے جناب سید کائنات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر تبدیل فرمایا کرتے اور آپ کے بستر پہ باری باری اپنے چاروں بیٹوں کو سلاتے تاکہ کفارومشرکین مکہ پہلے مجھے اور میرے بچوں کو قتل کریں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں
جناب ابوطالب نے دیگر متعدد مبارک ہستیوں کے ساتھ تین سال شعب ابی طالب میں حالت قید و بند شدت بھوک وپیاس میں گزارے ان نیکیوں اور قربانیوں کا اجر دشمنان خاندان رسول کی طرف سےمن گھڑت و موضوع روایات کے زریعہ عجیب انداز میں دیا گیاہے زمانہ سے ایثار ابوطالب وفائے ابوطالب بھلائ گئ ہیں پوچھو حضرت ابو طالب سے وہ فرماتے ہیں میں نے ایک دن اپنے بھتیجے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنے سینہ پہ لٹاکر جسم اطہر اور زلفوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر مشک و عنبر سے زیادہ خوشبودار اور ریشم سے زیادہ نرم وملائم محسوس ہوا اور ایک عرصہ تک میں اس لمس مبارک اور خوشبو اطہر سے لطف اندوز ہوتا رہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سارا بچپن لڑکپن جوانی تو سرکار ابوطالب کی مقدس نظروں کے سامنے گزری ہے انہیں پالا مرتب کیا سنوارہ تو کیسے ممکن ہوگا کہ اسلام کے اس گلدستہ سے ابوطالب کو نوچ کر پھینک دیا جائے یقیناً اسلام کا تصور ہی سرکار ابو طالب کے بغیر ناتمام ہوگا ہے
سرکار ابو طالب علیہ السلام قحط کے دنوں میں اہل مکہ کی فرمائش پہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کندھوں پہ اٹھا کر کعبہ کی فصیل کے سائے میں غلاف کعبہ پکڑ کر سرکار کو بطور وسیلہ پیش کرکے بارش طلب کرتے ہیں اور بارش برسنا شروع ہوتی ہے جب ستم گروں نے ظلم وستم کی ٹھانی تو یہی سرکار ابوطالب کہتے ہیں او اہل مکہ اس شخص کی مخالف سے باز آؤ ،،وہ گورے چٹھے سفید نورانی مکھڑے والے جن کے روئے اقدس کو دیکھ کر بادل امنڈ آتے ہیں جو بیواؤں یتیموں اور مفلس ونادار لوگوں کی پناہ گاہ ہیں۔ سرکار ابوطالب قریش مکہ کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں تم رسول اللہ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ہماری لاشوں سے نہ گزر جاؤ ہمارے اور تمھارے درمیان اب تلواریں فیصلہ کریں گی دربار نبوت کا پہلا نعتیہ شاعر کوئ ہےتو وہ بھی حضرت ابوطالب ہیں
،حضرت ابوطالب نے اپنے بیٹے سیدنا جعفر طیار (ذوالجناحین) کو حکم دیا تھا کہ جاؤ تم بھی علی کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرو
پہلا جلسہ توحید
پہلا جلسئہ تو حید بھی سرکار ابوطالب کے کاشانہ مبارک پہ ہوا عجب تماشہ ہے کہ حضرت ابوطالب کے کان میں ہونے والی سرگوشی تو سب نے سن لیا مگر حریم نبوت کی رکھوالی میں سربکف رہنا کسی کو یاد نہیں رہا بلکہ اسے چھپانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئ طالبین امارت وسیاست نے جب سمجھ لیا کہ میرے بازؤں میں اتنی طاقت نہیں کہ میں آبائے علی مرتضیٰ کے برابر اپنے آباء کو لاسکوں تو انہوں نے چال چلی اور عم رسول اور آبائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان پہ سوالات واشکالات کوجنم دیا اور یوں کھل کر منافقت وسیاست نے اپنا مکروہ منافقانہ چہرہ بے نقاب کردیا اسی خفیف چال کو سمجھتے سمجھتے بہت سے محققین ڈگمگا گئے اور کفر ابی طالب کے دلدل میں پھنس گئے خدارا ہوش کے ناخن لو اور سمجھو
جو محمد کے وسیلے سے دعا کرتا تھا
جو محمد کا سدا حامی و ناصر ٹھہرا
ہوش میں آؤ مسلمانو! ذرا شرم کرو
جس نے اسلام کو پالا وہی کافر ٹھہرا
حالات یہ نہ بنیں کہ
“ادیب” ہو نہ بپا کربلا کہ پھر کچھ لوگ
حسینیت سے ہیں الجھے یزید ہی کی طرح
اس دور پرفتن میں یہ نہایت ضروری ہے کہ اہلبیت اطہار کی شان و عظمت پر کھل کر خطابات ہوں اور بصیرت افروز و متحقق مقالات اہل قلم حضرات پیش کرکے اہلسنت کے سامنے شفاف آئنہ پیش کریں