سلمان زمانے کا چلن بھول گئے ہیں
طیبہ کی محبت میں وطن بھول گئے ہیں
آقا نے کرم یوں ہے کیا فرش زمیں پر
ہم تیرے ستم چرخ کہن بھول گئی ہیں
اللہ رے کیف لب گفتار رسالت
هم مستئ صہبائے سخن بھول گئے ہیں
خضری پہ نظر پڑتے ہی طیبہ کے مسافر
کہتے ہیں کسے رنج ومحن بھول گئے ہیں
ہم دیکھ کے کیفیت صحرائے مدینہ
شادابئی گلزار و چمن بھول گئے ہیں
خار رہ طیبہ نے ہیں وہ نقش بنائے
نقاش بھی آرائشِ فن بھول گئے ہیں
اے آندھیوں لے آؤ غبارِ رہ طیبہ
ہم لانا مدینے سے کفن بھول گئے ہیں
دیکھے ہیں ادیب” آج جو ذراتِ مدینہ
ہم چاند کی ہر ایک کرن بھول گئے ہیں