مختصر سیرت قطب المدار
حضور سید نامدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کی پانچسو چھیانوے سالہ طویل حیات طیبہ کو مکمل طور سے تحریر میں لانے کی سعی محض ایک خواب ثابت ہو سکتی ہے تاہم حتی المقدور آپ کی حیات طیبہ کے چند ضروری نقاط و نقوش کو محض استوار نسبت اور نذرانہ بارگاہ مداریت کی غرض سے زینت قرطاس و قلم ضرور بنایا جا سکتا ہے، کچھ عرض و معروض سے قبل میں سب سے پہلے اپنے محبوب با وقار اور اعلی معیاری مجلہ ماہنامہ غوث العالم کے چیف ایڈیٹر شہزادہ مخدوم سمناں قائد ہند، مجد د تعلیمات اشرفیہ، مفکر اسلام، اشرف ملت حضرت علامہ مولانا الحاج الشاہ سید محمد اشرف میاں قبلہ اشرفی الجیلانی دامت برکاتہم قومی صدر آل انڈیا علماؤ مشائخ بورڈ نیز ماہنامہ کی پوری مجلس کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں جن حضرات کے جذبئہ اخلاص و ایثار و فکر خدمت مداریت نے ہم غلامان سید نامدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی ذات ملکوتی صفات سے متعلق کچھ تحریری ن کچھ ریری خدمت کا موقعہ فراہم کیا۔ فا الحمد لله على هذا
سرکار مدار پاک کی ولادت
سرکار مدار پاک کا اسم گرامی سید بدیع الدین احمد ہیے، قطب المدار زندہ شاہ مدار قطب الاقطاب زنده مدار زندہ ولی زنده پیر مدار العلمين مدار اعض راعظم مدار پاک و غیر ہم آپ کے القاب و مقامات ہیں ۔ امام الاولیا سر کا رسید نا سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہتعالی عنہ یکم شوال المکرم سن 242 ھ مطابق سن 856 ء کو دوشنبہ کے دن صبح صادق کے وقت ملک شام کے شہر حلب محلہ چنار میں پیدا ہوئے ، آپ کا مادہ تاریخ ولادت صاحب عالم ہے۔ سرکار مدار پاک نجیب الطرفین یعنی والد بزرگوار کی طرف سے حسینی اور والدہ ماجدہ کی جانب سے حسنی سید ہیں ۔
سر کار مدار پاک کا شجرہ جدید
امام الاولیا سر کا رسید بدیع الدین احمد علی حلبی ابن قاضی سید قدوة الدین علی حلبی ابن سید بہاؤ الدین ابن سید ظہیر الدین احمد ابن اثانی ابن سید محمد ابن سید اسمعیل ابن سید امام جعفرصا عفر صادق ابن سید اسمعیل خانی سید امام المتقین امام محمد الباقر ابن امام الساجدین امام سید محمد زین العابدین ابن سید الشهد اامام حسین شہید کر بلا ابن امام الاولیا، خلیفة الرسول امام علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم و رضوان اللہ یھم اجمعین ۔
والدہ مخدومہ کی طرف سے سرکار مدار پاک کا شجرہ نسب
امام الاتقیا حضرت سید بدیع الدین احمد ابن بی بی سیدہ فاطمہ ثانیه ( بی بی ہاجرہ ) بنت سید عبداللہ ابن سید زاہد بن سید عابدا بن سید صالح محمد ابن سید عبداللہ ابن سید ابوالقاسم محمد معروف به نفس زکیه ابن سید عبداللہ محض ابن سید حسن حسن مثنی ابن ا اما امام الصالحین سید السادات سیدنا امام حسن مجتبی ابن سید نا مولی المسلمین علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم ورضی اللہ تعالی عنھم اجمعین
آپ مادر زاد ولی ہیں آپ کی ولادت مبارکہ سے قبل آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ ثانیہ رضی اللہ تعالی عنھا نے خواب دیکھا کہ سورج آپ کے آنگن میں اتر اہوا ہے اور اس کی منور شعائیں قریب اور دور تک پورے کرۂ ارض کو روشن کیے ہوئے ہیں۔جس وقت حضور سید نا زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر شریف چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی آپ کے والد ماجد حضرت قاضی سید قدوۃ الدین علی حلبی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق آپ کو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ علامئہ کبیر حضرت مولانا سدید الدین حذیفہ شامی مرعشی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ علم وفضل میں حاضر کیا اور انھوں نے آپ کی رسم بسم اللہ خوانی ادا کراتے ہوئے آپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھایا۔ آپ کی زبان اقدس سے بسم اللہ الرحمن الرحیم ادا ہونے کے ساتھ ہی علامہ مرعشی نے آپ کی خداداد صلاحیتوں کا مشاہدہ فرمالیا اور بیساختہ پکار اٹھے ۔ ھذا ولی اللہ ھذا ولی اللہ یعنی یہ نو وارد کم سن بچہ اللہ تعالی کا ولی ہے
چودہ برس کی مختصر سی عمر میں آپ نے قرآن و تفسیر و حدیث اور دیگر علوم مروجہ میں مہارت تامہ حاصل فرمالی ۔ تذکرۃ الکرام اور لطائف اشرفی کے مطابق سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کریم کے ساتھ دیگر کتب سماویہ یعنی توریت زبور اور انجیل وغیرہ کے بھی حافظ و عالم تھے، نیز علوم نوادرہ مثلا علم کیمیا، ریمیا، سیمیا، اور ہیمیا میں بھی نابغہ روزگار تھے۔
بیعت و خلافت
علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد آپ کی روح سعید زیارت حرمین شریفین کی مشتاق ہوئی، آپ نے والدین ماجدین سے اجازت سفر حاصل کیا اور سوئے حجاز روانہ ہو گئے۔ دوران سفر آپ کو بیت المقدس کی زیارت کا شوق پیدا ہوا اور آپ نے سمت سفر کو کو بیت القدس کی طرف موڑ دیا۔ 259ھ میں سرکار مدار پاک جب بیت المقدس پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ بیت المقدس کی مقدس سیڑھیوں پر اپنے وقت کے امام الاولیاء، سرخیل اتقیاء، سلطان العارفین سرکا رسید نا بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کا انتظار فرمارہے ہیں، جب آپ قریب ہوئے تو سلام عرض کیا، انھوں نے جواب دیا اور آپ کو بیت المقدس کے صحن میں لے گئے اور اپنی نسبتوں سے نوازتے ہوئے آپ کو بیعت فرمایا، نیز نسبت بصریہ صدیقیہ طیفور یہ میں اجازت و خلافت سے سرفرازی بھی عطا کی ۔
کافی دنوں تک خدمت مرشد میں رہ کر علم و عرفان کی نعمتیں حاصل کیں ریاضات و مجاہدات کیے اوراد و اشغال میں مصروف رہیے اور عرفان حقیقی و معرفت ربانی کی اعلی منزل پر فائز المرام ہوئے حضرت سید نا بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر نوادرات سے نوازتے ہوئے آپ کو شغل جبس دم اور ذکر دوام کی بھی تعلیم عطا فرمائی ۔ سن 259 ھ تا سن 261 ھ سرکار مدار پاک اپنے مرشد با وقار سلطان العارفین حضرت سید نا سر کار بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت اقدس میں موجود رہیے اور مشاہدات حقانیہ اور معرفت الہیہ کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے سن 261ھ میں مرشد باوقار حضرت سلطان العارفین سرکار بایزید بسطامی کی وفات کے بعد سرکار مدار پاک نے مکمل گوشه نشینی اختیار فرمالی اور خانہ دل کو معبود حقیقی کی پر نور یادوں سے ایسا بسا لیا کہ آپ کا قلب اقدس دنیائما اور مافیھا سے بالکل پاک صاف مز کی اور مصفی ہو گیا اور مشاہدات تجلیات ربانی آپ کا محبوب مشغلہ اور حاصل حیات بن گئے ۔ اسی اثنا آپ ایک شب زیارت جد کریم حضور خاتم الانبیا و المرسلین جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مشرف ہوئے اور حکم ہوا کہ اے بدیع الدین تمہاری منزل مقصود قریب آچکی ہے، اٹھو مک معظمہ اور مدینہ طیبہ کی طرف چل پڑو ۔ خواب سے بیدار ہوئے ، جھوم اٹھے، رخت سفر باندھا اور جانب حرمین طیبین روانہ ہو گئے، مکۃ المکرمہ پہونچے ، طواف کعبہ کا شرف حاصل فرمایا، بے شمار اولیائے کرام سے ملاقات ہوئی اور پھر حج بیت اللہ شریف کے بعد زیارت روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے سوئے بطحا روانہ ہو گئے ۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق جب سرکار مدار پاک مدینة الرسول پہنچے اور رات کو سوئے تو خواب میں زیارت رسول کریم علیہ الصلوة والتسليم سے مشرف ہوئے اور ساتھ ہی مولائے کائنات ، اسد اللہ الغالب، امام المشارق والمغارب، حلال المشكلات والنوائب، دفاع المعضلات والمصائب ، اخ الرسول، زوج القبول سيدنا ومولانا الامام امیر المؤمنين خليفة الرسول سید نا علی المرتضی مشکل کشا شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ وکرم اللہ وجھہ الکریم سے بھی شرف ملاقات حاصل فرمایا اور اسی مجلس میں رسول الثقلین فخر موجودات معلم کائنات سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مولائے کائنات کو حکم فرمایا کہ اے علی تم میرے اس فرزند سعید بدیع الدین کو تمام علوم روحانیت کا معلم بنا کر میری بارگاہ میں پیش کرو۔ چنانچہ حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بموجب آپ نے حضرت مدار پاک کو شرف تلمذ سے سرفراز فرماتے ہوئے تمام علوم روحانیت میں کامل واکمل بنا کر بارگاہ رسالت تاب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پیش فرمایا آقائے کریم علیہ السلام نے آپ کو اپنی زیارت سے دوبارہ مشرف فرما کر نسبت اویسیہ عطا فرمائی اور تبلیغ دین متین کے لیے سرزمین ہندستان کی طرف کوچ کا حکم فرمایا۔ ایک اہم نکتہ بعض حضرات کے ذہنوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ سرکار مدار پاک کو کتب سماویہ اور علوم نو ادرہ مثلا ہیمیا ، کیمیا، ریمیا اور سیمیا وغیرہ کے حصول کی کیا ضرورت تھی؟ تو مختصرا اسکا جواب لکھتا چلوں کہ چونکہ اس وقت ہندستانی کی سرزمین کفر و شرک سے مکمل لبریز تھی می ، ، یہاں اس ملک کے باشندوں کی مختلف علاقوں میں الگ الگ زبانیں اور بولیاں تھیں، کہیں گجراتی کہیں مراٹھی، کہیں سنسکرت کہیں ملیالم ، کہیں کنڑ کہیں تیلگو کسی علاقہ میں بنگالی اور کسی علاقہ میں پنجابی اور بھوجپوری زبانیں بولی اور سمجھی جاتیں تھیں یہاں مختلف اقوام و قبائل کے لوگ رہتے اور بستے تھے، مختلف تہذیب و تمدن کے وارثین تھے۔ مسلم اور متفق علیہ امر واقعی ہے کہ اگر اپنی کوئی بات ، اپنا کوئی مزاج، کوئی تہذیب ، کوئی فکر کسی دوسرے ملک اور دوسری قوم میں پہچانا ہے، اس کی تبلیغ کرنی ہے تو سب سے پہلے وہاں کے مبلغ کو باب اول بلکہ نقطۂ اول کے طور پر اس قوم اور خطہ کی زبان ولسان کا ماہر عالم ہونا پڑے گا، وہاں کی تہذیب و تمدن وہاں کے لوگوں کے اخلاق و عادات کا شناسا ہونا پڑے گا، ان امور کی کامل تکمیل کے بغیر اپنی بات اپنی تہذیب اور اپنے کسی جدید دین و مذہب کی دعوت و تبلیغ قطعی امر مستحیل ہوگی ۔ بہ ایں وجوہ حضور پاک علیہ السلام نے اپنے فرزند دلبند سید نا مدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کو ان تمام علوم کا جامع بنادیا تھا تا کہ اس شرک و مشرک نگری میں کسی قسم کی مشکل پیش آنے پر ان علوم و فنون کو بروئے کار لا کر با حسن وجوہ تبلیغ دین پاک کر سکیں دعوت دین تبلیغ قرآن وسنت کی راہ میں جس زبان کا بھی استعمال کرنا پڑے اسے استعمال کر کے کار دین کو آگے بڑھا سکیں۔ چونکہ سید نامدار پاک کو ہندستان کی سرزمین کا اول صوفی مبلغ اسلام بنا کر بھیجا گیا تھا اس لئی آپ کو دعوت و تبلیغ کی تمامتر ضرورتوں اور تقاضوں کا عالم معلم منبع اور مصدر بھی بنانا ناگریز تھا-
مدار پاک کا اول سفر ہند
بارگاہ رسالت سے حکم تبلیغ دین ارشاد خلائق اور دعوت اسلام ملنے کے بعد سر کار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ قصد ہندوستان کر کے عرب ہند بندرگاہ پہونچے ۔ عرب اور ہندستانی تاجروں مسافروں کا بحری جہاز ساحل عرب پر کھڑا تھا، دیگر مسافروں کی طرح آپ بھی اس میں سوار ہو گئے۔ جب جہاز وسط سمندر میں پہنچا تو آپ نے کفار و مشرکین پر دعوت دین برحق پیش کرنا شروع فرمادیا جہاز پر سوار مسافروں سے فرمایا کہ اے لوگو قولوا لا اله الا الله تفلحو معبود برحق صرف ایک اللہ ہے، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو کامیاب ہو جاؤ گے ۔ آپ نے فرمایا۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جلوہ گری ہو چکی ہے، اب انھیں کی اطاعت واتباع ہی میں نجات اخروی اور رحمت دارین ہے لہذا ابصدق دل ان کا کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھ کر داخل اسلام ہو جاؤ تا کہ تمہارا رب تم سے راضی ہو اور تم فلاح پاؤ۔ آپ کی تبلیغ کا ان پر کچھ اثر نہ ہوا بجائے اس کے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر داخل اسلام ہو جاتے آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے اور باہمی مشورہ سے آپ کو سمندر میں پھینکنا چاہا مگر مکرو و مكر الله والله خیر المکرین – اللہ وحدہ لا شریک لہ کی خفیہ تدبیر کے بالمقابل کفار کی سازش بالکل ناکام ہوئی، جہاز ایک سمندری چٹان سے ٹکرایا اور اس کے پر خچے اڑ گئے ۔ تمام کفار و مشرکین واصل جہنم ہوئے اور جہاز کے ایک تختہ کے سہارے سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ کئی روز کے بعد ہندستان کے ساحل کھمبات گجرات پر نمودار ہوئے ، یہ زمانہ اسلامی سال کے مطابق سن ۲۸۲ ھ کا تھا۔
مسلسل کئی شبانہ روز سمندر کے کھاری پانی میں رہنے کے سبب اعضا مضمحل ہو چکے تھے، لباس بوسیدہ ہو چکا تھا، بھوک اور پیاس کی شدت محسوس ہو رہی تھی ، صاحب در المعارف علیہ الرحمہ کے مطابق اس اضطرابی عالم میں سرکار مدار پاک نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی۔ الہی مرا گرسنگی نہ شود و لباس مرا کہنہ نہ شود یعنی اے اللہ مجھے بھوک کا احساس نہ ہو اور نہ ہی میرا لباس کبھی میلا نہ ہو۔ سرکار مدار پاک کی یہ دعا مقبول بارگاہ ایزدی ہوئی ۔اللہ پاک کا انتظام کچھ ایسا ہوا کہ اس دعا کے بعد آپ کے کانوں میں ایک آواز آئی۔ سید بدیع الدین آپ اس طرف آجاؤ، آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ آپ نے آ نے آواز کی سمت کان لگا یا نظر دوڑائی مگر کوئی نظر نہ آیا اور اسی طرح تین مرتبہ صدا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ نے دیکھا پھر بھی کوئی نظر نہ آیا تو آپ نے کہا کہ اس ویرانے میں کون اللہ کا بندہ ہے جو مجھے آواز دے رہا ہے اور میرے نام سے بھی واقف ہے۔ ایک روایت کے مطابق صحرا میں رہنے والے ابدال ظاہر ہوئے ۔ دوسری روایت کے مطابق ملائکہ عنصری کا سردار شتخیثا نظر آیا جب کہ متفق علیہ تیسری روایت کے مطابق حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نمودار ہوئے اور فرمایا کہ اے فرزند سعید ازلی۔ دونوں عالم یعنی علوی اور سفلی میں آپ کے نام کی منادی کر دی گئی ہے ، ایک میں کیا سب کے سب آپ کے نام سے واقف ہو گئے ہیں ۔ حضرت خضر علیہ السلام سرکار مدار پاک کو ایک نہایت حسین و جمیل باغ میں لے گئے جہاں ایک انتہائی خوبصورت نورانی محل تھا، جسکے سات دروازے تھے اور ہر دروازے پر ایک پہرے دار متعین تھا۔ دروازے عبور کرتے ہوئے جب محل کے اندر پہنچے تو دیکھا ایک خوبصورت مزین تخت بچھا ہوا ہے جس کے چاروں کونوں پر چار یار اور وسط میں خود نبی مختار صلی اللهم جلوہ فرما ہیں ، سر کار مدار پاک کو آقا علیہ السلام نے کمال شفقت و محبت سے اپنی آغوش نبوت میں بٹھایا، اسی بیچ ایک شخص اپنے ہاتھوں میں ایک دستر خوان لے کر نمودار ہوا جس میں جنتی کھیر اور ایک جنتی لباس کا جوڑا رکھا ہوا تھا آقا علیہ السلام نے سرکار مدر پاک کو اپنے مقدس ہاتھوں سے جنتی کھیر کے نو لقمے کھلائے جس کی برکت سے سرکار مدار پاک پر تمام ارضی اور سماوی طبقات روشن وظاہر ہو گئے اور آقا علیہ السلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے جنتی لباس پہنا کر بشارت دی کہ اب آج کے بعد نہ تو تمھیں کھانے کی حاجت ہوگی اور نہ ہی تمہار الباس میلا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ہی کمال محبت سے آقا علیہ السلام نے سرکار مدار پاک کے چہرہ پر اپنا دست نبوت پھیرا جس کی برکت سے آپ کا چہرہ اس قدر منور اور تابناک ہو گیا کہ جس کی بھی نظر آپ کے رخ تاباں پر پڑ جاتی وہ بے اختیار سر خمیدہ ہو جاتا۔
رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھمبات گجرات میں واقع نورانی محل میں سرکار مدار پاک کو تمام حوائج دنیویہ سے بے نیاز فرما کر مقام صمدیت کی سند عطا فرمادی اور پھر پوری حیات آپ نے دین اسلام کی ایسی تبلیغ فرمائی جسے دیکھ اور پڑھ کر عقلیں حیران اور ششدر رہ جاتی ہیں ۔ پورے برصغیر کا کوئی ایسا حصہ زمین نہیں جہاں سرکار مدار پاک کی دینی خدمات کے آثار نہ ملتے ہوں ، کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں آپ کے قدوم مبارک کے نشانات نہ ثبت ہوں ہندوستان اور دعوت و تبلیغ وطن عزیز ہندستان کے جس علاقہ میں نظر دوڑائیں سرکار مدار پاک کے خلفا سر کار مدار پاک کے چلے سلسلئہ مداریہ کی خانقاہیں زبان حال و قال دونوں سے اعلان کرتی نظر آتی ہیں کہ اس کفر و شرک سے لبریز زمین کو ہم نے اپنا خون جگر پلا کر اس سے اسلام کے گل بوٹے اگائے ہیں اور فیضان قرآن وسنت کو عام و تام کیا ہے۔ سرزمین ہند پر آپ کی دعوت دین اور تبلیغ اسلام کا مقدس ظاہری جسمانی سفر سن ۲۸۲ ھ سے شروع ہو کر جمادی الاول سن ۸۳۸ء تک یعنی پورے پانچ سو چھپن سالوں پر محیط ہے۔ آپ نے مسلسل پانچ سو چھین سال تک اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ انجام دیا ، اس طویل عمر میں آپ نے اپنے مستقل قیام کیلئے نہ کسی ایک جگہ کو منتخب فرمایا اور نہ ہی کہیں اپنا کوئی مکان اور رہائش گاہ تعمیر کیا بلکہ پوری حیات مبارکہ تبلیغ دین کی راہوں میں گزاردی یہی سبب ہے کہ آج بھی قدیم ہندستان جس میں پاکستان بنگلہ دیش نیپال برما وغیرہ کے ممالک و امصار شامل تھے ان سب میں سب سے زیادہ آپ ہی کی دعوت وارشاد کے نظارے دکھائی دیتے ہیں-
قوم اجنہ کا قبول اسلام
سرکار مدار پاک کا دائرہ تبلیغ فقط انسانوں ہی تک محدود نہیں بلکہ اس خدمت دین کا سلسلۃ الذہب قوم اجنہ تک پہنچا ہوا یے ، یہی وجہ خاص ہے کہ انسانی آبادیوں کے ساتھ آپ کے چلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ملتے ہیں۔ بستیوں اور آبادیوں میں تو آپ کفار و مشرکین تک دعوت دین پہونچاتے تھے لیکن پہاڑوں پر چلہ کشی کے کیا اسباب تھے؟ پہاڑوں اور جنگلوں میں چلہ کشی کی وجہ ان مقامات پر موجود اللہ کی مخلوق جناتوں کو داخل اسلام کرنا ہوتا تھا چنانچہ آپ کی سیرت و سوانح کی رار العلمین رضی معتبر کتب میں مذکور مذکور ہیکہ ایک مرتبہ قطب وحدت سید نا مدارات اللہ تعالی عنہ اپنی خداداد قوت کرامت کی ذریعہ ایک تخت پر جلوہ افروز ہوکر پرواز کرتے ہوئے ایک ایسے علاقہ سے گزرے جہاں قوم جنات آباد تھی ملک الاجنہ عماد المک نے جب فضاء میں ایک تخت اور اس پر جلوہ فرما ایک نورانی شکل کے بزرگ کو دیکھا تو بڑا متاثر ہوا اور تعجب بھرے انداز میں اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر عجیب بات یے کہ اس تخت پر کوئی اہل اللہ جلوہ فرما ہیں اور یہ نہایت تیزی سے پرواز کر رہا ہے ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھیں کہ سرکار مدار پاک کار یہ نورانی فضائی تخت ان کے قریب آکر اترا جناتوں کا بادشاہ عماد المک فورا حاضر خدمت ہوا کمال عقیدت و نیازمندی کیساتھ پیش آیا اور آپ کے حلقئہ غلامی میں شامل ہونے کا متمنی ہوا سر کار مدار پاک نے بڑی محبت اور کمال شفقت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا لا تحبوا الدنياء فتكـوانـوا من الخسرين یعنی تم لوگ دنیا سے محبت نہ کرو ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے عماد المک نے عرض کیا حضور یقینا اللہ پاک کے ولی اور تارک الدینا مقرب بارگاہ الہیہ ہیں لیکن کیا کروں نفس کی کمزوری اور شرارتوں نے مجبور کر رکھا ہے آپ نے فرمایا الله غالب على كل غالب اللہ ہر غالب پر غالب ہے عماد الملک نے عرض کیا سرکار اب تک غفلت میں پڑا رہا کوئی نیک عمل نہ کر سکا جس کا سخت افسوس ہے سرکار مدار پاک نے فرمایا لا تقنطوا من رحمة الله ان الله يغفر الذنوب جميعا اللہ کریم کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ پاک سارے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے عماد الملک کو کچھ تسلی ہوئی اور بارگاہ قطب المدار میں عرض گزار ہوا سر کار قوم اجنہ کا بادشاہ ہوں تخت و حکومت اور بادشاہت کی لالچ میں گھرا ہوں اس سے نجات کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمايا خير الغناء غناء عن النفس وخير زاد التقوى یعنی سب سے بہتر امیری اور مالداری نفس کی خواہشات سے بے نیاز ہو جانا ہے اور بہترین زاد سفر تقوی کا سامان ہے ۔ آپ کی زبان ولایت سے نکلے ہوئے حقائق و معارف اور نصائح کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت تخت و تاج اپنی بیٹی کو سپرد کر کے تمام علائق دنیویہ سے دست بردار اور کنارہ کش ہو کر آپ کے مقدس ہاتھوں پر بیعت ہوا اور ہمیشہ کیلئے آپ کی غلامی میں داخل ہو گیا اور پھر آپ کا ایسا اسیر ہوا کہ آج بھی آپ کے دربار عالی میں آستانہ اقدس پر جاروب کشی کرتا ہے جس کا مشاہدہ عموما ہوتا رہتا ہے۔
مدار پاک کے حج
سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی حیات مبارکہ میں سات حج ادا فرمائے اور ان ساتوں سفر حج بیت اللہ کے دوران آپ نے بے شمار اولیاء صلحاء اور خلق کثیر کو فیضان مداریت سے فیضیاب فرمایا آپ اپنے ساتویں یعنی آخری حج کے موقعہ پر جب اپنے جد اعلی سرکار رسالتماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں یہ شرف حضوری سے مشرف ہوئے تو آقا علیہ السلام نے کمال شفقت سے آپ کی روحانیت کو شرف ملاقات سے سفر از فرماتے ہوئے فرمایا فرزند سعید بدیع الدین یہ تمہارا آخری سفر ہے اب اسکے بعد تم اپنے جسم ظاہری کیساتھ حاضردربار نہ ہو سکو گے ۔ سرکار مدار پاک آقا علیہ السلام کا اشارہ باطنی سمجھ گئے اور عرض کیا سر کار اب میری آخری آرامگاہ کی نشاندہی بھی فرمادیں ۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا تم واپس ہندستان جاؤ وہاں علاقہ قنوج میں ایک تالاب ملے گا جس کے پانی گھاس مٹی وغیرہ سے یا عزیز یا عزیز کی آواز آرہی ہوگی تمہارے پہنچنے پر وہ آواز بند ہو جائیگی اور تالاب خشک ہو جائیگا وہی مقام تمہاری آخری آرامگاہ کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ چنانچه قطب وحدت امام الاولیاء سرکار سید نا مدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے جد کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اشارہ باطنی مل جانے کے بعد شام ایران نجف کر بلا مشہد دمشق اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارات سے شرفیاب ہوتے ہوئے ہندستان کی طرف روانہ ہوئے۔
ہندستان کے مختلف دیا رو امصار میں استحکام دین متین فرماتے ہوئے آپ شہر قنوج پہونچے جہاں خلق کثیر آپ کی زیارت سے شرفیاب اور نعمت سلسلئہ مداریہ سے فیضیاب ہوئی
(واضح رہے سرزمین ہند پر سر کار مدار پاک کا یہ ساتواں ورود مسعود تھا اس سے قبل آپ یہاں پانچسو سولہ سالوں تک دعوت دین اور تبلیغ اسلام فرما چکے تھے جس کی برکتوں نے لاکھوں لاکھ مشرکوں کو دامن اسلام سے وابستہ کر دیا تھا اور مختلف علاقوں میں ہزارہا ہزار اولیاء اللہ کی مقدس جماعت جلوہ گر ہو چکی تھی )
جس وقت سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے قنوج کی زمین کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا انہیں دنوں شہر قنوج سے متصل رادھا نگر نامی گاؤں میں حضرت مخدوم جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مخدوم اخی جمشید قد وائی رحمۃ اللہ علیہ تشریف ریف فرما تھے جب آپ نے سرکار سیدنا مدار العلمین رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد کی آمد کی خوشخبری سنی تو کمال عقیدت انتہائے محبت و احترام کیساتھ حاضر بارگاہ قطب وحدت ہوئے قدم بوسی کا شرف حاصل فرمایا اور خوب راز و نیاز اور فقر و سلوک کی باتیں ہوئیں اور بیشمار نعمتہائے مداریہ سے مستفیض ہو کر رادھا نگر واپس تشریف لے گئے
مکنپور میں تشریف آوری
بلد المنادر قنوج میں چند ایام قیام کے بعد سن ۸۱۸ ھ میں آپ اپنے کثیر مریدین خلفاء اور معتقدین کی مقدس جماعت کیساتھ مکنپور کیطرف روانہ ہوئے اس وقت مکنپور کوئی آبادی نہیں تھی بالکہ شہر قنوج سے جانب جنوب میدانی اور گھنا جنگلاتی علاقہ تھا جو دیو اور آدم خور مخلوقات کا مسکن اور مضبوط و محفوظ ٹھکانہ تھا دیو راتوں میں انسانی آبادی کی طرف نکلتے انسانوں کو اٹھالے جاتے ان کو ہلاک کر دیتے ان کا خون پی جایا کرتے تھے اس اطراف کا آبادیاتی علاقہ ہر رات خوف و ہراس کیسایہ میں بسر کرتا تھا بہت سارے لوگ ان آدم خوروں کے خوف سے دوسری آبادیوں میں منتقل ہو چکے تھے سوائے اللہ کریم کے، ان کا کوئی پرسان حال اور مددگار نہیں تھا نبی پاک صلی علیم کے ارشاد پاک اور اشارہ کی روشنی میں سرکار مدار پاک اس جنگل کی طرف نکل پڑے کافی تلاش کے بعد جب اس تالاب کے پاس پہونچے تو آپ کے کانوں میں وہی یا عزیز کی صدا پہونچی جس کی اطلاع رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی آپ کے پہونچتے ہی وہ آواز بند ہو گئی اور تالاب خشک ہو گیا۔
سرکار قطب الواصلین سید نامدار پاک کے مریدین و خدام نے جنگل کا وہ علاقہ صاف کیا اور اپنے نیز سر کار مدار پاک کے قیام کیلئے گھاس پھوس کے حجرے تیار کئے اور سب کے سب ! اپنے معبود حقیقی کی عبادت و بندگی میں مصروف ہو گئے لیکن سرکار مدا پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی نشست عین اس مقام پر مقرر فرمائی جو دیووں کی اصل گزرگاہ تھی نشستگاہ کی چاروں جانب چالیس چالیس قدم دور تک حصار قائم کیا اور ملک الاجنہ عماد الملک اور ان کیسا تھیوں کو پہرہ داری پر مامور فرما کر عبادت الہیہ میں مشغول ہو گئے ۔ حسب معمول جب اس جنگل کا سب سے بڑا دیو جس کا نام مکناد یو تھا اپنے شکار کی تلاش میں نکلا تو بیچ راہ میں ایک درویش فقیر کو دیکھ کر بڑے غرور سے آپ پر حملہ آور ہوا لیکن جیسے ہی حصار کے قریب پہونچا پہرہ داری پر مامور عماد الملک نے ایک زور دار تھپڑ مارا جس کی تاب نہ لا کر مکنادیو چکرایا اور زمین پر گر پڑا وہ بڑا پریشان ہوا کہ مجھے مارا کس نے چونکہ سرکار مدار پاک کے یہ پہرہ دار نظر نہ آتے تھے سخت حیران ہوا کہ چالیس قدم دور بیٹھے درویش نے ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی کوئی حرکت کی باوجود اسکے مجھے ضرب کس نے لگائی اسے شدید غصہ آیا اور دوبارہ حملہ کرنا چاہا لیکن سرکار مدار پاک کے جلال ولایت کی تاب نہ لا کر تھر تھرایا اور زمین پر بیٹھ گیا اس نے سوچا کہ یہ کوئی معمولی انسان نہیں بالکہ بہت عظیم قدرت وقوت کا مالک ہے ورنہ کسی عام انسان کی کیا مجال جو میرے سامنے کھڑا بھی ہو سکے کچھ دیر بعد حصار کے قریب آیا اور نہایت عجز و انکساری اور ندامت بھرے انداز میں اپنی گستاخی پر معافی مانگی اور عفو کا خواستگار ہوا سر کار مدار پاک نے فرمایا کہ تم وعدہ کرو آئندہ خلق خدا کو تکلیف نہ پہونچاؤ گے کبھی سرکشی نہ کرو گے تو معافی مل سکتی ہے ورنہ تمہاری ہلاکت تمہارے سر پر کھڑی ہے اس نے اقرار کیا اور یقین دلایا کہ آئندہ اللہ کی مخلوق کو آزار نہ پہونچائیگا سرکار نے اس کی تقصیر کو معاف فرما کر قید کر دیا تا کہ آئندہ خلق خدا اس کی ہولنا کیوں اور تباہیوں سے محفوظ رہیے ۔ ( تاریخ ایسن ندی )
اس ندی کے پانی میں اللہ پاک نے شفاء برکت اور رحمت رکھ دی ہے جس سے ہر سال ہزاروں بیمار پریشان حال اور آسیب زدہ صحت یاب ہوتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔
سرکار مدار پاک کی آمد اور مکنادیو کی قید کا حال جب اہل علاقہ کو معلوم ہوا تو خلق خدا اپنے اس عظیم محسن اور مسیحا کی زیارت کیلئے امنڈ پڑی ہر وقت ہجوم خلق سے اب وہ جنگل منگل میں بدل چکا تھا خلق خدا آتی اور بامراد واپس جاتی آپ کے قدوم اقدس کی برکات کو دیکھکر لوگ اس جنگل میں آباد ہونا شروع ہو گئے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آدم خور جنگل انسانی آبادی کا چمنستان بن گیا ان لوگوں کو سر کار مدار پاک کی صحبت نصیب ہوئی آنے اور بسنے والے آپ کی حقانیت سے معمور گفتگو سنتے کلمہ پڑھتے اور داخل اسلام ہو جاتے اس طرح سن ۸۱۸ ھ سے سن ۸۳۸ ھ یعنی مکمل ہیں سال تک آپ نے اس مقام پر مستقل قیام فرما کر لاکھوں بندگان خدا کو دامن اسلام سے وابستہ فرمایا دین پاک مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ عظیم داعی بے مثال مبلغ پوری دنیا کو آفتاب وحدت اور ماہتاب نبوت کی نورانی کرنوں سے منور فرما کر )۱۷( سترہ جمادی الاول سن ۸۳۸ھ کو مکنپور شریف کی مقدس زمین میں روپوش ہو گیا ۔ انالله وانا اليه راجعون.
رجال الغیب نے آپ کو نسل دیا آپ کی تجہیز و تکفین فرمائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے مرید و خلیفہ امام التارکین سند العارفین مولانا حسام الدین مداری سلامتی جونپوری رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو اسی تالاب میں سپرد لحد کر دیا گیا جس سے یا عزیز یا عزیز کی آواز آرہی تھی۔ ہر سال اسلامی مہینہ جمادی الاول کی ۱۷/۱۲/۱۵ تاریخوں میں آپ کا عرس سرا پا قدس منعقد ہوتا ہے جس میں پوری دنیا سے لاکھوں افراد شریک ہو کر اپنے محسن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اپنے خالی دامنوں کو گوہر مراد سے بھر کر واپس جاتے ہیں۔
آپ کے بڑے برادر زادہ سلطان العارفين مستجاب الدعوات حضرت سید نا خواجہ ابو محمد ارغون رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا جب کہ آپ کے دوسرے دو برادر زادگان حضرت سید نا خواجہ ابوالحسن طیفور اور حضور سید نا خواجہ ابوتراب فنصور رضی اللہ تعالی عنہما بھی آپ کی نعمت خلافت و عطاء خلعت سے سرفراز ہوئے ۔ آپ کے بعد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے آپ کے ہزاروں خلفاء کرام نے دین پاک کی جلیل القدر خدمات انجام دیں اور سلسلئہ عالیہ قدسیہ مداریہ کی ہزاروں خانقاہوں سے آج بھی سلسلئہ رشد و ہدایت جاری ہے اور ان شاء اللہ صبح قیامت تک جاری رہے گا۔
تیرےا وصاف کا اک باب بھی پورانہ ہوا