مولانا کی پوری تحریر اور تحقیق کا مدار ””انتصاح عن ذکر اہل الصلاح ”””منبع الانساب ”””مکتوبات مجدد ”””سبع سنابل نامی‘‘ چار کتب ہیں انتصاح اور منبع الانساب پر اعتماد کر کے مولانا نے سرکار مدار پاک کا سنہ پیدائش 300ھ لکھا ہے اور انہیں کتب پر اعتبار کرتے ہوئے مولانا نے سرکار مدار پاک کی سیادت کا انکار کرتے ہوئے آپ کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے لکھا ہے اور مکتوبات مجدد کے حوالہ سے مولانا نے آپ مقام صمدیت کا قول کرنے والوں کو جاہل اور مخالف شرع لکھا ہے جب کہ سبع سنابل کے حوالہ سے آنجناب نے سلسلہ مداریہ کا سوخت ہونا تحریر کیا ہے۔ یہ مختصر اشاریہ ہے مولا نا محبوب رضوی صاحب کی تحریر درس نمبر 65 کا۔
مولانا محبوب صاحب سے ان کے درس نمبر 65 کے متعلق میری کافی طویل گفتگو ہوئی جو کہ محفوظ ہے۔ دوران گفتگو مولانا نے ایک کتاب فتاوی شارح بخاری کا بھی متعدد مرتبہ حوالہ پیش کیا لہذا میری تحریر فتاوی شارح بخاری سے بھی متعلق ہوگی جو آگے قارئین ملاحظہ فرمائیں گے۔ہم سب سے پہلے مولانا کی تحقیق انیق اور ان کے مسلک مختار کا رد بلیغ خود انہیں کی مسلمہ اور معتبر و محولہ کتب انتصاح اور منبع الانساب ہی سے کرتے ہیں چنانچہ مولانا محبوب صاحب لکھتے ہیں:
”آپ کی ولادت 300 ھ میں ہوئی الانتصاح عن ذكر الصلاح بحوالہ منبع الانساب 366“-
میں یہاں مولانا محبوب رضوی کے نام لینے یا لکھنے پر تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ کتاب کا نام انتصاح“ ہے جبکہ مولانا نے الانتصاح“ لکھا ہے خیر قارئین کرام توجہ فرمائیں۔
مولانا موصوف نے سرکار مدار پاک کی تاریخ ولادت کے تحقیق سے متعلق منبع الانساب کے جس صفحہ کا حوالہ پیش کیا ہے وہ سرا سر غلط باطل اور سورج کے اجالے میں امت مسلمہ کو دھوکہ دیا ہے نیز صاحب منبع الانساب پر اتہام اور الزام تراشی جیسے عظیم جرم کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ صاحب منبع الانساب نے اپنی کسی تحریر میں سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنہ ولادت لکھا ہی نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ منبع الانساب کے محشی حضرت ساحل سہسرامی نے اپنے حاشیہ میں آپ کی تاریخ ولادت سنہ ۲۵۰ ھ یا ۳۰۰ ھ لکھا ہے۔ اہل علم پر یہ بات اچھی طرح روشن ہے که محشی یا مترجم کا اپنا قول و تحریر مصنف یا مرتب کا قول تحریر نہیں ہوا کرتے اگر ایسا ہوتا تو کتابوں کے سرورق پر مصنف مترجم اور محشی کے اسماء الگ الگ نہیں لکھے جاتے۔ یہ تو تھی مولانامحبوب صاحب رضوی کے درس نمبر 65 کی خیانت اور صاحب منبع الانساب پر ان کا کھلا ہوا بہتان وافتراء۔
(مولانا محبوب صاحب نے مجھے خطاب کرتے ہوئے متعدد مرتبہ یہ بات کہی ہے کہ آپ کی تحریر کی روشنی میں صاحب منبع الانساب جاہل اور فتین قرار پائیں گے اب مولانا صاحب خود فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ اوصاف کا حامل کون ہوا)۔
میں نے منبع الانساب کے حوالہ سے اتنی طویل گفتگو فقط اس نیت وارادہ سے کی ہے تاکہ ہر کس و ناکس یہ سمجھ لے کہ صاحب منبع الانساب نے سرکار مدار پاک کی تاریخ ولادت لکھی ہی نہیں ہے البتہ انہوں نے سنہ 840ھ کو آپ کا سال وفات لکھا ہے۔
اب آتے ہیں مولانا محبوب صاحب کی تحقیق کے دوسرے ماخذ جو کہ منبع الانساب کا بھی ماخذ و مرجع ہے یعنی انتصاح عن ذکر اہل الصلاح کی طرف صاحب انتصاح نے سرکار مدار پاک کا سنہ ولادت ۳۰۰ یا سن ۲۵۰ ھ لکھا ہے۔ چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
”تولدوے در سنه ثلثماة وقیل مائتین بود“
( انتصاح صفحه ۹۲ ، سطر نمبر ۱)
(یادر ہے مولانا محبوب صاحب کے بہ قول ”قیل“ کے ذریعہ لکھی گئی ہر بات ہر روایت غیر معتبر محرف اور نا قابل اعتبار ہوتی ہے )
صاحب انتصاح نے سرکار مدار کا ذکر جمیل کرتے ہوئے اس صفحہ کی سطر نمبر چار پر لکھا ہے: ”و بخدمت طیفور شامی بایزید بسطامی قدس سره استفاده پذیرفت“ یعنی سرکار مدار پاک نے سرکار بایزید بسطامی سے استفادہ فرمایا۔ اسی کتاب یعنی انتصاح کے صفحہ نمبر ۱۹۸ پر سر کار بایزید بسطامی کو صاف لفظوں میں سرکار مدار پاک کا پیر لکھا ہوا ہے۔
اسی کتاب یعنی انتصاح عن ذکر ابل الصلاح میں سرکارسیدنا بایزید بسطامی طیفور شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنہ وفات 261 ہجری مرقوم ہے۔ اب آگے ملاحظہ فرمائیں۔
صاحب انتصاح اور منبع الانساب کی تحریر سے ولادت سرکار مدار پاک کے متعلق مولانا محبوب صاحب کی تحقیق کار داور ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارا یعنی پورے مشرب مداریت کا موقف اور بزرگوں کی صراحت اس بات کے یقین پر ہے کہ سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ ولادت یکم شوال المکرم 242 ہجری ہے ۔ صاحب منبع الانساب اور مصنف انتصاح عن ذکر اہل الصلاح دونوں لکھتے ہیں کہ آپ محمد طیفور شامی کے مرید ہیں۔
قارئین کرام! حقیقت ملاحظہ فرمائیں صاحب منبع الانساب اور صاحب انتصاح دونوں نے مسلمہ اور متفقہ طور پر سید الطائفه سرکار سید نا بایزید بسطامی عرف طیفور شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسر کار مدار باک کا پیر اور سر کار مدار پاک کو آپ کا مرید لکھا ہے۔ بزرگان دین اولیاء اللہ کی سیرت و سوانح کا ادنی مبتدی بھی جانتا ہے کہ سرکار بایزید بسطامی کا لقب طیفور شامی ہے جن کی تاریخ ولادت به اختلاف روایت سنه 191 یا سنہ 181 ہجری ہے جب کہ تاریخ وفات سنہ 239 ریاسنہ 291 ہجری ہے۔ اگر مولانا محبوب صاحب کی اعلی تحقیق کے مطابق سرکار مدار پاک کی تاریخ ولادت سنہ 300 ہجری تسلیم کر لیں تو کیا صاحب منبع الانساب اور صاحب انتصاح کا جھوٹا ثابت ہونا ثابت نہیں آئے گا۔ کیا انتصاح اور منبع الانساب لائق اعتبار کتب رہ جائیں گی ؟ نہیں رہ جائیں گی کیونکہ صاحب انتصاح اور منبع الانساب نے سرکار طیفور شامی کو مدار پاک کا پیر لکھا ہے۔ جب سرکار بایزید بسطامی عرف طیفور شامی کا انتقال سنہ 261 میں ہو چکا تھا تو سنہ 300 ہجری میں پیدا ہونے والے سرکار مدار پاک ان سے مرید کس طرح ہو گئے؟ اب یا تو مولانا محبوب کی تحقیق کو درست مانیں یا ان کے معتبر اور معتمد مورخ وسیرت نگار صاحب انتصاح اور صاحب منبع الانساب کو درست مانیں؟ الغرض انتصاح اور منبع الانساب نامی کتب کے حوالہ جات سے مولانا محبوب صاحب نے جو بات لکھی اس کو تسلیم کر لینے کا مطلب خود ان کتابوں کے مصنفین کی تجہیل کے مترادف ہوگا۔ اور انہیں کتب یعنی انتصاح اور منبع الانساب کے مندرجات سے مولانا محبوب صاحب کی تحقیق بھی باطل ثابت ہوئی۔ اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ ان حضرات نے مذکورہ سنوات ولادت کو فقط روایتا لکھا ہے جب ان کا موقف وہ نہیں اگر ان کا وہی سنہ 300 یا سنہ 250 والا موقف ہوتا تو سرکار بایزید بسطامی کو سرکار مدار پاک کا پیرو مرشد نہ لکھتے۔
اب آتے ہیں مولانا محبوب صاحب کی دوسری تحقیق کی طرف یعنی
”سرکار مدار پاک سید نہیں تھے“-
مولانا محبوب صاحب نے اپنے درس نمبر 65 میں سرکار مدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیادت کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تحقیق یہ ہے کہ آپ سید نہیں بلکہ صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ کی نسل سے تھے۔“
اس تحقیق کے بعد مولانا نے سرکار مدار پاک کا شجرہ لکھا ہے جو کہ حضرت مدار پاک سے شروع ہو کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر ختم ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام و طالبان حق ! اب فقیر مداری مولانا کی اس تحقیق یعنی اعتقاد انکار سیادت اور شجرہ نسب کی طرف متوجہ ہوتا ہے فقیر کی تحریر انتہائی دیانت داری اور خالص مؤمنانہ قلب سے ملاحظہ فرمائیں۔ صاحب انتصاح سرکار مدار پاک کے نسب مبارک سے متعلق پہلا قول نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
”بدانکه نسب انحضرت بعضے می گویند کہ انحضرت سید بود“
( انتصاح صفحہ نمبر ۹۱)
اب آتے ہیں مولانا محبوب رضوی کی اعلیٰ تحقیق بابت شجرہ نسب سرکار مدار پاک کی طرف۔
مولانا نے اپنے درس نمبر 65 میں سرکار مدار پاک کا جو شجرہ نقل کیا ہے اس شجرہ میں سرکار مدار پاک اور حضرت ابو ہریرہ کے درمیان تیرہ (۱۳) نام ہیں جبکہ انتصاح عن ذكر اهل الصلاح میں سرکار مدار پاک کا جو شجرہ نقل کیا گیا ہے اس شجرہ میں سرکار مدار پاک اور حضرت ابو ہریرہ کے درمیان اٹھارہ (۱۸) نام ہیں۔
قارئین کرام خدا را انصاف کریں! مولانا محبوب کی تحریر کردہ شجرہ درست ہے یا مولانا کی معتبر اور معتمد کتاب انتصاح میں لکھا ہوا شجرہ صحیح ہے۔ اگر مولا نا محبوب یہ کہیں کہ میں نے منبع الانساب کے حوالہ سے لکھا ہے تو پھر اس بات کا بھی جواب دیتے چلیں کہ منبع الانساب نے مذکورہ شجرہ کہاں سے لکھا جواب یقیناً انتصاح کے حوالہ کا ہو گا تو پھر محقق رضوی صاحب یہ ضرور بتائیں کہ صاحب منبع الانساب نے اصل مرجع سے خیانت کیوں کی؟ اور کیا یہی آپ کی اعلیٰ تحقیق اور منار ہائے پی ایچ ڈی ہیں؟ (نہیں پر اعتماد کلی فرما کر آپ نے اس عظیم اور تقدس مآب ذات پاک کی سیادت کا انکار کر دیا جس ذات قدسی صفات کے قدوم ناز کی برکتوں سے آپ جیسے بے شمار علماء اور مفتیان دین کے اباء واجداد کو دولت ایمان ملی؟) خیر ماہرین انساب اور علمائے رجال کے نزدیک کیا ایسا شجرہ معتبر اور تحقق ہو سکتا ہے جس شجرہ سے پانچ پانچ نام غائب ہوں؟
قارئین کرام دیکھ رہے ہیں آپ کسی قدر جھول اور گول مال ہے؟ مولانا محبوب صاحب فقط زور زبان ہی سب کچھ نہیں ہے تحقیق چرب زبانی اور زور بیانی میں بعد بین المشرقین کا فاصلہ ہے۔
قارئین کرام! ایک نظر حقائق شجرات پر بھی کرلیں۔میرے آقا سر کار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنہ ولادت 470 یا 471 ہجری ہے لیکن آپ اور سر کار مولائے کائنات علیہ السلام کے درمیان فقط گیارہ یا بارہ نام ہیں۔ قابل توجہ بات ہے کہ 470ھ میں پیدا ہونے والے بزرگ کا شجرہ گیارہ یا بارہ واسطوں سے آقائے کریم علیہ السلام تک پہونچ جاتا ہے لیکن ان سے ایک سوستر یا دو سو بیس سال قبل یعنی سنہ 300 یا سنہ 250ھ میں پیدا ہونے والے انسان کا شجرہ اپنے اٹھارہ واسطوں کے بعد پہونچتا ہے؟ (جناب مولانا محبوب صاحب قبلہ عرب کی تہذیب اہل عرب کی عادت کے خلاف اگر سولہ یا سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں ہی اپنے نقل کردہ اور متحقق شجرہ کے افراد کو آپ باپ بنا دیں پھر بھی آپ کا منشاء پورا نہ ہو سکے گا۔
کیلکو لیٹ کر کے دیکھ لیں)۔
ناظرین کرام ! یہ ہے مولا نا محبوب صاحب رضوی کے متحقق اور محقق شجرہ کی حیثیت ۔ صاحب انتصاح پر مولانا محبوب صاحب نے الزام فاحش عائد کیا کہ صاحب انتصاح نے آپ کو سید نہیں مانا ہے۔ مولانا کے اس الزام کا رد خود صاحب انتصاح سے ملاحظہ کر لیں۔ صاحب انتصاح نے اپنی کتاب کے صفحہ 91 سے صفحہ 98 تک سرکار مدار پاک کی سیرت و حالات سے متعلق مختلف اقوال جمع کئے ہیں لیکن کتاب کے صفحہ نمبر 98 پر جہاں آپ نے سرکار مدار پاک کا ذکر جمیل ختم کیا ہے اختتامیہ کی آخری سطور آپ اس طرح لکھتے ہیں:
”حضرت طیفور شامی بایزید بسطامی که پیر حضرت سید بدیع الدین مدار قدس سره اند“
انتصاح عن ذکر اہل الصلاح ، صفحہ 98)
صاحب انتصاح نے تمام تر اقوال جمع کرنے کے بعد اپنے قلم سے سرکار مدار پاک کو سید لکھ کر یہ واضح کر دیا کہ گزشتہ صفحات پر میں نے نسب پاک کے متعلق روایات ضرور لکھی ہیں لیکن میں سرکار مدار یاک کو سید آل رسول ہی یقین کرتاہوں اور مجھ کو سرکار مدار پاک کی سیادت کا منکر بتانے والے خاطی اور مجھ پر مفتری ہیں۔ مولانا محبوب صاحب اپنی تحقیق کی روشنی میں جواب دیں کہ صاحب انتصاح اگر سر کار مدار پاک کی سیاست کے منکر تھے تو انہوں نے سید بدیع الدین مدار کیوں لکھا؟ کسی بزرگ کے حسب و نسب کے اختلاف کا ذکر الگ شئی ہے لیکن اس ذکر اختلاف کو جامع یا مرتب کے اعتقاد سے جوڑ دینا اس کا موقف قرار دے دینا یہ دجل اور خیانت ہے۔
امام الاولیاء غوث الاغواث سر کا رسیدنا غوث اعظم بڑے پیر دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی لوگوں نے نہیں چھوڑا اہل تشیع نے آپ کے نسب میں بھی اختلاف کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں فتاوی رضویہ جلد دو از دهم صفحہ نمبر 299 ۔ تو کیا ہم اس اختلاف کے سبب سرکار غوثیت پناہ کے نسب شریف میں مشکوک ہو جائیں؟ اسی طرح عطائے رسول سلطان الہند سر کار غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شجرہ کے متعلق بھی مختلف اقوال ملتے ہیں۔ مراة الاسرار شیخ عبدالرحمن چشتی علیہ الرحمہ ۔ اب اس اختلاف کے سبب کیا ہم سرکار اجمیر کے شجرہ مبارک سے بدظن ہو جائیں؟ والله والله ثم واللہ یہ ہماری بدبختی اور بد نصیبی ہوگی۔
الغرض انتصاح میں مذکور سرکار مدار پاک کا شجرہ جدیہ نسبیہ قطعی اختراعی اور مصنوعی ہے جس کا اصل احوال سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اب آتے ہیں کچھ منقولات کی طرف ۔ ہمارے سلسلہ عالیہ قدسیہ مداریہ کے مشائخ اصحاف سیرت اور مورخین سلسلہ نیز سادات مکن پور شریف نے نسلا بعد نسل قرنا بعد قرن علی التواتر سر کا رسید نامدار پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرہ جد یہ حسنیہ و حسینیہ تحریر فرمایا ہے جو کہ “الناس امناء على انسابهم “ کے مطابق کافی اور وافی ہے۔
قارئین کرام ! مولا نا محبوب صاحب یا ان سے قبل مفتی شریف الحق امجدی صاحب مرحوم اس مسئلہ کے متعلق شدید طور پر تزلزل , سہو , جہل یا تعصب کا شکار ہوئے ۔ اعلیٰ حضرت کے مسلک سے منحرف ہوئے۔ اعلیٰ حضرت کے مزاج پر اپنے مزاج کو ترجیح دیا۔
اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ سادات سے ان کی سیادت کی سند مانگنا کیسا ہے؟ اگر کوئی سید اپنی سند سادات نہ پیش کر سکے تو اس کے سبب اس کی توہین یا تحقیر کرنا کیسا ہے؟ اس قسم کے ایک طویل استفتاء کا جواب لکھتے ہوئے اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
”اور یہ بھی فقیر بازر فتوی دے چکا ہے کہ کسی سید کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو برا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں الناس امناء على انسابهم“
جو سید نہ ہو لیکن سید بن جائے اپنے کو سید کہے اور کہلوائے اس کے متعلق اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:
ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ نا واقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کر دیا جائے۔
(فتاوی رضویہ جلد نمبر 12 صفحہ نمبر 125)
قارئین با وقار! فقیر مداری کے پیش کردہ دونوں پیراگراف کو کئی مرتبہ پڑھیں خوب پڑھیں۔ کیا سر کار مدار پاک کی سیادت مشہور و مشتہر نہیں؟ ہے یقینا ہے بلا شبہ ہے ۔ مولانا محبوب صاحب نے علامہ عمران مظہر برکاتی کے ایک سوال کے جواب میں خود اپنی زیانی کہا ہے کہ میں بھی ان کو سید ہی سنتا اورجانتا رہا ۔ مولانا محبوب صاحب کیا اللہ کے اس عظیم ولی کے متعلق صدیوں پر محیط سید ہونے کی شہرت کافی نہیں تھی؟ کیا آپ اور مفتی امجدی صاحب مرحوم کی تحقیق اعلیٰ حضرت کے اس فتوی کا رد نہیں کر رہی ہے؟ کیا آپ اور مفتی صاحب مرحوم کا اعتقاد اعلیٰ حضرت کے اس مسلک کے مخالف نہیں ہوا؟ آپ اور مفتی صاحب مرحوم کی تحقیق کے تاور پود اچھی طرح سامنے آچکے ہیں کیا آپ دونوں حضرات کی انتصاح اور منبع الانساب کے حوالہ سے لکھی گئی تحقیق خوب تحقیق کہی جاسکتی ہے؟
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
ہم اسی لئے بار بار کہتے ہیں آج آنکھ بند کر کے صرف اعلیٰ حضرت کہا جارہا ہے اعلیٰ حضرت کو پڑھا یا سمجھا نہیں جا رہا ہے اور اگر کوئی کچھ پڑھتا بھی ہے تو اصل ایک طرف رکھ کر اپنی راگ ہی کو مقدم کر دیتا ہے الا ماشاء اللہ) مولانا محبوب صاحب رضوی کی پیش کردہ تحقیق کی قرار واقعی سامنے آجانے کے بعد ان کا موقف خود بہ خود باطل ثابت ہو جاتا ہے۔
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
مزید کسی دلیل کی حاجت وضرورت باقی نہیں رہتی تاہم تشفی خاطر احباب کے لئے کچھ بزرگوں کی تحریرات لکھ دیتا ہوں تا کہ مولانا محبوب صاحب جیسے محققین اپنی تحقیق پر نظر ثانی کر لیں اور بعد وضوح حق رجوع کر کے اس بارگاہ قدس کے انعامات کے مستحق بن سکیں۔
وما توفيقى الا بالله العلى العظيم
نمبر ۔۱۔ مجد د سلسلۂ اشرفیہ سرکار اعلیٰ حضرت علی حسین اشرفی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے متعلق اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے:
اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کرده و پردۂ سه محبوباں
وہی سرکار اشرفی میاں اپنی کتاب صحائف اشرفی میں اپناسلسلہ مداریہ اشرفی اس طرح نقل فرماتے ہیں:
دوسرا سلسلہ حضرت سید بدیع الدین مدار قدس سرہ کو حضرت شیخ مکی قدس سرہ سے الخ…..
پھر اسی صفحہ پر آگے تحریر فرماتے ہیں:
حضرت سید بدیع الدین مدار قدس سرہ نے حضرت محبوب یزدانی قدس سرہ کو یہ دونوں سلسلہ عطا کر کے اپنا خرقہ محبت پہنایا۔
(صحائف اشرفی حصہ دوم، صفحہ نمبر 47)
قارئین کرام توجہ فرمائیں ! یہی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ہیں جن کے متعلق مشہور روایت ہے کہ جب اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت حضور اشرفی میاں وضو فرمارہے تھے کہ اچانک بے چین ہو گئے لوگوں نے وجہ اضطراب پوچھا تو فرمایا کہ اپنے وقت کا قطب دنیا سے چلا گیا اس کا جنازہ دیکھ رہا ہوں ۔ اس واقعہ کو دیکھیں اور ان کی کتاب صحائف اشرفی کے صفحہ کو دیکھیں۔
نمبر ۲- مفتی شریف الحق امجدی صاحب مرحوم نے بھی مدار پاک کو سید لکھا ہے
جس فتاوی شارح بخاری کے حوالہ کی روشنی میں مولانا محبوب رضوی صاحب نے متعدد مرتبہ بزور حلق سیادت سیدنا مدار العالمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار کیا اسی فتاوی شارح بخاری میں سرکار مدار پاک کو سید لکھا گیا ہے۔ چنانچہ مفتی شریف الحق امجدی مرحوم لکھتے ہیں:
”شریعت پر طریقت پر خود حضرت سید شاہ قطب مدار رحمۃ اللہ علیہ پر………الخ“ ۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ، صفحہ 192)
ناظرین کرام ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مولانا محبوب رضوی صاحب نے جس فتاوی شارح بخاری کی ثقاہت پر سارا زور باندھا اسی فتاوی شارح بخاری میں سرکار مدار پاک کو سید لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے مولانا محبوب اور ان جیسے دوسرے لوگ یہ کہیں کہ یہ کتابت کی خطا ہے کمپیوٹر کی غلطی ہے تو اس طریقہ تلیس اور شبہ کو بھی سمجھ لیں ایسا نہیں ہے بلکہ واقعتاً مفتی صاحب مرحوم نے اپنے فتوی میں سید ہی لکھا ہے۔
ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ مفتی صاحب مرحوم نے اپنے ایک فتوی میں سرکار مدار پاک کی سیادت کا انکار کیا ہے انہوں نے مدار پاک کو یہودی النسل تک ثابت کرنے کی مکمل کوشش کی ہے (العیاذ باللہ ) جیسا کہ ان کے فتاوی شارح بخاری کے صفحہ 247/48 دیکھا جا سکتا ہے)
ایک طرف تو مفتی صاحب مرحوم نے سرکار مدار پاک کی سیادت کا انکار کیا اور دوسری طرف اپنے ہی فتوی میں سرکار مدار پاک کو سید بھی لکھا ۔ آخر ایسا کیوں ہوا تو اس کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ امر واقعہ یہ ہے
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
مفتی شریف الحق صاحب مرحوم نے اپنے جس فتوی میں سرکار مدار پاک کو سید لکھا ہے اس فتوی کو سنہ 1381ھ میں تحریر کیا ہے۔ اس قول و اقرار سیادت والے فتوی کو مفتی امجدی صاحب مرحوم نے منظر اسلام بریلی شریف کی ملازمت کے ایام میں لکھا ہے اس فتوی پر حضور مفتی اعظم ہند کی تصدیق بھی موجود ہے اب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضور مفتی اعظم اعظم ہند نے بھی سرکار مدار پاک کو سید ہی مانا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ اس کی تصدیق نہ فرماتے، لیکن جس فتوی میں مفتی امجدی صاحب مرحوم نے سیادت مدار پاک کا انکار کیا ہے وہ فتوی سنہ 1409ھ کا ہے یہ فتوی انہوں نے جامعہ اشرفیہ مبارکپور کی ملازمت کے ایام میں لکھا ہے۔ یعنی مفتی امجدی صاحب مرحوم کے دونوں فتاوی کے درمیان تقریبا 28 سال کا فاصلہ ہے۔ بریلی شریف میں لکھا گیا فتوی سید بتارہا ہے اور اس پر سرکار مفتی اعظم ہند کی تصدیق بھی سید بتارہی ہے لیکن مبارکپور میں لکھا گیا فتوی یہودی النسل بتارہا ہے اب فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ بریلی شریف میں لکھے گئے فتوی کو مانتے ہیں یا مبارکپور والے فتوی کو قبول کرتے ہیں۔ البتہ مولانا محبوب رضوی صاحب اس بات کا جواب ضرور دیں کہ ایک ہی ذات کے متعلق ایک ہی امر و مسئلہ میں دو قسم کا اعتقاد رکھنے والے مفتی امجدی صاحب مرحوم قابل استنادرہ گئے ہیں یا نہیں؟ شرعی مزاج استناد کو نظر میں رکھ کر جواب لکھیں گے۔ ان کے علاوہ
نمبر : ۳- صاحب مراة الانساب نے آپ کا شجرہ جدیہ حسنیہ حسینیہ لکھا ہے۔ (مراۃ الانساب صفحہ 156/57)
نمبر ۴۰ خزینۃ الاصفیاء میں آپ کا شجرہ حسنیہ حسینیہ لکھا ہوا ہے۔ ( جلد نمبر 3، صفحہ 311)
نمبر : ۵۔ سفینۃ الاولیاء میں آپ کو خاندان سادات سے لکھا ہے۔
نمبر : ۶۔ بحر زخار میں سرکار مدار پاک کا شجرہ سیادت لکھا ہے۔ بحر زخار جلد نمبر 3، صفحہ 977)
نمبر : ۷۔ اعلیٰ حضرت کے منجھلے بھائی استاذ زمن مولانا حسن رضا بریلوی مرحوم نے اپنے نعتیہ دیوان ذوق نعت میں سرکار مدار پاک کو کریم ابن کریم تحریر فرمایا ہے۔ یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ لفظ سادات کرام اہلبیت عظام کے متعلق ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ (ذوق نعت ، صفحہ 105)
نمبر : ۸- پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی مرحوم رقمطراز ہیں:
چنانچہ ایک با رسید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ علیہ جو پور تشریف لائے……. الخ
(خطبات نظامی صفحہ 298)
یہ تو مشتے نمونه از خروارے والی بات ہے ورنہ کتب تصوف اور طریقت میں بے شمار مقامات پر سرکار مدار پاک کو خاندان سادات سے لکھا گیا ہے اور آپ کے شجرات جدیہ حسنیہ حسینی نقل کئے گئے ہیں۔