سبب نہ ڈھونڈ کوئی بے سبب ستم کے لیے
زمین تلاش نہ کر بارش کرم کے لیے
یہ حادثات یہ طوفاں یہ برق یہ شعلے
مری امید یہ سب کچھ ہے تیرے دم کے لیے
وہ کیا ہے سامنے منزل ابھی پہنچتے ہیں
فضول منت رہبر ہے دو قدم کے لیے
تو بے پناہ ہئی بخشش کو آزما ائے دوست
نہ دیکھ ظرف تمنا عطائے غم کے لیے
مگر نہ کر سکا رنگینئی اثر پیدا
بیان غم نے سہارے بھی چشم نم کے لیے
رکا ہے جس پہ میری بے کسی کا افسانہ
نہ ہچکچائیے اس حرف مختتم کے لیے
کسی طرح بھی محبت کی لاج رہ جائے
نیاز آگ میں جلتا ہوں اس بھرم کے لیے



