ایسی ہے ایک شمع جلائی حسین نے
دنیا سے تیرگی ہے مٹائ حسین نے
نیا جو ڈوبنے کو تھی دین رسول کی
سر دیکے اپنا وہ ہے ترائی حسین نے یہ
گلشن نبی کے دین کا پھل پھولتا رہے
گردن اس واسطے ہے کٹائی حسین نے
کرب و بلا میں سر کو کٹاکر اے دوستو
ظلم ستم کی آگ بجھائی حسین نے
فوج یزید خوف سے تھرا کے رہ گئی
شمشیر حیدری یوں چلائی حسین نے
دور غم سے الم میں پکارا ہے جب انھیں
راحت ہر ایک غم سے دلائی حسین نے
دین نبی کے واسطے اپنا لٹا کے گھر
پہچان اہل حق کی بتائی حسین نے
وعدہ نبھا کے آج وہ بچپن کا دوستو
رسم وفا کیا خوب نبھائ حسین نے
حر آ گئے یزید کے لشکر کو چھوڑ کر
جب ان کو راہ خلد دکھائی حسین نے
سو جان سے نثار شرافت ہے اس لیئے
تقدیر اس کی سوئی جگائ حسین نے
از قلم
مولانا شرافت علی شاہ مرغوبی
مداری سرنیاں سی بی گنج بریلی



