madaarimedia

معجزہ اور کرامت

 معجزہ
معجزہ کا لفظ در اصل انبیاء و مرسلین کے ساتھ مخصوص ہے کسی دوسرے کے لئے استعمال کرنا آداب نبوت کے خلاف ہے۔
اس پر علمائے حق کا اتفاق ہے انبیاء و رسول سے خوارق عادات ظہور میں آئیں اور خلاف فطرت بشریت و محیر العقول ہوں جس لئے نقل سے غیر انبیاء اور مستدرج عاجز ہوں معجزہ کہتے ہیں۔ مثلاً مردہ کا زندہ ہونا، چاند کے ٹکڑے ہو کر جڑنا، مسواک کا درخت بنکر پھولنا پھلنا اور قائم رہنا، ڈوبے ہوئے سورج کا ابھرنا، پتھر پر پیر رکھنے سے بہ وقت سیارے کا طلوع ہونا، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا، درخت کا اپنی جگہ سے آنا اور واپس جانا وغیرہ وغیرہ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ایک نجومی حاضر ہوا۔ عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ پتھر پر پیر رکھتے ہیں تو وہ موم ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں جب میں ارادہ کروں ۔ نجومی نے کہا یہ کون سا کمال ہے جب فلاں سیارہ طلوع ہوتا ہے دنیا کا کوئی شخص پتھر پر پیر رکھے گا موم ہو جائے گا۔ آپ نے دریافت فرمایا سیارے کے طلوع ہونے میں کتنا وقت ہے اس نے کہا ابھی اس کے طلوع ہونے میں کافی وقت ہے۔ آپ نے بسم اللہ کہہ کر پتھر پر پیر رکھ دیا وہ موم ہو گیا۔ نجومی بے حد متحیر و ششد ہو کر حساب لگانے لگا دیکھا کہ سیارہ طلوع ہو گیا۔ نجومی قدموں پر گرا اور کلمہ شہادت پڑھا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں آپ پر اور آپ کے رب پر ایمان لایا۔ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ یہ پتھر اثر سیارہ سے موم ہو ا لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیارہ کا بے وقت طلوع ہونا آپ کے قدم پاک کا اعجاز ہےدور حاضر میں ایسے ایسے کمیکل ایجاد ہوئے ہیں جو لویا پتھر مٹی وغیرہ کو پانی اور موم کر دیتے ہیں۔ لیکن رہتی دنیا تک کوئی ایسا کمیکل ایجاد نہ ہو سکے گا کہ ہاتھ اور پیر کی جنبش سے چاند سورج ستارے حرکت میں آجائیں اور تعمیل حکم کریں۔

 

آقائے کائنات فخر موجودات حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کے دست مقدس کے اشارے سے چاند سورج ستارے حسب الحکم عمل پیرا ہوئے ۔ غرض یہ کہ معجزے کی تعریف بھی یہی ہے کہ غیر انبیاء اور استدراجی قوت عاجز ہو۔

کرامت

کرامت: اولیاء اللہ کے خوارق عادات کو کہتے ہیں ۔ لیکن اس کی نقل کے لئے استدراجی قوت برسر بیکار ہوتی ہے اور شیطان کی اعانت ساتھ ساتھ رہتی ہے ۔ میرا مقصد معجزات انبیاء، و کرامات اولیاء یا شیطانی استدراج کی وضاحت کرنا نہیں ہے بس مختصر تذکرہ اس لئے کردیا کہ میرے موضوع کے سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہو
میرا موضوع ہے ”معجزہ یا کرامت“ ۲۶۰ھ میں سرکار سرکاراں سیدنا مدار العالمین حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ برائے زیارت حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ مکہ مکرمہ پہونچے کعبتہ اللہ زاد اللہ شرفاد تعظیماً کی زیارت کی ارکان حج ادا فرمائے اور مدینۃ الرسول علیہ الصلوۃ و التسلیم کی جانب روانہ ہوئے۔ اپنے جد کریم علیہ التحیہ والتسلیم کے روضہ اطہر کی حاضری کی سعادت حاصل کی ، درود سلام پیش کیا یک بہ یک استغراقی کیفیت پیدا ہوئی اور روئے انور حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے اور سعادت بیعت حاصل فرمائی یہی نسبت آپکی اویسی نسبت کہلاتی ہے۔ حضور علیہ التحیۃ والتسلیم نے ہندوستان پہونچنے کا حکم فرمایا۔ آپ تعمیل حکم میں بجانب ہند روانہ ہوئے۔ اول اول آپ حلب پہونچے والدین کی قدمبوسی فرمائی اور حکم رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلع فرمایا۔ انہوں نے نہایت محبت و شفقت سے رخصت کیا نجف اشرف اور کاظمین شریفین کی زیارت کرتے ہوئے ایران و عراق ہوتے ہوئے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے اور بحری راستہ اختیار فرمایا۔ کشتی پر سوار ہوئے اہل کشتی کو دعوت دین دی انھوں نے مذاق اڑایا غیرت الہی جوش میں آئی کشتی طوفان میں تباہ ہوگئی آپ ایک تختے کے سہارے ساحل پر پہونچے۔ آپ تھکے ہارے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے غیب سے آواز آئی ”بدیع الدین“ آپ نے مڑ کر دیکھا ایک صاحب کھڑے تھے دریافت فرمایا آپ میرے نام سے کس طرح واقف ہیں۔ نو وارد صاحب نے کہا میں کیا آپ کے نام سے سارا عالم واقف ہے۔ آئیے میرے ساتھ چلئے آپ ہمراہ ہولئے ابھی تھوڑی دور چلے تھے کہ سامنے ایک بلند دروازہ نظر آیا جس پہ دو صاحب بشکل نورانی کھڑے تھے۔ آپ قریب پہونچے علیک سلیک کے بعد انھوں نے کہا ”آئیے بدیع الدین آپ کا انتظار ہے“ آپ نے تعجب سے پوچھا کہ آپ میرے نام سے کسی طرح واقف ہیں انھوں نے بھی وہی جواب دیا کہ آپ کے نام سے تمام عالم واقف ہے۔
آپ دروازے کے اندر داخل ہوئے جو خوبصورت اور وسیع باغ تھا جس میں نہایت شاندار محل تعمیر تھا۔ آپ محل کے اندر داخل ہوئے دیکھا سامنے ایک تخت مرصع ومزین بچھا ہوا ہے اور ایک بزرگ جلوہ فرما ہیں۔ جن کے نور سے سارا محل جگمگا رہا ہے۔ جن کی خوشبو سے محل و باغ مہک رہا ہے ۔ آپ نے نہایت ادب سے جھک کر سلام عرض کیا بزرگ محترم نے اپنے قریب ہی تخت پر بٹھا لیا تھوڑے ہی عرصے میں ایک شخص حاضر ہوا اور دو ڈھکے خوان تخت پر رکھ دیئے تخت نشین بزرگ نے اپنے دست اقدس سے ایک خوان کھولا جس میں طعام ملکوتی تھا بڑے پیار سے نو لقمے آپ کو کھلائے ، دوسرا خوان کھولا اس میں نہایت خوبصورت لباس تھا جو آپ کے زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا میرے نور نظر اب تم کامیاب ہو گئے۔
آپ بارگاه خداوند تعالیٰ میں سجدہ شکر میں گر گئے ۔ آپ پر استغراقی کیفیت تھی۔ دیر تک سجدہ میں محور ہے جب سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھا نہ باغ ہے نہ محل وہ تخت نشین بزرگ کون تھے ۔ باعث تخلیق کون و مکان فخر کائنات رحمت كل حبيب و محبوب رب العالمین سید الانبیاء والمرسلین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ جب مجھے پہلا لقمہ کھلایا تو تحت الثر ی تک جو کچھ پوشیدہ تھا مجھ پر ظاہر ہو گیا دوسرے لقمہ میں عرش عظیم تک جو حجابات میں تھا مجھ پر روشن ہو گیا اسی طرح ہر لقمے پر اسرار منکشف ہوتے رہے یہاں تک کہ آخری لقمہ میں ذات صمدیت میں گم ہو گیا اور تمام حوائج ضروریہ سے بے نیاز ہو گیا۔ یہ واقعہ ۲۸۲ھ کا ہے اس وقت آپ کی عمر شریف چالیس سال کی تھی۔ ان نو لقموں کے بعد بقیہ تمام زندگی آپ کھانے پینے اور تبدیل لباس وغیرہ سے بے نیاز رہے پیراہن مبارک نہ پھٹا نہ میلا ہوا نہ پرانا یقیناً تمام حوائج ضروریہ سے بے نیاز ہو جانا ایک عین فطری امر ہے اور فطرت کے متعلق یہ طے ہے کہ پہاڑ کے متعلق کوئی اطلاع دے کہ وہ اپنی جگہ سے چل دیا تو اس کے یقین میں کوئی قباحت نہیں لیکن کوئی یہ کہے فطرت بدل گئی تو ناممکن اور اگر کہیں بدل گئی تو یقیناً معجزہ رسول ہوگا۔
چنانچہ آپ کی فطرت میں تبدیلی ہونے کے باعث حضرت ملک العلماء شہاب الدین دولت آدمی نے حضور سرکار سرکاراں سید نا مدار العالمین سے عرض کیا یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ آپ فطرت کے خلاف کھانے پینے وغیرہ سے بے نیاز ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا میرے عزیز کیا تم کو خبر نہیں جب مصر میں قحط پڑا تھا شہر کے بھوکے پیاسے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کے ارد گرد جمع ہوتے اور آپ کے روئے منور کو دیکھتے ۔ یہاں تک کہ ان کی بھوک پیاس ختم ہو جاتی تھی۔
کیونکہ حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کے روئے اقدس پر جمال حسن احدیت کی تجلی تھی جس کو دیکھتے ہی لوگ بھوک پیاس بھول جاتے تھے۔ تو میرے عزیز جب صفت کے دیکھنے کا یہ حال ہے تو پھر جو ذات کے مشاہد ہیں گم ہو اس کی کیا کیفیت ہو گی۔ حضرت ملک العلماء اس کنایہ کو سمجھ گئے کہ حضور سید بدیع الدین رضی اللہ عنہ کی زندگی حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔
چونکہ حضور اقدس سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مقدس سے نو لقمے طعام ملکوتی کھلائے اور لباس پہنایا اور فرمایا میرے لخت جگر اب تم کامیاب ہو گئے- یہ وہی دست اقدس ہیں جن کے ادنی اشارے پر چاند سورج ستارے عمل پیرا ہوئے جن کے اشارے سے درخت اپنی جگہ سے آیا گیا۔ مسواک زمین پر لگا دی تو درخت بنا کہاں تک گناؤں نہ جانے کسی قدر معجزات ظہور میں ہیں چنانچہ انھیں معجزات میں یہ بھی دست پاک حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز ہے کہ سید بدیع الدین احمد قطب المدار رضی اللہ عنہ کو مقام صدیت سے سرفراز فرمایا اور حی المدار کے لقب سے ملقب کیا یہ خصوصیات ہیں جن کا تعلق کرامات اولیاء سے نہیں بلکہ معجزہ رسول سے ہے۔ (حی المدار) زندہ مدار کے سلسلے میں بھی سمجھتے چلئے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی طور پر حیات النبی لکھا اور بولا جاتا ہے حالانکہ تمام انبیاء و مرسلین کو زندہ سمجھتے اور مردہ نہ کہنے کی تاکید کرتے ہیں۔
در اصل بات یہ ہے کہ تمام انبیاء زندہ ہیں لیکن ان کے کار نبوت موقوف ہو چکے ہیں اور سردار انبیاء ختم المرسلین علیہ الصلوٰة والسلام کا کام جاری و ساری ہے اور اولیاء اللہ کے وہ خوارق عادات جو معجزہ حیات النبی صلوۃ والسلام کا تصرف ہے خدا یہ اپنے محبوب کی وساطت سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے اپنے اوصاف کا مظہر بنا دیتا ہے جیسا کی حدیث پاک سے ثابت ہے ”تخلقو لا خلاق اللہ واتصفوا ابصفات اللہ،، خدائے تعالیٰ نے اپنے محبوب کے لخت جگر حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ کو ولایت عظمی کے ساتھ ساتھ مقام صدیت اور مداریت سے سرفراز فرمایا تا کہ اعجاز مصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اظہار ہو۔
حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں تحریر فرمایا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے مقام صمدیت پر فائز فرمایا حضرت سید شاہ عبدالرزاق بانسوی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی شان اقدس میں جو قصیدہ کہا ہے اس میں صدیت کا تذکرہ اس طرح فرمایا:
”صدمیت از مرتبت حاصل شده نور یقیں
کن کرم بہر خدا سید بدیع الدین مدار“
حضرت خواجہ خواجگان سید معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری رحمته اللہ علیہ نے فرمایا جو احکام در بار نبوت سے جاری ہوتے ہیں وہ دربار قطب المدار میں آکر اولیاء اللہ میں تقسیم ہوتے۔ سید قطب المدار رضی اللہ عنہ کو اسی باعث حی المدار کے لقب سے ملقب فرمایا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کے احکام کی تعمیل کے لئے آپ کو مرقد عالی میں بیدار رکھا تاکہ احکام مبارکہ کا اجرا ہو سکے یوں تو تمام شہداء و اولیاء حیات ہیں۔ لیکن اس طرح کہ جیسے کوئی شخص پلنگ پر آرام سے سو رہا ہو۔ لوگ اس کو مردہ نہیں کہہ سکتے بس اسی طرح اولیاء اللہ اپنی اپنی خواب گاہ میں آرام فرما ہیں اور وہ بیشک اپنے پروردگار کے نزدیک زندہ ہیں۔ یہ خصوصیت اولیاء اللہ میں سید بدیع الدین رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ مرقد عالی میں بیدار رہ کر تحمیل احکام نبوت فرماتے رہیں اسی باعث آپ کو زندہ مدار کہتے ہیں۔
بابا ولی شکوہ علیہ الرحمہ کا یہ مضمون ہم نے سہ ماہی رھبر نور مکنپور شریف نومبر ، دسمبر ، جنوری ، 2021 سے اخذ کیا ہے

 

Leave a Comment

Related Post

Top Categories